”رباء“ اور ”سود“ عربی اور اردو کے دو الفاظ ۔ جو ہم معنی کہے جاتے ہیں ۔اگر ہم ”سود“ کو عربی زبان کا ہی لفظ سمجھیں تو اس کا مادہ ”س۔و۔د“ہے۔یعنی کالا (کالی رقم تو ویسے ہی جائز نہیں)۔
بہر حال، رباء کا مادہ ”ر۔ب۔و“ہے ۔ اس سے بننے والے الفاظ کا کتاب اللہ سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ " بڑھنے" کا فہم دیتا ہے ۔ یعنی Increase،یہ دو طرح کی ہوتی ہے:
٭- ایک رباء سے اور دوسری زکوٰۃ سے۔
وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ
اورتم جو رِّبًا میں سے دیتے ہو تاکہ أَمْوَالِ النَّاسِ میں رَبُوَ (کو بڑھانا) ہو ِ پس وہ اللہ کے نزدیک رَبُو (بڑھانا) نہیں ہوگا۔
وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿30:30﴾
اور جو کچھ تم ایتاء کرتے ہو زَكَاةٍ میں سے اللہ کی خوشنودی کی خواہش میں ۔ پس وہی لوگ الْمُضْعِفُونَ (اضعافہ کرنے والوں) میں سے ہیں
نوٹ: یہ یاد رہے ، کہ عربی میں فعل مضارع ، اردو کےفعل حال جاریہ اورفعل مستقبل ۔ دونوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ " جیسے کرتے ہویا کرتے رہتے ہو ۔ کرتے رہو گے یا کرو گے " اپنے فہم کے مطابق ہم اردو کا کوئی بھی صیغہ لگا سکتے ہیں ۔
اہمیت ترجمے اورصیغے کی نہیں، اللہ کے عربی میں احکامات کی ہے ۔کہ ہم اُسے سمجھ کر عمل کرتے ہیں یا پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں ۔
وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِن بَعْدِ قُوَّۃٍ أَنکَاثاً
اور تم اس (مؤنث ) کی مانند مت ہو جس نے اپنی غَزْلَ کو نَقَضَ (توڑا) کیا ، اس کے بعد جب اسے قُوَّۃٍ أَنکَاثاً آئی۔
تَتَّخِذُونَ أَیْْمَانَکُمْ دَخَلاً بَیْْنَکُمْ أَن تَکُونَ أُمَّۃٌ ہِیَ أَرْبَی مِنْ أُمَّۃٍ
کیا تم اپنے أَیْْمَانَ کو آپس اس لئےداخل کرتے ہو، تاکہ تم وہ أُمَّۃٌ بنو، جو أُمَّۃٌ سے أَرْبَی ہو۔
إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّـهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴿16:92﴾
صرف اللہ تمھیں اس کے ساتھ آزماتا ہے اور تمھارے لئے يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، واضح کرتا رہے گا جس میں تم اس کے ساتھ اختلاف کرتے ہو۔
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ
اور اُن لوگوں کی مثال جو اپنے اموال سے انفاق، اللہ کی رضا اور اپنے نفسوں کو ثابت قدم رکھنے کے لئے کرتے ہیں۔
کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ أَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُکُلَہَا ضِعْفَیْْنِ فَإِن لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ
اُن (کے مال)کی مثال جنت ِ کی ہے جورَبْوَۃٍ کے ساتھ ہے۔ پس اس پر أَصَابَ اوروَابِلٌ آئے، تو اُس أُکُلَ کے ہیں ضِعْفَیْْنِ ہیں ۔ پس اگر موسلا دھار بارش نہ ہو تو پس شبنم
۔ اور جو تم عمل کرتے ہو اللہ کو اس کی بصارت ہے“۔
رِّباً ۔ یَرْبُوَ۔ أَرْبَی اور رَبْوَۃٍ
یہ”ر۔ ب۔ و“کے مادے سے بننے والے الفاظ ہیں ۔ جن سے مراد بڑھنا ہے۔ کتاب اللہ میں اضعافے (ض۔ ع۔ ف) کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔ لیکن ”ر۔ ب۔ و“ مادے سے بننے والے الفاظ اور”ض۔ ع۔ ف“ مادے سے بننے والے الفاظ میں لازمی بات ہے کوئی فرق ضرور ہے جبھی اللہ تعالی نے Increase کے لئے دو الگ الفاظ استعمال کیئے ہیں ۔
وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ
اورتم جو رِّبًا میں سے دیتے ہو تاکہ أَمْوَالِ النَّاسِ میں رَبُوَ (کو بڑھانا) ہو ِ پس وہ اللہ کے نزدیک رَبُو (بڑھانا) نہیں ہوگا۔
اورتم جو رِّبًا میں سے دیتے ہو تاکہ أَمْوَالِ النَّاسِ میں رَبُوَ (کو بڑھانا) ہو ِ پس وہ اللہ کے نزدیک رَبُو (بڑھانا) نہیں ہوگا۔
وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿30:30﴾
اور جو کچھ تم ایتاء کرتے ہو زَكَاةٍ میں سے اللہ کی خوشنودی کی خواہش میں ۔ پس وہی لوگ الْمُضْعِفُونَ (اضعافہ کرنے والوں) میں سے ہیں
انسانی اموال میں اضعافے کے دو ماخذ ہیں :
”ایتاء الزکوٰۃ“ :اللہ کے نزدیک اضعافہ ہوتا ہے ۔
”ایتاء الرباء“:انسانوں کے نزدیک اضعافہ ہوتا ہے۔
ایک حلال ہوا اور دوسرا حرام!
”ایتاء الرباء“ کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔
تو کیا موجودہ دور میں ”ایتاء الرباء“ کو کسی طریقے سے حلال بنانے کے لئے اجتہاد ہو سکتا ہے ؟
(جبکہ آج سے چودہ سو سال پہلے انسانی معاشی وسائل اور ضروریات نے ترقی کی اتنی پیچیدہ شکل اختیار نہیں کی تھی)۔
(جبکہ آج سے چودہ سو سال پہلے انسانی معاشی وسائل اور ضروریات نے ترقی کی اتنی پیچیدہ شکل اختیار نہیں کی تھی)۔
یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے شریعت بنچ بیٹھی تھی ۔
اس سوال کے جواب میں بجائے اس کے کہ ہماری شریعت بنچ نے جو فتوی دیا سو،دیا کیوں نہ خود اللہ کے فتویٰ کو دیکھا جائے!
لیکن پہلے کچھ آیات کی تصریف کر لی جائے تاکہ نفس مضمون میں اللہ کی آیات کے کسی بھی گوشے سے تشنگی کا احتمال نہ رہے ۔
قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ
﴿10:59﴾
کہہ! کیا تم اس رزق کو دیکھتے ہو جو اللہ نے تمھارے لئے نازل کیا۔ پس تم اس (رزق) میں سے حرام اور حلال بناتے ہو؟
کہہ! کیا تم اس رزق کو دیکھتے ہو جو اللہ نے تمھارے لئے نازل کیا۔ پس تم اس (رزق) میں سے حرام اور حلال بناتے ہو؟
کہہ! کیا اللہ نے تمھیں (اس حرام اور حلال کے فتووں کی) اجازت دی ہے یا تم اللہ پر افتراء کرتے ہو؟
اللہ نے سب سے پہلے تو یہ فتویٰ دیا کہ۔ حرام و حلال کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اللہ کا ہے۔ اور جو لوگ یہ فتوے خود سے دیتے ہیں وہ اللہ پر کذب افتراء کرتے ہیں۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـٰذَا حَلَالٌ وَهَـٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴿16:116﴾
اور مت کہو! جو جھوٹ تمھاری زبانیں وصف کرتی ہیں (کہ) یہ حلال ہے اور یہ حرام تاکہ تم اللہ کے اوپر کذب افتراء کرو۔
بے شک وہ لوگ جو اللہ پر کذب افتراء کرنے والے ہیں وہ فلاح پانے والوں میں سے نہیں ہیں۔
جو لوگ حرام اور حلال کے فتوے گھڑ کر بیچتے ہیں اور۔
مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ﴿16:117﴾
قلیل متاع حاصل کرتے ہیں۔ اور ان کے لئے عذاب الیم ہے۔
فتوے گھڑ کر بیچنے والوں سے یہ کام کون کراتا ہے؟
تَاللَّـهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿16:63﴾
تاللہ! حقیقت میں ہم نے تجھ سے پہلے کئی امتیں ارسال کیں۔ پس ان کے اعمال شیطان نے(بذریعہ فتاویٰ) ان کے لئے مزین کردیئے۔
تَاللَّـهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿16:63﴾
تاللہ! حقیقت میں ہم نے تجھ سے پہلے کئی امتیں ارسال کیں۔ پس ان کے اعمال شیطان نے(بذریعہ فتاویٰ) ان کے لئے مزین کردیئے۔
پس وہ اب ان کا ولی ہے اور ان کے لئے عذاب الیم ہے۔
شیطان کی ولایت سے نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وضاحت کر دی کہ۔
مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ
﴿5:99﴾
الرسول کے اوپر کچھ نہیں سوائے الْبَلَاغُ کے۔ اور اللہ کو علم ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿16:64﴾
اور نہیں نازل کی ہم نے تیری طرف الکتاب سوائے اس کہ، کہ تو ان کے لئے (اس الکتاب میں سے) بیان کرے جو اس (الکتاب) میں اختلاف کرتے ہیں۔
اور (الکتاب) ایمان لانے والی قوم کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں