Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 23 جون، 2015

08- جسمانی تعلقات کن خواتین سے -حصہ 3

٭٭  پچھلا مضمون :    نکاح کیوں کیا جاتا ہے؟ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

جسمانی تعلقات کن خواتین سے قائم کئے جا سکتے ہیں ۔
 
وَیَسْتَفْتُونَکَ فِیْ النِّسَاء  - - -
  وہ تجھ سے النساء(کے بارے) میں فتویٰ لیتے ہیں۔
۔ ۔ ۔  قُلِ اللّہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْہِنَّ ۔۔۔۔۔
﴿4/127  
کہہ! اللہ تم کو ان(کے بارے) میں فتویٰ دیتا ہے  
(لہذا مُفتی انسان نہیں اللہ ہے )

مندرجہ  بالا کتاب اللہ کی آیت اس قدر واضح ہے  کہ اس سے انکار ممکن  نہیں۔ اللہ نے الرسول ﷺ  کو جتلا  دیا ہے۔  کہ لوگ تجھ  سے النساء کے بارے میں فتوی لینے کی کوشش کرتے ہیں۔  ان سے کہہ (کہ  میں  کیا  فتوی  دوں)  وہ تو اللہ نے  دے  دیا  ہے۔  اب کسی اور فتوے کی  گنجائش کہاں۔
 

 لوگوں کا سوال ہوتا ہے  کہ  یہ فتوے ہیں کہاں؟  جو اب  اللہ نے دیا  ہے،
۔۔۔  وَمَا یُتْلَی عَلَیْْکُمْ فِیْ الْکِتَابِ۔۔۔
﴿4/127   
۔ ۔  جو تم پر (تجھ پر نہیں) ”الکتاب“ میں سے تلاوت کئے گئے ۔ ۔ ۔

         النساء کے بارے میں اللہ کے دئیے ہوئے تمام  فتوے ”الکتاب“  میں  درج  ہیں جو ہم  پر تلاوت کئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم  ”من دون اللہ“   سے ان کے بارے میں فتوے لیتے ہیں۔  کیوں؟
کہ عقیدہ  پایاجاتا ہے کہ کتاب اللہ میں کوئی  بات  واضع نہیں ہے اس میں صرف مو ٹے موٹے اصول  دئیے  گئے  ہیں۔  لہذا ان کی تشریح ضروری ہے اور  اس کے لئے توارخ و بائبل کے  حوالوں  سے  مسئلے کا حل ڈھونڈا جاتا ہے ۔ 
کتاب اللہ،  اللہ تعالی  کی  ترتیل  کردہ  ہے۔  اس  میں  ہر  آیت  اپنی  جگہ  ہیرے  کی  طرح  جڑی  ہوئی  ہے  اور  تصریف  آیات  کے  مطابق  ہے۔  ہم  نے  اگر  اپنا  کوئی  تردد،  باعث  کم  علمی  دور  کرنا ہو  تو  ہم،  کتاب  اللہ کی  مکمل  آیات  کو  اپنی  مناسبت  سے  ترتیل  کریں  گے۔
جس  طرح  نکاح اور طلاق کے بارے میں اس مضمون میں کی گئی  ہے۔  یہ نہیں کہ صرف آیت کا  ایک حصہ،  اپنے  مطلب  کے لئے  بطور حوالہ دیا جائے  اور باقی  ساری  اپنی  فلاسفی  ہو کہ  ’فلاں‘  نے  یہ  کہا اور  (فلاں)  نے  ایسا  کیا۔  جبکہ ’فلاں‘ کے  بارے میں  کوئی  نا قابل تردید  ثبوت موجود نہیں ہوتا۔  ہر ’فلاں‘ کے اقوال کو دوسرے ’فلاں‘ نے قابل تنقید  سمجھا-
جبکہ کتاب اللہ کی تمام آیات مستحکم اور  نا قابل تردید ہیں۔ کیونکہ  ”الکتاب“  کا تمام  علم اس کی لکھائیوں میں پوشیدہ  ہے  اور  یہ  بہت  اہم  حدیث  ہے:۔ 

 إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیْمٌ ﴿56/77 
یقینا وہ قرآن کریم ہے۔
فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُونٍ ﴿56/78  
(جو)  کتاب میں مکان کیا گیا ہے۔
(کتاب سے باہر نہیں، لہذا زبانی نہ پڑھا جائے)

لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ ﴿56/79  
اس کو سوائے مطاہرین کے کوئی نہیں چھو سکتا۔ 
تَنزِیْلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ ﴿56/80 
 ربّ العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔
فَبِہَذَا الْحَدِیْثِ أَنتُم مُّدْہِنُونَ  ﴿56/81
کیا تم اس ”الحدیث“ کو  سرسری سمجھتے ہو۔  
وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ ﴿56:82
اور اس کے جھٹلانے کو تم اپنا ذریعہ معاش بناتے ہو۔

        اس  کتاب  اللہ کو  چھونے  کے  لئے  سب  سے  بڑی  شرط  یہی  ہےکہ اس  کو  چھونے  کے  لئے  طاہر  ہونا  ضروری  ہےاورطاہر وہہےکہ جس کااس آیت پرایمان  ہو۔ 
 
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِن کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ   ﴿39/27
اور حقیقت میں ہم نے انسان کے لئے اس القران میں ہرقسم کی مثال  سے ضرب لگائی (جھنجوڑا)ہے۔ شائد کہ وہ ذکرکریں

یہ  القران  (خاص  پڑھائی)،  رب العالمین  کی  طرف  سے  نازل  کردہ  ہے (اس  کے   علاوہ  اس  روئے  ارض  پر کوئی  اور  خاص  پڑھائی  نہیں۔  جتنی  پڑھائیاں ہیں وہ عام  ہیں)۔  جو  لکھائیوں میں پوشیدہ  ہے  ۔ اس لئے اسے صرف و ہ چھو سکتے ہیں  جو (اللہ کی طرف سے)  طاہر  (کئے گئے) ہوں ۔  کیا    اس ”الحدیث“  سے کوئی  انکار کرسکتا ہے ؟ ۔اور کون  اس  الحدیث  سے  انکار کر تا ہے؟ لازم  وہی  ہو  گا جس  کی  طرف  اللہ نے  اشارہ  کیا  ہے  کہ۔  جس کا ذریعہ معاش ہی ”الکتاب“ کے جھٹلانے پر قائم ہے (قائم تھا نہیں)
  
          بہر حال  النساء  کی  آیت  127کے  بقیہ  حصے  کی  ترتیل  بعد  میں  ہو گی۔  کیو ں کہ  اس آیت  کا  اگلا  حصہ  ”یتیم النساء“ کے  بارے  میں  ہے۔  لہذا  پہلے  اللہ کا  صرف” النساء“ کے  بارے  میں  فتوی  دیکھتے  ہیں۔
 الْیَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ ۔۔۔
﴿5/5
آج  کے  دن  تم  پر  طبیعات  حلال  کی  گئیں۔ 

--- وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ  ۔ ۔ ۔﴿5/5 
٭۔     اور  تم  پر  ان  لوگو ں  کا  کھانا  جن  کو  الکتاب  دی گئی  اور تمھارا   کھانا  ان  کے  لئے  حلال  کیا  گیا۔
--- وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ إِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أَخْدَانٍ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﴿5/5 
۔ ۔ اور  ”محصنات  مومنات“   میں  سے  اور  محصنات  ان لوگوں  میں سے  جنہیں  تم  سے  پہلے  الکتاب  دی گئی۔
جب تم ان(محصنات کو ان کے اجر (مہر) دے چکو  جب محصنین  بنو  نہ  کہ  مسافحین ۔  اور  اخدان
( طوائف مرد یا عورت) مت پکڑو۔ ۔ ۔ ۔

۔۔۔۔۔ وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ﴿5/5
جس  نے  ایمان  سے  انکار  کیا  اس  کا  عمل  برباد  ہوا۔  وہ  آخرت  میں  خسارہ  اٹھانے  میں  سے  ہو  گا۔

۔۔۔۔  وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَیْْتُمُوہُنَّ شَیْْئاً ۔۔۔
﴿2/229
  اور تمھارے لئے حلال نہیں کہ اس میں سے کوئی شے (طلاق دیتے وقت)  واپس لو جو تم نے ان (محصنات)  کو دی ہے۔۔۔ 

        اس  آیت 
﴿5/5 میں  مندرجہ  ذیل  مومنات  نکاح  کے  لئے  حلال  کی  گئی  ہیں:۔
٭۔ محصنات  مومنات  میں  سے۔ اور
٭۔ محصنات ان لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے الکتاب  دی  گئی۔

  نیز  نکاح  کا  مقصد  بھی  بتایا  ہے:۔
٭۔محصنین(ان کی عصمت  کی حفاظت کرنے  والے)  بنو۔ 
٭۔  نہ  کہ  مسافحین  (داشتہ  بنانے والے)۔

        پس  جس  نے  ایمان کے اس حصے سے  انکار  کیا۔تو  اس  کا وہ عمل  (جو  وہ   بحیثیت مومن  کر  رہا  تھا)  برباد  ہوا۔  یہاں  ایک  بات  اور  غور  طلب  ہے  کہ  کتاب  اللہ میں  ”محصنات“  تین  قسم  کی  خواتین  کو  کہا  گیا  ہے۔
٭    محصنات  مومنات  میں  سے۔
٭    محصنات  ان لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے الکتاب دی گئی۔
٭    محصنات  النساء  میں  سے۔
محصنات  کتاب  اللہ کے  مطابق  اس  عورت  کو  کہا  جاتا  ہے  جو  اپنی  عفت  کی  حفاظت  کرتی  ہے۔  یعنی  وہ  زانیہ  نہیں  ہو  سکتی۔
 وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہِ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْن
﴿66/12
اور  مریم  بنت  عمران  جس  نے  اپنی  فرج  (عصمت)  کی  حفاظت  کی۔پس  ہم  نے  اس  میں  اپنی  روح  میں  سے  پھونکا  اور  (جب  روح  میں  سے  پھونکا  گیا  تو)  اس  نے  اپنے  رب  کے  کلمات  اور  اس  کی  لکھائیو ں  کی  تصدیق  کی  اور  وہ  قانتین  میں  سے  ہوئی۔

        چنانچہ وہ  تمام عورتیں جو اپنی عفت کی حفاظت کرتی ہیں، محصنات ہیں  (نہ کہ شادی  شدہ  عورتیں)۔ 
ہم  یہ کہ سکتے ہیں کہ دنیا میں موجود محصنات عورتوں  کی تین اقسام  ہیں۔
 محصنات مومنات(حلال)  اور محصنات اہل الکتاب  (حلال) کے  علاوہ  باقی  عورتیں محصنات  النساء  (حرام)  ہیں۔ 

        محصنات  النساء  (حرام)سے  نکاح  نہیں  ہو  سکتا۔  اب  لازمی  بات  یہ  ہے  کہ   یہ  محصنات  مشرک  ہوں  گی  نہ   کہ  کافر  کیوں  کہ  کتاب اللہ کے  مطابق  کفر  اہل  الکتاب  ایمان  لانے  کے  بعد کرتے  ہیں۔ 

إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا
أُولَـٰئِكَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ ﴿98/6
بے شک وہ لوگ جو اہل الکتاب میں کافر ہیں اور مشرکین اُن کے لئے نا رِ جہنم  ہے ہمیشہ رہنے کے لئے وہ  شَرُّ الْبَرِیَّۃِ میں سے ہیں

یہ  محصنات النساء  (حرام) جب  افاء اللہ  میں  بطور  قیدی خواتین   آئیں  گی  تو اولی الامر کے قانون کے مطابق، قتال فی سبیل اللہ یا حرب (دفاعی) میں حصہ لیے والے مؤمنوں کو  بحیثیت  مَلَکَتْ أَیْْمَان تقسیم ہوں گی۔  اگر یہ قیدی خواتین مسلمان ہو جاتی ہیں تو اِن کا مَلَکَتْ أَیْْمَان  کا ٹائیٹل  فتیات  المؤمنات میں تبدیل ہو جائے گا۔
وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ
﴿23/5 
جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں
إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُومِیْنَ
﴿23/5
سوائے اپنی أَزْوَاجِ   یااُن کی مَلَکَتْ أَیْْمَانُ ہیں بے شک یقینا وہ ملامتیوں میں نہیں


 اگر اولی الامر نے حالات کے مطابق یہ تقسیم ختم کر دی ہے تو یہ محصنات النساء (حرام) کہلائیں گی ان کا ٹائیٹل َإِمَاءِکُمْ ہو گا  
٭   ۔  إِمَاءِ  (ملازمہ)  (مؤ منوں کے لئے نہیں)
 وَأَنکِحُوا الْأَیَامَی مِنکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَاءِکُمْ إِن یَکُونُوا فُقَرَاء  یُغْنِہِمُ اللَّہُ مِن فَضْلِہِ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
﴿24/32
اور نکاح کریں!  تم میں سے الْأَیَامَی (غیر مسلم مرد ملازم)۔ اورصالحین تمھارے
عِبَادِ (ملازم)  اور  تمھاری إِمَاءِ  (غیر مسلم ملازمہ)  اگر وہ فُقَرَاء میں سے ہو تو اللہ اسے اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اور اللہ واسع علیم ہے۔
نوٹ: یہ ملازمین کے لئے ہے۔ اب یہ 
إِمَاءِ  (ملازمہ)  کیسے آئی؟

کیو ں کہ یہ ،  مَلَکَتْ أَیْْمَان  بھی نہیں ہیں اور نہ  فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَات۔  یہ اسلامی  معاشرے  میں  تجرّد کی زندگی گذار نے والے غیر مسلم ملازم مرد و غیر مسلم  خواتین ہیں ۔ جن کی ذمہ داری مسلم معاشرے پر ہوتی ہے  اور   اِن إِمَاءِ   کا ٹائیٹل  الْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء ہوتا ہے۔ جو مسلمانوں کے لئے بحیثیت جسمانی تعلقات حرام ہیں۔
 اور   ان سے نکاح اس وقت حلال ہو گا جب وہ مومن ہو جائیں اور  وہ  فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَات  کہلائی جائیں گی۔ لیکن اگر وہ   غیر مسلم رہتی ہیں تو  پھر ان کی حیثیت    الْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَا
ء کی ہی رہے گی اور جس کو بحیثیت  إِمَاءِ  ملی ہے  الْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء  (حرام)  میں شمار ہوں گی۔ یہ خواتین  اپنی قوم میں واپس بھی جا سکتی ہیں۔ اِس لئے اِن کو  اولی لامر  مَلَکَتْ أَیْْمَان  کا ٹائیٹل نہیں  دیتا  ۔  إِمَاءِ  جب ایمان لائیں گی    فتیات  المؤمنات  کہلائیں گی۔

 ٭   ۔  فَتَیَاتِ (کنیزیں ) 
 اسلام لانے پر  مَلَکَتْ أَیْْمَانُ (یا إِمَاءِ) کا ٹائیٹل  فَتَیَاتُِ الْمُؤْمِنَات ہو جاتا ہے۔ پھر اُن سے اُن  أَہْل کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا، وہ بھی مہر کی حقدار ہوتی ہیں۔

وَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنکُمْ طَوْلاً أَن یَنکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُم مِّن فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ فَانکِحُوہُنَّ بِإِذْنِ أَہْلِہِنَّ وَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَیْْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَیْْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ 
﴿4/25
اگر تم میں  سے  کوئی  اس  بات  کی  استطاعت  نہیں  رکھتا  کہ  وہ  الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَات  سے  نکاح  کرے،  تو  پس جو  مَلَکَتْ أَیْْمَانُ  تمھاری  فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَات ( مومنات کنیزوں)  میں سے ہیں جو  تمھاری  قسموں  کی  ملکیت  ہیں۔ اللہ تمھارے ایمان سے واقف ہے اور تم  ایک دوسرے میں سے ہو،  پس ان  کے  اہل  کی  اجازت  سے  ان  سے  نکاح  کرو،  اور  ان  کے  اجور  (مہر) دستور  کے  مطابق  انہیں  دے دو،  وہ  (مومنات فتیات) محصنات ہوں نہ کہ مسافحات۔ اور  (اجورکی خاطر) دھوکہ(Conspire) دینے والی نہ ہوں۔ جب وہ (نکاح کے بعد) محصن ہوجائیں اور فحاشی لائیں ، پس اُن کے اوپر  الْمُحْصَنَات کی نسبت  نصف عذاب (سزا) ہے ، یہ اُس کے لئے  تم میں سے جو لعنت سے  خَشِی  رہتا ہے۔ اور اگر تم صبر کرو  تمھارے لئے خیر ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔

٭ ۔  یتیم النساء
وَیَسْتَفْتُونَکَ فِیْ النِّسَاء  قُلِ اللّہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْہِنَّ۔۔۔۔
وہ تجھ سے النساء(کے بارے)  میں فتویٰ لیتے ہیں۔
کہہ! اللہ تم کو ان(کے بارے) میں فتویٰ دیتا ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


    اللہ تعالی نے  نہ صرف النساء کے بارے میں الکتاب میں فتوی  دیا ہے بلکہ  تمام فتاویٰ جس کی انسانوں کو ضرورت ہے  وہ تمام الکتاب میں موجود ہیں،:
۔۔۔  وَمَا یُتْلَی عَلَیْْکُمْ فِیْ الْکِتَابِ فِیْ یَتَامَی النِّسَاء  الَّلاتِیْ لاَ تُؤْتُونَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنکِحُوہُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُواْ لِلْیَتَامَی بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَإِنَّ اللّہَ کَانَ بِہِ عَلِیْما
﴿4/127
  اور جو تم پر  ”الکتاب“ میں سے (آیات) تلاوت ہوتی ہیں۔ یتیم النساء کے(بارے میں) اور ضعیف بچوں (کے بارے) میں تم ان کو ادا نہیں کرتے جو ان کے لئے (الکتاب میں)لکھا گیا ہے، اور تم رغبت رکھتے ہو کہ ان یتیم  النساء سے تم نکاح کر لو،اور یہ کہ (اس طرح) تم یتیموں (یتیم النساء اور ضعیف بچوں) کے لئے انصاف پر قائم رہو۔اور جو خیر بھی تم کرو گے۔ بالحقیق اللہ اس سے واقف ہے۔

 وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِیْ الْیَتَامَی فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء  مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ ذَلِکَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُواْ
﴿4/3

 وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِیْ الْیَتَامَی فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء
۔۔۔۔۔

۔ ۔  اور  اگر  تمھیں  خوف  ہو  تم  یتیموں (کے بارے)  میں انصاف نہ  کر  سکو  گے۔  پس  النساء  میں  سے جو  تمھیں پسند ہوں  تم  نکاح  کرو۔-- -   

اس آیت میں کیا النساء سے مراد تمام النساء  ہیں؟
نہیں!کیونکہ  بات یتیموں  کے  انصاف  کے  بارے  میں  میں  ہو  رہی   ہے۔  اور  یہ  کہ  یتیموں  (یتیم النساء اور ضعیف بچوں)  کے لئے  انصاف  پر  رہنے  کا  حکم دیا گیا ہے۔ اور اللہ کو معلوم ہے  کہ  یتیم النساء  اور  ضعیف  بچوں  کے حقوق کو  کتاب اللہ میں لکھے جانے کے باوجود ”کچھ  لوگ“ اس  وقت  تک  صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتے  جب تک  وہ  ان  یتیم النساء  سے نکاح کر لیں جن  کے لئے  وہ  رغبت  رکھتے  ہیں۔  چنانچہ  انہیں  اس آیت میں چھوٹ  دی  گئی  ہے۔ کہ اگر انہیں خوف ہو کہ وہ  یتیموں (کے بارے) میں انصاف نہ کر سکیں گے لہذا  وہ  یتیم النساء  میں سے جو انہیں  پسند  (رغبت رکھتے) ہوں نکاح کر  لیں (بشرطیکہ وہ  بھی راضی  ہوں)۔  ایک شخص کتنی یتیم النساء  کے حقوق  منصفانہ  ادا کر  سکتا ہے یہ اس کی مالی حیثیت پر منحصر ہے۔چنانچہ اسے اللہ کی  طرف سے اجازت  ہے  کہ  وہ:۔
۔۔۔ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء  مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاع۔۔۔۔۔
پس النساء  میں  سے  جو  تمھیں  پسند  ہوں تم (ان سے) دو دو، اور  تین  تین، اور چار چار نکاح  کرو -

        اگر  ہم  اس  آیت  میں النساء  سے  مراد  تمام  عورتیں  لیں  تو  سوال  پیدا  ہوتے  ہیں  کہ:۔

٭    اس صورت  میں یتیموں سے کس طرح انصاف ہو گا؟
٭    کیا  دوسری عورت یتیموں کی دیکھ بھال کے لئے مخصوص کی  جائے  گی؟


        اب صورت حال  یہ  ہے  کہ  خوف  لا حق  ہے  کہ  کہیں  یتیموں  کے  انصاف   کے  بارے  پکڑنہ ہو۔ دوسری طرف  مالی  حالات  اس  بات  کی  اجازت  نہیں  دیتے  کہ  دو دو،  تین  تین  اور  چار  چار  پسندیدہ  النساء  سے  نکاح  کیا  جا  سکے۔  نکاح  نہ  ہو  تو  انصاف  نہیں  ہو  سکتا۔  نکاح  کیا جائے  تو  عدل  میں  دشواری،  تو  پھر؟

۔۔۔۔۔  فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ ذَلِکَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُواْ
﴿4/3
- - - پس  اگر  تمھیں  خوف  ہو  اگر  تم  عدل  نہ  کر  سکو، پس ایک (یتیم النساء سے نکاح  کرو) یا اس سے جوتمھاری قسموں کی ملکیت ہے۔ یہ ادنی ہے تاکہ تم زیر بار نہ ہو ہے۔
یتیم النسا  ء سے  انصاف کے علاوہ  نکاح کرنے کے بعد ایک اور مسئلہ ہے  اور وہ کیا ہے  -


وَإِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِن بَعْلِہَا نُشُوزاً أَوْ إِعْرَاضاً فَلاَ جُنَاْحَ عَلَیْْہِمَا أَن یُصْلِحَا بَیْْنَہُمَا صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَیْْرٌ وَأُحْضِرَتِ الأَنفُسُ الشُّحَّ وَإِن تُحْسِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراً
﴿4/128 
اور اگر ایک عورت (امراۃ) کو اپنے شوہر سے خوف محسو س کرے کہ وہ اس سے جھگڑا کرے یا اعراض برتے   پس ان دونوں پر  کوئی حرج نہیں کے وہ صلح کریں ان دونوں کے درمیان صلح   اور الصلح بہتر ہے    اور نفس کے سامنے حرص موجود رہتی ہے   اور اگر تم احسان کرو اور تم اللہ سے ڈرو   پس اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے   ۔

   اگر  تمھیں  خوف  ہو  اگر  تم  عدل  نہ  کر  سکو،  اور پھر یہ بینات کہ۔  تم ہرگز استطاعت نہیں رکھتے  کہ تم عورتوں کے درمیان عدل کر سکو  اور اس(عدل) کے لئے تم حرص کرو   (ممکن نہیں)     
    - - وَلَن تَسْتَطِیْعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَیْْنَ النِّسَاء  وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۔۔۔۔۔ 
- - تم ہرگز استطاعت نہیں رکھتے  کہ تم عورتوں کے درمیان عدل کر سکو  اور اس(عدل) کے لئے تم حرص کرو - - - 

  تم ہرگز استطاعت نہیں رکھتے  کہ تم عورتوں کے درمیان عدل کر سکوایسی صورت میں۔۔۔

۔۔۔  فَلاَ تَمِیْلُواْ کُلَّ الْمَیْْلِ فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ وَإِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً
﴿4/129
......... پس تم  مکمل جھکا ؤ  (عدل کے لئے)نہ جھکو۔  پس تم اس (جھگڑا کرنے والی مونث) کو چھوڑ دو جیسے  معلق (المعلق)   اور اگر تم صلح کرواور تم اللہ سے ڈرو   پس اللہ غفور اور رحیم ہے  -

وَإِن یَتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلاًّ مِّن سَعَتِہِ وَکَانَ اللّہُ وَاسِعاً حَکِیْماً
﴿4/130
اور اگر وہ (مذکر، دونوں کو) الگ الگ  رکھےاللہ اپنی وسعت سےکُل کوغنی کرے گااور اللہ حکمت سے کشادگی دینے والا ہے 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
         بات یتیموں  سے انصاف کی ہو رہی ہے اور یہ احکامات نکاح، صرف اور صرف ان النساء کے عدل وانصاف کے بارے میں ہیں جو یتیم ہیں۔ جن سے انصاف کرنے کا طریقہ کتاب اللہ میں اللہ نے  بتا دیا۔
٭۔    یتیموں سے انصاف اسی وقت کر سکو گے جب تم اپنی پسندکی النساء سے نکاح کرو۔
٭۔    ان النساء سے نکاح کی تعداد دو دو، تین تین، اور چار چار ہو سکتی  ہے۔
٭۔    اگر انصاف نہ کر سکو تو پھر ایک (یتیم) النساء  سے    یا ما  ملکت ایمانکم  سے نکاح کرو۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یتیم النساء کون ہیں؟
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 جن کے بارے میں یہ خوف لاحق ہو کہ ان کی دیکھ بھال اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ان سے نکاح نہ کیا جائے۔ یہ وہ  مومن النساء(مہاجرمومنہ، بیوہ اورمطلقہ) ہیں۔ جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو اور ان کے تنہا رہنے سے اسلامی معاشرے میں برائی  پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ 
٭  ۔ مہاجرمومنہ
یہ وہ خواتین ہیں، جو  مشرک یا کفّار  ہوتی ہیں اور ایمان لے آتی ہیں  اور مسلمانوں کی پناہ میں مشرک یا کفّار کی طرف سے آتی ہیں۔ اِن کا ٹائیٹل  مہاجر مؤمنات ہو جاتا ہے۔

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا جَاء کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ اللَّہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِہِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوہُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ وَآتُوہُم مَّا أَنفَقُوا وَلَا جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ أَن تَنکِحُوہُنَّ إِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ۔۔۔
﴿60/10 
 اے وہ لوگو جو ایمان لائے:  جب تمہارے پاس ایمان والی مہاجر مؤمنات  آئیں تو ان (کے ایمان) کا  امتحان لے لو۔ اللہ ان کے ایمان کے بارے میں علم رکھتا ہے۔اور جب تمھیں ان مومنات کے بارے میں علم ہو جائے تو انہیں کفار (ان کے سرپرست یا شوہروں)  ی طرف مت لوٹاؤ۔ یہ عورتیں ان کے لئے (بحیثیت مومنہ) حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے (بحیثیت کافر) حلال ہیں۔اور تم  ان کے (سرپرست یا شوھروں) کو جو انہوں نے خرچ کیا ہے۔اور اس پر تم پر کوئی اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم ان مومنات کو ان کے اجور (مہر) ادا کرنے کے بعد نکاح کرو۔۔۔۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے، کہ یہ   الْکَوَافِر کون ہیں ؟  وہ جو مہاجر مؤمنات کی چادر اوڑھ کر آتی ہیں اور امتحان میں پورا نہیں اترتیں، اُن کے لئے اللہ کا حکم۔
- - - - وَلَا تُمْسِکُوا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْیَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ذَلِکُمْ حُکْمُ اللَّہِ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ 
﴿60/10  
 ۔۔۔  اور الکوافر(عورتوں جو امتحان میں پورا نہ اتریں) کوپناہ میں مت روکے رکھو۔ اور تم سوال کروجو تم نے انفاق کیا۔ اور چاھیئے کہ وہ  سوال کریں جو انہوں نے انفاق کیا۔یہ اللہ کا حکم ہے۔ وہ تمہارے(مومنوں کے) درمیان  حکم کرتا ہے۔ اور اللہ علیم اور حکیم ہے۔

٭ ۔   بیوہ
    بیوہ عورتیں اپنے بارے میں عدت گزرنے کے بعد خود دستور کے مطابق فیصلہ کریں کی۔ ان پر کسی قسم کے فیصلے کی بندش نہیں۔

وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ أَنفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ
﴿2/234  
 اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور اپنی ازواج چھوڑ دیں، تو وہ (ازواج)  خود کو 4 ماہ اور 10 دن روکے رکھیں اور جب یہ مدت (عدت) پوری ہو جائے، تو تم پر کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے  (زوج) بارے میں مروج دستور کے مطابق عمل کریں، اور جو تم کرتے ہو، اللہ اس کی خبر رکھتا ہے
اگر مروج دستور کہتا ہے کہ:۔       
٭    بیوہ  عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ اپنی مرضی سے زندگی گزارے۔ نکاح کرے یا نہ کرے اس کی مرضی۔
٭    نہیں، بیوہ لازما ًؔنکاح کرے گی اور اس کے بچوں کی سرپرستی وہ  شخص کرے گا جس سے وہ اپنی مرضی سے (اس شخص کے پیغام نکاح کے جواب میں)  نکاح کرتی ہے۔
٭    بچے باپ کے وارثوں کے پاس رہیں گے اور بیوہ اپنے وارثوں کے پاس جائے گی۔ اس صورت میں بیوہ نکاح کرے یا نکاح نہ کرے اس کی مرضی۔

٭ ۔   مطلقہ
٭۔  مطلقہ عورت کا اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح۔
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء  فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَن یَنکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَیْْنَہُم بِالْمَعْرُوفِ ذَلِکَ یُوعَظُ بِہِ مَن کَانَ مِنکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکُمْ أَزْکَی لَکُمْ وَأَطْہَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ

﴿2/232  
 اور جب تم النساء کو طلاق دو، اور جب وہ اپنی مدت (عدت) پوری کریں، اور وہ مروج دستور کے مطابق آپس میں راضی ہوں کہ اپنے ازواج سے نکاح کریں  تو ان کو مت  روکو۔ یہ وعظ اس کو کیا جاتا ہے جو اللہ اور یوم الاخر پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ تمھارے لئے ازکی اور اطہر ہے۔ تم علم نہیں رکھتے، اللہ علم رکھتا ہے۔

٭۔ طلاقِ فدیہ لینے والی  عورت کا اپنے زوج  کے بجائے غیر زوج  سے  نکاح ۔
پس اگر تمھیں خوف ہو کہ تم حدود اللہ قائم نہ رکھ سکو گے! 
۔۔۔۔۔۔ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلْکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوہَا وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰہِ فَأُوْلَ ءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ 
﴿2/229   
تو ان  پر  کوئی حرج نہیں کہ اس (طلاق) کے ساتھ وہ عورت اس (دولت میں سے)  فدیہ دے ( یعنی عورت  طلاق فدیہ حاصل کرے) وہ  حدود اللہ ہیں۔ پس ان سے تجاوز مت کرو۔
فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہُ فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ وَتِلْکَ حُدُودُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَعْلَمُون
﴿2/230  
پس جب اس نے (فدیہ لینے کے بعد) اس عورت کو طلاق دی  تو وہ اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں  حتی کہ وہ عورت اس کے علاوہ کسی  غیر زوج سے نکاح کرے۔ پس جب اس(غیر زوج) نے اس عورت کو طلاق دی۔ تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں رجوع کر لیں۔(بشرطیکہ) اگر ان دونوں کوظن (قیاس)  ہو کہ وہ حدود اللہ قائم رکھ سکیں۔ یہ حدود اللہ ہیں (طلاق فدیہ دی گئی عورت کی حرمت وغیرزوج سے نکاح کے بعد مطلقہ ہونے پر حلت) جن کی وہ علم والوں کے لئے وضاحت کرتا ہے۔

٭   ۔ نکاح نہ کر سکنے والے پاک دامن رہیں ۔

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرً‌ا وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ وَلَا تُكْرِ‌هُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَ‌دْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَ‌ضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَن يُكْرِ‌ههُّنَّ فَإِنَّ اللَّـهَ مِن بَعْدِ إِكْرَ‌اهِهِنَّ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ
(24/33)
اور چاہیئے کہ جو لوگ نکاح نہیں کر سکتے پاکدامن رہیں حتیٰ کہ اللہ اپنے فضل سے اسے غنی کر دے اورتمھارے قسموں کی ملکیت میں سے وہ لوگ جو ”الکتاب“ کی خواہش رکھتے ہیں پس ان کے لئے لکھو اگر تک علم ہو کی اس میں اِن کے لئے خیر ہو۔ اور ان کے لئے اس مال میں سے مہیا کرو جو اللہ نے تمھیں مہیا کیا ہے۔ اور اپنی فَتَیَاتِ  (ملازماؤں)  سے تم بغض میں کراہت نہ کرو اگر وہ  تم سے حصّن (پاکدامن)رہنا چاہیں حیات الدنیا کی خواہش کرتے ہو۔ اور جو ان سے کراہت کرے گا تو اللہ ان سے کراہت کے بعد غفور اور رحیم ہے۔


وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَ‌اءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (24/32)
اور نکاح کریں!  تم میں سے ”ایامی“ (مجرد مرد)۔ اورصالحین تمھارے عباد (ملازم)  اور  تمھاری إِمَاءِ  (ملازمہ)  اگر وہ فقراء میں سے ہو تو اللہ اسے اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اور اللہ واسع علیم ہے۔ 

٭٭  اگلا مضمون :    نکاح کا پیغام اور نکاح  :حصہ 4
 ٭٭٭٭08- اسلام کا قانونِ نکاح اور طلاق٭٭٭٭٭ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید مضامین ، اِس سلسلے میں دیکھیں :
النساء -یتیموں اوربیواؤں کی حفاظت، 
مرد و عورت کے جسمانی تعلقات،
غلام لڑکی اور جسمانی تعلقات ،
شرع اللہ کے مطابق ،

آیات اللہ پرانسانی ردِعمل ،

قانون شہادت (گواہی )۔

میاں بیوی کا انوکھا مکالمہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔