٭٭ پچھلا مضمون : ارادہ ء تنسیخ نکاح
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عزم طلاقوَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْم (2/227)
اور اگر تم طلاق کا عزم کرو، بے شک اللہ سمیع اور علیم ہے۔
عَزَمُ الطَّلاَقَ اورارادہ ء طلاق میں فرق یہ ہے کہ ارادہء طلاق میں مدت کا تعین نہیں ہوتا۔ جبکہ عَزَمُ الطَّلاَقَ (2/227) میں مدت کا تعین اللہ نے خود کیا ہے (2/228) اور اِس مدت میں، شوہر کو بیوی سے جسمانی قربت نہیں کرنی ہو گی ۔ ورنہ وہ رجوع قرار پائے گا ۔ اور جسمانی قربت کے بعد بیوی تین قروء خود کو روکے گی ۔ مدت مکمل ہونے پر معاملہ عَزَمُ الطَّلاَقَ إِمْسَاكٌ بن کر، اولی الامر کی ذمہ داری میں جائے گااور وہ اِس معاملے کی تمام جزویات اورمبادیات کو دیکھ کر الطَّلاَقَ تَسْرِيحٌ کا فیصلہ کرنے سے پہلے میاں بیوی کو اللہ کی آیات کی ہدایت میں سمجھائے گا اور إِمْسَاكٌ پر راضی کرے گا ناکامی کی صورت میں الطَّلاَقَ تَسْرِيحٌ کی حتمی تاریخ کے نفاذ کیا فیصلہ کرے گا ۔ یاد رہے ، کہ ارادہ ء طلاق کسی گواہ کی موجودگی میں لازمی ہو یا نہ ہو ، شرائط کے ساتھ ہو یا بغیر شرائط کے ۔ لیکن عَزَمُ الطَّلاَقَ تَسْرِيحٌ کا فیصلہ اولی الامر یا اُس کے دستیاب ہونے نکاح کے گواہان کریں گے - (65/1)
ارادہ اور عزمِ طلاق
٭ ۔ اگر ایک مرد اپنی بیوی سے کہتا ہے :-1 .اگر تم نے یہ کام کیا تو میں تم کو چھوڑ دوں گا -2 .اگر اس نے فلاں وقت تک یہ کام نہیں کیا تو وہ اس کو طلاق دے دے گا۔
3 . اگر اس نے فلاں وقت تک یہ کام نہیں کیا تو وہ اس کو طلاق ہو جائے گی۔
تو اس مرد کا یہ عمل ارادہءِ طلاق ہے عَزَمُ الطَّلاَقَ نہیں لیکن اگر بیوی نے وہ کام کر لیا تو عَزَمُ الطَّلاَقَ إِمْسَاكٌ کے تین قروء بعد عَزَمُ الطَّلاَقَ تَسْرِيحٌ بن کر اولی الامر (65/1) کے پاس جائے گا ۔ جہاں جرگوں کی مزید کوششِ مصالحت کے بعد
عَزَمُ الطَّلاَقَ تَسْرِيحٌ کی کاروائی ہوگی
٭ ۔ ایلا ء (2/226) کی مدت مکمل ہونےتک الطَّلاَقَ إِمْسَاكٌ ہے مدت مکمل ہوتے ہی یہ ارادہ، عَزَمُ الطَّلاَقَ تَسْرِيحٌ میں تبدیل ہو جائے گا۔ اور تین قروء کے بعد اولی الامر الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ نافذ کر دے گا۔
٭ ۔ ظہار (58/2) کے لئے کوئی مدت تکمیل نہیں لیکن الفاظ کے تعین سے معلوم ہو گا کہ یہ صرف ظہارہے یا ساتھ ایلاء بھی مثلا:-
O . آج سے تو میر ی ماں ہے ۔(کہنا صرف ظہار میں آتا ہے)۔
O . آج کے بعد میں ترے پاس نہیں آؤں گا ۔ اگر آیا تو اپنی ماں کے پاس آیا (کہنا ایلاء اور ظہار دونوں میں آتا ہے)۔
لیکن اگر مرد ظہار کا کفارہ ادا نہیں کرتا تو وہ اپنی بیوی کے پاس نہیں جاسکتا۔ اس صورت میں وہ حدود اللہ سے تجاوز کر رہا ہے۔ اب مدت کا تعین اللہ کی آیات کے مطابق ہو گا۔
O . لیکن اگرثالثوں کے فیصلے کے مطابق مدت ایلا ء (2/226) مکمل ہونےتک الطَّلاَقَ إِمْسَاكٌ ہے مدت مکمل ہوتے ہی یہ ارادہ، عَزَمُ الطَّلاَقَ تَسْرِيحٌ میں تبدیل ہو جائے گا۔ اور تین قروء کے بعد اولی الامر الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ نافذ کر دے گا۔
٭ ۔ لعان کی صورت میں فسخ مھائدہ نکاح کی مزید کاروائی، اس کے بعد شوھر اوربیوی اور ان کے ثالثین پر منحصر ہے ۔ کہ وہ الزام کی نوعیت اور آپس کے تعلقات دیکھتے ہوئے :-
O . دونوں میاں بیوی کو چار کی مدت سوچ و بچار کے لئے دیں اور چارماہ کی مدت پوری ہونے کے بعد اگر وہ آپس میں نہیں ملتے تومھائدہ نکاح کی تنسیخ کی کاروئی کریں یا
O . لعان کی کاروائی کے فورا بعد شوہر کا عَزَمُ الطَّلاَقَ تَسْرِيحٌ میں تبدیل ہو جائے۔ اور تین قروء کے بعد اولی الامر الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ نافذ کر دے گا۔
٭ ۔ باہمی ناچاقی کی صورت میں یا یتیم النساء سے مرد کے نکاح کی صورت میں بیوی بے جا ضد (جبکہ مسلم معاشرہ اس ضد کا متحمل نہیں ہو سکتا) کے باعث خود مفارقت چاہتی ہی تو اس صورت میں وہ طلاق فدیہ (مروج خلع) لے گی-
طلاق
عام مروجہ فقہی قانون کے مطابق میاں بیوی میں معاہدہ تنسیخ نکاح کی دو اقسام ہیں:-
٭ ۔ طلاق۔ جس میں مرد عورت سے تنسیخ نکاح کرے۔
٭ ۔ خلع ۔ جس میں عورت مرد سے تنسیخ نکاح دعویٰ کرے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے مطابق طلاق کتنی دفعہ دی جا سکتی ہے؟۔
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَان۔۔۔۔ (2/229)
الطلاق دو بار۔ پس معروف کے ساتھ امساک یا احسان کے ساتھ تسریح ۔۔۔۔۔۔
إِمْسَاک ”روکنے“ کو یعنی اور تَسْرِیْح ”آزاد چھوڑنے“ کو کہتے ہیں ایسی صورت میں جسمانی تعلق نہیں ہوتا لیکن عورت مرد کے گھر میں رہتی ہے ۔ لیکن اگر وہ خود شوہر کے گھر سے اپنے والدین یا سرپرست کے گھر چلی جائے تو اُس کی مرضی ۔
الطَّلاَقُ یعنی مھائدہ تنسیخ نکاح کا چانس (صرف) دو بار ہے ایک بار ”عزمِ تنسیخ نکاح (طلاق)“ کر کے دوبارہ تین قروء سے پہلے إِمْسَاک کر سکتے ہیں اور دوسری دفعہ آپس میں رضامندی سے مھائدہ منسوخ کر کے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
گویا ایک بار الطَّلاَقَ إِمْسَاكٌ ( تین قروء تک عورت کا مرد کے گھررُکنا اور حمل کو نہ چھپانا) ہے اور دوسری بار الطَّلاَقَ تَسْرِيحٌ۔ ( مرد کا بیوی سے جسمانی تعلقات سے دور شوہر کے گھر یا والدین کے گھررہنا)
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النَّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لَّتَعْتَدُواْ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ..... (2/231)
اور جب تم النساء کو طلاق دو اور وہ اپنی اجل کو پہنچیں!
٭ ۔ پس ان سے معروف کے مطابق امساک کرو
٭ ۔ یا معروف کے مطابق انہیں تسریح کردو
٭ ۔ ان سے امساک اس لئے مت کرو کہ ضرر کے لئے تم تجاوز کرو۔
اور جو یہ فعل کرے گا اس نے صرف خود پر ظلم کیا۔۔۔۔۔
اللہ نے اپنی اس آیت اور باقی آیات میں احکامات طلاق بتائے ہیں، یہ اللہ کے بتائے ہوئے ۔ احکامات ہیں چنانچہ ان کو چھوڑ کر من دون اللہ کے احکامات طلاق پر عمل کرنا اللہ کے احکامات طلاق (آیات) کا مذاق اڑانا ہے ۔
انہی احکامات پر نہ صرف خود عمل کرنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی انہی پر عمل کرنے کا وعظ کرنا ہے۔ کیوں کہ یہ احکامات ”الکتاب“ میں لکھے ہیں اور الحکمت (دانائی) ہیں۔
۔۔۔۔ وَلاَ تَتَّخِذُوَاْ آیَاتِ اللّہِ ہُزُواً وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَیْْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُم بِہِ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (2/231)
۔۔۔۔ اور اللہ کی آیات کو مذاق میں مت اڑاؤ۔اور تم نصیحت کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت سے جو تمھارے اوپر نازل ہوئی۔ الکتاب میں سے اور الحکمت سے، تم اس (الکتاب اور الحکمت) کے ساتھ وعظ کرو۔ اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو! بے شک اللہ ہر شے کے ساتھ علیم (جاننے والا) ہے
ان آیت میں جو احکامات اللہ نے بتائے ہیں: -
٭ ۔ طلاق دو بار ہے ۔
٭ ۔ اور جب تم النساء کو طلاق دو اور وہ اپنی اجل کو پہنچیں! تو
O پس ان کو معروف کے مطابق روک لواور ان کو اس نیت سے مت روکو، کہ انہیں تکلیف اور اذیت دو۔ جو یہ فعل کرے گا وہ صرف خود پر ظلم کرے گا ۔
O یا معروف کے مطابق انہیں مھائدہ نکاح سے آزاد کردو۔
٭ ۔ یہ اللہ کی آیات ہیں ان(پر عمل نہ کر کے ان) کو مذاق مت سمجھو۔یہ تمھارے اوپر اللہ کی نعمت ہے جو اس نے تمھارے لئے الکتاب میں دانائی لکھ دی ہے تاکہ تم نادانی میں کسی غیر اللہ کی راہ پر چلتے ہوئے اپنے اوپر ظلم کر بیٹھو لہذا:
- 1 تم خود اس سے نصیحت حاصل کرو
- 2 تم لوگوں کوبھی ان کے طلاق کے معاملے میں انہی آیات کا وعظ صرف الکتاب سے کرو -
- 3 خود عمل کرتے وقت اور لوگوں کو وعظ کر تے وقت اللہ سے ڈرو
- 4 جان لو کہ اللہ تمھارے ہر فعل کا علم رکھتا ہے
اب ہم دیکھتے ہیں کہ جب النساء کو طلاق دی جائے اور وہ اپنی اجل کو پہنچیں تو ان کو معروف کے مطابق کیسے روکا جا سکتا ہے؟
وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَء ٍ ۔۔۔۔۔ (2/228)
اور مطلقات اپنے نفوس کو تین قروء روک کر رکھیں۔....
مطلقات کو اپنے نفوس کو تین قروء روکنے کی کیا حکمت ہے؟
۔۔۔ وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَن یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ إِن کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرٌ ...... (2/228)
ان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اس کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں تخلیق کے عمل سے گذارنا شروع کر دیا ہے۔ اگر وہ اللہ اور یوم الآخر پر ایمان رکھتی ہیں۔
مطلقات کو اپنے نفوس کو تین قروء روکنے کی حکمت اللہ نے الکتاب سے واضح کر دی ہے۔ کہ اللہ نے ان کے رحموں میں جو تخلیقی عمل گذارنا شروع کر دیا ہے۔ وہ انہیں نہ چھپائیں۔ اب چھپانے کے مندرجہ ذیل ممکنہ طریقے ہیں: -
٭ ۔ موجودہ ڈاکٹری کا علم جو اللہ نے انسان کو دیا ہے اس کے مطابق حمل ٹہرنے سے تین مہینے تک حمل چھپایا (گرایا) جا سکتا ہے (تین مہینے سے مراد حمل ٹہرنے کی صورت میں پچھلے حیض کا پہلا دن اور اس کے بعد سے تین مہینے) تین مہینے کے بعد یہ نا ممکن تو نہیں ہو تا البتہ بذریعہ آپریشن ضائع ہو سکتا ہے ۔ لہذا یہ چھپانے کا عمل ہے
٭۔ یا عورت طلاق ہوتے ہی عدت اپنے والدین کے گھر میں گزارے اور اپنے حمل کوچھپائے اور سابقہ شوہر کو بچے کی ولادت کے متعلق نہ بتائے ۔اور سابقہ شوہر کو بچے کی ولادت کا معلوم نہ ہو سکے۔
٭۔ یاکوئی عورت تین مہینے سے پہلے نکاح کر لیتی ہے تو تب بھی اس کا پہلے شوہر سے ٹہرا ہو حمل چھپ گیا۔ لیکن کیونکہ ایسا عمل وہ عور ت نہیں کر سکتی جو اللہ اور یوم الآخر پر ایمان رکھتی ہے۔
۔۔۔۔ وَبُعُولَتُہُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذَلِکَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحا...(2/228)
اور ان کے شوہر حق رکھتے ہیں کہ انہیں اس (حمل کا سن کریا تین قروء کی مدت) کے درمیان انہیں لوٹا لیں (طلاق سے)، اگر ان کا اردہ اصلاح کا ہو ( تنگ کرنے کا نہیں)
عورت طلاق نہیں مانگ رہی ۔ طلاق مرد خانگی ناچاقی کی بنا پر دے رہا ہے(اس میں کفر، زنا، شرک اور مرد کی نامردی شامل نہیں)چنانچہ اصلاح کا اردہ مرد کا ہو گا نہ کہ عورت کا۔ اب چونکہ مرد طلاق دے رہا ہے۔ لہذا عورت ضد نہیں کر سکتی کہ میں نہیں رکوں گی ۔ بشرطیکہ:
۔۔۔۔۔ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ (2/228)....
ا ن(عورتوں) کے لئے وہ (مرد) مروج دستور کے مطابق ا ن (عورتوں) کے برابر ہے ۔
لیکن اگر مرد برابری کا برتاؤ معروف میں نہیں کرتا یا کرنے کا وعدہ نہیں کرتا تو پھرمرد کاارادہ اصلاح کا نہیں بلکہ عورت کو دوبارہ تنگ کرنے کا ہے ۔ لیکن یہ برابری کلی برابری نہیں صرف مروج دستور میں عورت اور مرد کے جو حقوق ہیں ان میں برابری ہے ۔ جبکہ اللہ کے مطابق:
۔۔۔۔ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَۃٌ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکُیْمٌ (2/228)
اور رجال (مردوں) کے لئے اُن (عورتوں) کے اوپر ایک درجہ ہے۔ اور اللہ عزیز اور حکیم ہے۔
آفاقی سچائیوں کے مطابق ہر دور میں مردوں کی عورتوں کے اوپر فوقیت رہی ہے اور یہ، باپ کو بیٹی پر۔ بھائی کو بہن پر۔ شوہر کو بیوی پر، بیٹے کو ماں پر، ولی کو یتیم بچیوں پر ۔ یہ فوقیت، کسب معاش اور اں کی حفاظت اور تربیت کی وجہ سے ہے۔ لیکن مروج دستور میں پائے جانے والے باقی تما م قوانین میں مرد اور عورت کا درجہ برابر ہے ۔ اللہ نے ایک نامحرم مرد کو نامحرم عورت پر کسی قسم کی فوقیت نہیں دی۔
بلکہ مرد اور عوت کے درجے برابر رکھے ہیں،
٭- سزا میں بھی
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّـهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿24/2﴾
٭- اور جزاء میں بھی
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿33/35﴾
٭ کنیزوں کے لئے سزا میں رعایت -
۔۔۔۔ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ---- ﴿4/25﴾
٭- اور نسا النبی، کے لئے اضعافی سزا !
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرًا ﴿33/30﴾
جن کے درجے عام مومنہ عورتوں کے برابر نہیں .
ہم دیکھتے ہیں کہ شوہروں کو بیویوں پر کیا درجات حاصل ہیں۔
٭۔ وہ طلاق کو ان کی عدت کے دوران لوٹا لینے کا حق رکھتے ہیں۔
٭۔ عدت عورتوں کے لئے ہوتی ہے مردوں کے لئے نہیں۔
٭۔ عورت عدت کے دوران نکاح نہیں کر سکتی۔ مرد پر ایسی کوئی پابندی نہیں۔
٭۔ عورت عدت مرد کے گھر پرگزرے گی ۔
٭۔ عدت کے دوران مرد عورت کے نان و نفقہ کا مکمل ذمہ دار ہے۔
٭۔ زچہ ہونے کی صورت میں اگر عورت بچے کے دودھ کا خرچ طلب کرے تو وہ اداکرے گا
٭۔ بیوی کو اس کی سرکشی پر نصیحت کر سکتا ہے۔ تعلقات زن و شوئی سے عارضی طورپر الگ کرسکتا ہے ۔ ضرورت پڑنے پر مار سکتا ہے۔
٭۔ مرد کو کثیر الازواجی کی اجازت ہے ۔
٭۔ مرد اپنی مومن ماملکت ایمانکم سے جنسی تعلقات رکھ سکتا ہےعورت نہیں،
٭۔ مرد محصنات اہل الکتاب سے نکاح کر سکتا ہے،عورت نہیں۔
٭۔ مرد بلا ضرورت گھر سے باہر نکل سکتا ہے عورت نہیں۔
٭٭ اگلا مضمون : الطلاق دو بار (تین بار نہیں)
٭٭٭٭08- اسلام کا قانونِ نکاح اور طلاق٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید مضامین ، اِس سلسلے میں دیکھیں :
النساء -یتیموں اوربیواؤں کی حفاظت،
مرد و عورت کے جسمانی تعلقات،
غلام لڑکی اور جسمانی تعلقات ،
شرع اللہ کے مطابق ،
آیات اللہ پرانسانی ردِعمل ،
النساء -یتیموں اوربیواؤں کی حفاظت،
مرد و عورت کے جسمانی تعلقات،
غلام لڑکی اور جسمانی تعلقات ،
شرع اللہ کے مطابق ،
آیات اللہ پرانسانی ردِعمل ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں