Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 18 جون، 2015

6- جمہوریت اور اسلام -2

  انسانی  معاشرتی نظامِ 

 دو یا دوسے  زیادہ افراد خطہ ءِ ارض پر جہاں بھی آباد ہوں ، اُن کے درمیان ایک ایسا فرد ضرور ہوتا ہے جو  اُن کا حاکم بن جاتا ہے ، خوہ یہ طاقت کے زور پر ہو  یا علم کے زور پر یا دونوں اوصاف اُس فردِ واحد میں موجود ہوں ۔ 

حاکمیت  کا یہ سلسلہ  ،خاندان،  قبائل  و شعوب سے گذرتا ہوا  ملکی حدود پر جا کر فردِ واحد پر ختم ہوتا ہے ۔ جس میں امارت کے مختلف درجہ بندیاں ہوتی ہیں ۔ایک خاندان کے امیر کی اطاعت دوسرے خاندان پر لازم نہیں ، لیکن قبائل میں موجود ، مختلف خاندان کے امیر و افراد اپنے قبیلے کے امیر کی اطاعت کرنے پر پابند ہیں ۔ اِسی طرح  شعوب کے امیر کی اطاعت ، قبائلی امیروں پر لازم ہے۔ فرد واحد  کی حکومت کی خرابیوں اور اچھائیوں پر الگ بحث کی جاسکتی ہے ، لیکن انسان کی تنوع پسندی نے ، اُسے بغاوت یا ہجرت سے فرد واحد کی حکومت سے آزاد ہونے کا ہنر دیا ، لیکن وقت کے ساتھ بغاوت  کے نتائج اور ہجرت کی پابندیوں نے اُسے ، ایک نئی سوچ دی کہ کیا ، فردِ واحد کی حکومتی مدت کو محدود کیا جاسکتا ہے  اور کس طرح ؟  

کیوں کہ فرد واحد کی امارت سے ، اُسے قتل کرکے یا اُس کی موت کے بعد ہی    نجات حاصل کی جا سکتی ہے  یہی وجہ ہے کہ تاریخِ انسانی قتالِ امیر سے بھری ہوئی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اِس سوچ نے یونان میں جنم لیا، جسے جمہوریت سے موسوم کر دیا گیا ،

" انسانوں کی حکومت  ، انسانوں کے ذریعے "

٭۔ جمہوریت   کیا ہے ؟
جمہوری نظام میں انسان  اپنے علاقے  میں ، اپنے درمیان ،رہنے والوں میں سے  ایک فرد کو اتفاقِ رائے  کی بنیاد پر اپنا امیر تسلیم کرتے ہیں ۔جو سماجی، معاشرتی اور معاشیاتی  علم کے علاوہ ،
عقل و دانش ، فہم و فکر ،  شعور و تدبّر ، میں اُن  کے مسائل کا حل کرنے میں اُن سے افضل ہوتا ہے -

اتفاقِ رائے سے انتخاب کا یہ سلسلہ ،بڑھتا ہے یہاں تک کہ اِس کا حتمی اختتام ریاست کے امیر پر ہوتا ہے ، جس کام انسانوں کو  اُن کے لئے قوانین سازی کرنا اور اُن پر عمل کروانا ہوتا ہے ۔

٭ ۔ انسان کو قانون سازی کا اختیار 

انسانی معاشرے کوامن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لئے کچھ قوانین وضع کئے جاتے ہیں ۔  یہ قوانین ہر اس انسانی معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو دوسروں شاید ترقی یافتہ نہ ہو اور جنگلوں یا پہاڑوں میں اس کا مسکن ہو۔ ان تمام قوانین کا تعلق انسانی رویوں کے ساتھ ہے۔ جو ایک معاشرے میں رہنے والا فرد دوسرے فرد سے روا رکھتا ہے۔ جنہیں  لغوی طور پر’حقوق العباد‘  کا نام دیا جاتا ہے ۔ اور ان قوانین کو ’مروج دستور‘  بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان مروج دستور کی بنیاد آفاقی سچائیاں  (کتاب اللہ سے اخذ  )ہوتی ہیں۔ جو مختلف انسانی تجربات کے بعد قانون کا درجہ بنتیں ہیں۔

دیکھیں :  کتاب اللہ ، الکتاب اور القرآن 

٭ ۔   انسانی معاشرے کے قوانین کی درجہ بندیاں 

انسانی معاشرے میں قوانین کا ارتقاء فرد سے شروع ہو کرمیاں بیوی ، کنبے، خاندان، گروہ، قبیلہ، قوم سے ہوتا ہوا بین الاقوام تک جاتا ہے۔

٭ ۔  قوانین ِ فرد  

وہ تمام قوانین جو ایک فرد اپنی ذات، کنبے یا خاندان یا جماعتی گروہ کے لئے بناتا ہے۔اور اُن پر عمل کرتا ہے   بشرطیکہ یہ مروج دستور یا قوانین ریاست کے خلاف نہ ہوں۔

٭ ۔مروج دستور 

مختلف زبان، مذہب اور پیشوں کے اعتبار سے بنے ہوئے قبائل کی اپنی اُن معاشرتی اقدار و دستور کے مطابق اپنی زندگی گذارتے ہیں جو اُن میں مروّج ہوتے ہیں۔اس میں وہ تمام قوانین رواج پائے جاتے ہیں جو کسی مخصوص جغرافیائی حدود میں پانے والے افراد میں مروج ہوتے ہیں۔ یہ قوانین رواج (Customary Law) کتاب اللہ سے متصادم نہیں ہونے چاھئیں  جیسے  وہ تمام معروف جو کسی بھی معاشرے کا حصہ ہوں اور  ان کو قبول کرنے سے کتاب اور سنت کے کسی عمل کو ترک کرنا پڑے تو ایسا عرف ناقابل قبول ہوگا۔ 

٭ ۔  قوانین ریاست 

وہ قوانین جو مخصوص جغرافیائی حدود (شعوب) میں قائم ریاست، جو ایک قبیلے پر بھی ہو سکتی ہے اور مختلف قبائل  پر بھی، جوآپس میں مل کر بحیثیت ایک قوم بناتے ہیں۔

٭ ۔  آفاقی سچائیاں 

انسانوں کے لئے،یہ بلا تخصیص تمام اقوام، قبائل و معاشرے میں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔جن کا تعلق انسانی ضروریات وبھلائی سے ہوتا ہے۔

٭٭٭

 مسلم   معاشرتی نظامِ

اسلا می معاشرے میں قوانین کے دو منبع ہیں : ایک قوانین ِ الہیٰ  (الکتاب) اور دوسرے  جمہوریت (انسانی قوانین (معروف) )۔

1 ۔ قوانین  الہی ۔(الکتاب)

 یہ وہ قوانین ہیں جو ’’ الکتاب“ میں لکھے ہوئے ہیں۔ اور غیر متبدل ہیں:۔

٭ ۔ قوانین برائے فرد۔

٭ ۔قوانینِ  برائے  خاندان۔

٭ ۔قوانینِ  برائے تنظیم۔  

٭ ۔قوانینِ ریاست۔  

٭ ۔بین الاقوامی قوانین۔  


2 ۔ جمہوریت (انسانی قوانین ( معروف) )

 کتاب اللہ : کی روشنی میں، قوانین ِ الہیٰ کے مطابق، انسانی  قوانین، انسانی مشوروں کے بعد بنائے جاتے ہیں۔  وقت کے ساتھ ان کے مزید قابلِ عمل یا ناقابلِ عمل یونے کی صورت میں اِن میں ترمیمات ہوتی ہیں یا یہ منسوخ ہو جاتے ہیں۔ یہ اِ ن کا لازمی جُز ہے۔ کیونکہ ہر گذرنے والا سال، جغرافیائی فاصلے  اور انسانی تہذیب و تمدّن کی ترقی کے باعث یہ وقت کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ بھی :

٭ ۔ قوانین برائے فرد۔

٭ ۔قوانینِ  برائے  خاندان۔

٭ ۔قوانینِ  برائے تنظیم۔  

٭ ۔قوانینِ ریاست۔  

٭ ۔بین الاقوامی قوانین۔ 

پر مشتمل ہوتے ہیں۔

  ٭ ۔ اطاعتِ امیر  :   

اطاعتِ امیر، کے دو پہلو ہیں:۔ 

1- معروف میں اطاعت کی جائے ۔ نافرمانی  نہ کی جائے ۔ معروف سے مراد قانون رواج  (Customary Law)ہے - 

2-ریاست کے قانون کے مطابق امیر کا حکم پسند ہو یا ناپسند ہو، ہر دو صورتوں میں امیر کی اطاعت رعایا پر لازم ہے ۔
نوٹ: مسلم ریاست  میں ، اگرحاکم کا حکم  الکتاب کے خلاف ہو تواس حکم کی اطاعت ضروری نہیں۔
 

  ٭۔   جمہوریت (مشاورت) کے  لوازم   

  کسی بھی انسانی دور میں مشورے کی اہمیت مسلمہ ہے۔ چنانچہ مشورے کے نتیجے میں کیا جانے والا کام اچھے نتائج پیدا کرتا ہے  اور مشورے کی بغیر کیا جانے والے کام  کی افادیت ہمیشہ مشکوک رہتی ہے۔ مشورے میں عموماُ وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اہل ترین ہوں ۔ مثال کے طور پر کسی جہاز کے ڈیزائین اور تیاری  کے بارے میں مشورہ  ہم کسی موٹر گاڑی  یا بحری جہاز کے انجنینئر سے نہیں لے سکتے وہ اس کام کے اہل نہیں،  اس طرح اسلامی قوانین  پرعمل اور ملکی  قوانین  سازی اور ان پر عمل اہل لوگ ہی کر سکتے ہیں۔  

٭۔اہل ترین افراد کا انتخاب۔ 

الکتاب  میں اللہ تعالی نے مسلم امت کے لئے  اہل ترین  افراد  کے جو خواص بتائے ہیں وہ مندرجہ  ذیل ہیں :

 قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿1﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿2﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴿3﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ﴿4﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿5﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿6﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿7﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ﴿8﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴿9﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ﴿10﴾  الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿11﴾ المؤمنین

یقینا ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی  ٭   جو اپنی صلاۃ میں خشوع کرتے ہیں ٭جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں ٭  جو زکوٰ ۃ ادا کرنے والے ہیں٭   جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں٭    سوائے اپنی  ازواج اور قسموںملکیت(خواتین)  کے، یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں ٭  جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں  وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں٭  جو اپنی امانتوں اور عہد کی نگہبانی کرنے والے  ہیں ٭  جو اپنی صلوات  کی حفاظت کرتے ہیں٭یہی وارث ہیں٭  جو فردوس کے وارث ہونگے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے٭

          یہ وہ  افرادہیں جو اللہ کے احکامات  کے  وارث ہیں۔ اور جو الفردوس کے بھی وارث ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔  ان احکامات پر عمل کرنے والوں کو اللہ نے سرٹیفکیٹ  دیا ہے۔  اس کے علاوہ ان اہل افراد میں مندرجہ ذیل خصوصیات بھی ہونی چاھیئں۔


٭- بردبار ہوں۔

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْأَرْضِ ہَوْناً وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَاماً (25:63) 

عباد الرحمٰن وہ ہیں جو زمین پرھون(کم تری، خاکساری) کے ساتھ چلتے ہیں (اکڑ کر نہیں) اور جب  جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہیں،سلام

 

٭- سچے ہوں۔

وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً (25/72)

اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں 

٭- منتقم مزاج نہ ہوں۔

وَالَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ہُمْ یَنتَصِرُونَ (42/39)

اور جب ان پر ظلم (و زیادتی)  ہو تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں 

بالا خواص  رکھنے والے مسلمان ، اسلامی قوانین  پرعمل اور ملکی  قوانین  سازی اور ان پر عمل کروانے  کے  اہل لوگ  ہیں ۔ 

  ٭۔  اجتماعی ذمہ داری 

وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ۔۔۔۔۔(3/104) 

تم میں سے ایک امت ایسی ہو! جو الخیر کی طرف کی طرف  بلائے اور  معروف کا امر کرے اور المنکر سے منع کرے -

یہ جماعت کیسی ہو ۔ کیا یہ کام ہر جماعت کر سکتی ہے یا اسکی کوئی خصوصیت ہو۔ 

 وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (3/104)

اوروہ مفلحون میں سے ہوں۔ 

 کسی بھی قسم کے الزام میں ملومین نہ ہوں ۔

٭۔ اختلاف رائے کے حق کا استعمال۔

وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ.....  (42/38) 

اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں۔ اور اقام الصلاۃکرتے ہیں 

اور وہ لوگ جو اپنے رب  کے احکام پر توجہ  دیتے ہیں اس میں اختلاف نہیں کرتے کیونکہ اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔

 اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ﴿6/106﴾ 

اتباع کر اُس کی جو تیرے ربّ نے تجھ پر وحی کی۔اُس کے علاوہ کوئی الہہ نہیں۔اور مشرکین  سے اعراض کر ۔ 

    اور نہ ہی ان احکامات کو کوئی بشر تبدیل کرنے کی جرات کر سکتا ہے ۔

وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقاً وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(6/115) 

اور تیرے ربّ کے کلمات کا سچائی اور انصاف  سے اتمام ہوا۔ اس کے  کلام کا کوئی متبادل نہیں۔اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔ 

کتاب اللہ میں دئے گئے احکامات اللہ کے کلمات ہیں ان میں  کسی قسم کا اختلاف  ممکن نہیں ۔ چنانچہ مومنین جو آپس میں مشورہ کرتے ہیں وہ ان کے آپس کے روزمرہ کے کام ہیں  خواہ یہ ذاتی نوعیت کے ہوں یا ریاستی نوعیت کے ۔  اور ان میں بھی زیادہ تر وہ ہیں جو  اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے رزق میں انفاق کے لئے ہیں کہ کون زیادہ مستحق ہے ۔

۔۔۔ وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْْنَہُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ (42/38)

  اور ان کے امر آپس  کے مشورے  سے ہوتے ہیں اور جورزق  ہم نے  انہیں دے رکھا ہے  اس میں سے انفاق کرتے دیتے ہیں۔ 

اور اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو وہ صرف ان قوانین کے بارے جو ان کے روزمرہ  کاموں کے سلسلے میں بنائے ہوئے ہیں یا انفاق رزق کے سلسلے میں ان میں مشورے کی گنجائش ہے لیکن  یہ مشورہ  تنازع  (اختلاف باعث جھگڑا)  کی حدود کو نہیں پھلانگے ۔

وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ(8/46) 

اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور تنازع مت کرو، ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا ا کھڑ جائے گی اور صبر و کرو یقینااللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے 

   اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت مومنین کے لئے یہ ہے  کہ  وہ آپس میں  تنازع نہ کریں کیونکہ  تنازع کا اختتام جھگڑے پر ہوتا ہے اور جھگڑا مومنین کے درمیان فرق ڈالتا ہے اور وہ تقسیم ہو جاتے ہیں  اس طرح ان کی مضبوطی ختم ہو جاتی ہے لہذا جو  کثرت سے  اختلاف کرتے ہیں اللہ ان کو صبر کی تلقین  کر رہا ہے  اور بتا رہا ہے  کہ  بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ وہ اس طرح،  کہ نتائج بتائیں گے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ 

٭۔ انفرادی آراء پر اجتماعی آراء کی فوقیت 

انفرادی رائے کو کثرت رائے پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کثرت غلط ہے تب بھی نتائج غلط ہی نکلیں گے۔  لہذا  اقلیت کو صبر کرنا چاھیئے  اور خواہ مخواہ تنازع پیدا نہیں کرنا چاھیئے۔ لیکن ایک بات کا خیال رہے کہ کثرت کی اتباع صرف الخیر اور معروف میں کرنی چاھیئے۔

 

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (3/104) 

تم میں سے ایک امت ایسی ہو! جو الخیر کی طرف کی طرف  بلائے اور  معروف کا امر کرے اور المنکر سے  منع کرے اوروہ مفلحون میں سے ہوں۔ 

  اور اگر کثرت اللہ کے احکام کے مخالف جا رہی ہے تو کثرت کی اتباع اس وجہ سے کرنا کہ،  زبان خلق  نقارہء خدا ہوتی ہے ، بہت بڑی  گمراہی ہے ۔

وَإِن تُطِعْ أَکْثَرَ مَن فِیْ الأَرْضِ یُضِلُّوکَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ إِن یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ ہُمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ(6/116) 

   اگر تو زبانِ خلق(جمہور کی آواز) کو نقارء خدا سمجھ کر اُس کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے سبیل اللہ سے گمراہ کر دیں گے،  وہ (علم) ظن (قیاس) کی اتباع کرتے ہیں۔اور وہ یاوہ گو (فضول باتیں کرنے والے)ہیں ۔ 


  ٭٭٭6- اسلام میں قانون سازی  کا تصور ٭٭٭٭ 

 مسلم معاشرتی نظامِ- قسط -3


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔