ویلکم ٹو انڈیا، آپ نے ہمارے دل جیت لیے ‘‘ اختر گورچانی
کراچی: ’’ ویلکم ٹو انڈیا، بھوج ایئرپورٹ پرآپ کا سواگت ہے ، ہماری سرکار آپ کو بھرپور سپورٹ کرے گی، آپ نے ہمارے دل جیت لیے‘‘ ،
یہ بات اس وقت کے ایس ایس پی حیدرآباد اور موجودہ ایڈیشنل آئی جی اختر حسن خان گورچانی نے فرضی کردار منوج کے نام سے رن وے پر ہائی جیکرز شہسوار بلوچ سے بات کرتے ہوئے کہی تھی -
واقعے میں تینوں ہائی جیکرز کوگرفتارکرلیا گیا تھا اور17 برس بعد آج 29 مئی 2015، کو ان تینوں کو پھانسی دے دی گئی۔
یہ بات اس وقت کے ایس ایس پی حیدرآباد اور موجودہ ایڈیشنل آئی جی اختر حسن خان گورچانی نے فرضی کردار منوج کے نام سے رن وے پر ہائی جیکرز شہسوار بلوچ سے بات کرتے ہوئے کہی تھی -
واقعے میں تینوں ہائی جیکرز کوگرفتارکرلیا گیا تھا اور17 برس بعد آج 29 مئی 2015، کو ان تینوں کو پھانسی دے دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق 24 مئی 1998 کوگوادر سے اڑنے والے پی آئی اے کے جہاز کو 3 ہائی جیکرز شہسوار بلوچ ، صابر بلوچ اور شبیر بلوچ نے ہائی جیک کیا اور پائلٹ کو بھارت لے جانے کا حکم دیا،
ہائی جیکرز کو یہ چکمہ ائیر ٹریفک کنٹرول کے اہلکار نے دیا تھا جس نے طیارہ پاکتسانی سرحد کے قریب سے اس طرح موڑا کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ طیارہ بھارت کے شہر بھوج پر نہیں حیدر آباد پر اترا ہے۔ اغوا کے دوران ہائی جیکر پائلٹ کے سر پر سوار تھے اور کسی بھی لمحے گولی مار سکتے تھے۔
ہائی جیکرز کو یہی گمان رہا کہ وہ بھارت کے شہرگجرات میں بھوج ایئرپورٹ پر ہیں ، بدھ کو ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس وقت کے ایس ایس پی حیدرآباد اختر حسن خان گورچانی نے بتایا کہ چونکہ اب انھیں بھارت کا ہی گمان دینا تھا لہٰذا وہ غیرمسلح ہوکر اپنے اے ایس پی عثمان کے ہمراہ سادہ لباس میں رن وے کی جانب بڑھے اور ہائی جیکر شہسوار بلوچ سے ہندی زبان میں ہی بات چیت کی، مختلف باتیں کرتے ہوئے انھیں ہرطرح سے یقین دلایا کہ وہ اس وقت بھارت میں ہی ہیں، اس روز کی یادیں کریدتے ہوئے اختر گورچانی کا کہنا تھا کہ تینوں ہائی جیکرز مسلح تھے ۔
ہائی جیکرز کو یہ چکمہ ائیر ٹریفک کنٹرول کے اہلکار نے دیا تھا جس نے طیارہ پاکتسانی سرحد کے قریب سے اس طرح موڑا کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ طیارہ بھارت کے شہر بھوج پر نہیں حیدر آباد پر اترا ہے۔ اغوا کے دوران ہائی جیکر پائلٹ کے سر پر سوار تھے اور کسی بھی لمحے گولی مار سکتے تھے۔
ہائی جیکرز کو یہی گمان رہا کہ وہ بھارت کے شہرگجرات میں بھوج ایئرپورٹ پر ہیں ، بدھ کو ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس وقت کے ایس ایس پی حیدرآباد اختر حسن خان گورچانی نے بتایا کہ چونکہ اب انھیں بھارت کا ہی گمان دینا تھا لہٰذا وہ غیرمسلح ہوکر اپنے اے ایس پی عثمان کے ہمراہ سادہ لباس میں رن وے کی جانب بڑھے اور ہائی جیکر شہسوار بلوچ سے ہندی زبان میں ہی بات چیت کی، مختلف باتیں کرتے ہوئے انھیں ہرطرح سے یقین دلایا کہ وہ اس وقت بھارت میں ہی ہیں، اس روز کی یادیں کریدتے ہوئے اختر گورچانی کا کہنا تھا کہ تینوں ہائی جیکرز مسلح تھے ۔
پانی فراہم کرنے کے بہانے واکی ٹاکی لے کر وہ اے ایس پی عثمان کے ہمراہ جہاز میں داخل ہوئے اورجائزہ لیا، عثمان کا فرضی نام رام چند رکھا گیا ، کئی گھنٹے تک بات چیت کے دوران ہائی جیکرز بھی بالکل مطمئن ہوگئے تھے اور جہاز سے خواتین و بچوں کو بھی اتار دیا گیا تھا ، اسی اثنا میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سہیل اکبر شاہ کو گوپی چند کے فرضی نام کے ذریعے جہاز میں بلالیا گیا ، واکی ٹاکی کے ذریعے تمام بات چیت ایئرپورٹ کنٹرول روم میں سنی جارہی تھی اور وہاں بیٹھے تمام اعلیٰ سول و فوجی حکام لمحہ لمحہ باخبر تھے۔
اختر گورچارنی نے بتایا کہ شام سے اب صبح 4 یا سوا 4 بجے کا وقت ہوچکا تھا اور انھیں فکر تھی کہ فجر کی اذانیں شروع ہوں گی توہائی جیکرز کو شک گزرے گا لہٰذا اس سے قبل ہی ڈراپ سین کرنا ہے، اختر گورچانی نے کہا کہ ہم تینوں نے آنکھ کے اشارے طے کیے اور 2 ہائی جیکرز کو جہاز کے دونوں دروازوں پر عثمان (رام چند) اور سہیل اکبر شاہ (گوپی چند) نے قابو کیا جبکہ انھوں نے رن وے پر شہسوار کو قابو کرتے ہوئے انھیں غیر مسلح کیا ، سہیل اکبر شاہ نے جس ہائی جیکر کو پکڑا وہ چھڑانے میں کامیاب ہوا اور ایک فائر کیا ، خوش قسمتی سے سہیل اکبر محفوظ رہے اور انھوں نے دوبارہ ہائی جیکر کو پکڑ کرغیر مسلح کردیا ، اختر گورچارنی نے کہا کہ اس وقت صرف یہی دھن تھی کہ کسی بھی طرح ہائی جیکرز سے جہاز چھڑانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں کامیابی عطا کی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
24 مئی 1998
پی آئ اے فوکر ستائیس جو کے تربت ائیرپورٹ سے چلا تھا ، گوادر انٹرنشنل ایئر پورٹ سے کراچی روانہ ہونے کو تیار کھڑا تھا تھا ، روانگی سے قبل جہاز میں معمول کے مطابق اعلان کیا گیا خواتین و حضرات اپنے حفاظتی بند باندھ لیجئیے ، ہم بہت جلد اپنے سفر کو روانہ ہونے والے ہیں ، اس چھوٹی سی ایئر کرافٹ میں تنتیس مسافر سوار تھے اور عملہ کے پانچ افراد. شام ساڑھے پانچ بجے جہاز اپنی منزل کراچی کیلئے آسمان کی جانب بلند ہوا اور اسے ساڑھے چھ بجے کراچی پہنچنا تھا
پرواز کے بیس منٹ کے بعد ایک درازقد جوان اٹھا اور کاک پٹ کی جانب بڑھا ، ائیر ہوسٹس خالدہ آفریدی نے سامنے آتے ہوۓ گزارش کی،
" سر آپ تشریف رکھیں کاک پٹ میں آپکو جانے کی اجازت نہیں۔"
وہ شخص انھیں دھکا دے کر ہٹاتے ہوۓ پائلٹ تک پہنچ گیا اور پسٹل نکال کر پائلٹ عزیر خان کی گردن پر رکھتے ہوۓ خبردار کیا کے وہ اسکے حکم کا پابند ہے ،
اس لمحے اس دہشت گرد کے دو ساتھی بھی اٹھ کھڑے ہوۓ اور پسٹل مسافروں پر تان لئے ،ان میں سے ایک نے کچھ پیکٹ جسم کے ساتھ باندھ رکھے تھے جو کے پھٹنے والا خطرناک مٹیریل تھا ...... خوف اور ہراس کی فضا جہاز میں سرایت کر گئی ، دہشت گرد نے کیپٹن عزیر کو حکم دیا کے یہ جہاز کراچی نہیں انڈیا دہلی ائیرپورٹ جاۓ گا .اس نے کیپٹین عزیر کو گالیاں دیں اور انھیں گن پوائنٹ پر دھمکایا .. کیپٹن نے جہاز میں مسافروں کو آگاہ کیا ،
" معزز خواتین و حضرات جہاز ہائی جیک ہو چکا ہے اور اب یہ انڈیا جاۓ گا"
دہشت گرد نے کیپٹن کو انڈیا ایئر بیس رابطہ کر کے اترنے کی اجازت مانگنے کو کہا ، کیپٹن عزیر نے ظاہری طور اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی جہاز کی سمت بھی بدل دی ، یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان ایئر بیس ہیڈ کوارٹر میں کھلبلی مچ گئی کیوں کے راڈار جہاز کی سمت بدلنے کی نشاندھی کر رہا تھا اور تمام سگنلز ٹریس کر لیے گۓ تھے
پاک ائر فورس کے دو فائٹر جیٹ ایف سکسٹین اسی وقت فضا میں بلند ہوۓ اور انکا ہدف تھا پی آئ اے فوکر کو گھیرنا جو کسی صورت پاک سرزمین سے باہر نہیں جا سکتا تھا
دہشت گرد نے کیپٹن عزیر کو انڈین ہیڈ کوارٹر رابطہ کرنے کو کہا انہوں نے انتہائی شرافت سے بظاہر حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ اپنے ہی اییر بیس ہیڈ کوارٹرملاتے ہوۓ ساتھ ایک مخصوص نمبر کوڈ بولا جو محض نمبر ہی تھے لیکن اس مخصوص کوڈ کا مطلب تھا جہاز ہائی جیک ہو چکا ہے ، کپیٹن صاحب نے پوچھا،
" کیا یہ دہلی ایئر پورٹ ہے ؟"
لیکن اسکے ساتھ ہی انہوں نے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ رابطہ منقطع کر دیا یہ ظاہر کرتے ہوۓ کے دوسری جانب سے کال کو ڈراپ کیا گیا ہے ...یہ سب سنتے ہی ایئر پورٹ ہیڈ کوارٹر میں اعلی حکام کی ارجنٹ میٹنگ میں ایکشن پلان بنایا گیا ، یہ معلوم ہو چکا تھا کے دہشت گرد جہاز انڈیا لے کر جانا چاہتے ہیں لہذا ایکشن پلان میں فیصلہ یہ ہوا کے فوکر کو حیدرآباد سندھ ائیرپورٹ پر اتارا جاۓ گا ، اس کے لئے پولیس فورس کے اعلی تربیت یافتہ اور ضرار کمانڈو فورس بٹالین سے دستہ منگوا لیا گیا ، پاک آرمی رینجر کا دستہ بھی ہائی الرٹ تھا
: اصل ڈرامہ تو ابھی شروع ہونے کو تھا
کیپٹن عزیر خان اپنے سسٹم سے ملنے والے خاموش سگنلز سے جان چکے تھے کے وہ دو عدد فائٹر جیٹ کے گھیرے میں ہیں جنکا علم صرف انہی کو تھا ۔ اب انہوں نے دہشت گردوں کے لیے بہانہ بناتے ہوۓ کہا،
" ہمارے پاس کافی ایندھن نہیں ہے جو ہمیں دہلی لے جاسکے ہمیں قریبی ائیر پورٹ سے ایندھن اور خوراک لینا پڑے گی "
ہائی جیکرز کا تعلق بوچستان سٹوڈنٹس تنظیم سے تھا وہ ہر صورت جہاز نیو دہلی لے جانا چاہتے تھے ان کے پاس نقشہ بھی تھا اور وہ نقشہ دیکھ کر آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے وہ بار بار نقشہ دیکھتے ہوۓ بھوج ائیرپورٹ کو نقشے میں دیکھ کر ذکر کر رہے تھے ، انکی باتیں سن کر کیپٹن نے کہا کے انڈیا کا بھوج ائیر پورٹ قریب پڑتا ہے وہاں تک جہاز جا سکتا ہے . لیکن اسکے لیے انڈین ہیڈ کوارٹر سے اجازت لینا ہوگی
اب اگلا مرحلہ تھا بھوج ائیرپورٹ رابطہ کر کے اترنے کی اجازت لی جاۓ ، کیپٹن عزیر جانتے تھے قریبی ائرپورٹ سندھ کا حیدرآباد ائیر پورٹ ہی تھا ، انہوں نے وہاں رابطہ کرتے ہوۓ یہ پوچھا،
" کیا یہ بھوج ائیر پورٹ ہے کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں ؟"
یہ پاکستانی حکام کو انکا سیکرٹ سگنل تھا کے دہشت گرد بھوج ائیر پورٹ اترنا چاہتے ہیں ..
جواب میں ٹھیٹھ ہندی میں ایک تربیت یافتہ ائیر پورٹ آفیسر نے کال ہینڈل کرنا شروع کی ۔
یہاں سے دہشت گردوں نے ان سے مذاکرات کرنا شروع کئے اور بتایا کہ
" وہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں یہاں تینتیس مسافر ہیں پانچ عملہ کے لوگ ہیں وہ حکومت پاکستان کے انڈیا کے مقابلہ میں نیوکلئیر تجربے کرنے کے خلاف ہیں اور اس ہائی جیک سے وہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کے وہ یہ تجربے نہ کریں ، اسکے ساتھ ہی انہوں نے جئے ہند کے نعرے لگاۓ اور کہا کے وہ انڈیا کی مدد کریں گے اور پاکستان کا یہ جہاز انڈیا لے کر داخل ہونا چاہتے ہیں ، انھیں اجازت دی جاۓ انھیں بھوج ائیر بیس پر اترنے دیں کے جہاز کو ایندھن اور مسافروں کو خوراک پانی چاہئیے"
انتہائی ہوشیاری سے آفیسر نے ٹھیٹھ ہندی زبان بولتے ہوۓ دہشت گردوں کو تاثر دیا کے وہ انڈیا سے بول ریا ہے ساتھ میں اس نے ان سے ان کی شناخت کے بارے میں پوچھا کہ وہ کون ہیں ہم آپ پر اعتبار کیوں کریں ؟ نتیجے میں دہشت گردوں نے اپنا نام اور رہائشی علاقوں کے بارے میں بتایا کے وہ بلوچستان سٹوڈنٹ فیڈریشن سے تعلق رکھتے ہیں ....سیکورٹی افسران نے منٹوں میں انکا ڈیٹا حاصل کر لیا ....کچھ تگ و دو کے بعد انھیں بتایا گیا کے پردھان منتری سے بات کرنے کے بعد انکی ڈیمانڈ منظور کرتے ہوۓ بھوج ائرپورٹ اترنے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔
خوشی سے دہشت گردوں نے جئے ہند اور جے ماتا کی جے کے نعرے لگاۓ جبکے دوسری جانب ہیڈ کواٹر سے بھی جے ہند کے نعرے لگاۓ گۓ ..
کیپٹن عزیر کو اپنے افسران کی جانب سے اس سارے ڈرامے کا اور جعلی نعروں کا علم تھا لیکن وہ بلکل خاموشی سے بیٹھے رہے ...
اس دوران ہنگامی طور پر حیدرآباد ائیر پورٹ سے پائلٹس کو کال کر کے تمام جہاز ائر پورٹ سے ہٹانے کا حکم دیا گیا ، شکار کے لیے جال تیار کیا جا رہا تھا پولیس فورس نے ائیر بیس کی جانب جانے والے تمام راستے بند کر دیۓ ۔ کمانڈوز اور رینجرز مستعد کھڑے تھے ، افسران کی نگاہیں سکرین پر تھیں ، اب جہاز نے ٹائم پاس کرنا تھا اس لیے کے وہ پہلے ہی حیدرآباد کی حدود میں ہی تھا ۔ کیپٹن عزیر کمال ہوشیاری اور ذہانت سے جہاز مزید بلندی پر لے گۓ اور وہیں ایک ہی زون میں گھماتے رہے اور ظاہر یہ کرتے رہے کے وہ انڈیا جا رہے ہیں جبکے ایف سکسٹین کے فائٹر جیٹ انکے ارد گرد تھے ، فائٹر جیٹ انکو مانیٹر کر رہے تھے جنکا کیپٹن عزیر کو بخوبی علم تھا
رات کے اس وقت حیدرآباد ائیر پورٹ پر تمام لائٹس بند کر دی گئیں ساتھ میں سارے شہر کی بجلی بھی بند کر دی گئی ....تاکے دہشت گرد رات کے اندھیرے میں علاقہ نہ پہچان سکیں ، ائیر پورٹ بیس سے پاک سرزمین کا ہلالی پرچم اتار کر انڈیا کا پرچم لہرا دیا گیا ، ہیڈ کوارٹر سے ہدایات ہندی میں ہی دی جارہی تھیں ، اور پھر کیپٹن صاحب جہاز کو لے راڈار سگنلز فالو کرتے ہوۓ جعلی بھوج ائرپورٹ کو لینڈ کرنے والے تھے ، سارا ائرپورٹ خالی تھا وہاں دہشت گردوں نے انڈیا کا پرچم لہراتے دیکھا تو جئے ہند کے نعرے بلند کئے ،ساتھ میں کیپٹن عزیر کو گالیاں دیں ، تمام کمانڈوز ، ضرار فورس کے جوان اور آرمی رینجرز گھات لگاۓ جہاز کے اترنے کا انتظار کر رہے تھے جہاز اترتے ہی پولیس فورس اور رینجرز نے گھپ اندھیرے میں گاڑیاں جہاز کے آگے کھڑی کر دیں کے وہ ٹیک آف نہ کرسکے ،
پھر وہاں کے عملہ کے روپ میں تین اہلکار بات چیت کے بہانے جہاز میں بغیر ہتھیار کے جائزہ لینے کے لیے داخل ہوۓ ، وہ پولیس فورس کے تربیت یافتہ کمانڈوز تھے ، جنہوں نے رضاکارانہ طور پر جہاز کے اندر بغیر ہتھیاروں کے داخل ہونے کے لیے خود کو پیش کیا ..
انہوں نے انڈین فورس کی وردی میں ہندو بنیے کے لہجے میں ٹھیٹھ ہندی لہجے میں دہشت گردوں سے بات چیت کرنا شروع کی .. گویا یہ انڈیا تھا اور یہ بھوج ائر پورٹ ہے ، دہشت گرد ایندھن اور خوراک چاہتے تھے لیکن بات چیت طویل ہوتی جارہی تھی ، تینوں اہلکاروں کا ہدف تھا کہ وہ جہاز کے اندر کی صورتحال کا جائزہ لیں خاص طور پر وہ شخص جس نے جسم پر پیکٹ باندھ رکھے تھے وہ ان کے ہتھیاروں کو بھی دیکھنا چاہتے تھے کے ایکشن کی صورت میں جہاز میں موجود خواتین اور بچوں کووہ کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں ......
ایک اہلکار نے دہشت گردوں کو قائل کیا کے آپ پہلے ہی انڈیا میں ہو اس لیے عورتوں بچوں کو یہیں اتار کر آپ دہلی چلے جاؤ ، رات گیارہ بجے جہاز سے آخر عورتیں اور بچے اترنا شروع ہوے ان مسافروں کے جہاز سے اترنے کی دیر تھی کے جہاز کے چاروں طرف اندھیرے میں خاموشی سے رینگتے ہوۓ کمانڈوز ایک ہی ہلے میں تیزی کے ساتھ پہلے اور دوسرے دروازے سے اللہ اکبر کی چنگاڑ کے ساتھ دہشت گردوں پر حملہ آور ہوۓ اللہ اکبر کے نعرے نے دہشت گردوں کو حیرت زدہ کر دیا ، کہ یہ انڈیا میں اللہ اکبر کا نعرہ کیسے بلند ہوا ؟
بد حواسی میں ایک دہشت گرد نے فائر کیا جو ضائع گیا ریکارڈ کے مطابق دو منٹ کے اندر تینوں دہشت گردوں کو قابو کر کے باندھ دیا گیا ، وہ حیران پریشان تھے یہ بھوج ائیرپورٹ پراللہ اکبر والے کہاں سے آگئے ، چیف کمانڈو نے آگے بڑھ کر زمین پر بندھے ہوئے دہشت گردوں کی طرف جھکتے ہوۓ انکی حیرت زدہ آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا... 'ویلکم ٹو پاکستان
کپیٹن عزیر بڑے ہی سکون سے بیٹھے ساری صورتحال خاموشی سے دیکھ رہے تھے پھر وہ بڑے آرام سے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں کے قریب سے مسکراتے ہوۓ جہاز سے اتر گئے ۔
اس سارے ڈرامہ کے ہیرو کپٹن عزیر کو اعزازی میڈل دئیے گۓ اس لیے کے انہوں نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا ، درست کوڈ بولا ، خود ہی جہاز کو بلندی پر لے گۓ اور ایندھن نہ ہونے کا بہانہ بھی انہوں نے یونہی بنایا تھا .
گالیوں کے جواب میں انہوں نے صبر سے کام لیا ..اس مشن میں حصہ لینے والے پولیس فورس آرمی افسران ، کمانڈو اور پولیس فورس کے سربراہان کو بھی اعزاز سے نوازا گیا
سترہ سال بعد دو ہزار پندرہ میں تینوں دہشت گردوں کو اٹھائیس مئی کو سزاۓ موت دے دی گئی
کپیٹن عزیر کی ذہانت عقلمندی اور ہوشمندی نے پاکستان کوکسی عظیم نقصان سے بچا لیا ، وہ بعد میں ٹرینی پائلٹس کو لیکچر بھی دیتے رہے اور جب اس واقعہ کے بعد صحافیوں نےان سے سوال کیے تو وہ بولے ' اگر دشمن یہ سمجھتے ہیں کے ہم موت سے ڈرتے ہیں تو سن لیں مسلمان موت سے نہیں ڈرتا اور شہادت تو مسلمان کے لیے انعام ہے
پاکستان کے دشمنوں کو خبر ہو کے جس وطن کے بیٹے اتنے دلیر اور جانثار ہوں اس سرزمین کو کوئی شکست نہیں دے سکتا پاکستان ڈیفنس فورسز اس ملک کے چپے چپے کی حفاظت اللہ کی مدد سے کریں گے
24 مئی 1998
پی آئ اے فوکر ستائیس جو کے تربت ائیرپورٹ سے چلا تھا ، گوادر انٹرنشنل ایئر پورٹ سے کراچی روانہ ہونے کو تیار کھڑا تھا تھا ، روانگی سے قبل جہاز میں معمول کے مطابق اعلان کیا گیا خواتین و حضرات اپنے حفاظتی بند باندھ لیجئیے ، ہم بہت جلد اپنے سفر کو روانہ ہونے والے ہیں ، اس چھوٹی سی ایئر کرافٹ میں تنتیس مسافر سوار تھے اور عملہ کے پانچ افراد. شام ساڑھے پانچ بجے جہاز اپنی منزل کراچی کیلئے آسمان کی جانب بلند ہوا اور اسے ساڑھے چھ بجے کراچی پہنچنا تھا
پرواز کے بیس منٹ کے بعد ایک درازقد جوان اٹھا اور کاک پٹ کی جانب بڑھا ، ائیر ہوسٹس خالدہ آفریدی نے سامنے آتے ہوۓ گزارش کی،
" سر آپ تشریف رکھیں کاک پٹ میں آپکو جانے کی اجازت نہیں۔"
وہ شخص انھیں دھکا دے کر ہٹاتے ہوۓ پائلٹ تک پہنچ گیا اور پسٹل نکال کر پائلٹ عزیر خان کی گردن پر رکھتے ہوۓ خبردار کیا کے وہ اسکے حکم کا پابند ہے ،
اس لمحے اس دہشت گرد کے دو ساتھی بھی اٹھ کھڑے ہوۓ اور پسٹل مسافروں پر تان لئے ،ان میں سے ایک نے کچھ پیکٹ جسم کے ساتھ باندھ رکھے تھے جو کے پھٹنے والا خطرناک مٹیریل تھا ...... خوف اور ہراس کی فضا جہاز میں سرایت کر گئی ، دہشت گرد نے کیپٹن عزیر کو حکم دیا کے یہ جہاز کراچی نہیں انڈیا دہلی ائیرپورٹ جاۓ گا .اس نے کیپٹین عزیر کو گالیاں دیں اور انھیں گن پوائنٹ پر دھمکایا .. کیپٹن نے جہاز میں مسافروں کو آگاہ کیا ،
" معزز خواتین و حضرات جہاز ہائی جیک ہو چکا ہے اور اب یہ انڈیا جاۓ گا"
دہشت گرد نے کیپٹن کو انڈیا ایئر بیس رابطہ کر کے اترنے کی اجازت مانگنے کو کہا ، کیپٹن عزیر نے ظاہری طور اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی جہاز کی سمت بھی بدل دی ، یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان ایئر بیس ہیڈ کوارٹر میں کھلبلی مچ گئی کیوں کے راڈار جہاز کی سمت بدلنے کی نشاندھی کر رہا تھا اور تمام سگنلز ٹریس کر لیے گۓ تھے
پاک ائر فورس کے دو فائٹر جیٹ ایف سکسٹین اسی وقت فضا میں بلند ہوۓ اور انکا ہدف تھا پی آئ اے فوکر کو گھیرنا جو کسی صورت پاک سرزمین سے باہر نہیں جا سکتا تھا
دہشت گرد نے کیپٹن عزیر کو انڈین ہیڈ کوارٹر رابطہ کرنے کو کہا انہوں نے انتہائی شرافت سے بظاہر حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ اپنے ہی اییر بیس ہیڈ کوارٹرملاتے ہوۓ ساتھ ایک مخصوص نمبر کوڈ بولا جو محض نمبر ہی تھے لیکن اس مخصوص کوڈ کا مطلب تھا جہاز ہائی جیک ہو چکا ہے ، کپیٹن صاحب نے پوچھا،
" کیا یہ دہلی ایئر پورٹ ہے ؟"
لیکن اسکے ساتھ ہی انہوں نے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ رابطہ منقطع کر دیا یہ ظاہر کرتے ہوۓ کے دوسری جانب سے کال کو ڈراپ کیا گیا ہے ...یہ سب سنتے ہی ایئر پورٹ ہیڈ کوارٹر میں اعلی حکام کی ارجنٹ میٹنگ میں ایکشن پلان بنایا گیا ، یہ معلوم ہو چکا تھا کے دہشت گرد جہاز انڈیا لے کر جانا چاہتے ہیں لہذا ایکشن پلان میں فیصلہ یہ ہوا کے فوکر کو حیدرآباد سندھ ائیرپورٹ پر اتارا جاۓ گا ، اس کے لئے پولیس فورس کے اعلی تربیت یافتہ اور ضرار کمانڈو فورس بٹالین سے دستہ منگوا لیا گیا ، پاک آرمی رینجر کا دستہ بھی ہائی الرٹ تھا
: اصل ڈرامہ تو ابھی شروع ہونے کو تھا
کیپٹن عزیر خان اپنے سسٹم سے ملنے والے خاموش سگنلز سے جان چکے تھے کے وہ دو عدد فائٹر جیٹ کے گھیرے میں ہیں جنکا علم صرف انہی کو تھا ۔ اب انہوں نے دہشت گردوں کے لیے بہانہ بناتے ہوۓ کہا،
" ہمارے پاس کافی ایندھن نہیں ہے جو ہمیں دہلی لے جاسکے ہمیں قریبی ائیر پورٹ سے ایندھن اور خوراک لینا پڑے گی "
ہائی جیکرز کا تعلق بوچستان سٹوڈنٹس تنظیم سے تھا وہ ہر صورت جہاز نیو دہلی لے جانا چاہتے تھے ان کے پاس نقشہ بھی تھا اور وہ نقشہ دیکھ کر آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے وہ بار بار نقشہ دیکھتے ہوۓ بھوج ائیرپورٹ کو نقشے میں دیکھ کر ذکر کر رہے تھے ، انکی باتیں سن کر کیپٹن نے کہا کے انڈیا کا بھوج ائیر پورٹ قریب پڑتا ہے وہاں تک جہاز جا سکتا ہے . لیکن اسکے لیے انڈین ہیڈ کوارٹر سے اجازت لینا ہوگی
اب اگلا مرحلہ تھا بھوج ائیرپورٹ رابطہ کر کے اترنے کی اجازت لی جاۓ ، کیپٹن عزیر جانتے تھے قریبی ائرپورٹ سندھ کا حیدرآباد ائیر پورٹ ہی تھا ، انہوں نے وہاں رابطہ کرتے ہوۓ یہ پوچھا،
" کیا یہ بھوج ائیر پورٹ ہے کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں ؟"
یہ پاکستانی حکام کو انکا سیکرٹ سگنل تھا کے دہشت گرد بھوج ائیر پورٹ اترنا چاہتے ہیں ..
جواب میں ٹھیٹھ ہندی میں ایک تربیت یافتہ ائیر پورٹ آفیسر نے کال ہینڈل کرنا شروع کی ۔
یہاں سے دہشت گردوں نے ان سے مذاکرات کرنا شروع کئے اور بتایا کہ
" وہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں یہاں تینتیس مسافر ہیں پانچ عملہ کے لوگ ہیں وہ حکومت پاکستان کے انڈیا کے مقابلہ میں نیوکلئیر تجربے کرنے کے خلاف ہیں اور اس ہائی جیک سے وہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کے وہ یہ تجربے نہ کریں ، اسکے ساتھ ہی انہوں نے جئے ہند کے نعرے لگاۓ اور کہا کے وہ انڈیا کی مدد کریں گے اور پاکستان کا یہ جہاز انڈیا لے کر داخل ہونا چاہتے ہیں ، انھیں اجازت دی جاۓ انھیں بھوج ائیر بیس پر اترنے دیں کے جہاز کو ایندھن اور مسافروں کو خوراک پانی چاہئیے"
انتہائی ہوشیاری سے آفیسر نے ٹھیٹھ ہندی زبان بولتے ہوۓ دہشت گردوں کو تاثر دیا کے وہ انڈیا سے بول ریا ہے ساتھ میں اس نے ان سے ان کی شناخت کے بارے میں پوچھا کہ وہ کون ہیں ہم آپ پر اعتبار کیوں کریں ؟ نتیجے میں دہشت گردوں نے اپنا نام اور رہائشی علاقوں کے بارے میں بتایا کے وہ بلوچستان سٹوڈنٹ فیڈریشن سے تعلق رکھتے ہیں ....سیکورٹی افسران نے منٹوں میں انکا ڈیٹا حاصل کر لیا ....کچھ تگ و دو کے بعد انھیں بتایا گیا کے پردھان منتری سے بات کرنے کے بعد انکی ڈیمانڈ منظور کرتے ہوۓ بھوج ائرپورٹ اترنے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔
خوشی سے دہشت گردوں نے جئے ہند اور جے ماتا کی جے کے نعرے لگاۓ جبکے دوسری جانب ہیڈ کواٹر سے بھی جے ہند کے نعرے لگاۓ گۓ ..
کیپٹن عزیر کو اپنے افسران کی جانب سے اس سارے ڈرامے کا اور جعلی نعروں کا علم تھا لیکن وہ بلکل خاموشی سے بیٹھے رہے ...
اس دوران ہنگامی طور پر حیدرآباد ائیر پورٹ سے پائلٹس کو کال کر کے تمام جہاز ائر پورٹ سے ہٹانے کا حکم دیا گیا ، شکار کے لیے جال تیار کیا جا رہا تھا پولیس فورس نے ائیر بیس کی جانب جانے والے تمام راستے بند کر دیۓ ۔ کمانڈوز اور رینجرز مستعد کھڑے تھے ، افسران کی نگاہیں سکرین پر تھیں ، اب جہاز نے ٹائم پاس کرنا تھا اس لیے کے وہ پہلے ہی حیدرآباد کی حدود میں ہی تھا ۔ کیپٹن عزیر کمال ہوشیاری اور ذہانت سے جہاز مزید بلندی پر لے گۓ اور وہیں ایک ہی زون میں گھماتے رہے اور ظاہر یہ کرتے رہے کے وہ انڈیا جا رہے ہیں جبکے ایف سکسٹین کے فائٹر جیٹ انکے ارد گرد تھے ، فائٹر جیٹ انکو مانیٹر کر رہے تھے جنکا کیپٹن عزیر کو بخوبی علم تھا
رات کے اس وقت حیدرآباد ائیر پورٹ پر تمام لائٹس بند کر دی گئیں ساتھ میں سارے شہر کی بجلی بھی بند کر دی گئی ....تاکے دہشت گرد رات کے اندھیرے میں علاقہ نہ پہچان سکیں ، ائیر پورٹ بیس سے پاک سرزمین کا ہلالی پرچم اتار کر انڈیا کا پرچم لہرا دیا گیا ، ہیڈ کوارٹر سے ہدایات ہندی میں ہی دی جارہی تھیں ، اور پھر کیپٹن صاحب جہاز کو لے راڈار سگنلز فالو کرتے ہوۓ جعلی بھوج ائرپورٹ کو لینڈ کرنے والے تھے ، سارا ائرپورٹ خالی تھا وہاں دہشت گردوں نے انڈیا کا پرچم لہراتے دیکھا تو جئے ہند کے نعرے بلند کئے ،ساتھ میں کیپٹن عزیر کو گالیاں دیں ، تمام کمانڈوز ، ضرار فورس کے جوان اور آرمی رینجرز گھات لگاۓ جہاز کے اترنے کا انتظار کر رہے تھے جہاز اترتے ہی پولیس فورس اور رینجرز نے گھپ اندھیرے میں گاڑیاں جہاز کے آگے کھڑی کر دیں کے وہ ٹیک آف نہ کرسکے ،
پھر وہاں کے عملہ کے روپ میں تین اہلکار بات چیت کے بہانے جہاز میں بغیر ہتھیار کے جائزہ لینے کے لیے داخل ہوۓ ، وہ پولیس فورس کے تربیت یافتہ کمانڈوز تھے ، جنہوں نے رضاکارانہ طور پر جہاز کے اندر بغیر ہتھیاروں کے داخل ہونے کے لیے خود کو پیش کیا ..
انہوں نے انڈین فورس کی وردی میں ہندو بنیے کے لہجے میں ٹھیٹھ ہندی لہجے میں دہشت گردوں سے بات چیت کرنا شروع کی .. گویا یہ انڈیا تھا اور یہ بھوج ائر پورٹ ہے ، دہشت گرد ایندھن اور خوراک چاہتے تھے لیکن بات چیت طویل ہوتی جارہی تھی ، تینوں اہلکاروں کا ہدف تھا کہ وہ جہاز کے اندر کی صورتحال کا جائزہ لیں خاص طور پر وہ شخص جس نے جسم پر پیکٹ باندھ رکھے تھے وہ ان کے ہتھیاروں کو بھی دیکھنا چاہتے تھے کے ایکشن کی صورت میں جہاز میں موجود خواتین اور بچوں کووہ کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں ......
ایک اہلکار نے دہشت گردوں کو قائل کیا کے آپ پہلے ہی انڈیا میں ہو اس لیے عورتوں بچوں کو یہیں اتار کر آپ دہلی چلے جاؤ ، رات گیارہ بجے جہاز سے آخر عورتیں اور بچے اترنا شروع ہوے ان مسافروں کے جہاز سے اترنے کی دیر تھی کے جہاز کے چاروں طرف اندھیرے میں خاموشی سے رینگتے ہوۓ کمانڈوز ایک ہی ہلے میں تیزی کے ساتھ پہلے اور دوسرے دروازے سے اللہ اکبر کی چنگاڑ کے ساتھ دہشت گردوں پر حملہ آور ہوۓ اللہ اکبر کے نعرے نے دہشت گردوں کو حیرت زدہ کر دیا ، کہ یہ انڈیا میں اللہ اکبر کا نعرہ کیسے بلند ہوا ؟
بد حواسی میں ایک دہشت گرد نے فائر کیا جو ضائع گیا ریکارڈ کے مطابق دو منٹ کے اندر تینوں دہشت گردوں کو قابو کر کے باندھ دیا گیا ، وہ حیران پریشان تھے یہ بھوج ائیرپورٹ پراللہ اکبر والے کہاں سے آگئے ، چیف کمانڈو نے آگے بڑھ کر زمین پر بندھے ہوئے دہشت گردوں کی طرف جھکتے ہوۓ انکی حیرت زدہ آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا... 'ویلکم ٹو پاکستان
کپیٹن عزیر بڑے ہی سکون سے بیٹھے ساری صورتحال خاموشی سے دیکھ رہے تھے پھر وہ بڑے آرام سے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں کے قریب سے مسکراتے ہوۓ جہاز سے اتر گئے ۔
اس سارے ڈرامہ کے ہیرو کپٹن عزیر کو اعزازی میڈل دئیے گۓ اس لیے کے انہوں نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا ، درست کوڈ بولا ، خود ہی جہاز کو بلندی پر لے گۓ اور ایندھن نہ ہونے کا بہانہ بھی انہوں نے یونہی بنایا تھا .
سترہ سال بعد دو ہزار پندرہ میں تینوں دہشت گردوں کو اٹھائیس مئی کو سزاۓ موت دے دی گئی
کپیٹن عزیر کی ذہانت عقلمندی اور ہوشمندی نے پاکستان کوکسی عظیم نقصان سے بچا لیا ، وہ بعد میں ٹرینی پائلٹس کو لیکچر بھی دیتے رہے اور جب اس واقعہ کے بعد صحافیوں نےان سے سوال کیے تو وہ بولے ' اگر دشمن یہ سمجھتے ہیں کے ہم موت سے ڈرتے ہیں تو سن لیں مسلمان موت سے نہیں ڈرتا اور شہادت تو مسلمان کے لیے انعام ہے
پاکستان کے دشمنوں کو خبر ہو کے جس وطن کے بیٹے اتنے دلیر اور جانثار ہوں اس سرزمین کو کوئی شکست نہیں دے سکتا پاکستان ڈیفنس فورسز اس ملک کے چپے چپے کی حفاظت اللہ کی مدد سے کریں گے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں