٭۔ احکام الہی کی پابندی اور ملکی دستور
اللہ نے محمدﷺ کو بتایا :
اللہ نے محمدﷺ کو بتایا :
إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیْہَا ہُدًی وَنُورٌ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّونَ الَّذِیْنَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُواْ مِن کِتَابِ اللّٰہِ وَکَانُواْ عَلَیْْہِ شُہَدَاء فَلاَ تَخْشَوُاْ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآیَاتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فَأُولَـٰئِكَ ہُمُ الْکَافِرُونَ(5:44)
بے شک ھم نے التوراة نازل کی ۔ اس میں ھدایت و نور ھے ، اور اس میں سے حکم کیا النبيون نے وہ لوگ جو اسلام لائے ۔ ان کے لئے جو هادوا اور الربانيون اور والاحبار ھیں ، اس لئے کہ وہ ( هادوا اور الربانيون اور والاحبار ) اس پر محافظ بنائے گئے ھیں کتاب اللہ میں ، اور وہ اس پر شهداء بھی ھیں ۔ اور تم ( هادوا اور الربانيون اور والاحبار ) انسانوں سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور میری آیات کو تم ( هادوا اور الربانيون اور والاحبار ) تھوڑی قیمت پر مت بیچو
اور جواللہ نے نازل کیا اُس میں سے حکم نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔
اور جواللہ نے نازل کیا اُس میں سے حکم نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔
جوھادو، ربّانی اور احبار اللہ کے قانون(تورات) کے مطابق حکم نہیں کرت وہ کافر ہیں اور قصاص کا فیصلہ نہیں کرتے تو وہ ظالم بھی ہیں۔
وَکَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (5:45)
اور ہم نے اُس (تورات) میں اُن (ھادو، ربّانی اور احبار)کے لئے لکھ دیا کہ، نفس کے بدے نفس اور آنکھ بدلے آنکھ اور ناک بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا قصاص ۔پس جس نے اِس کی تصدیق کی (عمل کیا) تو وہ کے لئے کفارہ ہے۔اور جواللہ نے نازل کیا اُس میں سے حکم نہیں کرتے وہ ظالم ہیں۔
تصدیق یہ نہیں کہ جی میں اِس آیت پر ایمان لاتا ہوں اللہ میرے گناہ کو معاف کرے اور معاملہ ختم ! ہن مٹی پاؤ ۔ نہیں قصاص مجرم کے سر پر لٹک (معلّق ہو ) گیا ۔
التَّوْرَاةَ کے آثار کے بعد الْإِنجِيل جس میں ھدایت اور نور ہے۔
الْمَلَائِكَةُ ملائکہ نے مَرْيَمُ کو اللہ کی طرف سے بشارت دی کہ اللہ خود الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ کو الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ کی تعلیم دے گا ۔
إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿3:45﴾ وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ﴿3:48﴾
اللہ نے محمدﷺ کو بتایا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ کے میری تعلیم سے ماہرالْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ہونے اور اُس کو دیگر میری عطا کی گئی، صفات کا انسانوں سے ذکر کرو :
إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ إِنْ هَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِينٌ (5:110)
حضرت موسیٰ پر توراۃ !
اللہ نے محمدﷺ کو بتایا،بَنِي إِسْرَائِيلَ کو ہم نے الْعَالَمِينَ پر فضیلت دی اور مُوسَى کو ہم نے الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ عطا کی :
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿2:47﴾
وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿2:53﴾
سوال پیدا ہوتا ہے کہ التَّوْرَاةُ کب اور کس پر نازل ہوئی ؟
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿3:93﴾
كُلُّ الطَّعَامِ ، بَنِي إِسْرَائِيل کے لئے حلال ہیں سوائے اِس کے جوإِسْرَائِيل نے اپنے نفس پر حرام کر لئے ، قبل اِس کے کہالتَّوْرَاة نازل کی جاتی ، کہہ کہ التَّوْرَاةُ کے ساتھ آؤ اور اُس کی تلاوت کرو اگر تم صَادِق ہو !
بَنِي إِسْرَائِيل اور إِسْرَائِيل دو اسم صفت ،الکتاب میں اللہ نے لکھے ،إِسْرَائِيل کون ہے اِس کی وضاحت نہیں کی ، لیکن اللہ نے إِسْرَائِيلُ کی خصوصیت کے بارے میں بتایا ۔کہ اللہ کا قانونِ برائے الطَّعَامِ ، التَّوْرَاةمیں سے دیکھنے سے پہلے حلالالطَّعَامِ ، إِسْرَائِيلاپنے اوپر حرام کر لیتا ہے ! اللہ حلالالطَّعَامِ حرام نہیں کرتا ۔ یہ إِسْرَائِيلُ کی خصوصیت ہے اور بَنِي إِسْرَائِيل کی بھی یہی روش ہے -
التَّوْرَاةَ ، ہُدًی وَنُورٌ ہے ، الْإِنجِيل، ہُدًی وَنُورٌ ہے۔
التَّوْرَاةَ کے آثار کے بعد الْإِنجِيل جس میں ھدایت اور نور ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لیکن پہلے اِس تاریخی غلط فہمی کا ازالہ کر لیا جائے ۔ کہ انجیل حضرت عیسیٰ پر نازل ہوئی !الْمَلَائِكَةُ ملائکہ نے مَرْيَمُ کو اللہ کی طرف سے بشارت دی کہ اللہ خود الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ کو الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ کی تعلیم دے گا ۔
إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿3:45﴾ وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ﴿3:48﴾
اللہ نے محمدﷺ کو بتایا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ کے میری تعلیم سے ماہرالْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ہونے اور اُس کو دیگر میری عطا کی گئی، صفات کا انسانوں سے ذکر کرو :
إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ إِنْ هَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِينٌ (5:110)
حضرت موسیٰ پر توراۃ !
اللہ نے محمدﷺ کو بتایا،بَنِي إِسْرَائِيلَ کو ہم نے الْعَالَمِينَ پر فضیلت دی اور مُوسَى کو ہم نے الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ عطا کی :
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿2:47﴾
وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿2:53﴾
سوال پیدا ہوتا ہے کہ التَّوْرَاةُ کب اور کس پر نازل ہوئی ؟
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿3:93﴾
كُلُّ الطَّعَامِ ، بَنِي إِسْرَائِيل کے لئے حلال ہیں سوائے اِس کے جوإِسْرَائِيل نے اپنے نفس پر حرام کر لئے ، قبل اِس کے کہالتَّوْرَاة نازل کی جاتی ، کہہ کہ التَّوْرَاةُ کے ساتھ آؤ اور اُس کی تلاوت کرو اگر تم صَادِق ہو !
بَنِي إِسْرَائِيل اور إِسْرَائِيل دو اسم صفت ،الکتاب میں اللہ نے لکھے ،إِسْرَائِيل کون ہے اِس کی وضاحت نہیں کی ، لیکن اللہ نے إِسْرَائِيلُ کی خصوصیت کے بارے میں بتایا ۔کہ اللہ کا قانونِ برائے الطَّعَامِ ، التَّوْرَاةمیں سے دیکھنے سے پہلے حلالالطَّعَامِ ، إِسْرَائِيلاپنے اوپر حرام کر لیتا ہے ! اللہ حلالالطَّعَامِ حرام نہیں کرتا ۔ یہ إِسْرَائِيلُ کی خصوصیت ہے اور بَنِي إِسْرَائِيل کی بھی یہی روش ہے -
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
التَّوْرَاةَ ، ہُدًی وَنُورٌ ہے ، الْإِنجِيل، ہُدًی وَنُورٌ ہے۔
وَقَفَّیْْنَا عَلَی آثَارِہِم بِعَیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَآتَیْْنَاہُ الإِنجِیْلَ فِیْہِ ہُدًی وَنُورٌ وَمُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَہُدًی وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ (5:46)
اور ہم نے اُن (ھادو، ربّانی اور احبار)کے آثار پر عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو تصدیق کرتےاپنے ہاتھوں میں موجود تورات کی اور ہم نے اُسے انجیل عطا کی۔ اُس(انجیل) میں ہدایت اور نور ہے جو تصدیق کرتی ہے ہا تھوں میں موجود تورات کی اور وہ متقین کے لئے ہدایت و موعظت ہے۔
جو اللہ کی ہدایت اور نور (انجیل) کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔
وَلْیَحْکُمْ أَہْلُ الإِنجِیْلِ بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فِیْہِ وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فَأُولَـٰئِكَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ(5:47)
اور اہل الانجیل کے لئے،کہ اللہ نے جو انجیل میں نازل کیا اس کے مطابق حکم کریں اور جو اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ فاسق ہیں۔
جو اللہ کی ہدایت اور نور (انجیل) کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔
جو اللہ کی ہدایت اور نور (انجیل) کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔
کافر ، ظالم اور فاسق !
یہ آیات محمدﷺ پر نازل ہوئیں اور انہیں بتایا جارہا ہے ، لیکن
یہ التَّوْرَاۃ (قانون) اور الإِنجِیْلَ(خوشخبری ) کہاں موجودہیں؟
یقینًا "بائبل قدیم" التَّوْرَاۃ نہیں ہو سکتی اور نہ ہی "الإِنجِیْل" کو بائبل جدید کہا جاسکتا ہے۔کیوں کہ یہ دونوں اللہ نے نازل نہیں کیں۔ ہاں یہ کتاب اللہ اور الکتاب کی انسانی تفاسیر ضرور ہیں ۔یعنی انسانوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔
تو پھر التَّوْرَاۃ (قانون) اور الإِنجِیْلَ(خوشخبری ) کہاں ہیں؟
کہ محمدﷺ اور اُن کے اصحاب نے اِن سے حُکم کرنا ہے۔ ورنہ اللہ کے حکم کے مطابق:
تو پھر التَّوْرَاۃ (قانون) اور الإِنجِیْلَ(خوشخبری ) کہاں ہیں؟
کہ محمدﷺ اور اُن کے اصحاب نے اِن سے حُکم کرنا ہے۔ ورنہ اللہ کے حکم کے مطابق:
٭۔ جو اللہ کے التَّوْرَاۃ (قانون) کے مطابق حکم نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔
٭۔ جو اللہ کی التَّوْرَاۃ (قانون) کے مطابق حکم نہیں کرتے وہ ظالم ہیں۔
٭۔ جو اللہ کی الإِنجِیْلَ (خوش خبری) کے مطابق حکم نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔
کم و بیش تمام مفسرین نے اِن تین آیات کو زیر و زبر کرنے کے بعد ۔التَّوْرَاۃ اور الإِنجِیْلَ کے اوراق پھاڑنے کے بعد مَا أَنزَلَ اللّہُ ،الْقُرْآنُ ڈکلئیر کرکے اللہ کی آیات میں تبدیلی کے مرتکب ہوئے ۔
وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فَأُولَـٰئِكَ ہُمُ الْکَافِرُونَ(5:44)
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (5:45)
وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فَأُولَـٰئِكَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ(5:47)
اللہ نے محمدﷺ کو بتایا:
کم و بیش تمام مفسرین نے اِن تین آیات کو زیر و زبر کرنے کے بعد ۔التَّوْرَاۃ اور الإِنجِیْلَ کے اوراق پھاڑنے کے بعد مَا أَنزَلَ اللّہُ ،الْقُرْآنُ ڈکلئیر کرکے اللہ کی آیات میں تبدیلی کے مرتکب ہوئے ۔
وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فَأُولَـٰئِكَ ہُمُ الْکَافِرُونَ(5:44)
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (5:45)
وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فَأُولَـٰئِكَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ(5:47)
اللہ نے محمدﷺ کو بتایا:
نَزَّلَ عَلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاۃَ وَالإِنجِیْلَ(3:3)
تجھ پر الکتاب الحق کے ساتھ نازل کی مصدّق ہے اُس کے لئے جو ہاتھوں کے درمیان ہے التَّوْرَاۃَ اور الإِنجِیْلَ نازل کی ۔
الکتاب، التورات اور الانجیل کی مصدّق ہے
مِن قَبْلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ الْفُرْقَانَ إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِآیَاتِ اللّہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَاللّہُ عَزِیْزٌ ذُو انتِقَامٍ(3:4)
اس سے پہلے انسانوں کی ہدائت کے لئے الفرقان نازل کی۔ بے شک وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ عزیز اور انتقام والا ہے ۔
مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ انسانوں کی ہدایت کی ترتیب الْفُرْقَانَ۔ التَّوْرَاۃَ ۔ الإِنجِیْلَ اور الْکِتَابَ کا انداز رکھا ہے ۔
الْفُرْقَانَ کی سب سے پہلے وجہءِ نزول بھی بتا دی۔ کہ الْفُرْقَانَ کا نزول الْعَالَمِیْنَ کے لئے اللہ کے عَبْدِ کا نَذِیْر(وارننگ دینے والا) ہونا ہے ۔
تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً (25:1)
با برکت ہے وہ جس نے اپنے بندے پر الفرقان اتارا تاکہ وہ العالمین کے لئے نذیرہو .
اے اللہ تعالیٰ، تورات میں ہدایت اور نور ۔انجیل میں ہدایت اور نور۔ تو ’الکتاب‘ میں کیا ہے اور یہ پہلے کس بشر کو دی گئی ؟
وَإِذْ آتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ (2:53)
اور ہم نے موسیٰ کو الکتاب اور الفرقان دی تاکہ تم (بنی اسرائیل) ہدایت پاؤ۔
وَمَا قَدَرُواْ اللّہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّٰہُ عَلَی بَشَرٍ مِّن شَیْْء ٍ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِیْ جَاء بِہِ مُوسَی نُوراً وَہُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَہُ قَرَاطِیْسَ تُبْدُونَہَا وَتُخْفُونَ کَثِیْراً وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ آبَاؤُکُمْ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِیْ خَوْضِہِمْ یَلْعَبُونَ (6:91)
اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی، جیسی اُس کی قدر کا حق ہے۔ جب وہ بولے کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی شئے نازل نہیں کی۔ کہہ وہ”الکتاب“کس نے نازل کی ہے جس کے ساتھ موسیٰ آئے، لوگوں کے لئے نور اور ہدایت ہے تم اُس کو اوراق بناتے ہو، تم اُس (اوراق) کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سے(اوراق) کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور نہ تمہارے آباء۔کہہ اللہ۔ پھراُنہیں چھوڑ دو اور اُن کے مشغولات میں کھیلتے رہنے دو۔
اللہ نے الکتاب نازل کی۔ جس کوحضرت موسیؑ لائے۔یہ لوگوں کے لئے نور اور ہدایت کے علاوہ:
وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَہُمْ عَلَی صَلاَتِہِمْ یُحَافِظُونَ (6:92)
اور یہ کتاب، ہم نے اُس مبارک نازل کیا، مصدّق ہے وہ جو ہاتھوں کے درمیان ہے،۔چاہیئے کی تو تنذیر کرے ام القریٰ اور اُس کے ارد گرد ، اور جو لوگ آخرت پر اعتبار کرتے ہیں، وہ اِس پر بھی اعتبار کرتے ہیں اور وہ اپنی صلات کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
ام القری (دارلخلافہ) اور اس کے اردگرد کی بستیوں پر ’الکتاب‘میں دئے ہوئے اللہ کے قانون کو لاگو کرنا ہے اور اس سے لوگوں کو وارننگ دینا ہے۔ کہ جو کچھ اُن پر تبلیغ کیا گیا ہے کیا وہ الکتاب کے مطابق ہے؟۔
قُلْ أَیُّ شَیْْء ٍ أَکْبَرُ شَہَادۃً قُلِ اللّٰہِ شَہِیْدٌ بِیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ أَءِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّہِ آلِہَۃً أُخْرَی قُل لاَّ أَشْہَدُ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ(6:19)
کہہ کہ کون سی شئے شھادت میں اکبر ہے؟ کہہ اللہ۔ میرے اور تمھارے درمیان شھید ہے۔اور میری طرف یہ القران وحی کیا گیا ہے تاکہ جو(کچھ تمھیں) تبلیغ کیاگیا ہے۔میں تمھیں اس(القران) کے ذریعے آگاہ(وارننگ) کروں۔ کیا تم واقعی شھادت دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی الہہ بھی ہے؟ کہہ! میں شھادت نہیں دیتا! کہہ بے شک وہ الہہء واحد ہے اور میں اُس شرک سے بری ُ الذمہ ہوں جو تم کرنے والے ہو!۔
اور وہ الکتاب کو اِس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں
الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمُ الَّذِیْنَ خَسِرُواْ أَنفُسَہُمْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ(6:20)
جن لوگوں کو ہم نے”الکتاب“ دی وہ اُس کو پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں،جن لوگوں نے اپنے آپ کو خسارے ڈالا ہے پس وہ اعتبار نہیں کریں گے۔
٭۔ عزم صمیم اور اللہ پر توکل
یہ شوریٰ کا سب سے آخری اور اہم لوازمہ ہے ۔ کتاب اللہ میں دئے گئے تمام احکامات کے علاوہ اسلامی معاشرے میں جتنے بھی معاشرتی احکامات ہیں انہیں کتاب اللہ ہی کی روشنی میں پرکھا جائیگا ۔ اور پھر عزم صمیم کے ساتھ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ان کا نفاذ عمل میں لایاجائے گا۔
٭- آپس میں مشورہ ۔
مومنین روزمرہ کے کام آپس کے مشورے سے کریں گے۔
وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْْنَہُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ (42:38)
اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں۔ اور اقام الصلاۃکرتے ہیں اور ان کے امر آپس کے مشورے سے ہوتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے انفاق کرتے دیتے ہیں۔
٭- حکام سے مشورہ ۔
کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا حل آپس میں مشورہ کے بعدیہی نظر آتا ہے کہ اس معاملے کو جو امن کا ہو یاخوف کا، اولی الامرکے سامنے پیش کر دیا جائے۔ یہ اولی الامر کوئی اکیلا فرد نہیں بلکہ مومنین کی ایک جماعت ہوتی ہے۔ جس میں قابل لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بصیرت اور بصارت کے باعث چنے جاتے ہیں۔
وَإِذَا جَاء ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّیْْطَانَ إِلاَّ قَلِیْلاً (4:83)
اور ان کی جو تم میں اولی الامر ہوں۔ پس تم میں اگر کسی شے میں تنازعہ ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔اگر تم اللہ اور یوم الاخر پر ا یمان رکھتے ہو ۔ یہی بہتر اور عمدہ تاویل ہے (تمھاری فرقہ بندی ختم کرنے کی)
٭- حکام کا لوگوں مشورہ ۔
اللہ نے آمریت کی خواہ وہ کسی بھی لیول پر ہو مخالفت کی ہے ۔ یہاں تک کہ الرسول کی بصارت اور بصیرت پر کس کو شک ہوسکتا ہے۔ مگر چونکہ اللہ نے ایک اصول قائم کیا ہے کہ ’آپس میں مشورہ کرو‘ تو اس سے الرسول کو بھی مبراء نہیں کیا۔ اور یہ مشورہ ہے ووٹنگ نہیں کہ جس پر گردن جھکا لی جائے یا ہاتھ کھڑے کر کے اپنی موافقت کا اظہارکیا جائے۔ اور نہ ہی ’اجماع‘ سکوتی ہے ۔ جو مسلم امت میں وجہ نزع بنا ہوا ہے۔جسے آج کل Secret Balloting کہا جاتا ہے۔
یا حکم حاکم مرگ مفاجات جو کسی بھی صورت میں آمریت سے کم نہیں۔ جبکہ تما م مسلم اماموں اور اولی الامر کو اسوہء رسول پر چلنا ہے
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ (3:159)
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث تو ان پر نرم دل ہے اور اگر تو بدزبان اور سخت دل ہوتا تو یہ سب تیرے پاس سے دور ہو جاتے،سو تو اِنہیں معاف کر اوران کے لئے استغفار کر اوراُن سے امر میں مشورہ کر۔ پھر جب تو عزم کرلے تو اللہ پر توکّل کر بے شک اللہ تعا لیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
مشورے کے بعد جب اس بات پر استصواب رائے ہو کہ اب اس حکم کو نافذ ہو جانا چاھیئے تو پھر اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس حکم کو نافذ کر دینا چاھیئے۔ بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ اب جب یہ حکم نافذ ہو جائے تو یہ حکم اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہوگا۔ وہ تمام لوگ جنہوں نہ اس حکم کے خلاف مشورہ دیا تھا وہ اس حکم کو لازما مانیں گے۔ یہ اللہ کا حکم ہے
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَمْراً أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَن یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْناً (33:36)
یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی مومن اور مومنہ کے لئے جو اخکامات اللہ نے (الکتاب میں) اور اُس کے رسول نے (مشورے کے بعد) مکمل کر دیئے ہوں۔کہ اُن احکامات میں اُن کے لئے الخیر ہو (اور وہ نہ مانیں) پس جس نے اللہ اور اُس کے رسول کی معصیت کی تو وہ کھلی گمراہی میں گمراہ ہوا۔
٭۔ انتظامیہ کے ذریعے قانون سازی
1- اسلا می معاشرے میں دو اقسام کے قوانین پائے جاتے ہیں:
٭۔ قوانین الہی ۔ یہ وہ قوانین ہیں جو ’کتاب اللہ‘ میں لکھے ہوئے ہیں۔اور غیر متبدل ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل سے متعلق ہیں
- O قوانین ریاست۔
- O انفرادی قوانین۔
٭۔ انسانی قوانین ۔ یہ انسانی مشوروں کے بعد بنائے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ان میں ترمیمات ہوتی ہیں یا یہ منسوخ ہو جاتے ہیں۔ ا ن کے بنانے کا وہی طریقہ ہے ۔ جو موجودہ جمہوریت میں علمائے جمہور میں رائج ہے ۔
٭- قوانین ریاست
انتظامی قوانین، عدالتی قوانین، شخصی قوانین، مالیاتی قوانین، بین الاقوامی قوانین،
٭- مروج دستور
اس میں وہ تمام قوانین رواج پائے جاتے ہیں جو کسی مخصوص جغرافیائی حدود میں پانے والے افراد میں مروج ہوتے ہیں۔ یہ قوانین رواج (Customary Law) کتاب اللہ سے متصادم نہیں ہونے چاھیئں۔ مثال کے طور پرپیغام نکاح کے مختلف علاقوں میں مختلف طریقے مروج ہیں۔ کتاب اللہ کے مطابق ایک طریقہ اللہ تعالی نے تمثیلا کتاب اللہ میں بتایا ہے۔ جو سورۃ القصص کی آیات 27 اور28 میں درج ہے
٭- انفرادی قوانین
یہ وہ قوانین ہیں جو ایک کنبے کا سربراہ اپنے کنبے کے لئے بناتا ہے۔ یہ قوانین کتاب اللہ سے متصادم نہیں ہونے چاھیئں۔
جدید ریاستی تنظیم میں انتظامیہ کے ذریعے قانون سازی
٭۔ غیر مسلم ریاست
موجودہ ریاستی نظام میں ملک کاسپریم کمانڈر اور انتظامی سربراہ ”صدر“ ہوتا ہے ۔ تمام انتظامی احکامات اس کے حکم سے جاری ہوتے ہیں یا On his behalf کسی محکمے کا سربراہ جاری کرتا ہے۔ اگر محکمے کا سربراہ اپنے ذیلی سربراہان سے مشورے کے بعد اس بات پر متفق ہو کہ کچھ قوانین میں تبدیلی ضروری ہے۔ اور اگر یہ ترمیمات اس کی حدود میں آتی ہیں تو وہ یہ ترمیمات کر دے گا لیکن اگر یہ اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ تو وہ ان ترمیمات کو مکمل وجوہات کے ساتھ، ’صدر مملکت ‘ کو بھجوائے گا اگر یہ ترمیمات ’صدر مملکت‘ کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں تو وہ اپنے مشیروں سے مشاورت کے بعد ا ن میں ترمیم کر دے گا ورنہ وہ اسے مشاورتی کونسل یا مقننہ میں پیش کردے گا۔گویا کسی ملک میں قوانین کی اہمیت اس بات پر ہے کہ کس کے پاس کتنا اختیار ہے۔ بینادی طور پر تمام قوانین کسی بھی ملک کی اعلی ترین اتھارٹی یا مقننہ بناتی ہے ۔ اس پر عمل درآمد انتظامیہ کے ذریعے ہوتا ہے اور اس کی وضاحت عدلیہ کرتی ہے۔
٭۔ مسلم ریاست
کسی بھی مسلم ریاست میں خواہ وہ جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے کسی بھی خطے میں واقع ہو۔ اس میں قوانین سازی کے بنیادی اصول بعینہی وہی ہیں جو کسی غیر مسلم ریاست میں پائے جاتے ہیں۔ صرف ایک فرق سے اور وہ یہ ہے کہ مسلم ریاست میں ریاست کی سپریم اتھارٹی ’اللہ تعالی‘ ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی نیابت کا فرض ’کتاب اللہ‘ پورا کرتی ہے۔جس میں مسلمانوں کو دئے گئے بنیادی قوانین کوئی مقننہ یا اسمبلی تبدیل نہیں کر سکتی ۔ کیونکہ یہ قوانین مکمل ہیں۔
وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقاً وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(6:115)
اور تیرے ربّ کے کلمات کا سچائی اور انصاف سے اتمام ہوا۔ اس کے کلام کا کوئی متبادل نہیں۔اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔
اور ان میں تبدیلی کا حق اللہ نے کسی بھی بشر کو نہیں دیا۔ خواہ وہ بشر نبی ہی کیوں نہ ہو ۔
مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُؤْتِیَہُ اللّہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُواْ عِبَاداً لِّیْ مِن دُونِ اللّہِ وَلَ کِن کُونُواْ رَبَّانِیِّیْنَ بِمَا کُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْکِتَابَ وَبِمَاکُنتُمْ تَدْرُسُونَ(3:79)
ایک بشر کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اللہ اسے الکتاب۔الحکمت اور النبوّت دے۔ پھر وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کے علاوہ میرے عبد (حکم ماننے والے) بن جاؤ۔ بلکہ وہ تو یہ کہے گا کہ تم خود ربّانی ہو جاؤ۔ اس لئے کہ تم الکتاب کا علم رکھتے ہو اور تم درس دیتے ہو۔
نہ ہی ان قوانین میں کسی قسم کی مشاورت کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں کے تحت ہو سکتی ہے ۔ مشاورت کا دروازہ، اسلامی ریاست میں ان قوانین کے لئے کھلا ہے جنھیں ہم معاشرتی قوانین کہتے ہیں۔ یہ کہنا کہ قران اور سنت کچھ معاملات میں خاموش ہیں ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ گویا ہم یہ کہنا چاھتے ہیں ۔ کہ اللہ نے انسان کو ٹامک ٹوئیاں مارنے کی کھلی چھوٹ دی ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس کتاب اللہ ہے اور ہمارے قوانین جامع نہیں وہ لوگ جن کے پاس نہ کتاب اللہ ہے اور نہ ہی ہمارے عقیدے کے مطابق اللہ ان کے ریاستی و شخصی قوانین اپنے پورے انتظام و انصرام کے ساتھ لاگو ہیں اور لوگ ان پر عمل کر رہے ہیں ۔
قُلْ إِن تُخْفُواْ مَا فِیْ صُدُورِکُمْ أَوْ تُبْدُوہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأرْضِ وَاللّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ(3:29)
کہہ ! کہ تم اپنے سینوں کی باتیں چھپاؤ خواہ ظاہر کرو اللہ تعالیٰ بہر حال جانتا ہے , آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسے معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ تعالی کو تمام انسانی خیالات کا علم ہے ۔ لہذا اس نے انسان سے متعلق تمام بنیادی قوانین جو حق ہیں ان کا علم انسان کو دے دیا ہے ۔ انسان حوادث اور تجربات کے باعث ان کو دریافت کر رہا ہے اور خود پر لاگو کرتا جا رہا ہے ۔ جبکہ ہمیں انہیں دریافت نہیں کرنا پڑ رہا یہ ہمارے پاس کتاب اللہ کی صورت میں موجود ہیں ۔ مگر ہم نے اسے ایک طرف رکھا ہوا ہے اور اپنے لئے عجیب و غریب قوانین وضع کر رکھے ہیں۔ جبکہ یہ تمام قوانین جنہیں آفاقی سچائیاں کہا جاتا ہے پر دنیا میں عمل ہو رہا ہے۔ جمہوریت (شورائیت) ایک آفاقی سچائی ہے۔ خواہ یہ بذریعہ وزیراعظم ہو یا صدر جمہوری رائے کے سامنے اتناہی مجبور ہوتا ہے جتنا کہ ایک عام آدمی کیونکہ یہ اللہ کا پسندیدہ نظام ہے ۔
وَلاَ یَأْمُرَکُمْ أَن تَتَّخِذُواْ الْمَلاَءِکَۃَ وَالنِّبِیِّیْْنَ أَرْبَاباً أَیَأْمُرُکُم بِالْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ(3:80)
اور وہ تمھیں یہ حکم نہیں دیتا کہ تم مئکہ اور نبیوں کو ارباب بنا لو کیا وہ تمھیں مسلمان ہونے کے بعد کافر ہونے کا حکم دے گا۔
انتظامی قانون سازی خواہ کسی قسم کی بھی ہو۔ فرد کے حقوق کو ریاستی حقوق پر اولیت دینی چاھیئے۔ لیکن ایک بات کا خیال رہے کہ زکوۃ کی وصولی ریاست کا انتظامی امور ہے اور یہ ریاست کے لئے نہیں بلکہ افراد کی بہبود کے لئے جمع کی جاتی ہے ۔ لہذا اس سے صاحب نصاب کی اس بات پر معافی کہ فرد کو فائدہ ہو غلط ہے ۔ موجودہ دور میں بھی عوام سے ان کی آمدنی اور خرچ سے رقوم کا کچھ حصہ حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جمع کرتی ہیں۔ جس کو غیر مسلم حکومتیں ٹیکس کہتی ہیں جبکہ مسلم حکومتوں میں یہ زکوۃ کہلائی جاسکتی ہے ۔ برا ہو ہماری تاریخ کا جس نے حضرت ابوبکرؓ سے منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد تو کرا دیا ۔لیکن بعد میں اسے فرد کا انفرادی معاملہ قرار دے دیا۔ جبکہ فرد کا انفرادی معاملہ، انفاق فی سبیل اللہ، صدقات اور خیرات ہے۔ مگر چونکہ الناس کی بھلائی کے لئے امراء اور صاحب نصاب لوگوں سے زکوۃ، عوام اور ریاست کی فلاح و بہبود ایک آفاقی سچائی ہے لہذا یہ اپنی مکمل اتھارٹی کے ساتھ وصول کی جاتی ہے اور اس کے منکرین سے ہر حکومت جنگ کرتی ہے (ان کی جائداد کی قرقی اور گرفتاری کا حکم بھی دیتی ہے)
وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعاً وَکَرْہاً وَظِلالُہُم بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ(13:15)
اللہ ہی کے لئے زمین اور آسمانوں کی سب مخلوق اور اُن کے سائے صبح و شام، طَوْعاً (اطاعت سے) اورکَرْہاً (بے بسی سے) سجدہ کرتے ہیں۔
اپنی تما م قلبی تاریکیوں کے باوجود ہر انسان اللہ کے احکامات کے آگے خوشی سے (بذریعہ کتاب اللہ) اور مجبورا (بذریعہ آفاقی سچائیاں) سجدہ کر (بلا چون و چرا مان) رہا ہے ۔
------------
----------
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں