٭٭ پچھلا مضمون : طلاق کیا ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
چنانچہ الکتاب کے مطابق جو معاہدہ نکاح کیا گیا اس کی تنسیخ کے عمل کی ترتیب درجہ بدرجہ اس طرح ہو گی کہ سب سے پہلے
1- ارادہ تنسیخ نکاح
2۔ کوشش اصلاح اور ثالثی کوششیں
3۔ عزم طلاق
4 ۔ طلاق
5۔ عدت
6۔ مفارقت ۔
7- تنسیخ نکاح
٭۔ تبدیلی ء زوج
وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ - - - - (4/20)
اگر تم زوج کا مکان زوج سے تبدیل کا ارادہ کرو !.......
میاں بیوی کے درمیان کسی قسم کی ناچاقی ہو گئی ہو اور مرد اس بیوی کو چھوڑنا چاہتا ہو خواہ اس کی دوسری شادی کی خواہش ہویا نہ ہو۔
وہ اپنا ارادہ تنسیخ معاہدہ نکاح پرسکون ماحول میں ظاہر کرے گا اوراس کی وجہ بتا ئے گا۔ وجہ معقول ہونا چاھئیے
جیسا اسوہء رسولﷺ سے ظاہر ہے۔
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ إِن کُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحاً جَمِیْلاً (33/28)
اے نبی! اپنی ازواج سے کہہ!اگر تم حیات الدنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ہو!پس آؤ! میں تمھیں متع دوں اور تمھیں خوش اسلوبی سے رخصت کروں۔
اس ارادہء تنسیخ نکاح کاتعلق متبادل فریق کے رویے سے ہے اگر اس کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے تو ارادہ ختم ہو جائے گا اور کاروائی آگے نہیں بڑھے گی ۔ اور اگر رویہ تبدیل نہ ہو تو ارداہ تنسیخ نکاح کی کاروائی آگے بڑھے گی ۔
عَسَی رَبُّہُ إِن طَلَّقَکُنَّ أَن یُبْدِلَہُ أَزْوَاجاً خَیْْراً مِّنکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَأَبْکَاراً (66/5)
اس کے رب کے لئے ممکن ہے۔ اگر وہ (نبی) تم کو طلاق دے تو وہ (اللہ) ازواج کا بدل دے گا۔ وہ تم سے بہتر مسلمات، مومنات، قانتات تائیبات، عابدات، سائحات، ثیبات اور ابکارہوں گی۔
٭۔ ایلاء
لاَّ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیَ أَیْْمَانِکُمْ وَلَکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا کَسَبَتْ قُلُوبُکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ حَلِیْم (2/225)
اللہ تمھارا مواخذہ تمھاری ان قسموں میں نہیں کرے گا جو لغو(بے دلی) کے ساتھ ہیں۔ بلکہ تمھارا مواخذہ کرے گاجو تمھارے دلوں نے کمایا۔ اور اللہ غفور اور رحیم ہے
مندرجہ بالاآیت کے سیاق میں جب ایک شوہر اپنی بیوی سے ایلاء کرتا ہے تو اب یہ ایلاء دو قسم کاہو گا ایک ”لغو“اور دوسرا ”قلب سے“ ، ہر دو صورتوں میں اس ایلاء کی مدت ہے۔ اس ایلاء کی وجہ وہ تناؤ کی کیفیت ہے جو ان دونوں کے تعلقات میں بہت بڑھ چکی ہے اور شوہر غصے میں اعلانِ ایلاء کر بیٹھا ہے، لہذا:
لِّلَّذِیْنَ یُؤْلُونَ مِن نِّسَآءِہِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (2/226)
جو لوگ اپنی نساء میں سے ایلاکرتے(دوررہتے) ہیں تو ان کو (Abstention کی) چار مہینے کی مہلت ہے پس اگر وہ (ایلاء سے چار مہینے کے اندر) باز آجاتے ہیں، تو اللہ غفور اور رحیم ہے
ایلاءِ لغو ہے یا ایلاءِ قلب، شوہربہتر جانتاہے چنانچہ اگر وہ مرد مومن ہے تواسے معلوم ہے کہ ایلاء لغو پر اس کی پکڑ نہیں لیکن اسے معلوم ہے کہ ایلاء قلب پر اس کی پکڑ ہے ۔ چنانچہ اب اس مومن کو اللہ کے اس حکم پر عمل کرنا ہے۔
لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْْمَانِکُمْ وَلَ کِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَیْْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَیْْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون(5/89)
اللہ تمھارا مواخذہ تمھاری ان قسموں میں نہیں کرے گا جو لغو(بے دلی) کے ساتھ ہیں۔بلکہ تمھارا مواخذہ کرے گاجس قسم کی تم نے عقد(گرہ) لگائی ہے پس اس کا کفارہ (جس قسم کی دل سے عقد لگی ہے):
٭۔ دس مسکینوں کواوسط میں سے وہ کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل کو کھلاتے ہو
٭۔ یا ان کو(کپڑے) پہنانا
٭۔ یاایک گردن آزاد کرانا
٭۔ پس جو یہ نہیں کر سکتا وہ تین ایام کے صوم رکھے۔
یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے جس کا تم حلف لیتے ہو۔اپنی قسموں کی تم حفاظت کرو!۔ اس طرح اللہ تمھارے لئے اپنی آیات بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر گزاربنو۔
جو لوگ اپنی نساء میں سے ایلاکرتے(دوررہتے) ہیں تو ان کو (Abstention کی) دور رہنے کے لئے چار(4) مہینے کی مہلت دی ہے یہ مدت ان کے لئے ارادہ ء تنسیخ نکاح ہے ۔ جونہی چار ماہ (یہ چار ماہ معروف کے مطابق ہوں گے یعنی اگر کسی معاشرے میں تمام لوگ قمری مہینوں پر متفق ہوں تو یہ چار ماہ قمری ہوں گے اور اگر وہ شمسی مہینوں پر متفق ہوں تو شمسی مہینے) مکمل ہوتے ہیں (قمری میں مغرب ختم ہوتے ہی اور شمسی میں رات بارہ بجے) تو یہ مہلت مکمل ہو جائے گی ۔ اس کے بعد مرد کا عزم طلاق مکمل ہو جائے گا۔
ارادہ اور عزم میں وہی فرق ہے جو لغوقسم اور قلبی یا حلفی قسم میں ہوتا ہے ۔ مرد نے اگر ایلاء لغو کیا ہو اور اگر وہ چار مہینے تک اپنی بیوی سے دور رہتا ہے تو اس کا ایلاء لغو، ایلاء قلب یاحلف میں شمار ہو گااور چار ماہ بعد مرد کا عزم طلاق مکمل ہو جائے گا۔ اور عورت پہلی طلاق کی عدت سے گذرنا شروع ہو جائے گی جس کی مدت تین حیض ہیں۔ مدت حیض، حیض کے پہلے دن سے شروع ہو کر اگلے حیض کے پہلے دن پرختم ہو جاتی ہے ۔
٭۔ ظہار (بیوی کو ماں کہنا)
الَّذِیْنَ یُظَاہِرُونَ مِنکُم مِّن نِّسَاءِہِم مَّا ہُنَّ أُمَّہَاتِہِمْ إِنْ أُمَّہَاتُہُمْ إِلَّا اللَّاءِیْ وَلَدْنَہُمْ وَإِنَّہُمْ لَیَقُولُونَ مُنکَراً مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوراً وَإِنَّ اللَّہَ لَعَفُوٌّ غَفُور (58/2)
وہ لوگ جو تم میں سے اپنی نساء میں سے ظہار کرتے ہیں (اس ظہار) سے وہ ان کی مائیں نہیں ہو جاتیں۔ بے شک ان کی مائیں تو صرف وہ ہیں جنہوں نے انہیں ولد کیا۔اور بے شک وہ القول میں سے منکر اور فضول گوئی کرتے ہیں۔اور بے شک اللہ معافی کے لئے غفور ہے۔
وَالَّذِیْنَ یُظَاہِرُونَ مِن نِّسَاءِہِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ۔۔۔۔۔۔۔(58/3)
وہ لوگ جو اپنی نساء میں سے ظہار کرتے ہیں پھرجو انہوں سے کہا اس کو واپس لیتے ہیں .........
اگر انہیں نے واپس نہیں لیا اور اپنے قول منکر و زور پر قائم رہے تو پھر یہ ایلاء میں شمار ہو گا اور اگر انہوں نے اسے واپس لے لیا تو اس کا کفارہ ہوگا۔ اور یہ ایلاء سے سخت ہے ۔
۔۔۔۔ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ذَلِکُمْ تُوعَظُونَ بِہِ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ (58/3)
ایک دوسرے کو مس کرنے سے پہلے ایک گردن چھڑائیں۔ تمھیں اس(تنبیہ) کے ساتھ وعظ کیا جاتا ہے کہ اللہ تمھارے اعمال کی خبر ہے۔
فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ مِن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا فَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْناً ذَلِکَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَابٌ أَلِیْم (58/4)
اگر وہ نہیں پاتے(کہ گردن چھڑا سکیں) ایک دوسرے کو مس کرنے سے پہلے دو مہینے کے لگاتار روزے رکھیں۔اور جو کوئی (گردن چھڑانے اور روزے رکھنے کی) استطاعت نہیں رکھتا، تو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔یہ اس لئے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایمان لاؤ، اور یہ اللہ کی حدود ہیں (ظہار نہ کرنا اور کر دیا تو کفارہ ادا کرنا) اور (حدود اللہ) کے کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
٭۔ الْمُحْصَنَاتِ پر ایک مرد کی رمی
وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاء فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَداً وَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُون(24/4)
وہ لوگ جو ”المحصنات“ پر ”رمی“ (تہمت) کرتے ہیں اور گر وہ چار شھداء (گواہ) لے کر نہ آئیں تو اسّی (80) کوڑے مارے جائیں ، اور تم ان کو شھادۃ (گواہی) کے لئے ابد تک قبول نہ کرو۔ کیوں کہ وہ فاسق ہیں۔
اب صرف فاسق مرد کو اسّی (80) کوڑے لگائے جائیں گے ۔
مثال : ملک کا چوٹی کا وکیل ، (1)- وزیر اعظم ، (2)- صدر پاکستان، اور (3)-وزیر مذہبی امور
یہ چار آدمی مغرب کے آدھا گھنٹہ بعد واک کر رہے تھے، کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک گھر کے برامدے میں ایک مرد اور عورت بغلگیرہوتے ہیں، جب وہ عورت باہر آتی ہے تو وہ پہچان جاتے ہیں ، کہ عورت اِس گھر کے رہنے والے مرد کی بیوی نہیں، چنانچہ وکیل فیصلہ کرتا ہے ۔ کہ وہ عدالت میں عورت کے فحاشہ ہونے کا عدالت میں استغاثہ کرے اور سزا دلوائے ، کیس عدالت میں جاتا ہے ۔ مدعی اور گواہوں کو بلاتی ہے عورت کو نہیں ، کل افراد 4 ہیں ، مدعی اور تین گواہ اور وہ بھی عہدے اور اعتبار کے لحاظ سے ثقہ ہیں ۔ گویا اللہ کے قانون کے مطابق چوتھا گواہ نہیں ، عدالت یہ نہیں کہے گی ، کہ بھئی چوتھا کسی چوکیدار کو پکڑ کر ٹوٹل پورا کر لو ، یا تین ہی کافی ہیں ، بلکہ اللہ کے قانون پر چلنے والی عدالت ، چوٹی کے وکیل صاحب کو اسّی (80) کوڑے لگانے کا حکم دے گی ، کوڑے لگنے کے بعد وکیل صاحب ، معافی کا حلف نامہ داخل کریں گے لیکن اگر وہ شیطان کی طرح ڈٹے رہتے ہیں تو عدالت وکیل صاحب کے فاسق ہونے کا اعلان کرے گی اور مزے کی بات کہ عورت کو معلوم ہی نہیں ھوگا کہ اُس کے خلاف کیا ہو رہا ہے ۔
إِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (24/5)
اگر وہ (اسّی کوڑے) کھانے کے بعد توبہ کر لیں اور اپنی صلاح کر لیں۔تو بے شک اللہ غفور اور رحیم ہے۔
ہاں اگر 4 گواہ موجود ہیں تو جج اپی تمام تسلی کر لینے کے بعد عورت کو عدالت میں نہیں بلوائے گا بلکہ اُس سے معاملہ بذریعہ خواتین اہلکار تفتیش کروائے گا اور اللہ کے قانون کے مطابق آگے چلے گا ۔
وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ - - - - (4/20)
اگر تم زوج کا مکان زوج سے تبدیل کا ارادہ کرو !.......
میاں بیوی کے درمیان کسی قسم کی ناچاقی ہو گئی ہو اور مرد اس بیوی کو چھوڑنا چاہتا ہو خواہ اس کی دوسری شادی کی خواہش ہویا نہ ہو۔
وہ اپنا ارادہ تنسیخ معاہدہ نکاح پرسکون ماحول میں ظاہر کرے گا اوراس کی وجہ بتا ئے گا۔ وجہ معقول ہونا چاھئیے
جیسا اسوہء رسولﷺ سے ظاہر ہے۔
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ إِن کُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحاً جَمِیْلاً (33/28)
اے نبی! اپنی ازواج سے کہہ!اگر تم حیات الدنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ہو!پس آؤ! میں تمھیں متع دوں اور تمھیں خوش اسلوبی سے رخصت کروں۔
اس ارادہء تنسیخ نکاح کاتعلق متبادل فریق کے رویے سے ہے اگر اس کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے تو ارادہ ختم ہو جائے گا اور کاروائی آگے نہیں بڑھے گی ۔ اور اگر رویہ تبدیل نہ ہو تو ارداہ تنسیخ نکاح کی کاروائی آگے بڑھے گی ۔
عَسَی رَبُّہُ إِن طَلَّقَکُنَّ أَن یُبْدِلَہُ أَزْوَاجاً خَیْْراً مِّنکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَأَبْکَاراً (66/5)
اس کے رب کے لئے ممکن ہے۔ اگر وہ (نبی) تم کو طلاق دے تو وہ (اللہ) ازواج کا بدل دے گا۔ وہ تم سے بہتر مسلمات، مومنات، قانتات تائیبات، عابدات، سائحات، ثیبات اور ابکارہوں گی۔
٭۔ ایلاء
لاَّ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیَ أَیْْمَانِکُمْ وَلَکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا کَسَبَتْ قُلُوبُکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ حَلِیْم (2/225)
اللہ تمھارا مواخذہ تمھاری ان قسموں میں نہیں کرے گا جو لغو(بے دلی) کے ساتھ ہیں۔ بلکہ تمھارا مواخذہ کرے گاجو تمھارے دلوں نے کمایا۔ اور اللہ غفور اور رحیم ہے
مندرجہ بالاآیت کے سیاق میں جب ایک شوہر اپنی بیوی سے ایلاء کرتا ہے تو اب یہ ایلاء دو قسم کاہو گا ایک ”لغو“اور دوسرا ”قلب سے“ ، ہر دو صورتوں میں اس ایلاء کی مدت ہے۔ اس ایلاء کی وجہ وہ تناؤ کی کیفیت ہے جو ان دونوں کے تعلقات میں بہت بڑھ چکی ہے اور شوہر غصے میں اعلانِ ایلاء کر بیٹھا ہے، لہذا:
لِّلَّذِیْنَ یُؤْلُونَ مِن نِّسَآءِہِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (2/226)
جو لوگ اپنی نساء میں سے ایلاکرتے(دوررہتے) ہیں تو ان کو (Abstention کی) چار مہینے کی مہلت ہے پس اگر وہ (ایلاء سے چار مہینے کے اندر) باز آجاتے ہیں، تو اللہ غفور اور رحیم ہے
ایلاءِ لغو ہے یا ایلاءِ قلب، شوہربہتر جانتاہے چنانچہ اگر وہ مرد مومن ہے تواسے معلوم ہے کہ ایلاء لغو پر اس کی پکڑ نہیں لیکن اسے معلوم ہے کہ ایلاء قلب پر اس کی پکڑ ہے ۔ چنانچہ اب اس مومن کو اللہ کے اس حکم پر عمل کرنا ہے۔
لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْْمَانِکُمْ وَلَ کِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَیْْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَیْْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون(5/89)
اللہ تمھارا مواخذہ تمھاری ان قسموں میں نہیں کرے گا جو لغو(بے دلی) کے ساتھ ہیں۔بلکہ تمھارا مواخذہ کرے گاجس قسم کی تم نے عقد(گرہ) لگائی ہے پس اس کا کفارہ (جس قسم کی دل سے عقد لگی ہے):
٭۔ دس مسکینوں کواوسط میں سے وہ کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل کو کھلاتے ہو
٭۔ یا ان کو(کپڑے) پہنانا
٭۔ یاایک گردن آزاد کرانا
٭۔ پس جو یہ نہیں کر سکتا وہ تین ایام کے صوم رکھے۔
یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے جس کا تم حلف لیتے ہو۔اپنی قسموں کی تم حفاظت کرو!۔ اس طرح اللہ تمھارے لئے اپنی آیات بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر گزاربنو۔
جو لوگ اپنی نساء میں سے ایلاکرتے(دوررہتے) ہیں تو ان کو (Abstention کی) دور رہنے کے لئے چار(4) مہینے کی مہلت دی ہے یہ مدت ان کے لئے ارادہ ء تنسیخ نکاح ہے ۔ جونہی چار ماہ (یہ چار ماہ معروف کے مطابق ہوں گے یعنی اگر کسی معاشرے میں تمام لوگ قمری مہینوں پر متفق ہوں تو یہ چار ماہ قمری ہوں گے اور اگر وہ شمسی مہینوں پر متفق ہوں تو شمسی مہینے) مکمل ہوتے ہیں (قمری میں مغرب ختم ہوتے ہی اور شمسی میں رات بارہ بجے) تو یہ مہلت مکمل ہو جائے گی ۔ اس کے بعد مرد کا عزم طلاق مکمل ہو جائے گا۔
ارادہ اور عزم میں وہی فرق ہے جو لغوقسم اور قلبی یا حلفی قسم میں ہوتا ہے ۔ مرد نے اگر ایلاء لغو کیا ہو اور اگر وہ چار مہینے تک اپنی بیوی سے دور رہتا ہے تو اس کا ایلاء لغو، ایلاء قلب یاحلف میں شمار ہو گااور چار ماہ بعد مرد کا عزم طلاق مکمل ہو جائے گا۔ اور عورت پہلی طلاق کی عدت سے گذرنا شروع ہو جائے گی جس کی مدت تین حیض ہیں۔ مدت حیض، حیض کے پہلے دن سے شروع ہو کر اگلے حیض کے پہلے دن پرختم ہو جاتی ہے ۔
٭۔ ظہار (بیوی کو ماں کہنا)
الَّذِیْنَ یُظَاہِرُونَ مِنکُم مِّن نِّسَاءِہِم مَّا ہُنَّ أُمَّہَاتِہِمْ إِنْ أُمَّہَاتُہُمْ إِلَّا اللَّاءِیْ وَلَدْنَہُمْ وَإِنَّہُمْ لَیَقُولُونَ مُنکَراً مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوراً وَإِنَّ اللَّہَ لَعَفُوٌّ غَفُور (58/2)
وہ لوگ جو تم میں سے اپنی نساء میں سے ظہار کرتے ہیں (اس ظہار) سے وہ ان کی مائیں نہیں ہو جاتیں۔ بے شک ان کی مائیں تو صرف وہ ہیں جنہوں نے انہیں ولد کیا۔اور بے شک وہ القول میں سے منکر اور فضول گوئی کرتے ہیں۔اور بے شک اللہ معافی کے لئے غفور ہے۔
وَالَّذِیْنَ یُظَاہِرُونَ مِن نِّسَاءِہِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ۔۔۔۔۔۔۔(58/3)
وہ لوگ جو اپنی نساء میں سے ظہار کرتے ہیں پھرجو انہوں سے کہا اس کو واپس لیتے ہیں .........
اگر انہیں نے واپس نہیں لیا اور اپنے قول منکر و زور پر قائم رہے تو پھر یہ ایلاء میں شمار ہو گا اور اگر انہوں نے اسے واپس لے لیا تو اس کا کفارہ ہوگا۔ اور یہ ایلاء سے سخت ہے ۔
۔۔۔۔ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ذَلِکُمْ تُوعَظُونَ بِہِ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ (58/3)
ایک دوسرے کو مس کرنے سے پہلے ایک گردن چھڑائیں۔ تمھیں اس(تنبیہ) کے ساتھ وعظ کیا جاتا ہے کہ اللہ تمھارے اعمال کی خبر ہے۔
فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ مِن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا فَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْناً ذَلِکَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَابٌ أَلِیْم (58/4)
اگر وہ نہیں پاتے(کہ گردن چھڑا سکیں) ایک دوسرے کو مس کرنے سے پہلے دو مہینے کے لگاتار روزے رکھیں۔اور جو کوئی (گردن چھڑانے اور روزے رکھنے کی) استطاعت نہیں رکھتا، تو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔یہ اس لئے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایمان لاؤ، اور یہ اللہ کی حدود ہیں (ظہار نہ کرنا اور کر دیا تو کفارہ ادا کرنا) اور (حدود اللہ) کے کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
٭۔ الْمُحْصَنَاتِ پر ایک مرد کی رمی
وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاء فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَداً وَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُون(24/4)
وہ لوگ جو ”المحصنات“ پر ”رمی“ (تہمت) کرتے ہیں اور گر وہ چار شھداء (گواہ) لے کر نہ آئیں تو اسّی (80) کوڑے مارے جائیں ، اور تم ان کو شھادۃ (گواہی) کے لئے ابد تک قبول نہ کرو۔ کیوں کہ وہ فاسق ہیں۔
اب صرف فاسق مرد کو اسّی (80) کوڑے لگائے جائیں گے ۔
مثال : ملک کا چوٹی کا وکیل ، (1)- وزیر اعظم ، (2)- صدر پاکستان، اور (3)-وزیر مذہبی امور
یہ چار آدمی مغرب کے آدھا گھنٹہ بعد واک کر رہے تھے، کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک گھر کے برامدے میں ایک مرد اور عورت بغلگیرہوتے ہیں، جب وہ عورت باہر آتی ہے تو وہ پہچان جاتے ہیں ، کہ عورت اِس گھر کے رہنے والے مرد کی بیوی نہیں، چنانچہ وکیل فیصلہ کرتا ہے ۔ کہ وہ عدالت میں عورت کے فحاشہ ہونے کا عدالت میں استغاثہ کرے اور سزا دلوائے ، کیس عدالت میں جاتا ہے ۔ مدعی اور گواہوں کو بلاتی ہے عورت کو نہیں ، کل افراد 4 ہیں ، مدعی اور تین گواہ اور وہ بھی عہدے اور اعتبار کے لحاظ سے ثقہ ہیں ۔ گویا اللہ کے قانون کے مطابق چوتھا گواہ نہیں ، عدالت یہ نہیں کہے گی ، کہ بھئی چوتھا کسی چوکیدار کو پکڑ کر ٹوٹل پورا کر لو ، یا تین ہی کافی ہیں ، بلکہ اللہ کے قانون پر چلنے والی عدالت ، چوٹی کے وکیل صاحب کو اسّی (80) کوڑے لگانے کا حکم دے گی ، کوڑے لگنے کے بعد وکیل صاحب ، معافی کا حلف نامہ داخل کریں گے لیکن اگر وہ شیطان کی طرح ڈٹے رہتے ہیں تو عدالت وکیل صاحب کے فاسق ہونے کا اعلان کرے گی اور مزے کی بات کہ عورت کو معلوم ہی نہیں ھوگا کہ اُس کے خلاف کیا ہو رہا ہے ۔
إِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (24/5)
اگر وہ (اسّی کوڑے) کھانے کے بعد توبہ کر لیں اور اپنی صلاح کر لیں۔تو بے شک اللہ غفور اور رحیم ہے۔
ہاں اگر 4 گواہ موجود ہیں تو جج اپی تمام تسلی کر لینے کے بعد عورت کو عدالت میں نہیں بلوائے گا بلکہ اُس سے معاملہ بذریعہ خواتین اہلکار تفتیش کروائے گا اور اللہ کے قانون کے مطابق آگے چلے گا ۔
٭۔ الْمُحْصَنَاتِ پر(وَاللَّذَانَ يَأْتِيَانِهَا ) دو مردوں کی رمی
وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِن نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْہِدُواْ عَلَیْْہِنَّ أَرْبَعۃً مِّنکُمْ فَإِن شَہِدُواْ فَأَمْسِکُوہُنَّ فِیْ الْبُیُوتِ حَتَّیَ یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً ﴿ 4/15﴾
اور تمھاری عورتوں میں کوئی فحاشی لاتی ہیں۔ اور تم اپنوں میں سے (غیر میں سے نہیں) ان کے اوپر چار گواہ لاؤ ۔
پس اگر وہ (چاروں گواہ ) شہادت دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ الموت ان کو فوت کرے۔ یا اللہ ان کے لئے کوئی راہ بنائے۔
وَاللَّذَانَ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ﴿ 4/16﴾
اور وہ دونوں مرد، دونوں لاتے ہیں ، اُس ( مؤنث ) پر ، پس اُن دونوں کو اذیت ( مارنا پیٹنا نہیں)دیتے رہو ، اور اگر وہ (اذیت کے بعد) توبہ کرتے ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہیں تو اُن دونوں کو اذیت دینا بند کر دو ۔ بےشک اللہ تواب اور رحیم ہے
نوٹ : ہم جنس پرستیوں نے خود کو کم سے کم سزا دلوانے کے لئے ۔ اللہ کی اِس آیت پر سے ، ختم النبوت ، توڑ دی ۔
یہ چار میں سے وہ دو خبیث گوا ہوں کو کہا جا رہا ہے ، جنہوں نے اچھل اچھل کر ، ایکٹیولی ، الفاحشة کا الزام ایک عورت پر لگایا اور باقی دو گواہ نہیں لا سکے ۔
یہ وہ حدود اللہ ہے جس کے مطابق عمل ہر اس فاسق پر ہو گا۔ جو کسی بھی محصنہ پر رمی کرتا ہے یعنی ایسے الفاظ کے سنگریزے پھینکتاہے جو معاشرے میں اس کی عصمت کو چھلنی کرنے کا سبب بنتے ہیں جسے تہمت لگاناکہا جاتا ہے ۔ اللہ کے مطابق اگر تین نہایت جید معزز ہستیاں، ثقہ گواہی لئے کسی تہمت لگانے والے کے ساتھ ہوں اور چوتھا گواہ انہیں دستیاب نہ ہو تو ان کی گواہی جھوٹی سمجھی جائے گی۔ اسلام میں حقوق خواتین کی عدم دستیابی کے پرچاروں کو، کسی بھی محصنہ خاتون کے حق میں اللہ کی مدد انہیں نظر نہیں آتی۔ یہ ایک فاسق کے منہ سے نکلا ہوا وہ واحد الزام ہے جو ایک معاشرے میں کسی بھی محصنہ خاتون کی بقیہ زندگی کو کانٹوں بھری کھائی میں دھکیل دیتا ہے، لیکن”مسلم معاشرے“ میں کوئی بھی شخص ایک محصنہ خاتون کے بارے میں یاوہ گوئی کی رمی (یا اگر حقیقت بھی ہے تو) کرنے سے پہلے جب تک چار چشم دید گواہ کا بندوبست نہ کر لے اس کے کردار کے بارے میں بولنے کا تصور نہیں کر سکتا۔
إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُوْلَـئِكَ يَتُوبُ اللّهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللّهُ عَلِيماً حَكِيماً (4/17)
بے شک توبہ تو اُن کے لئے ہے جو (عورتوں پر فحاشی کا الزام لگانے کا) گناہ جہالت کے ساتھ کرتے ہیں ، پھر وہ جلد ہی توبہ کرتے ہیں۔ پس یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی توبہ اللہ قبول کر لیتا ہے۔ اور اللہ علیم اور حکیم ہے۔
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلاَ الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُوْلَـئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (4/18)
اور اُن کی توبہ قبول نہیں ہوتی کہ جو گناہوں کا عمل کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ اُن میں سے کسی ایک کے سامنے الموت آ جاتی ہے، تو وہ کہتا ہے ۔ کہ میں اب (اپنے گناہوں کی) توبہ کرتا ہوں۔اور وہ لوگ کفّار مرتے ہیں۔ اُ ن کے لئے عذاب الیم تیار ہے
اللہ کے قانون میں ایک عورت کو ، اُس وقت تک کوڑے نہیں پڑ سکتے جب تک زنا کا حقیقی ثبوت نہ دیا جائے اور زنا کا حقیقی ثبوت صرف اور صرف اولاد ہی ہو سکتی ہے ۔ کوئی ڈی این اے ، یا کوئی اور ثبوت نہیں ۔ ھاں عورت کے ساتھ ہونے والے ، جنسی زیادتی کے الزام میں ، عورت کو کسی قسم کے گواہ لانے کی ضرورت نہیں ، اُس کے صرف انگلی سے اشارہ کرنے کی دیر ہے ۔ اور عدالت مجرم کو معروف کے مطابق سزا دے گی جو زیادہ سے زیادہ مرد کی موت ہو سکتی ہے ۔
٭۔ الْمُحْصَنَاتِ ازواج پر رمی
اور جب کوئی شوہر اپنی بیوی کے کردار کے بارے میں مشکوک ہو تو اس کو بھی اپنا الزام سچ ثابت کرنے کے لئے شوہر کو چار ہی گواہ لانے پڑیں گے بیوی کو نہیں اور اگر وہ چار گواہ کا بندوبست نہ کر سکے تو!
وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُن لَّہُمْ شُہَدَاء إِلَّا أَنفُسُہُمْ۔۔۔۔ (24/6)
اور وہ لوگ جو اپنی ازواج پر رمی کرتے ہیں۔ اور ان کے پاس سوائے اپنے نفس کے کوئی شاہدنہیں ۔ . ......
یعنی اس کے پاس چار شاہد پورے نہیں ہو رہے اور اللہ نے کسی بھی محصنہ خاتون پر رمی کی صورت میں، وہ کسی کی طرف سے بھی ہو چار گواہوں کی شرط رکھی ہو۔ اور شوہر کو اپنی بیوی پر اپنی رمی کا یقین ہے اور اس نے یہ معاملہ اس فرد یا افراد کے سامنے رکھا ہے جس نے ان دونوں میا ں بیوی کے درمیان عقدۃ، مھائدہ ء نکاح کیا تھا ۔ تو اللہ نے اسے چار شاہد کس طرح پورے کرنے کا حکم دیا ہے ۔
۔۔۔ فَشَہَادَۃُ أَحَدِہِمْ أَرْبَعُ شَہَادَاتٍ بِاللَّہِ إِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِیْن (24/6)
پس وہ اکیلا (شوہر) شھادت دے۔ اللہ کو گواہ بنا کر چار شہادتیں ۔کہ بے شک وہ صادقین میں سے ہے۔
اس طرح چار شہادتوں کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اگر وہ جھوٹا ہو تو کیا ہوگا؟
وَالْخَامِسَۃُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّہِ عَلَیْْہِ إِن کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ (24/7)
اور پانچویں دفعہ وہ کہے: اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔
اب اگر وہ عورت مومنہ ہے تو وہ اپنی غلطی تسلیم کر لیتی ہے تو اس پر اللہ کے قانون کے مطابق باقی الزام کی نوعیت کے مطابق کاروائی ہو گی۔
زنا کی صورت میں اس کا مھائدہ نکاح فسخ ہو جائے گا اور اگر وہ زنا میں ملوث نہیں صرف فحاشی کی مرتکب ہوئی ہے تو اسے گھر میں مقید کر دیا جائے گا (سورۃ النساء 15) ۔ شوہر کی مرضی ہے کہ وہ مھائدہ فسخ نکاح کی کاروائی کو آگے چلاتا ہے یا نہیں۔ لیکن اگر عورت بے گناہ ہے۔ تواس صورت میں، وہ کیا کرے گی؟
کوشش اصلاح و ثالثی کوششیں
وَإِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِن بَعْلِہَا نُشُوزاً أَوْ إِعْرَاضاً فَلاَ جُنَاْحَ عَلَیْْہِمَا أَن یُصْلِحَا بَیْْنَہُمَا صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَیْْرٌ وَأُحْضِرَتِ الأَنفُسُ الشُّحَّ وَإِن تُحْسِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرا (4/128)
اور اگر اایک عورت (امراۃ) کو اپنے شوہر سے خوف محسو س کرے کہ وہ اس سے جھگڑا کرے یا اعراض برتے پس ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کے وہ صلح کریں ان دونوں کے درمیان صلح اور الصلح بہتر ہے اور نفس کے سامنے حرص موجود رہتی ہے اور اگر تم احسان کرو اور تم اللہ سے ڈرو پس اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے
لازمی بات ہے کہ میاں بیوی کا جھگڑا خفیہ نہیں ہو گا۔ کہ اس کی بھنک باقی خاندان والوں یا دونوں کے والدین یا سرپرستوں کو نہ پڑے۔ اگر عورت کی طرف سے (یا طلاق فدیہ مروج خلع کی صورت میں مرد کی طرف سے) مصالحت ناکام ہو جاتی ہے تو پھر معاملہ اس فرد یا افرادکے پاس جائے گا۔ جنہوں نے ان دونوں میا ں بیوی کے درمیان عقدۃ، مھائدہ ء نکاح کیا تھا ۔ یا یہ جرگہ، پنچایت، یا عدالت کی طرف سے نامزد فرد یا افراد ہوتے ہیں یا پھر معاشرے کے منتخب لوگ ہوتے ہیں جو بصارت اور بصیرت میں یاقی لوگوں سے افضل ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کا جھگڑا ان کے پاس آنے کی صورت میں وہ :
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْْنَہُمَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْماً خَبِیْراً (4/35)
اور اگر تمھیں خوف ہو کہ وہ آپس میں پھٹ پرنے پر ہوں۔ تو تم اس (مرد)کے اہل میں سے ایک حکم (منصف) کھڑا کرو۔ اور اس (عورت)کے اہل میں سے ایک حکم (کھڑا کرو)۔ اگر وہ (دونوں میاں بیوی) اصلاح کا ارادہ کریں تو اللہ ان کے درمیان موافقت پیدا کرے گا۔ بے شک اللہ علیم اور خبیر ہے۔
”اگر وہ (دونوں میاں بیوی) اصلاح کا ارادہ کریں تو اللہ ان کے درمیان موافقت پیدا کرے گا“ ۔
اتنی ناچاقی کے باوجود اللہ کی نصیحت دونوں میاں بیوی کو یہی ہے کہ آپس میں اصلاح (Reconcile) کریں ۔ کیونکہ اللہ کے مطابق مومن مرد اور عورت ہر صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں سوائے کفر، زنا، شرک اور مرد کی نامردی کے ۔
عائلی زندگی میں صرف آپس میں ایک دوسرے کی خامیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیونکہ مرد عورت دونوں آپس میں ہم جنس ہیں جو اچھائیاں ایک میں ہیں وہی دوسرے میں ہیں اور جو خرابیاں ایک میں ہیں وہی دوسرے میں بھی ہوتی ہیں ۔
یہ اور بات کہ ایک میں قوت برداشت زیادہ ہوتی ہے تو دوسرے میں کم۔ چنانچہ آپس میں اصلاح (Reconcile) نہایت ضروری ہے۔ خواہ میاں بیوی خود آپس میں کریں یا اپنے اہل خاندان کے سمجھانے پر کریں ۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک صلح بہتر چیز ہے ۔
اس سلسلے میں ایک نکتہ نہایت اہم ہے کہ اللہ میاں بیوی کے درمیان جو اصلاح (Reconcile) کے لئے منصف کھڑے کرنے کا کہہ رہا ہے وہ آپس کا ناچاقی، کفر (کفر سے باز رکھنے )کے سلسلے میں ہے۔ نہ کہ شرک، زنا، اور مرد کی نامردی کیلئے ہے ۔ اور اگر عورت یا مرد کفر میں قائم رھتے ہیں تو انہیں اصلاحی مدت (Reconciliation Period) کے لئے روکا نہیں جاسکتا ۔ پھر ان کے لئے تنسیخ نکاح کا قانون شرک، زنا، اور مرد کی نامردی کی طرح فورا نافذ ہو گا۔
میاں بیوی کے درمیان ناچاقی کی صورت میں فسخ معاہدہ نکاح کی مزید کاروائی، شوھر اوربیوی اور ان کے ثالثین پر منحصر ہے ۔
مزید مضامین ، اِس سلسلے میں دیکھیں :
النساء -یتیموں اوربیواؤں کی حفاظت،
مرد و عورت کے جسمانی تعلقات،
غلام لڑکی اور جسمانی تعلقات ،
شرع اللہ کے مطابق ،
آیات اللہ پرانسانی ردِعمل ،
النساء -یتیموں اوربیواؤں کی حفاظت،
مرد و عورت کے جسمانی تعلقات،
غلام لڑکی اور جسمانی تعلقات ،
شرع اللہ کے مطابق ،
آیات اللہ پرانسانی ردِعمل ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں