طلاق کیا ہے ؟
(مرد و عورت کے جسمانی تعلقات کا یکسر خاتمہ)
صورت حال یہ ہے کہ نکاح کے وقت ایک معاہدہ ہوا اور معاہدے میں پختہ عہد کے مطابق ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھا جا رہا تھا چنانچہ معاہدہ اپنی اجل کی طرف بڑھ رھا تھا مگر بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر نکاح کا یہ معاہدہ اپنی مدت تکمیل سے پہلے ختم ہوتا نظر آتا ہے ۔ اس معاہدہ کے خاتمے کی ناگزیر وجوہات مندجہ ذیل میں سے ایک ہو سکتی ہے:
٭۔ عورت (فریق دوئم)کی سرکشی
٭۔ مرد (فریق اول) کی بے رغبتی
(مرد و عورت کے جسمانی تعلقات کا یکسر خاتمہ)
صورت حال یہ ہے کہ نکاح کے وقت ایک معاہدہ ہوا اور معاہدے میں پختہ عہد کے مطابق ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھا جا رہا تھا چنانچہ معاہدہ اپنی اجل کی طرف بڑھ رھا تھا مگر بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر نکاح کا یہ معاہدہ اپنی مدت تکمیل سے پہلے ختم ہوتا نظر آتا ہے ۔ اس معاہدہ کے خاتمے کی ناگزیر وجوہات مندجہ ذیل میں سے ایک ہو سکتی ہے:
٭۔ عورت (فریق دوئم)کی سرکشی
٭۔ مرد (فریق اول) کی بے رغبتی
عورت(فریق دوئم)کی سرکشی
٭۔ کفر۔
۔۔۔ وَلَا تُمْسِکُوا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ ۔۔۔ ﴿60/10﴾
۔۔۔۔۔ اور الکوافر(عورتوں جو امتحان میں پورا نہ اتریں) کوپناہ میں مت روکے رکھو۔ ۔۔۔۔۔
٭۔ زانیہ
الزَّانِیْ لَا یَنکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ ﴿24/30﴾
زانی سے کوئی نکاح نہ کرے سوائے زانیہ یا مشرکہ کے۔ اورزانیہ سے کوئی نکاح نہ کرے سوائے زانی یا مشرک کے۔ وہ مومنوں پر حرام ہیں۔
٭۔عورتوں کی فحاشی
وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِن نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْہِدُواْ عَلَیْْہِنَّ أَرْبَعۃً مِّنکُمْ فَإِن شَہِدُواْ فَأَمْسِکُوہُنَّ فِیْ الْبُیُوتِ حَتَّیَ یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً ﴿ 4/15﴾
اور تمھاری عورتوں میں کوئی فحاشی لاتی ہیں۔ اور تم اپنوں میں سے (غیر میں سے نہیں) ان کے اوپر چار شہادت مانگو:
پس اگر وہ شہادت دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ الموت ان کو فوت کرے۔ یا اللہ ان کے لئے کوئی راہ بنائے۔
عورتوں کو بیت کا وعظ
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَاء کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلَی ۔۔۔
اے نبی: جب تیرے پاس مومنات آیئں۔ وہ اس (بات) پر تیری بیعت کریں،
أَن لَّا یُشْرِکْنَ بِاللَّہِ شَیْْئاً
٭۔ کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک مت کریں۔
وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ
٭۔ اور نہ چوری کریں اور نہ وہ زنا کریں
وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَہُنَّ
٭۔ اور نہ وہ اپنی اولادوں کو قتل کریں۔
وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَفْتَرِیْنَہُ بَیْْنَ أَیْْدِیْہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ
٭۔ اور وہ ا فتراء (بے بنیاد جھوٹ) کے ساتھ اپنے ہاتھوں اور اپنی ٹانگوں کے درمیان بہتان نہ لایئں
وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوفٍ
٭۔ اور وہ رواج (معروف) میں تیرے نافرمانی نہیں کریں گی
فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْم ﴿60/12﴾
پس ان سے بیعت لے اور اور ان کے لئے اللہ سے استغفار مانگ۔ بے شک اللہ غفور اور رحیم ہے۔
ہر وہ عورت جو ایمان لاتی ہے اور خود کو یایھا الذین آمنوا کی صف میں شامل کرتی ہے تووہ خود بخؤد النبی کے سامنے حاضر ہو جاتی ہے اور اس کے اور النبی! کے درمیان بیعت ہوتی ہے ۔ جس کے بارے میں سورۃ الممتحنۃ کی آیت 12 میں لکھا ہوا ہے۔ یہ وہ سنت ہے جس پر ہر مومن عورت ہر دور میں عمل کرتی ہے ۔ ان مومن عورتوں کے لئے النبی نے اللہ سے استغفار مانگی ہے جو بیعت کے الفاظ پر ہو بہو عمل کرتی ہیں ۔ ان مومن عورتوں کو الرسول نے جو خوشخبری دی ہے اس پر اللہ نے اپنے وعدے کی تصدیق کی ہے جو مندرجہ ذیل ہے
إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّاءِمِیْنَ وَالصَّاءِمَاتِ وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوجَہُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللَّہَ کَثِیْراً وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً (33/35)
بے شک مسلمین اور مسلمات، مومنین اور مومنات، قناعت کرنے والے اور قناعت کرنے والیاں، صادقین اور صادقات صابرین اور صابرات، اشعین اور خاشعات، متصدقین اور متصدقات، اور صائمین اور صائمات، اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں، اللہ کی نصیحت کثرت سے کرنے والے اور نصحیت کرنے والیاں ان کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ رکھا ہے
نوٹ: یہ آیت اکثر مرد و خواتین عورت اور مرد کی برابری کے ضمن میں یہ آیت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اسلام میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ہم کہیں، لمبے آدمی اور لمبی عورتیں، گورے مرد اور گوری عورتیں، کالے مرد اور کالی عورتیں۔ یہ صفات میں مرد اور عورت کی برابری ہے۔ فعل اور عمل میں نہیں، فعل اور عمل میں مرد اور عورت کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتے کیوں؟
أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاکُم بِالْبَنِیْنَ (43/16)
کیا اس نے اپنے لئے، بیٹیاں منتخب کیں اور تمھارے لئے بیٹے؟
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلاً ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدّاً وَہُوَ کَظِیْمٌ (43/17)
جب اُن میں سے کسی ایک کو، اُس (بیٹی)کی خوشخبری دی جاتی ہے جسے وہ الرحمٰن پر مارتا (تھونپتا)ہے۔ اور وہ (خود کو) کاظم (برداشت کرنے والا) سمجھتا ہے مگراُس (کاظم صاحب) کا چہرہ غصے سے سیاہ ہو جاتا ہے۔
أَوَمَن یُنَشَّأُ فِیْ الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِیْ الْخِصَامِ غَیْْرُ مُبِیْنٍ (43/18)
یا وہ (بیٹی) جس کی پرورش زیورات میں ہوئی ہو اور وہ جھگڑے کی وضاحت بھی نہ کر سکے۔
اب اللہ نے مومن عورتوں (اور مومن مردوں) کے لئے احکامات الکتاب میں مکمل کر دئے ہیں اور الرسول نے تمام معروف (مشورے کے بعد) مکمل کر دئے ہیں اب نہ تو اللہ کے احکامات اور نہ ہی معروف میں معصیت کی جاسکتی ہے ۔
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَمْراً أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَن یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْناً (33/36)
۔۔۔ وَلَا تُمْسِکُوا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ ۔۔۔ ﴿60/10﴾
۔۔۔۔۔ اور الکوافر(عورتوں جو امتحان میں پورا نہ اتریں) کوپناہ میں مت روکے رکھو۔ ۔۔۔۔۔
٭۔ زانیہ
الزَّانِیْ لَا یَنکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ ﴿24/30﴾
زانی سے کوئی نکاح نہ کرے سوائے زانیہ یا مشرکہ کے۔ اورزانیہ سے کوئی نکاح نہ کرے سوائے زانی یا مشرک کے۔ وہ مومنوں پر حرام ہیں۔
٭۔عورتوں کی فحاشی
وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِن نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْہِدُواْ عَلَیْْہِنَّ أَرْبَعۃً مِّنکُمْ فَإِن شَہِدُواْ فَأَمْسِکُوہُنَّ فِیْ الْبُیُوتِ حَتَّیَ یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً ﴿ 4/15﴾
اور تمھاری عورتوں میں کوئی فحاشی لاتی ہیں۔ اور تم اپنوں میں سے (غیر میں سے نہیں) ان کے اوپر چار شہادت مانگو:
پس اگر وہ شہادت دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ الموت ان کو فوت کرے۔ یا اللہ ان کے لئے کوئی راہ بنائے۔
عورتوں کو بیت کا وعظ
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَاء کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلَی ۔۔۔
اے نبی: جب تیرے پاس مومنات آیئں۔ وہ اس (بات) پر تیری بیعت کریں،
أَن لَّا یُشْرِکْنَ بِاللَّہِ شَیْْئاً
٭۔ کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک مت کریں۔
وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ
٭۔ اور نہ چوری کریں اور نہ وہ زنا کریں
وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَہُنَّ
٭۔ اور نہ وہ اپنی اولادوں کو قتل کریں۔
وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَفْتَرِیْنَہُ بَیْْنَ أَیْْدِیْہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ
٭۔ اور وہ ا فتراء (بے بنیاد جھوٹ) کے ساتھ اپنے ہاتھوں اور اپنی ٹانگوں کے درمیان بہتان نہ لایئں
وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوفٍ
٭۔ اور وہ رواج (معروف) میں تیرے نافرمانی نہیں کریں گی
فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْم ﴿60/12﴾
پس ان سے بیعت لے اور اور ان کے لئے اللہ سے استغفار مانگ۔ بے شک اللہ غفور اور رحیم ہے۔
ہر وہ عورت جو ایمان لاتی ہے اور خود کو یایھا الذین آمنوا کی صف میں شامل کرتی ہے تووہ خود بخؤد النبی کے سامنے حاضر ہو جاتی ہے اور اس کے اور النبی! کے درمیان بیعت ہوتی ہے ۔ جس کے بارے میں سورۃ الممتحنۃ کی آیت 12 میں لکھا ہوا ہے۔ یہ وہ سنت ہے جس پر ہر مومن عورت ہر دور میں عمل کرتی ہے ۔ ان مومن عورتوں کے لئے النبی نے اللہ سے استغفار مانگی ہے جو بیعت کے الفاظ پر ہو بہو عمل کرتی ہیں ۔ ان مومن عورتوں کو الرسول نے جو خوشخبری دی ہے اس پر اللہ نے اپنے وعدے کی تصدیق کی ہے جو مندرجہ ذیل ہے
إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّاءِمِیْنَ وَالصَّاءِمَاتِ وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوجَہُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللَّہَ کَثِیْراً وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً (33/35)
بے شک مسلمین اور مسلمات، مومنین اور مومنات، قناعت کرنے والے اور قناعت کرنے والیاں، صادقین اور صادقات صابرین اور صابرات، اشعین اور خاشعات، متصدقین اور متصدقات، اور صائمین اور صائمات، اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں، اللہ کی نصیحت کثرت سے کرنے والے اور نصحیت کرنے والیاں ان کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ رکھا ہے
نوٹ: یہ آیت اکثر مرد و خواتین عورت اور مرد کی برابری کے ضمن میں یہ آیت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اسلام میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ہم کہیں، لمبے آدمی اور لمبی عورتیں، گورے مرد اور گوری عورتیں، کالے مرد اور کالی عورتیں۔ یہ صفات میں مرد اور عورت کی برابری ہے۔ فعل اور عمل میں نہیں، فعل اور عمل میں مرد اور عورت کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتے کیوں؟
أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاکُم بِالْبَنِیْنَ (43/16)
کیا اس نے اپنے لئے، بیٹیاں منتخب کیں اور تمھارے لئے بیٹے؟
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلاً ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدّاً وَہُوَ کَظِیْمٌ (43/17)
جب اُن میں سے کسی ایک کو، اُس (بیٹی)کی خوشخبری دی جاتی ہے جسے وہ الرحمٰن پر مارتا (تھونپتا)ہے۔ اور وہ (خود کو) کاظم (برداشت کرنے والا) سمجھتا ہے مگراُس (کاظم صاحب) کا چہرہ غصے سے سیاہ ہو جاتا ہے۔
أَوَمَن یُنَشَّأُ فِیْ الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِیْ الْخِصَامِ غَیْْرُ مُبِیْنٍ (43/18)
یا وہ (بیٹی) جس کی پرورش زیورات میں ہوئی ہو اور وہ جھگڑے کی وضاحت بھی نہ کر سکے۔
اب اللہ نے مومن عورتوں (اور مومن مردوں) کے لئے احکامات الکتاب میں مکمل کر دئے ہیں اور الرسول نے تمام معروف (مشورے کے بعد) مکمل کر دئے ہیں اب نہ تو اللہ کے احکامات اور نہ ہی معروف میں معصیت کی جاسکتی ہے ۔
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَمْراً أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَن یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْناً (33/36)
یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی مومن اور مومنہ کے لئے جو اخکامات اللہ نے (الکتاب میں) اور اُس کے رسول نے (مشورے کے بعد) مکمل کر دیئے ہوں۔کہ اُن احکامات میں اُن کے لئے الخیر ہو (اور وہ نہ مانیں) پس جس نے اللہ اور اُس کے رسول کی معصیت کی تو وہ کھلی گمراہی میں گمراہ ہوا
اب اگر مومن عورت (یا مومن ) معصیت کرے تو اس کے لئے کتاب اللہ میں اللہ نے کیا حکم دیا ہے !
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا جَزَاء بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم (5/38)
سارق(چور) اور سارقہ(چور عورت) اُن دونوں کے ہاتھ کاٹو اللہ کی تنبیہ میں سے جو انہوں نے کمایا یہ اس کی جزا ہے۔اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِءَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (24/2)
پس زانی اور زانیہ کو کوڑے لگاؤ۔ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔او ر تم ان کے لئے اللہ کے دین میں نرمی اختیار نہ کرو۔اگر تم اللہ اور یوم الآخر پر ایمان رکھتے ہو۔اور مومنین میں سے ایک طائفہ کو ان کے اس عزاب کو دیکھنا چاہیئے۔
٭ ۔ مرد (فریق اول) کی بے رغبتی
اگر عورت سر کشی کے بعد وعظ سے یا تنہا کرنے سے یا ضربات سے سنبھل جاتی ہے اور اپنی روش تبدیل کر لیتی ہے۔ اور وہ اس عمل سے باز آجاتی ہے جو وہ کرنے جارہی تھی تو اب مرد کو اسے تنگ کرنے کے لئے حیلے بہانے تلاش نہیں کرنے چاھیں اور نہ ہی اس کی غلطی کے سبب (اگر وہ زنا تک نہیں پہنچتی) اس سے بے رغبتی ظاہر کرنی چاھیئے ۔ مرد کو اللہ نے تنبیہ کی ہے
۔۔۔ َّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً۔۔۔۔۔ (4/34)
…… اور اگر وہ اطاعت کریں تو تم ان پر بغاوت کی راہ مت تلاش کرو
صلح بہرحال بہتر ہے کیونکہ اگر معمولی بات (یا بیوی کی ایسی غلطی جس پر معافی مانگ لی ہو اور اس سے تائب ہو گئی ہو تو اس صورت) میں دونوں میاں بیوی (یا صرف شوہر) انا کا مسئلہ بنا کر علیحدگی پر قائم رہے تو بچوں سے ماں سے جدا ہونے کی صورت میں ان کی تربیت میں جذباتی اور نفسیاتی سقم پیدا ہونے سے بچوں کی ذات میں پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی اور وہ شاید اسلامی معاشرے کے اچھے فرد نہ بن سکیں۔
لیکن میاں اور بیوی کے درمیان، یہ ناچاقی کیوں پیدا ہوتی ہے؟
یہ ہم پاکستانی معاشرے کے تناظر میں نہیں بلکہ، اللہ کے معاشرتی و سماجی، معاشرے کے تناظر میں دیکھیں گے۔ لیکن پہلے
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ إِن کُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحاً جَمِیْلاً (33/28)
اے نبی! اپنی ازواج سے کہہ!اگر تم حیات الدنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ہو!پس آؤ! میں تمھیں متع دوں اور تمھیں خوش اسلوبی سے رخصت کروں۔
یہ حیات الدنیا اور اس کی زینت کیا ہے جس کی خواہش عورتوں کو ہوتی ہے بشمول امھات المومنین؟
کوٹھی، کار، زیورات ، زرق برق کپڑے یا آزادی ء ِ نسواں یا پھر کچھ اور؟
اب چونکہ میں مرد ہو کیا جواب دوں، کوئی عورت ہی بتا سکتی ہے۔ میری زوجہ کی خواہش حیاتِ دنیا ہے کہ اُسے نہ مال و دولت چاھیئے نہ بنگلہ و کار ۔ بس اُس کی خواہش ہے، اۃس کے شوہر کی زندگی میں کوئی اور عورت نہیں آئے ورنہ۔۔۔۔! (اور یہی قابو کرنے کا گُر میرے پاس ہے اور سکون ہی سکون ہے او ر ویسے بھی میرے قبیلے میں کوئی یتیم النساء نہیں اور مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ کا تصور بھی اولی الامر ختم کر چکا ہے)
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (49/13)
اے انسانو! ہم نے تمھیں مذکر اور مؤنث میں تخلیق کیا اور تمھارے شعوب (علاقے) اور قبائل ہم نے بنائے۔ تمھارے تعارف کے لئے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک اکرم وہ ہو جو متقی ہے۔بے شک اللہ علیم خبیر ہے۔
میاں بیوی کے آپس کی ناچاقی قائم ہو اور مرد اس عزم پر قائم ہو کہ وہ اپنے سکون کے لئے دوسری شادی کرے گا۔ اب دو صورتیں ہیں ۔
اول: یہ کہ پہلی بیوی ساتھ رہے۔
دوئم: یہ کہ پہلی بیوی الگ ہو جائے ۔
٭ پہلی بیوی کا ساتھ رہنا
اگر تو وہ شادی یتیم النساء سے کر رہا ہے تو پہلی بیوی کے الگ ہونے کی یہ معقول وجہ نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے مرد کو اس بات کی اجازت سورۃ النساء 4 میں، اس شرط پر دی ہے کہ اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ ازواج کے درمیان انصاف (ہر قسم کا) کر سکے تو اس صورت میں وہ دو دو، تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کرے اور اگراس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کے لئے ایک (یتیم النساء) کافی ہے اور اگر ایک (یتیم النساء) کا نان نفقہ اور دیگر ضروریات اس کے بس کی بات نہیں تو پھر وہ اس کے ساتھ گذارا کرے جو اُس کی ما ملکت ایمان ہے ۔ لیکن اگر وہ ما ملکت ایمان مسلمان ہو جاتی ہے تو اُس کا ٹائیٹل مومنہ فتی (کنیز) ہو جاتا ہے۔
یتیم النسا، محصنات مومنات دونوں سے صا حب حیثیت ہی نکاح کر سکتا ہے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں اور اُس کے پاس ملکت ایمان بھی نہیں تو پھر وہ بے چارہ کیا کرے۔
وَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنکُمْ طَوْلاً أَن یَنکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُم مِّن فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ فَانکِحُوہُنَّ بِإِذْنِ أَہْلِہِنَّ وَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔۔۔۔۔ (4/25)
اگر تم میں سے کوئی اس بات کی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ مومن محصنات سے نکاح کرے، تو وہ تمھاری مومنات فتیات (کنیزوں سے) جو تمھاری قسموں کی ملکیت ہیں (نکاح کرے)۔ اللہ تمھارے ایمان سے واقف ہے اور تم ایک دوسرے میں سے ہو، پس ان کے اہل کی اجازت سے ان سے نکاح کرو، اور ان کے اجور (مہر) دستور کے مطابق انہیں دے دو،۔۔۔۔۔۔
گویا اسلامی معاشرے میں، ایک مرد کے لئے جسمانی تعلقات کی اولیت اس طرح ہو گی ۔
O ۔ ماملکت ایمان سے (افاء اللہ سے تقسیم)
O ۔ مومنات فتیات (کنیزوں سے)
O۔ یتیم النساء سے۔
O۔ محصنات مومنات یا محصنات اہل الکتاب سے
مرد کو دی گئی اس اجازت کے باوجود اگر ایک عورت یہ پسند نہیں کرتی کہ اس پر سوکن آئے اور وہ الگ ہو نا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں وہ طلاق فدیہ (مروج خلع) لے گی ۔
٭ پہلی بیوی کاالگ ہونا
لیکن اگر وہ یہ شادی ان خواتین میں سے کرنا چاہتا ہے جن کی اجازت سورۃ النساء 5 میں ہے یعنی محصنات مومنات یا محصنات اہل الکتاب میں سے اور اگر پہلی بیوی بھی انہی میں سے ہے تو پھر وہ ازاوج بدل کرے گا یعنی پہلی بیوی کو الگ کرے گا اور دوسری لے کر آئے گا۔
اگر تم ایک زوج کو دوسری زوج سے تبدیل کرنا چاہو....... (4/20)
مندرجہ بالا تصریحات سے میاں بیوی کے باہمی مفارقت کے جواہم وجوہ سامنے آئی ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1 باہمی مفارقت بوجہ احکامات الہی۔کفر یاشرک یا زنا
2 باہمی مفارقت بوجہ خواہش مرد ۔ دوسرا نکاح یا قربت سے پہلے مفارقت یا مردکی طرف سے لعان یا ظہار یا ایلاء۔
3 باہمی مفارقت بوجہ خواہش عورت ۔ مرد کی نامردی یا خلع ۔
اس سے پہلے کہ تینوں وجوہ مفارقت کی تفصیل میں جایا جائے ہم میاں بیوی کے معاہدہ نکاح کی مطابقت (Agreement) کو دوبارہ دیکھتے ہیں ۔
ایک فریق معاہدے کے دوسرے سے معاہدہ ختم کرنا چاھتا ہے۔ جبکہ دوسرا فریق اس معاہدے کے خاتمے پر راضی نہیں اب اس معاہدے کو ختم کرنے کے دو طریقے ہیں:۔
٭ معاہدہ اصولوں کے مطابق ختم کیا جائے اور معاہدے کی شرائط کے مطابق معاہدہ ختم کرنے والا دوسرے کو جرمانہ ادا کرے۔ یا
٭ معاہدہ ختم کرنے والا یہ ثابت کرے کہ دوسرے فریق نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کی خلاف ورزی کا ثبوت لازمی ہونا چاہیے۔ اور یہ ثبوت قانون شہادت کے مطابق سچا ہو ۔
جیسا کہ شروع میں لکھا ہے کہ کوئی بھی انسانی معاہدہ ابدی نہیں ہوتا اس کی مضبوطی کا دارومدار فریقیں کی کلی رضامندی پر ہوتا ہے نیز ہر معاہدے کی مدت تکمیل ہوتی ہے ۔ لیکن انسانی معاہدوں میں نکاح ایسا معاہدہ ہے جس کی کوئی مدت تکمیل نہیں۔اس کی کامیابی کا دارومدار میاں بیوی کے باہمی تعلقات اور معروف (مروج رسوم و رواج) پر منحصر ہوتا ہے۔ جبکہ ایک مومن مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کتاب اللہ کی روشنی میں پروان چڑھتے ہیں ۔ ہر دوصورتوں یعنی معروف یا کتاب اللہ کی خلاف ورزی کی صورت میں یہ تعلقات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں معاہدہ نکاح کے ٹوٹنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں معاہدہ نکاح کو ختم کرنے خواہشمند ہوتے ہیں۔ اس صورت میں ان دونوں کے درمیا ن باہمی فضا میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بعینہی وہی صورت حال ہوتی ہے جو کسی معاہدے کے خاتمے سے پہلے نظر آتی ہے دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی ہیں ۔ شدومد سے ایک دوسرے کی مخالفت ہوتی ہے ۔ کردہ اور ناکردہ برائیاں گنوائی جاتی ہیں ہر ایک فریق خُود کو مخلص اور دوسرے کو مجرم گردانتا ہے۔ معاہدہ منسوخ کرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔
اصول مطابقت (Agreement) کے مطابق اس عمل کو عزم منسوخی معاہدہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن کسی بھی صورت میں معاہدے کو منسوخ نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیوں کے اصول معاہدات کے مطابق کے مطابق معاہدہ صرف وہ شخص منسوخ کر سکتا ہے۔ جس نے دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے کی تصدیق کی تھی (خواہ یہ تصدیق تحریری ہو یا زبانی)۔ معاہدات کے بارے میں یہ وہ انسانی رویے ہیں جو آفاقی سچائیوں کی بدولت انسانوں میں مروج ہیں اور یہی رویے اللہ نے کتاب اللہ میں مفصلا مومنون کے لئے لکھے ہیں تاکہ ان میں غلط فیصلے کرنے کا رجحان پیدا نہ ہو ۔
چنانچہ کتاب اللہ کے مطابق جو معاہدہ نکاح کیا گیا اس کی تنسیخ کے عمل کی ترتیب درجہ بدرجہ اس طرح ہو گی کہ سب سے پہلے
ارادہ تنسیخ نکاح ، کوشش اصلاح اور ثالثی کوششیں ، عزم طلاق ، طلاق ، عدت ، مفارقت ، تنسیخ نکاح
اب اگر مومن عورت (یا مومن ) معصیت کرے تو اس کے لئے کتاب اللہ میں اللہ نے کیا حکم دیا ہے !
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا جَزَاء بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم (5/38)
سارق(چور) اور سارقہ(چور عورت) اُن دونوں کے ہاتھ کاٹو اللہ کی تنبیہ میں سے جو انہوں نے کمایا یہ اس کی جزا ہے۔اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِءَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (24/2)
پس زانی اور زانیہ کو کوڑے لگاؤ۔ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔او ر تم ان کے لئے اللہ کے دین میں نرمی اختیار نہ کرو۔اگر تم اللہ اور یوم الآخر پر ایمان رکھتے ہو۔اور مومنین میں سے ایک طائفہ کو ان کے اس عزاب کو دیکھنا چاہیئے۔
٭ ۔ مرد (فریق اول) کی بے رغبتی
اگر عورت سر کشی کے بعد وعظ سے یا تنہا کرنے سے یا ضربات سے سنبھل جاتی ہے اور اپنی روش تبدیل کر لیتی ہے۔ اور وہ اس عمل سے باز آجاتی ہے جو وہ کرنے جارہی تھی تو اب مرد کو اسے تنگ کرنے کے لئے حیلے بہانے تلاش نہیں کرنے چاھیں اور نہ ہی اس کی غلطی کے سبب (اگر وہ زنا تک نہیں پہنچتی) اس سے بے رغبتی ظاہر کرنی چاھیئے ۔ مرد کو اللہ نے تنبیہ کی ہے
۔۔۔ َّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً۔۔۔۔۔ (4/34)
…… اور اگر وہ اطاعت کریں تو تم ان پر بغاوت کی راہ مت تلاش کرو
صلح بہرحال بہتر ہے کیونکہ اگر معمولی بات (یا بیوی کی ایسی غلطی جس پر معافی مانگ لی ہو اور اس سے تائب ہو گئی ہو تو اس صورت) میں دونوں میاں بیوی (یا صرف شوہر) انا کا مسئلہ بنا کر علیحدگی پر قائم رہے تو بچوں سے ماں سے جدا ہونے کی صورت میں ان کی تربیت میں جذباتی اور نفسیاتی سقم پیدا ہونے سے بچوں کی ذات میں پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی اور وہ شاید اسلامی معاشرے کے اچھے فرد نہ بن سکیں۔
لیکن میاں اور بیوی کے درمیان، یہ ناچاقی کیوں پیدا ہوتی ہے؟
یہ ہم پاکستانی معاشرے کے تناظر میں نہیں بلکہ، اللہ کے معاشرتی و سماجی، معاشرے کے تناظر میں دیکھیں گے۔ لیکن پہلے
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ إِن کُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحاً جَمِیْلاً (33/28)
اے نبی! اپنی ازواج سے کہہ!اگر تم حیات الدنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ہو!پس آؤ! میں تمھیں متع دوں اور تمھیں خوش اسلوبی سے رخصت کروں۔
یہ حیات الدنیا اور اس کی زینت کیا ہے جس کی خواہش عورتوں کو ہوتی ہے بشمول امھات المومنین؟
کوٹھی، کار، زیورات ، زرق برق کپڑے یا آزادی ء ِ نسواں یا پھر کچھ اور؟
اب چونکہ میں مرد ہو کیا جواب دوں، کوئی عورت ہی بتا سکتی ہے۔ میری زوجہ کی خواہش حیاتِ دنیا ہے کہ اُسے نہ مال و دولت چاھیئے نہ بنگلہ و کار ۔ بس اُس کی خواہش ہے، اۃس کے شوہر کی زندگی میں کوئی اور عورت نہیں آئے ورنہ۔۔۔۔! (اور یہی قابو کرنے کا گُر میرے پاس ہے اور سکون ہی سکون ہے او ر ویسے بھی میرے قبیلے میں کوئی یتیم النساء نہیں اور مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ کا تصور بھی اولی الامر ختم کر چکا ہے)
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (49/13)
اے انسانو! ہم نے تمھیں مذکر اور مؤنث میں تخلیق کیا اور تمھارے شعوب (علاقے) اور قبائل ہم نے بنائے۔ تمھارے تعارف کے لئے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک اکرم وہ ہو جو متقی ہے۔بے شک اللہ علیم خبیر ہے۔
میاں بیوی کے آپس کی ناچاقی قائم ہو اور مرد اس عزم پر قائم ہو کہ وہ اپنے سکون کے لئے دوسری شادی کرے گا۔ اب دو صورتیں ہیں ۔
اول: یہ کہ پہلی بیوی ساتھ رہے۔
دوئم: یہ کہ پہلی بیوی الگ ہو جائے ۔
٭ پہلی بیوی کا ساتھ رہنا
اگر تو وہ شادی یتیم النساء سے کر رہا ہے تو پہلی بیوی کے الگ ہونے کی یہ معقول وجہ نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے مرد کو اس بات کی اجازت سورۃ النساء 4 میں، اس شرط پر دی ہے کہ اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ ازواج کے درمیان انصاف (ہر قسم کا) کر سکے تو اس صورت میں وہ دو دو، تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کرے اور اگراس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کے لئے ایک (یتیم النساء) کافی ہے اور اگر ایک (یتیم النساء) کا نان نفقہ اور دیگر ضروریات اس کے بس کی بات نہیں تو پھر وہ اس کے ساتھ گذارا کرے جو اُس کی ما ملکت ایمان ہے ۔ لیکن اگر وہ ما ملکت ایمان مسلمان ہو جاتی ہے تو اُس کا ٹائیٹل مومنہ فتی (کنیز) ہو جاتا ہے۔
یتیم النسا، محصنات مومنات دونوں سے صا حب حیثیت ہی نکاح کر سکتا ہے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں اور اُس کے پاس ملکت ایمان بھی نہیں تو پھر وہ بے چارہ کیا کرے۔
وَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنکُمْ طَوْلاً أَن یَنکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُم مِّن فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ فَانکِحُوہُنَّ بِإِذْنِ أَہْلِہِنَّ وَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔۔۔۔۔ (4/25)
اگر تم میں سے کوئی اس بات کی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ مومن محصنات سے نکاح کرے، تو وہ تمھاری مومنات فتیات (کنیزوں سے) جو تمھاری قسموں کی ملکیت ہیں (نکاح کرے)۔ اللہ تمھارے ایمان سے واقف ہے اور تم ایک دوسرے میں سے ہو، پس ان کے اہل کی اجازت سے ان سے نکاح کرو، اور ان کے اجور (مہر) دستور کے مطابق انہیں دے دو،۔۔۔۔۔۔
گویا اسلامی معاشرے میں، ایک مرد کے لئے جسمانی تعلقات کی اولیت اس طرح ہو گی ۔
O ۔ ماملکت ایمان سے (افاء اللہ سے تقسیم)
O ۔ مومنات فتیات (کنیزوں سے)
O۔ یتیم النساء سے۔
O۔ محصنات مومنات یا محصنات اہل الکتاب سے
مرد کو دی گئی اس اجازت کے باوجود اگر ایک عورت یہ پسند نہیں کرتی کہ اس پر سوکن آئے اور وہ الگ ہو نا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں وہ طلاق فدیہ (مروج خلع) لے گی ۔
٭ پہلی بیوی کاالگ ہونا
لیکن اگر وہ یہ شادی ان خواتین میں سے کرنا چاہتا ہے جن کی اجازت سورۃ النساء 5 میں ہے یعنی محصنات مومنات یا محصنات اہل الکتاب میں سے اور اگر پہلی بیوی بھی انہی میں سے ہے تو پھر وہ ازاوج بدل کرے گا یعنی پہلی بیوی کو الگ کرے گا اور دوسری لے کر آئے گا۔
اگر تم ایک زوج کو دوسری زوج سے تبدیل کرنا چاہو....... (4/20)
مندرجہ بالا تصریحات سے میاں بیوی کے باہمی مفارقت کے جواہم وجوہ سامنے آئی ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1 باہمی مفارقت بوجہ احکامات الہی۔کفر یاشرک یا زنا
2 باہمی مفارقت بوجہ خواہش مرد ۔ دوسرا نکاح یا قربت سے پہلے مفارقت یا مردکی طرف سے لعان یا ظہار یا ایلاء۔
3 باہمی مفارقت بوجہ خواہش عورت ۔ مرد کی نامردی یا خلع ۔
اس سے پہلے کہ تینوں وجوہ مفارقت کی تفصیل میں جایا جائے ہم میاں بیوی کے معاہدہ نکاح کی مطابقت (Agreement) کو دوبارہ دیکھتے ہیں ۔
ایک فریق معاہدے کے دوسرے سے معاہدہ ختم کرنا چاھتا ہے۔ جبکہ دوسرا فریق اس معاہدے کے خاتمے پر راضی نہیں اب اس معاہدے کو ختم کرنے کے دو طریقے ہیں:۔
٭ معاہدہ اصولوں کے مطابق ختم کیا جائے اور معاہدے کی شرائط کے مطابق معاہدہ ختم کرنے والا دوسرے کو جرمانہ ادا کرے۔ یا
٭ معاہدہ ختم کرنے والا یہ ثابت کرے کہ دوسرے فریق نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کی خلاف ورزی کا ثبوت لازمی ہونا چاہیے۔ اور یہ ثبوت قانون شہادت کے مطابق سچا ہو ۔
جیسا کہ شروع میں لکھا ہے کہ کوئی بھی انسانی معاہدہ ابدی نہیں ہوتا اس کی مضبوطی کا دارومدار فریقیں کی کلی رضامندی پر ہوتا ہے نیز ہر معاہدے کی مدت تکمیل ہوتی ہے ۔ لیکن انسانی معاہدوں میں نکاح ایسا معاہدہ ہے جس کی کوئی مدت تکمیل نہیں۔اس کی کامیابی کا دارومدار میاں بیوی کے باہمی تعلقات اور معروف (مروج رسوم و رواج) پر منحصر ہوتا ہے۔ جبکہ ایک مومن مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کتاب اللہ کی روشنی میں پروان چڑھتے ہیں ۔ ہر دوصورتوں یعنی معروف یا کتاب اللہ کی خلاف ورزی کی صورت میں یہ تعلقات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں معاہدہ نکاح کے ٹوٹنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں معاہدہ نکاح کو ختم کرنے خواہشمند ہوتے ہیں۔ اس صورت میں ان دونوں کے درمیا ن باہمی فضا میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بعینہی وہی صورت حال ہوتی ہے جو کسی معاہدے کے خاتمے سے پہلے نظر آتی ہے دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی ہیں ۔ شدومد سے ایک دوسرے کی مخالفت ہوتی ہے ۔ کردہ اور ناکردہ برائیاں گنوائی جاتی ہیں ہر ایک فریق خُود کو مخلص اور دوسرے کو مجرم گردانتا ہے۔ معاہدہ منسوخ کرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔
اصول مطابقت (Agreement) کے مطابق اس عمل کو عزم منسوخی معاہدہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن کسی بھی صورت میں معاہدے کو منسوخ نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیوں کے اصول معاہدات کے مطابق کے مطابق معاہدہ صرف وہ شخص منسوخ کر سکتا ہے۔ جس نے دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے کی تصدیق کی تھی (خواہ یہ تصدیق تحریری ہو یا زبانی)۔ معاہدات کے بارے میں یہ وہ انسانی رویے ہیں جو آفاقی سچائیوں کی بدولت انسانوں میں مروج ہیں اور یہی رویے اللہ نے کتاب اللہ میں مفصلا مومنون کے لئے لکھے ہیں تاکہ ان میں غلط فیصلے کرنے کا رجحان پیدا نہ ہو ۔
چنانچہ کتاب اللہ کے مطابق جو معاہدہ نکاح کیا گیا اس کی تنسیخ کے عمل کی ترتیب درجہ بدرجہ اس طرح ہو گی کہ سب سے پہلے
ارادہ تنسیخ نکاح ، کوشش اصلاح اور ثالثی کوششیں ، عزم طلاق ، طلاق ، عدت ، مفارقت ، تنسیخ نکاح
٭٭٭٭08- اسلام کا قانونِ نکاح اور طلاق٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭مزید مضامین٭٭٭٭٭٭٭٭٭
النساء -یتیموں اوربیواؤں کی حفاظت،
مرد و عورت کے جسمانی تعلقات،
غلام لڑکی اور جسمانی تعلقات ،
شرع اللہ کے مطابق ،
آیات اللہ پرانسانی ردِعمل ،
مرد و عورت کے جسمانی تعلقات،
غلام لڑکی اور جسمانی تعلقات ،
شرع اللہ کے مطابق ،
آیات اللہ پرانسانی ردِعمل ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں