Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 21 جون، 2015

موتی بازار ۔ راولپنڈی کا

راولپنڈی کا موتی بازارشہر کے قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے اور اس کی رونق سو سال گزرنے کے باوجود برقرار ہے۔ راولپنڈی کا مشہور موتی بازار ایک ایسا سچا ’موتی‘ جس کی چمک ایک صدی گزرنے کے باوجود ماند نہیں پڑی۔ اس بازارمیں ایک ایسی کشش ہے کہ اس کی بھول بھلیوں جیسی تنگ گلیاں لوگوں سے بھری اوران کی آنکھوں کو خیرہ رکھتی ہے۔رہتی ہیں۔

موتی بازار کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 1900 میں موتی لال نے اس بازار کی بنیاد رکھی تھی۔ 

راولپنڈی کا ایک سو بیس سالہ قدیم موتی بازار شہر کے چند قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے۔ مگر اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ ٹرنک بازار سے متصل ایک تنگ و تاریک گلی کی ایک حویلی سے شروع کیا گیا بازار دراصل ایک فرسودہ ہندوانہ رسم “ستی” سے بغاوت کے نتیجے میں بنایا گیا تھا۰ “ستی” رسم کے مطابق مرد کی وفات کے بعد اس کی زوجہ کو بھی خاوند کے ساتھ جلا دیا جاتا ہے
    روایت کے مطابق  1883 میں اس علاقے میں رہنے والے ایک ہندو تاجر موتی رام نے اپنی مرحومہ بیوی کی یاد میں ایک حویلی بنوائی  جو بعد میں لا حویلی کے نام سے مشہور ہوئی اور اسے ستی رسم کے خوف سے گھروں سے فرار ہونے والی خواتین کے لئے دارالامان بنایا اور  ہندی نام “ کنیا آشرم” رکھا ۔

ان خواتین کو کنیا آشرم میں سلائی کڑھائ اور دستکاری کی تربیت دی جاتی اور ان کی بنائی گئی اشیاء سے آشرم کے اخراجات پورے کئے جاتے تھے-یہ حویلی بازار میں اب بھی موجود ہے- سرخ اینٹوں سے بنائ گئی یہ عمارت فن تعمیر کا شاہکار ہے،

 اس کی دیواروں پر ہندی زبان میں لکھی گئی تین تختیاں آج بھی موجود ہیں۔

 ان میں سے ایک تختی پر چندہ دینے والوں کے نام اور رقوم کی تفصیلات درج ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ موتی لال نے یہ حویلی دیگر لوگوں کے تعاون سے بنائی تھی۔

دوسری تختی 19 جون 1926 میں نصب کی گئی تھی۔ اس تختی پر درج ہندی تحریر کے مطابق رائے بھولا رام نے اپنی مرحومہ بیوی کی یاد میں اس حویلی کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔

حویلی کا دروازہ بھی قدیم فن تعمیر کا شاہکار ہے اور قیمتی ورثے میں شمار ہوتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد  راولپنڈی میونسپل کمیٹی نے اس عمارت کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ایم سی بوائز پرائمری سکول کی بنیاد رکھی۔یہ سکول اپ گریڈ ہو کر ھائی سکول میں بدل گیا ہے۔
       ابتداء میں آشرم میں بننے والی اشیاء کو عمارت کے اندر ہی فروخت کیا جاتا تھا مگر مانگ بڑھنے پر انتظامیہ نے آشرم کے تھڑے پر ایک چھوٹی سی دوکان بنا دی۔ جب اس دوکان پر کاروبار چمک اٹھا تو اردگرد کے رہائشی لوگوں نے بھی اپنے مکانوں کی بیٹھک کو دوکانوں میں تبدیل کر کے کاروبار شروع کر دیا۔ یوں 1901 میں اس تنگ و تاریک گلی نے ایک چھوٹے سے بازار کی شکل اختیار کر لی۔ ابتداء میں دوکانوں کی تعداد 18 تھی جو قیام پاکستان تک بڑھ کر تقریبا” سو تک پہنچ گئی ۔اس وقت بازار میں تقریبا” 1500 دوکانیں ہیں اور بازار پھیل کر بوہڑ بازار تک پہنچ گیا ہے۔

 بازار کے بالمقابل ٹرنک بازار  میں اب صرف چند دوکانیں ہی ٹرنک بیچنے والوں کی ہیں کیونکہ موتی بازار نے ٹرنک بازار کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔بازار کے نو ذیلی بازار ہیں اور ہر بازار کےتاجروں کی ایک علیحدہ تنظیم ہے۔تمام ذیلی تنظیموں کی ایک مرکزی یونین بھی ہے۔ بازار میں ہر وقت جم غفیر نظر آتا ہے اور تل دھرنے کے جگہ نہیں ملتی۔ اندازا” روزانہ بازار میں تقریبا” آٹھ سے دس ہزار لوگ خریداری کے لئے  آتے ہیں۔ان میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے۔
راولپنڈی جوچالیس سال  قبل تک چندچھو ٹے کاروباری مرکز کا شہر تھا اب ترقی کر کے وسیع و عریض بازاروں اور بلند و بالا شاپنگ مالز  کا شہر بن گیا ہے لیکن موتی بازار کی چمک ایک صدی سے زیادہ گزربے کے باوجود ماند نہیں پڑی۔اس بازار میں ایک ایسی کشش ہے کہ اس کی بھول بھلیوں جیسی تنگ گلیاں لوگوں سے بھری رہتی ہیں۔ موتی بازار میں نا صرف ضروریات زندگی کی اشیاء باآسانی دستیاب ہوتی ہیں بلکہ نہایت سستی اور معیاری بھی ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگ یہاں کھچے آتے ہیں۔

خریداروں میں ناصرف مقامی آبادی  بلکہ دوسرے اضلاع، خیبر پختون خواء ، اور آزاد کشمیر کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔یہاں شادی اور جہیز کا سامان باآسانی میسر ہے جس کی قیمت چند ہزار سے لے کر لاکھوں روپے تک ہے۔بازار کے پرانے دوکانداروں کے مطابق ان کے خریداروں میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جہنوں نے پہلے اپنی شادی کی خریداری کی، پھر اپنی بیٹی کا جہیز خریدا اور بعدازاں اپنی پوتی یا نواسی کا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔