Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 4 جون، 2015

مودی کی چڑیا اور ڈرون کبوتر

معلوم نہیں ہاں سے ایک اُڑتی چڑیا آئی اور ہمارے کندے پر بیٹھ گئی ، ہم حیران و پریشان ہوئے کہ ہیں یہ اپنئ نجم سیٹھی کی وہی چڑیا تو نہیں ؟
لیکن غور سے دیکھا تو یہ چڑیا کم اور چریا نظر آئی ، کیوں کہ وہ پریشانی اور عجلت کا اظہار کرتے ہوئے دائیں بائیں خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ، میرے ہاتھ میں، بنے ہوئے چنے تھے جو میں انگلی کے اشارے سے اپنے منہ میں پھینک رہا تھا ۔ جب چڑیا کے اوسان بحال ہوئے ، تو اُس نے میرے منہ کی طرف آتا ہوا ، چنا ہوا میں اُچک لیا ۔ جب اُس نے تین چار بار ایسا کیا تو میں نے ، اپنے منہ کی طرف چنوں کی سپلائی بند کر دی ۔ اور اِس بن بلائی چڑیا سے پوچھا ،
" پانی پیو گی ؟ "
" نہیں ، چنے پھینکو  " وہ بولی
" کیوں ؟ تم پیاسی معلوم ہوتی ہو ! " میں نے سوال و بیان ایک ساتھ دیا ۔
" چنےکھاتے وقت پانی نہیں پیا جاتا " چڑیا بولی ۔
' وہ کیوں ؟ کیا یہ حکمت کا کوئی راز ہے ؟ " میں نے پوچھا
" نہیں ، چنے کم کھائے جاتے ہیں ! " اور چنا اچک لیا
" میرے ساتھ تو ایسا نہیں ہے " میں نے چنا اپنے منہ کی طرف پھینتے ہوئے کہا
اُس نے چنا نہیں اُچکا کیوں کہ باری باری کا ایک غیر تحریری معاہدہ ہو چکا ہے ۔
" اپنے اور میرے پیٹ کا فرق دیکھو " اُس نے کہا ۔ 
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے " میں نے بات کو دانستہ موڑتے ہوئے پوچھا ، " کہاں سے آئی ہو ؟ "
" دلّی سے " اس ے چنا نگلتے ہوئے کہا
" اچھا اچھا ، اپنے ببن میاں ، دلّی بریانی والے نے بھیجا ہے ؟ " ہم نے کہا ،" بولو کیا بات ہے ؟"
" نہیں ، نریندر نے بھیجا ہے " وہ بولی
" نریندر ! یہ کون ہے ؟ لیکن تم تو تھرپاکر سے آئی ہوئی نہیں لگتی ؟" میں نے پیشانی پر سلوٹیں ڈالتے ہوئے پوچھا
" نہیں میجر صاحب ، میں تھرپارکر نہیں ، راشڑپتی بھون دلّی سے آئی ہوں اور مودی باپو نے خاص طور پر تمھارے لئے سندیسہ بھجوایا ہے " اُس نے بیان دیا
" لیکن وہاں تو تمھارا صدر رہتا ہے  مودی کیا وہاں جھاڑو لگانے گیا تھا ؟" میں نے طنزیہ انداز میں پوچھا
" لیکن میں وہیں رہتی ہوں اور مجھے پیغام بھی وہیں دیا گیا ہے " وہ بولی
" کیا پیغام ؟ " میں نے پوچھا

" یہ جو تمھاری آئی ایس آئی ڈرون کبوتر بنا ہی ہے ، اور تمھارے پچھواڑے میں خالی پلاٹ پر میں نے ہو بہو وہی کبوتر دیکھے ہیں، لگتا ہے کہ تم کبوتروں کے سپلائر ہو " وہ پورے یقین سے بولی
میں نے اُس کے یقین پر یہ کہہ کر چوٹ نہیں لگائی، " کہ بے وقوف چڑیا ، یہ ہماری بیگم کا شوق ہے وہ روزانہ ، پیچھے باجرہ اور کنگنی کا آمیزہ ، پھینکتی ہے تاکہ اُس کے ثواب میں اضافہ ہو "
" اچھا تو پھر ؟ اِن کبوتروں کا تم سے یا مودی سے کیا تعق ہے ؟ " میں نے پوچھا ،" تم نے اُن چڑیوں کے بارے میں نہیں پوچھا ، جو باجرہ کھاتی ہیں " 
" کوئی ضرورت نہیں ، تمھارے پاس چڑیوں کو ٹرینڈ کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ، تم لوگ ھندوستانی سرکار سے بہت پیچھے ہو " اُس نے فخر سے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہوئے کہا
"کون سی ٹیکنالوجی ؟ " میں نے پوچھا ۔
" معصوم نہ بنو ، یہ دیکھو " اُس نے ایک تصویر ہماری طرف بڑھاتے ہوئے طذز کیا " یہ را نے  تمھارے خفیہ فیس بک اکاونٹک سے ھیک کر کے لی ہے "
ھم حیران رہ گئے ، یا خدا ! ہمارے دوستوں میں را کے ایجنٹ بھی ہیں ؟ کون ہو سکتا ہے ؟ ہمارا اکاونٹ تو ھیک ہو نہیں سکتا ، کیوں کہ خوبصورت تصویریں دیکھنے کی ہماری عمر گذر چکی ، اور غلطی سے ایک آدھی خوبصورت تصویر پر نظر پڑنے بھی لگے تو ہماری بیگم صوفے کے دوسرے کونے سے ہماری طرف جھکتے ہوئے اور لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے ، پوچھتی ہیں ،
" فلاں آیت کون سے سیپارے میں ، کس سورۃ کا حصہ ہے ؟ "
کیوں کہ ان کی ہماری سوچوں سمیت پورے گھر پر حکمرانی ہے ۔ اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ بڑھاپے میں محلے والے دفنائیں ۔ یاخدا یہ کون ہے ؟ جس نے یہ تصویر اچک لی ، کئی نام دماغ میں گذرنے لگے ، سارے فیس بکی دوستوں کے پروفائل کو ٹٹولا ، اُن کے دوستوں کے دوست ، اُن کے دوست اور ان کے دوستوں ، کی جنم کنڈلی نکلوائی ، سب محب الوطن پاکستانی نکلے ، پھر یہ کون ناخلف ، ناھنجار  بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا نما دوست ہے ؟
تصویر تو وہی تھی انکار بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور " آئی پی " ایڈریس بھی ہمارا تھا ، بلکہ ہمارے پورے لیپ ٹاپ کی تفصیل تصویر کی پشت کے پیچھے درج تھی ، آپ بھی تصویر الٹ کر دیکھ سکتے ہیں ۔
" تو کیا پریشانی ہے ، مودی کو ؟ "ہم نے اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے پوچھا
" یہ جو تم خود کش بمبار کبوتر تیار کر کے ہمارے دیش بھجوا رہے ہو ۔ یہ اچھا نہیں کر ے ۔ یہ کبوتر دوسرے ہندوستانی کبوتروں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ مندر کونسا ہے اور مزار کونسا ؟ " وہ بولی

" دیکھو نا کتنے اچھے ہیں یہ کبوتر ، انہیں مزاروں اور مندروں کی پہچان ہے ، تمھارے خود کش بمباروں کو نہ مندروں کی پہچان تھی نہ کلیسا کی اور نہ مسجد کی " ۔
" ماضی کی بات چھوڑو اور حال کی بات کرو ، یہ چند ہزار کبوتر ہمارا کیا بگاڑ لیں گے ۔ لیکن ہمارے تجربے کا خمیازہ تم بھگتو گے !" بھارتی چڑیا نے مجھے مرعوب کرنے کی کوشش کی 
" اور کونسا تجربہ ، دنیا کا نمبر تین مجرم ، نریندر مودی ۔ بھنگی کردار کرے گا -" میں نے طنز سے پوچھا
چونکہ چڑیا کا پیٹ بھر چکا تھا وہ میرے لیپ ٹاپ پر اُڑ کر جا بیٹھی  اور بولی -
" ۔ یہ میرے دائیں پنجے کے اوپر دیکھ رہے ہو ،مونگ کے دانے کے برابر سیاہ چیز "
" ہاں نظر آرہی ہے کیا تمھیں کوئی بیماری ہے ؟ " میں نے آواز میں ہمدردی سموتے ہوئے پوچھا
" بات تمھاری ٹھیک ہے ، بیماری تو ہے یہ،  میرے لئے نہیں بلکہ پاکستانیوں کے لئے " وہ ایک شان سے بولی
" وہ کیسے ؟میں نے پوچھا  
" اِس کپسول میں ڈینگی مچھروں کے ایک ہزار انڈے ہیں ، جن کی ماؤں کو انڈیا آنے والے پاکستانیوں کے خون پر پالا گیا تھا " وہ بولی
" خون تو خون ہوتا ہے لال رنگ ، ہندوستانی یا پاکستانی نہیں ہوتا! ۔ مچھروں کو کیا پتا کہ یہ خون کس کا ہے ؟" میں نے کہا
" میجر تمھاری غلط فہمی ہے ، مون سون شروع ہوے والا ہے ۔گرم مرطوب موسم مچھروں کی پیدائش بہترین موسم ہوتا ہے ، لیکن یہ انڈے پانی پر نہیں ہوا کی نمی سے مچھر پیدا کریں گے "وہ بولی
" ٹھیک ہے لیکن خون کا کیا فلسفہ ہے ہندوستانی چڑیا ویسے تمھارا کوڈ نام کیا ہے ؟" میں نے طنز کیا ۔
" سرس وتی ۔ اِس پورے آپریشن کا نام " سرس وتی "  ہے " سرس وتی نے معلومات دیں ۔
" سرس وتی ! " میں حیرانی سے بولا ، " لیکن وہ تو نغموں ، پیار ، صحت اور میٹھے جھرنوں کی دیوی ہے !"
" اِس میں کیا شک ہے ۔ ایسا ہی ہے ، لیکن جب وہ دیکھتی ہے کہ کوئی اُس کے راگ کو نہیں سنتا ، پیار کی بولی نہیں سمجھتا تو وہ  وہ اپنے امن کی خاطر چھپائے ہوئی کئی ہاتھوں کو راکھششوں کی طاقت کے مطابق نکالتی ہے اور مہا سروتی بن کر دیوی مہاتما کا روپ دھارن کرتی ہے اور اُس میں اتنی شکتی آجاتی ہے کہ وہ مہا کالی یا مہا لکشمی کے روپ میں آجاتی ہے ۔ اِس وقت وہ ہندوستان میں ، درگا کا روپ دھارن کر کے " مہیشس سورا، ماردینی   Mahisasura mardini " بن کر اُن مہیشس سورا، راکھششوں سے یدھ کر رہی ہے جو ، بھینس اور گئؤ ماتا ھتیا کر رہے ہیں ۔ ""لیکن اس کا مچھروں کا پاکستانی ، خون پر پلنے سے کیا تعلق ہے ؟ یہ کہانیاں تو میں جانتا ہوں  بچپن میں بلکہ نوجوانی میں  سب رنگ اور سسپنس ڈائجسٹ پڑھی ہیں  ، اُن میں تمھارے مذھب کے متعلق بہت معلومات ہوتی تھیں ، ویسے بھی میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! اچھا چھوڑو ، مطب کی بات بتاؤ" میں نے بھارتی سرسوتی کی اوتار سے پوچھا
" بات یہ ہے ، میجر صاحب ، یہ جو انگریزوں نے بٹوارا کیا تھا اور اکھنڈ بھارت کے سینے میں خنجر گھونپ کر اسے چاک کیا تواِس کے دونوں طرف ، گئؤ ماتا اور بھینس کا ماس کھانے والے رہتے ہیں ، دکھ کی بات یہ ہے کہ سکھوں کے ساتھ ، سرسوتی کے پجاری بھی چٹخارے لے کر کھاتے ہیں اور تم بھی اِن میں شامل ہو "
" اچھا تو پھر ؟ " میں نے پوچھا
" جو گئو یا بھینس ماس کھاتے ہیں ، یہ مچھر صرف انہیں کاٹیں گے ، لہذا پردھان منتری کے انوچار ، ہندوستان میں یہ ماس نہ کھانے کا سختی سے حکم جاری ہو گیا ہے تاکہ تمھارے ملک میں چھوڑے جانے والے مچھر واپس مڑ کر پورس کے ہاتھیوں کی طرح،  ہمارے باسیوں پر حملہ نہ شروع کر دیں " سرس وتی چڑیا بولی
" شکر ہے میں بھینس ماس نہیں کھاتا اور گئو ماس ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے ۔ " میں خوشی سے بولا 
 " جھوٹ مت بولو مجھے تم سے گئو ماس کی مہک آ رہی ہے " وہ غصے میں بولی
 " گئو ماس ؟ اور اچھا وہ تو میں نے " دَم " کیا ہوا قیمہ کھایا تھا ۔" میں جھوٹ پکڑے جانے پر ڈھٹائی سے بولا
 " تمھاری جورو "بریلوی" ہے ؟ جو قیمے پر دم کرتی ہے ؟ " وہ پریشان ہو کر بولی
 " ارے نہیں سرسوتی  ، تم کیا سمجھو قیمے پر یہ "دَم" کیا ہوتا ہے ۔ اِس سے قیمہ اتنا مزیدار ہو جاتا ہے  کہ کیا بتاؤں " میں چٹخارے لیتا ہوا بولا
 " بھاڑ میں جائے دَم ، یہ بتاؤ ،  کیا تم اپنے سینا پتی کو ، پردھان منتری کا یہ پیغام دو گے ؟  کہ مزاروں پر پلنے والے معصوم کبوتروں کو خود کش بمبار بنانا چھوڑ دے اور تم اِن کی سپلائی سے ھاتھ روک لو " سرسوتی نے نصیحت کی

خبیث چڑیا ، میرے ہی چنے ٹھونگ کر مجھے ہی نصیحت کر رہی ہے ۔
 

" اور اگر تمھارے پردھان منتری کی بات نہ مانوں تو ؟ " میں نے کہا
میرے یہ الفاظ ادا ہوتے ہی سرسوتی کے چار پر اور نکل آئے اور وہ غراتی ہوئی بولی ،
 " مجھے معلوم تھا کہ یہ گھی سیدھی انگلیوں نہیں نکلے گا ، پہلے تمھیں نرکھ میں بھجواتی ہوں " 

یہ کہتے ہی وہ اُڑ کر کافی اوپر چلی گئی اور وہاں سے اُس نے اپنے پیر میں بندھا ہوا  ،
مونگ کے دانے کے برابر سیاہ کیپسول توڑ دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ، اُس میں سے نکلنے والے ڈینگی مچھریا کے انڈے ، شتر مرغ کے انڈوں میں تبدیل ہوکر پھٹنے لگے اور اُس میں سے ہاتھیوں کے برابر مچھر نکلتے ہیں ۔ ایک مجھ پر آ کر گرتا ہے اور اپنی ٹیکے کی مانند خوفناک سونڈ میری طرف بڑھاتے ہوئے ہنستا ہے ، 

ہیں یہ کیا یہ تو" سرسوتی " بھارتی چڑیا ہے جو درگا کی شکل اختیار کر گئی ہے ۔ میں اُس کی سونڈ پکڑ لی ، اور زور لگاتے ہوئے بولا ،
نہیں چھوڑوں گا سرسوتی ،
اُتر میرے اوپر سے ،
ارے نومن کی دھوبن میرا دم گھٹ رہا ہے -
چھوڑ مجھے ، پھر تجھے دیکھتا ہوں"
نہیں چھوڑوں گا تجھے  سرس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ،
کہ اچانک زلزلہ آگیا ، اور آنکھوں دھند چھا گئی ، دھند میں سے سوال ہوا ۔
" یہ سرسوتی کون ہے جی ؟ "
ہیں خواتین بھی منکر نکیر میں بھرتی ہونے لگیں ، ہماری سوچ اُبھری ، دھند چھٹی تو بیگم کا چہرہ نظر آیا

" بیوی تم بھی یہاں ہو ؟ " میں نے مریل آواز میں پوچھا  

" جہنم میں بھی ساتھ نہیں چھوڑوں  گی ، یہ سرس وتی کون ہے ؟ لو پانی پیو " بیوی غراتی ہوئی بولی
" اُبلتا ہوا پانی ہوگا ؟ " میں نے پوچھا
" نہیں کولر کا ٹھنڈا پانی ہے " بیوی بولی " کیا کوئی حسین خواب دیکھا ہے ، جس کا اختتام بُرا ہوا ہے ؟ " 


 ہم نے پوری آنکھیں کھول کر دیکھا ہم اپنے کمرے میں ہیں پنکھا بند ہے ، جسم پسینے میں شرابور ہے اور وقت چھ بجنے میں دس منٹ ہیں اور بیوی پانی لیے کھڑی ہے ۔
 
" بس چھ بجے لائیٹ آنے والی ہے ، آپ جاکر نئی بیٹری کیوں نہیں لاتے؟ " بیوی شکایت بھرے لہجے میں بولی
















1 تبصرہ:

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔