ذخیرہ اندوزی
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴿104/1﴾
افسوس ہے! ہر هُمَزَةٍ کے لئے اس کے لُّمَزَةٍ کی وجہ سے۔
الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ﴿104/2﴾
(ہمزہ) وہ جس نے مال جمع(ذخیرہ اندوزی) کیا اور پھر اس مال کو گنتا رہا ( یعنیلُّمَزَةٍ میں رہا )۔
(اتنے روپے، اتنا مال اور اتنی زمینیں، یہ عمل لُّمَزَةٍ ہے)
يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ ﴿104/3﴾
وہ(ہمزہ) یہ حساب کرتا رہتا ہے، کہ اس کا مال اس کے لئے ہمیشہ ہے۔
كَلَّا ۖ لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ ﴿104/4﴾
ہرگز نہیں وہ(ہمزہ) الحطمۃ میں ڈالا جائے گا -
نوٹ: الکتاب کی آیات ، جس کی ترتیل اللہ تعالیٰ نے خود کی ہے - ذخیرہ اندوزی کو سمجھنے کے لئے میں اِن کی ترتیل اپنے فہم کے مطابق کرونگا اُن آیات کا ریفرینس بھی ہے آپ اُن کی تصدیق الکتاب سے کر سکتے ہیں ۔ مگر آیات اللہ کو کتاب اللہ کی موجودہ روشنی ہی میں سمجھنا ہے، جو انسانی اقتصادیات کی وجہ سے ، ہمارے لئے مزید بیّن ہو گئی ہے !
ذخیرہ اندوزی کا سب سے مہلک انداز وہ ہے جس میں اموال، پیداواری عاملین کی حیثیت سے ملکی معیشت میں شامل نہ ہوں۔بلکہ ایک جگہ جمع رہنے کی وجہ افراط ِ زر میں اضعافے کا باعث بنتے ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّ اسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿9/34﴾
”اے وہ لوگو جو ایمان لائے! بہت سے احبار (Doctors of Law)اور راہب(ڈرانے والے) لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور انہیں سبیل اللہ سے روکتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو الذھب اور الفضۃ کو خزانہ (ذخیرہ اندوزی) کرتے ہیں اور فی سبیل اللہ ان کا نفاق نہیں کرتے انہیں عذاب الیم کی بشارت دے دو“۔
وہ عذاب الیم کیا ہے؟
يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ﴿9/35﴾
وہ دن جب نار جہنم میں (ان کے مال) ان پر گرم کئے جائیں گے جب ان کی پیشانیاں اور ان کی پشتیں ان سے داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا) یہ ہیں وہ (ذخیرہ اندوزیاں) جو تم خزانے کیا کرتے تھے۔ اب ان خزانوں کا تم مزہ چکھو ۔
ذخیرہ اندوزی سے انسان کیسے بچ سکتا ہے !
سادہ جواب ہے کہ بذریعہ گردشِ زر! گردشِ زر
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿2/267﴾
اے وہ لوگو جو ایمان لائے! (ذخیرہ اندوزی مت کرو بلکہ) انفاق کرو ان طیبات میں سے جو تم کھاتے ہو۔ اور ان میں سے جو ہم تمھارے لئے زمین میں سے نکالتے ہیں۔ اور تم ان میں سے انفاق کے لئے خبیث (اشیاء) کا تیمم (اختصار)مت کرو۔ کہ اگر تمھیں (یہی اشیاء) دی جائیں تو تم خوشی سے نہ لو۔ اور اس کا علم رکھو کہ اللہ غنی اور حمید ہے -
إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿2/271﴾
اگر تم صدقات کو ظاہر کرو تو یہ اس (صدقات) کی نعمت ہے۔ اور اگر تم اسے خفیہ رکھو اور الفقراء تک پہنچاؤ تو وہ تمھارے لئے خیر ہے۔ اور وہ تمھارے سیئات میں سے تمھارے اوپر کفارہ ہے۔اور اللہ کو اس کی خبر ہے جو عمل تم کرتے ہو -
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ﴿2/270﴾
اور جو تم انفاق کرتے ہو نفقہ میں سے یا تم نذر کرتے ہو نذر میں سے پس اللہ کو اس کا علم ہے۔ اور ظالموں کے لئے انصار میں سے کوئی نہیں -
لَـٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿9/88﴾
”لیکن الرسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے اس کے ہمراہ ہیں۔ وہ اپنے اموال اور نفسوں کے ساتھ جَھَاد (حرب ہی) کرتے ہیں۔ اور وہی ہیں جن کے لئے الخیرات ہے۔ اور وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں-
وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا
لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
﴿5/12﴾
اور حقیقت میں اللہ نے بنی اسرائیل سے(بنی اسماعیل سے نہیں) میثاق لیا۔ اور ہم نے ان میں سے اثنیٰ عشر نقیب اٹھائے۔ اور اللہ نے کہا میں تمھارے ساتھ ہوں۔ اگر تم:۔ اقام الصلوٰۃ کرو، اور تم ایتائے الزکوٰۃ کرو، اور تم میرے رسولوں کے ساتھ ایمان لاؤ اور ان کی پشت پناہی کرو، اور تم اللہ کو قرض حسنہ دو۔
تو تم سے تمھارے سیئات کا کفّارہ کروں گا۔ اور تمھیں جنات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور تم میں سے کسی نے اس (کفارے) کے بعد کفر کیا تو وہ راہ سے بھٹک گیا ۔
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا
فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّـهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
﴿2/245﴾
کون ہے ایسا جو اللہ کو قرض حسنہ دے؟ پس وہ اس (قرض حسنہ) کو اس کے لئے اضعافہ کرے گا، کئی گنا اضعافہ۔ اللہ ہی قبض کرتا ہے اور وہ ہی بصط (کشائش) کرتا ہے اور اسی کی طرف تمھارا رجوع ہے۔
انفاق، نفقہ، صدقات، نذر، جہاد بالاموال، الاخیرات، ایتاء الزکوۃ اور اللہ کو قرض حسنہ دینا۔
کیا یہ سب اعمال خزانوں (ذخیرہ اندوزی) کو فروغ دیتے ہیں یا گردشِ زر کو؟
گردش ِزر، انسانی معاشیات کی متوازن کیفیت میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے معاشی حالات بہتر سے بہتر ہوتے جاتے ہیں گردش زر،معیشت دانوں کی سب سے بڑی خواہش ہے کیونکہ جس ملک میں گردش زر ہو وہاں کرنسی مضبوط بنیادوں پر استوار رہتی ہے۔ اس کرنسی کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں نہ صرف قائم رہتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ اپنا قد بلند کرتی رہتی ہے۔
بصورت دیگر جس ملک میں گردشِ زر منجمد ہوجائے تواُس ملک (مثلاً پاکستان) کی کرنسی بین الاقوامی کرنسی (ڈالر) کے مقابلے میں کمزور ہوتی جاتی ہے ۔
وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ------ ﴿30/39﴾
جوکچھ تم ایتاء کرتے ہورباء میں سے تا کہ اس سے لوگوں کے اموال میں یربوا ہو،پس وہ اللہ کے نز دیک یربوا نہیں ہوتا........
گردش زر کو روک کر غیر پیداواری ذخیرہ اندوزی سے کبھی لوگوں کا اموال نہیں بڑھتا، یہ ایک آفاقی سچ ہے۔ وہ تمام ممالک جہاں ملکی بنکوں میں بچت جمع کرانے کا تناسب بہت کم ہے، بچتوں کو زیورات اور جائداد کی صورت میں رکھنے کا رحجان زیادہ ہے، وہاں افراط زر کی شرح بہت ہے۔ اور یہ ممالک قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور وہ تمام ممالک جہاں پیداواری ذخیرہ اندوزی کو فروغ حاصل ہے۔ وہاں افراط زر کی شرح بہت کم ہے اور کئی صورتوں میں بالکل نہیں ہے۔ اور یہ صرف گردش زر کے باعث ہے۔ اور گردش زر کا اللہ بھی حکم دیتا ہے :
----- وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿30/39﴾
” ....... اور جو کچھ تم ایتاء کرتے ہو۔ زکوٰۃ (گردش زر کا ایک رکن) میں سے اللہ (کے حکم کو مانتے ہوئے اس) کی خوشنودی کے لئے۔ پس وہی لوگ (افراط زر کو کم کرکے) اضعافہ کرنے والوں میں سے ہیں“
رباء(Usury) اور منافع (Interest) میں فرق
آج سے 1500 سو سال پہلے تاریخ کے مطابق رباء کی متعدد صورتیں مختلف تاریخی کتب میں درج ہیں:-
1- مجاہد کہتے ہیں: جاہلیت کا رباء یہ تھا کہ ایک شخص کسی سے قرض لیتا اور کہتا کہ اگر مجھے اتنے مہلت دے تو میں اتنا ہی زیادہ دوں گا(مثلاً سال میں دُگنا)-
2- ابو بکر جصاص کی تحقیق یہ ہے کہ اہل جاہلیت میں لوگ ایک دوسرے سے قرض لیتے تو باہم طے ہو جاتاکہ اتنی مدت میں اتنی رقم راس ا لمال سے زیادہ (دوگنا یا چو گنا) ادا کی جائے گی
3۔ قتادہؓ کہتے ھیں جاھلیت کا ربٰو یہ تھا کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز (قرض پر) فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لئے ایک مقررہ وقت تک (ادائے قرض) کی مہلت دیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور اگر وہ قیمت ادا نہ ہوتی تو وہ پھر مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔
4۔ امام رازیؒ کی تحقیق میں اہل جا ہلیت کا یہ دستور تھا کہ وہ ایک شخص کو معین مدت تک رقم دیتے اس سے ماہ بہ ماہ ایک مقرر رقم رباء کے طور پر وصول کرتے رہتے جب وہ مدت ختم ہو جاتی تو مدیون سے اصل زر کا مطالبہ کیا جاتا۔ اگر وہ ادا نہ کر سکتا تو پھر ایک مزید مدت کے لئے مہلت دی جاتی۔ اور رباء میں اضافہ کر دیا جاتا (صرف منافع لینا او ر اصل رقم میعادِ مدت گذرنے کے بعد لینا)۔ کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں۔(تفسیر ابن کبیر)
قرض
اگرہم مندرجہ بالا مثالوں کو غور سے دیکھیں تو ان چاروں اقسام کا تعلق قرض سے ہے۔ اگر ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا ہے۔دوسرا شخص اس قرض کے اوپر ایک معین مدت کے لیئے معین رقم لیتا ہے اور مدت ختم ہونے پر مقروض اصل زر و اپس کر دیتا ہے ۔ یا مزید نئی شرائط پر مھائدہ دوبارہ ہوتا ہے-
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقروض نے کس مقصد کے لئے قرض لیا ہے؟
غیر پیداواری یا پیداواری مقاصد کے لئے ۔
یہاں ایک دوسری مثال سے وضاحت،کہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے 1990ء میں تین مہینے کے لئے 25 ہزارروپے قرض تین ماہ کی مدت کے لئے لیا۔ وہ تین ماہ کی مدت آج کل کرتے کرتے 2004ء تک آ پہنچی۔ مقروض نے قرض ادا نہ کیا اور دنیا کے جھگڑوں سے پیچھا چھڑا کر عازم ِ سفرِ آخرت ہوا۔قرض لینے والا شخص کاروباری آدمی تھا۔
1990ء میں 25 ہزار روپے کرنسی کی قیمت سونے کے برابر (فرض کیا) 12.5 تولے تھی۔مرحوم کی وفات پر جب جائداد تقسیم ہوئی وارثین کو اچانک خیال آیا کہ باپ کی جمع کی ہوئی دولت (مکانِ دکان اور پلاٹ) کی تقسیم سے پہلے قرض ادا کیا جائے۔ تو وہ شخص جس سے مرحوم نے 1990ء میں 25 ہزار روپے لئے تھے۔ ادا کر دیئے جائیں۔ سوال پید ہوتا ہے کہ؟
٭۔ اب کیا اصل زر 25 ہزار روپے ہوگا؟
(یعنی صرف2.77تولے سونے کے برابر) یا
٭۔ اصل زر 1 لاکھ12 ہزار روپے ہو گا؟
(آج سونے کے قیمت ۹ ہزار روپے تولہ ہے) ہوگا۔
یقیناً اصل زر 1لاکھ12 ہزار روپے ہوگا۔کیونکہ مرحوم کی جائیداد جو اب کروڑوں روپے کی ہے۔اُس میں اب اصل زر 25 ہزار روپے کا کم از کم تناسب یہی ہو گا۔
اصولاً دونوں افراد کو،بلکہ ہر انسان کو قرض ِ غیر پیداواری دیتے وقت اعتبارِ زر (روپے) کو میعارِزر (سونے) میں تبدیل کر لینا چاہیئے تاکہ جب مقروض یااُس کے وارثین قرض ادا کریں تو، قرض دینے والا ہاتھ اُٹھا کر بددعائیں نہ دے۔
بشرطیکہ اگر وہ صرف قرض ہو۔لیکن اگرقرض دینے والا سرمایہ کاری کرتا ہے اور ہر مہینے سرمایہ کی گئی رقم پرمنافع حاصل کرتا تو اِس صورت میں روپے کو میعارِزر میں تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔
قرض کی دو اقسام ہیں:
1 ۔ پیداواری مقاصد کے لئے قرض۔
2 ۔ غیر پیداواری مقاصد کے لئے قرض۔
وہ تمام مقاصد جن میں قرض لینے والے کو اس قرض سے تجارتی فائدہ نہ ہو اور وہ اپنے کسی نہایت ضروری مقصد کے لئے قرض حاصل کرتا ہے تووہ ”غیرپیداواری مقاصد کے لئے قرض“ کہلاتا ہے۔ تمام قسم کے تجارتی مقاصد میں استعمال ہونے والا قرض”پیداواری مقاصد کے لئے قرض“ کہلاتا ہے۔
اگر یہ قرض صرف کم مدت کے لیا گیا ہو تو مقروض سے صرف اصل زر ہی لیا جائے گا۔اس کے لئے قرض کی رقم کو سونے کے معیار میں تبدیل کیا جائے گا۔ اور یہ سمجھا جائے کہ مقروض نے اتنا سونا قرض لیا ہے اور وہ اتنا ہی سونا واپس کرے گا۔ تو اس سے نہ قرض دینے والے کو الجھن ہوگی اور اگر مقروض حیلے بہانے کرکے قرض کی مدت کو دس سال کے عرصے پر محیط کر دیتا ہے تو اس صورت میں قرض خواہ کو اس مد میں نقصان تو ہوگا کہ اگر وہ یہ رقم کاروبار میں لگاتا تو اس کو اس رقم سے کہیں زیادہ منافع حاصل ہوتا جو اسے افراط زر کی صورت میں سونے کی وجہ سے compensate ہوتی ہے۔اور اس کو افراط زر کی صورت میں ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو جاتا ہے
تجارت پیشہ اور کارباری افراد کو اس امر کا بخوبی تجربہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے منافع کی شرح اگر گر بھی جائے تو مجموعی طورپر اوسطاً یہ پانچ فیصد ضرور رہتی ہے۔
گویا اگر ہم منافع کی اس شرح سے دس سال پہلے دئے گئے قرض کے25 ہزارروپے کو سادہ طریقے سے کاروبار میں لگا ہو تصور کریں تو اس کا سادہ منافع سالانہ15,000/- روپے اور دس سالہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے بنتا ہے اور اگر قومی بچت کے ادارے میں Invest کیا ہو ا سمجھیں تو یہ ایک لاکھ روپے بنتا ہے 75,000/-روپے دراصل 625/- روپے ماہانہ عاملین ِپیدائش کا انتظامی خرچہ ہے۔
موجودہ منافع (Interest)کا تصور اس رباء کے تصور سے یکسر مختلف ہے جو کتاب اللہ میں درج ہے۔ رباء سے افراط زر راس المال سے بڑھی ہوئی رقم کی قیمت میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ اس میں کمی کر دیتا ہے۔ انسانی معیشیت کا سارا کاروبار سرمائے کے اجتماع (ذخیرہ اندوزی برائے پیداواری مقصد) پر منحصر ہے ۔
تنظیم
انسانی معیشت کا سارا کاروبار سرمائے کے اجتماع (ذخیرہ اندازی) پر منحصر ہے۔ ایک آدمی اتنا سرمایہ اکٹھا نہیں کر سکتا جس سے کوئی منافع بخش کاروبار شروع کر سکے، چنانچہ کئی افراد اکٹھے ہو کر اپنے اپنے سرمائے کے اشتراک سے مل کر کاروبار شروع کرتے ہیں۔ اب سرمائے کا یہ اجتماع، جس تنظیمی سطح پر ہوتا ہے وہ یا تو تاجروں کی تنظیم ہوتی ہے یا پھر حکومتی تنظیم۔ تاجروں کی تنظیم میں شمولیت کے لئے رقم کی ایک مناسب حد لازمی ہے ۔ جبکہ حکومتی تنظیم میں بھی یہ ایک مناسب حد ہی ہو گی لیکن اس کی نچلی سطح بہت کم ہو گی۔ مثلاً، ایک ہزار روپے کے سرمائے سے کوئی تاجرانہ تنظیم، مشارکت کی دعوت نہیں دیتی جبکہ حکومت، اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ لوگوں میں بچت کا رحجان ہو، جو کاروبار نہیں کر سکتے وہ حکومت کے پاس محفوظ سرمایہ کاری کریں، حکومت لوگوں کو ان کی بچتوں پر منافع دے۔ یوں سرمایہ گردش میں رہے اور افراط زر میں اضافہ نہ ہو۔ اس کے لئے حکومت اور اس کی نیابت میں کام کرنے والے بنک: -
1 - لوگوں کی بچت سے حاصل شدہ سرمائے کو تجارتی مقاصد میں لگا کر ملکی پیداوار اور دولت میں اضعافہ کرتے ہیں۔
2 - شرح منافع ,(Interest) لوگوں کو بچت میں اضعافے پر مائل کرتی ہے۔
3- شرح منافع ,(Interest) میں اضعافہ، سرمائے کے غیر پیداواری استعمال کو روکتا ہے-
4- شرح منافع ,(Interest) انسانی تعیشات کی اشیائے خرید کو کم کرتاہے۔
5 - شرح منافع ,(Interest) میں اضعافے کے لئے حکومت سرمائے کو منافع بخش سکیموں پر لگاتی ہے۔
6 - قرض انسانی زندگی کی ناگزیر ضرورت ہے، نہ صف آج بلکہ جب سے انسانی معاشی سرگرمیاں وجود میں آئی ہیں- ایک فرد یا افراد کو کاروباری یا دیگر ضروریات کی وجہ سے اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لہذا حکومت اور بنک مختلف شرح منافع ,(Interest) پر قرضے دے کر ان کی ضروریات پوری کرتی ہے۔
7- اگر شرح منافع ,(Interest) ختم کر دی جائے تو وہ تمام افراد جنہوں نے اپنی بچتیں حکومت یا اسکے بنکوں میں رکھوائی ہیں نکلوا لیں گے۔ اس طرح حکومت کے پاس قرض دینے کے وسائل ختم ہو جائیں گے۔
8- اگر لوگ اپنی تمام بچائی ہوئی رقوم اپنے اپنے گھروں میں رکھیں تو یہ صورتِ حال گردشِ زر کو روک دے گی اور افراط زر کی سطح یکدم بلند ہو جائے گی۔ اس طرح غیر پیداواری ذخیرہ اندوزی کو فروغ حاصل ہو گا
تجارت بنکوں میں ایک مخصوص مدت کے لئے رکھوائی گئی رقم اور اس پر حاصل کیا گیا، منافع رباء میں نہیں آتا کیونکہ: -
1 تجارت کی دو اقسام ہیں: .
a مشارکت ۔ اس تجارت میں شامل، تما م افراد عملاً حصہ لیتے ہیں۔ او رتما م اخراجات نکال کر منافع آپس میں لگائی گئی رقم کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ نقصان میں بھی برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
b - مضاربت ۔ اس تجارت میں شامل، کچھ افراد عملاً حصہ لیتے ہیں۔ اور کچھ افراد بحیثیت Sleeping Partner شامل ہوتے ہیں - جو افراد عملاً حصہ لیتے ہیں وہ تمام اخراجات اور اپنے حصے کا معاوضہ، منافعے سے نکالنے کے بعد منافع تمام حصہ داروں بشمول Sleeping Partner میں لگائی گئی رقم کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ نقصان میں بھی برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
2 - بنکوں سے حاصل کئے جانے والے منافع کی حیثیت مضاربہ کاروبار میں ملنے والے منافع کی سی ہے ۔
3- بنک میں سرمایہ رکھنے والا شخص، لازمی نہیں کہ جس مدت کے لئے اس نے رقم رکھنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اسے پورا کرے۔ وہ اس سے پہلے بھی اپنی رقم نکلوا سکتا ہے۔چونکہ وہ مخصوص مدت کے معاہدے کو توڑرہا ہے ۔ لہذا بنک اس سے جرمانہ وصول کر تا ہے ۔ معاہدے کی یہ مدت بنک کی مختلف سکیموں کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ اور ان میں شرح منافع بھی مختلف ہوتی ہے ۔
4 - بنک کی حیثیت ایک مضاربہ تاجر کی ہوتی ہے۔ جس کو کئی افراد اپنا سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور وہ ان کی نیابت کرتے ہوئے ان کی رقم کاروبار میں لگاتا ہے -
5 -شراکت میں سرمایہ دار جس طرح نفع اور نقصان میں برابر کا شریک ہوتا ہے اسی طرح مضاربت میں بھی سرمایہ دار نفع اور نقصان میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ اگر بنک کی غلط پالیسی یا کسی اور وجہ سے سرمایہ ڈوب جائے تو سرمایہ دار کا سرمایہ بھی ڈوب جاتا ہے یا اسے اس کے لگائے گئے سرمائے کا کچھ فیصد واپس ہوتا ہے۔
6- بنک بحیثیت مضاربہ، شرح منافع میں حکومت کی پالیسیوں اور مارکیٹ کے حالات کے مطابق کمی بیشی کرتا رہتا ہے ۔
7 - مضاربہ تجارت میں سرمایہ دار اپنا سرمایہ قابلِ اعتماد تاجر کو دیتے ہیں۔ جو سرمائے کو مسلسل تجارت کے عمل میں زیر گردش رکھتا ہے اور سرمایہ دار کو مسلسل منافع دیتا ہے۔ یہی عمل بنک بھی انجام دیتے ہیں۔
8 - مضاربت میں، تاجر ایک جگہ سے مال لے جاکر دوسری جگہ فروخت کرتا ہے اور اس کا منافع اخراجات اور اپنی محنت کا معاوضہ وصول کر کے باقی منافع سرمایہ دار کو مہیا کرتا ہے یا سرمایہ دار کی رائے کے مطابق اس کو اصل زر میں شامل کر کے مزید منافع کا ذریعہ بناتا ہے ۔ بنک بھی اس عمل پر کاربند ہوتا ہے۔
مثلاً ایک شخص سامانِ تجارت لے کر دوسرے ملک گیا وہاں اس نے تمام سامانِ تجارت فروخت کر دیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم (اصل زر+منافع=اصل زر) سے دوسرا سامانِ تجارت خرید کر اپنے ملک میں لاکر بیچا گویا منافع در منافع کمایا۔
9- بنکوں میں کام کرنے والے افراد،سرمایہ کار کےBehalf محنت کرتے ہیں اور اپنی محنت کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ جو سرمایہ کار کے منافع کا حصہ ہوتی ہے -
10- بنک اپنے روزمرہ کے مختلف اخراجات (سٹیشنری، عمارت کا کرایہ و دیگر) سرمایہ کار کے منافع ہی سے ادا کرتے ہیں -
11- بنک، مضاربہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے اس میں کام کرنے والے افراد کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح ملک تعلیم یافتہ اور ماہر افراد کو روزگار مہیا ہوتا ہے ۔
12- اکثر افراد جنھیں استعدادِ تجارت نہیں ہوتی لہذا وہ اپنی بچتیں صرف اس وجہ سے بنکوں میں رکھتے ہیں کہ ان پر منافع ملتا ہے۔اگر یہ منافع ختم کر دیا جائے تو یہ سب افراد اپنی اپنی رقوم بنکوں سے نکلوا لیں گے جس کی وجہ سے:-
a - معاشی عدم توازن پیدا ہو گا اور ملکی معیشت ایک دم بیٹھ جائے گی۔
b - بنک میں کام کرنے والے افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔
c - بین الاقوامی سطح پر ملکی کرنسی کی Value گر جائے گی۔
d - حکومت کو اپنی ضروریات کے لئے مزید کرنسی چھاپنا پڑے گی جس کے باعث افراط ِ زر کی سطح بڑھ جائے گی۔
e - ملکی اور بین الاقوامی تجارت میں ادائیگیوں کا توازن بگڑ جائے گا۔
f - ملکی اور بین الاقوامی تجارت میں کمی واقع ہو گی۔
g - ملکی ترقی کی رفتار رک جائے گی۔
اس کی مثال ملکی قومی بچت میں حکومت کے عدم توجہ کے باعث منافع کمی کی وجہ سے تمام لوگوں نے اپنی بچتیں نکال کر ان کی رہا ئشی پلاٹوں میں سرمایہ کاری کی جس کی وجہ سے اُن کی قیمت تین سے دس گنا ہو گئی اور یوں راس المال: المال سے دوگنا چوگنا بلکہ کئی گنا ہو گیا۔
بیع اور رباء میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ رباء میں گردشِ زر ساکت ہو جاتی ہے جبکہ بیع میں گردشِ زر اپنی عام حالت کے مطابق جاری رہتی ہے۔
چنانچہ رباء میں ہر وہ ذخیرہ اندوزی آتی ہے جو غیر پیداواری ہو۔
1- اشیائے خورد و نوش کی ذخیرہ اندوزی اس مقصد کے لئے کہ اس پر اجارہ داری کے باعث اس رقم اور منافعے سے زیادہ وصول کیا جائے جس کا ذخیرہ اندوز حقدار نہیں ۔ رباء ہے۔
2- مکانوں کی اس غرض سے تعمیر کہ ان کے کرائے وصول کئے جائیں۔ رباء ہے۔
3- زمینوں کی خرید اور ان کو بغیر کاشت کے اس غرض سے رکھنا کہ وہ آئیندہ منافع دیں، رباء ہے۔
4- غیر پیداواری قرض پر اصل زرسے زیادہ وصول کرنا رباء ہے۔
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴿104/1﴾
افسوس ہے! ہر هُمَزَةٍ کے لئے اس کے لُّمَزَةٍ کی وجہ سے۔
الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ﴿104/2﴾
(ہمزہ) وہ جس نے مال جمع(ذخیرہ اندوزی) کیا اور پھر اس مال کو گنتا رہا ( یعنیلُّمَزَةٍ میں رہا )۔
(اتنے روپے، اتنا مال اور اتنی زمینیں، یہ عمل لُّمَزَةٍ ہے)
يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ ﴿104/3﴾
وہ(ہمزہ) یہ حساب کرتا رہتا ہے، کہ اس کا مال اس کے لئے ہمیشہ ہے۔
كَلَّا ۖ لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ ﴿104/4﴾
ہرگز نہیں وہ(ہمزہ) الحطمۃ میں ڈالا جائے گا -
نوٹ: الکتاب کی آیات ، جس کی ترتیل اللہ تعالیٰ نے خود کی ہے - ذخیرہ اندوزی کو سمجھنے کے لئے میں اِن کی ترتیل اپنے فہم کے مطابق کرونگا اُن آیات کا ریفرینس بھی ہے آپ اُن کی تصدیق الکتاب سے کر سکتے ہیں ۔ مگر آیات اللہ کو کتاب اللہ کی موجودہ روشنی ہی میں سمجھنا ہے، جو انسانی اقتصادیات کی وجہ سے ، ہمارے لئے مزید بیّن ہو گئی ہے !
ذخیرہ اندوزی کا سب سے مہلک انداز وہ ہے جس میں اموال، پیداواری عاملین کی حیثیت سے ملکی معیشت میں شامل نہ ہوں۔بلکہ ایک جگہ جمع رہنے کی وجہ افراط ِ زر میں اضعافے کا باعث بنتے ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّ اسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿9/34﴾
”اے وہ لوگو جو ایمان لائے! بہت سے احبار (Doctors of Law)اور راہب(ڈرانے والے) لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور انہیں سبیل اللہ سے روکتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو الذھب اور الفضۃ کو خزانہ (ذخیرہ اندوزی) کرتے ہیں اور فی سبیل اللہ ان کا نفاق نہیں کرتے انہیں عذاب الیم کی بشارت دے دو“۔
وہ عذاب الیم کیا ہے؟
يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ﴿9/35﴾
وہ دن جب نار جہنم میں (ان کے مال) ان پر گرم کئے جائیں گے جب ان کی پیشانیاں اور ان کی پشتیں ان سے داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا) یہ ہیں وہ (ذخیرہ اندوزیاں) جو تم خزانے کیا کرتے تھے۔ اب ان خزانوں کا تم مزہ چکھو ۔
ذخیرہ اندوزی سے انسان کیسے بچ سکتا ہے !
سادہ جواب ہے کہ بذریعہ گردشِ زر! گردشِ زر
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿2/267﴾
اے وہ لوگو جو ایمان لائے! (ذخیرہ اندوزی مت کرو بلکہ) انفاق کرو ان طیبات میں سے جو تم کھاتے ہو۔ اور ان میں سے جو ہم تمھارے لئے زمین میں سے نکالتے ہیں۔ اور تم ان میں سے انفاق کے لئے خبیث (اشیاء) کا تیمم (اختصار)مت کرو۔ کہ اگر تمھیں (یہی اشیاء) دی جائیں تو تم خوشی سے نہ لو۔ اور اس کا علم رکھو کہ اللہ غنی اور حمید ہے -
إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿2/271﴾
اگر تم صدقات کو ظاہر کرو تو یہ اس (صدقات) کی نعمت ہے۔ اور اگر تم اسے خفیہ رکھو اور الفقراء تک پہنچاؤ تو وہ تمھارے لئے خیر ہے۔ اور وہ تمھارے سیئات میں سے تمھارے اوپر کفارہ ہے۔اور اللہ کو اس کی خبر ہے جو عمل تم کرتے ہو -
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ﴿2/270﴾
اور جو تم انفاق کرتے ہو نفقہ میں سے یا تم نذر کرتے ہو نذر میں سے پس اللہ کو اس کا علم ہے۔ اور ظالموں کے لئے انصار میں سے کوئی نہیں -
لَـٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿9/88﴾
”لیکن الرسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے اس کے ہمراہ ہیں۔ وہ اپنے اموال اور نفسوں کے ساتھ جَھَاد (حرب ہی) کرتے ہیں۔ اور وہی ہیں جن کے لئے الخیرات ہے۔ اور وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں-
وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا
لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
﴿5/12﴾
اور حقیقت میں اللہ نے بنی اسرائیل سے(بنی اسماعیل سے نہیں) میثاق لیا۔ اور ہم نے ان میں سے اثنیٰ عشر نقیب اٹھائے۔ اور اللہ نے کہا میں تمھارے ساتھ ہوں۔ اگر تم:۔ اقام الصلوٰۃ کرو، اور تم ایتائے الزکوٰۃ کرو، اور تم میرے رسولوں کے ساتھ ایمان لاؤ اور ان کی پشت پناہی کرو، اور تم اللہ کو قرض حسنہ دو۔
تو تم سے تمھارے سیئات کا کفّارہ کروں گا۔ اور تمھیں جنات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور تم میں سے کسی نے اس (کفارے) کے بعد کفر کیا تو وہ راہ سے بھٹک گیا ۔
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا
فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّـهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
﴿2/245﴾
کون ہے ایسا جو اللہ کو قرض حسنہ دے؟ پس وہ اس (قرض حسنہ) کو اس کے لئے اضعافہ کرے گا، کئی گنا اضعافہ۔ اللہ ہی قبض کرتا ہے اور وہ ہی بصط (کشائش) کرتا ہے اور اسی کی طرف تمھارا رجوع ہے۔
انفاق، نفقہ، صدقات، نذر، جہاد بالاموال، الاخیرات، ایتاء الزکوۃ اور اللہ کو قرض حسنہ دینا۔
کیا یہ سب اعمال خزانوں (ذخیرہ اندوزی) کو فروغ دیتے ہیں یا گردشِ زر کو؟
گردش ِزر، انسانی معاشیات کی متوازن کیفیت میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے معاشی حالات بہتر سے بہتر ہوتے جاتے ہیں گردش زر،معیشت دانوں کی سب سے بڑی خواہش ہے کیونکہ جس ملک میں گردش زر ہو وہاں کرنسی مضبوط بنیادوں پر استوار رہتی ہے۔ اس کرنسی کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں نہ صرف قائم رہتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ اپنا قد بلند کرتی رہتی ہے۔
بصورت دیگر جس ملک میں گردشِ زر منجمد ہوجائے تواُس ملک (مثلاً پاکستان) کی کرنسی بین الاقوامی کرنسی (ڈالر) کے مقابلے میں کمزور ہوتی جاتی ہے ۔
وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ------ ﴿30/39﴾
جوکچھ تم ایتاء کرتے ہورباء میں سے تا کہ اس سے لوگوں کے اموال میں یربوا ہو،پس وہ اللہ کے نز دیک یربوا نہیں ہوتا........
گردش زر کو روک کر غیر پیداواری ذخیرہ اندوزی سے کبھی لوگوں کا اموال نہیں بڑھتا، یہ ایک آفاقی سچ ہے۔ وہ تمام ممالک جہاں ملکی بنکوں میں بچت جمع کرانے کا تناسب بہت کم ہے، بچتوں کو زیورات اور جائداد کی صورت میں رکھنے کا رحجان زیادہ ہے، وہاں افراط زر کی شرح بہت ہے۔ اور یہ ممالک قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور وہ تمام ممالک جہاں پیداواری ذخیرہ اندوزی کو فروغ حاصل ہے۔ وہاں افراط زر کی شرح بہت کم ہے اور کئی صورتوں میں بالکل نہیں ہے۔ اور یہ صرف گردش زر کے باعث ہے۔ اور گردش زر کا اللہ بھی حکم دیتا ہے :
----- وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿30/39﴾
” ....... اور جو کچھ تم ایتاء کرتے ہو۔ زکوٰۃ (گردش زر کا ایک رکن) میں سے اللہ (کے حکم کو مانتے ہوئے اس) کی خوشنودی کے لئے۔ پس وہی لوگ (افراط زر کو کم کرکے) اضعافہ کرنے والوں میں سے ہیں“
رباء(Usury) اور منافع (Interest) میں فرق
آج سے 1500 سو سال پہلے تاریخ کے مطابق رباء کی متعدد صورتیں مختلف تاریخی کتب میں درج ہیں:-
1- مجاہد کہتے ہیں: جاہلیت کا رباء یہ تھا کہ ایک شخص کسی سے قرض لیتا اور کہتا کہ اگر مجھے اتنے مہلت دے تو میں اتنا ہی زیادہ دوں گا(مثلاً سال میں دُگنا)-
2- ابو بکر جصاص کی تحقیق یہ ہے کہ اہل جاہلیت میں لوگ ایک دوسرے سے قرض لیتے تو باہم طے ہو جاتاکہ اتنی مدت میں اتنی رقم راس ا لمال سے زیادہ (دوگنا یا چو گنا) ادا کی جائے گی
3۔ قتادہؓ کہتے ھیں جاھلیت کا ربٰو یہ تھا کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز (قرض پر) فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لئے ایک مقررہ وقت تک (ادائے قرض) کی مہلت دیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور اگر وہ قیمت ادا نہ ہوتی تو وہ پھر مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔
4۔ امام رازیؒ کی تحقیق میں اہل جا ہلیت کا یہ دستور تھا کہ وہ ایک شخص کو معین مدت تک رقم دیتے اس سے ماہ بہ ماہ ایک مقرر رقم رباء کے طور پر وصول کرتے رہتے جب وہ مدت ختم ہو جاتی تو مدیون سے اصل زر کا مطالبہ کیا جاتا۔ اگر وہ ادا نہ کر سکتا تو پھر ایک مزید مدت کے لئے مہلت دی جاتی۔ اور رباء میں اضافہ کر دیا جاتا (صرف منافع لینا او ر اصل رقم میعادِ مدت گذرنے کے بعد لینا)۔ کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں۔(تفسیر ابن کبیر)
قرض
اگرہم مندرجہ بالا مثالوں کو غور سے دیکھیں تو ان چاروں اقسام کا تعلق قرض سے ہے۔ اگر ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا ہے۔دوسرا شخص اس قرض کے اوپر ایک معین مدت کے لیئے معین رقم لیتا ہے اور مدت ختم ہونے پر مقروض اصل زر و اپس کر دیتا ہے ۔ یا مزید نئی شرائط پر مھائدہ دوبارہ ہوتا ہے-
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقروض نے کس مقصد کے لئے قرض لیا ہے؟
غیر پیداواری یا پیداواری مقاصد کے لئے ۔
یہاں ایک دوسری مثال سے وضاحت،کہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے 1990ء میں تین مہینے کے لئے 25 ہزارروپے قرض تین ماہ کی مدت کے لئے لیا۔ وہ تین ماہ کی مدت آج کل کرتے کرتے 2004ء تک آ پہنچی۔ مقروض نے قرض ادا نہ کیا اور دنیا کے جھگڑوں سے پیچھا چھڑا کر عازم ِ سفرِ آخرت ہوا۔قرض لینے والا شخص کاروباری آدمی تھا۔
1990ء میں 25 ہزار روپے کرنسی کی قیمت سونے کے برابر (فرض کیا) 12.5 تولے تھی۔مرحوم کی وفات پر جب جائداد تقسیم ہوئی وارثین کو اچانک خیال آیا کہ باپ کی جمع کی ہوئی دولت (مکانِ دکان اور پلاٹ) کی تقسیم سے پہلے قرض ادا کیا جائے۔ تو وہ شخص جس سے مرحوم نے 1990ء میں 25 ہزار روپے لئے تھے۔ ادا کر دیئے جائیں۔ سوال پید ہوتا ہے کہ؟
٭۔ اب کیا اصل زر 25 ہزار روپے ہوگا؟
(یعنی صرف2.77تولے سونے کے برابر) یا
٭۔ اصل زر 1 لاکھ12 ہزار روپے ہو گا؟
(آج سونے کے قیمت ۹ ہزار روپے تولہ ہے) ہوگا۔
یقیناً اصل زر 1لاکھ12 ہزار روپے ہوگا۔کیونکہ مرحوم کی جائیداد جو اب کروڑوں روپے کی ہے۔اُس میں اب اصل زر 25 ہزار روپے کا کم از کم تناسب یہی ہو گا۔
اصولاً دونوں افراد کو،بلکہ ہر انسان کو قرض ِ غیر پیداواری دیتے وقت اعتبارِ زر (روپے) کو میعارِزر (سونے) میں تبدیل کر لینا چاہیئے تاکہ جب مقروض یااُس کے وارثین قرض ادا کریں تو، قرض دینے والا ہاتھ اُٹھا کر بددعائیں نہ دے۔
بشرطیکہ اگر وہ صرف قرض ہو۔لیکن اگرقرض دینے والا سرمایہ کاری کرتا ہے اور ہر مہینے سرمایہ کی گئی رقم پرمنافع حاصل کرتا تو اِس صورت میں روپے کو میعارِزر میں تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔
قرض کی دو اقسام ہیں:
1 ۔ پیداواری مقاصد کے لئے قرض۔
2 ۔ غیر پیداواری مقاصد کے لئے قرض۔
وہ تمام مقاصد جن میں قرض لینے والے کو اس قرض سے تجارتی فائدہ نہ ہو اور وہ اپنے کسی نہایت ضروری مقصد کے لئے قرض حاصل کرتا ہے تووہ ”غیرپیداواری مقاصد کے لئے قرض“ کہلاتا ہے۔ تمام قسم کے تجارتی مقاصد میں استعمال ہونے والا قرض”پیداواری مقاصد کے لئے قرض“ کہلاتا ہے۔
اگر یہ قرض صرف کم مدت کے لیا گیا ہو تو مقروض سے صرف اصل زر ہی لیا جائے گا۔اس کے لئے قرض کی رقم کو سونے کے معیار میں تبدیل کیا جائے گا۔ اور یہ سمجھا جائے کہ مقروض نے اتنا سونا قرض لیا ہے اور وہ اتنا ہی سونا واپس کرے گا۔ تو اس سے نہ قرض دینے والے کو الجھن ہوگی اور اگر مقروض حیلے بہانے کرکے قرض کی مدت کو دس سال کے عرصے پر محیط کر دیتا ہے تو اس صورت میں قرض خواہ کو اس مد میں نقصان تو ہوگا کہ اگر وہ یہ رقم کاروبار میں لگاتا تو اس کو اس رقم سے کہیں زیادہ منافع حاصل ہوتا جو اسے افراط زر کی صورت میں سونے کی وجہ سے compensate ہوتی ہے۔اور اس کو افراط زر کی صورت میں ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو جاتا ہے
تجارت پیشہ اور کارباری افراد کو اس امر کا بخوبی تجربہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے منافع کی شرح اگر گر بھی جائے تو مجموعی طورپر اوسطاً یہ پانچ فیصد ضرور رہتی ہے۔
گویا اگر ہم منافع کی اس شرح سے دس سال پہلے دئے گئے قرض کے25 ہزارروپے کو سادہ طریقے سے کاروبار میں لگا ہو تصور کریں تو اس کا سادہ منافع سالانہ15,000/- روپے اور دس سالہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے بنتا ہے اور اگر قومی بچت کے ادارے میں Invest کیا ہو ا سمجھیں تو یہ ایک لاکھ روپے بنتا ہے 75,000/-روپے دراصل 625/- روپے ماہانہ عاملین ِپیدائش کا انتظامی خرچہ ہے۔
موجودہ منافع (Interest)کا تصور اس رباء کے تصور سے یکسر مختلف ہے جو کتاب اللہ میں درج ہے۔ رباء سے افراط زر راس المال سے بڑھی ہوئی رقم کی قیمت میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ اس میں کمی کر دیتا ہے۔ انسانی معیشیت کا سارا کاروبار سرمائے کے اجتماع (ذخیرہ اندوزی برائے پیداواری مقصد) پر منحصر ہے ۔
تنظیم
انسانی معیشت کا سارا کاروبار سرمائے کے اجتماع (ذخیرہ اندازی) پر منحصر ہے۔ ایک آدمی اتنا سرمایہ اکٹھا نہیں کر سکتا جس سے کوئی منافع بخش کاروبار شروع کر سکے، چنانچہ کئی افراد اکٹھے ہو کر اپنے اپنے سرمائے کے اشتراک سے مل کر کاروبار شروع کرتے ہیں۔ اب سرمائے کا یہ اجتماع، جس تنظیمی سطح پر ہوتا ہے وہ یا تو تاجروں کی تنظیم ہوتی ہے یا پھر حکومتی تنظیم۔ تاجروں کی تنظیم میں شمولیت کے لئے رقم کی ایک مناسب حد لازمی ہے ۔ جبکہ حکومتی تنظیم میں بھی یہ ایک مناسب حد ہی ہو گی لیکن اس کی نچلی سطح بہت کم ہو گی۔ مثلاً، ایک ہزار روپے کے سرمائے سے کوئی تاجرانہ تنظیم، مشارکت کی دعوت نہیں دیتی جبکہ حکومت، اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ لوگوں میں بچت کا رحجان ہو، جو کاروبار نہیں کر سکتے وہ حکومت کے پاس محفوظ سرمایہ کاری کریں، حکومت لوگوں کو ان کی بچتوں پر منافع دے۔ یوں سرمایہ گردش میں رہے اور افراط زر میں اضافہ نہ ہو۔ اس کے لئے حکومت اور اس کی نیابت میں کام کرنے والے بنک: -
1 - لوگوں کی بچت سے حاصل شدہ سرمائے کو تجارتی مقاصد میں لگا کر ملکی پیداوار اور دولت میں اضعافہ کرتے ہیں۔
2 - شرح منافع ,(Interest) لوگوں کو بچت میں اضعافے پر مائل کرتی ہے۔
3- شرح منافع ,(Interest) میں اضعافہ، سرمائے کے غیر پیداواری استعمال کو روکتا ہے-
4- شرح منافع ,(Interest) انسانی تعیشات کی اشیائے خرید کو کم کرتاہے۔
5 - شرح منافع ,(Interest) میں اضعافے کے لئے حکومت سرمائے کو منافع بخش سکیموں پر لگاتی ہے۔
6 - قرض انسانی زندگی کی ناگزیر ضرورت ہے، نہ صف آج بلکہ جب سے انسانی معاشی سرگرمیاں وجود میں آئی ہیں- ایک فرد یا افراد کو کاروباری یا دیگر ضروریات کی وجہ سے اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لہذا حکومت اور بنک مختلف شرح منافع ,(Interest) پر قرضے دے کر ان کی ضروریات پوری کرتی ہے۔
7- اگر شرح منافع ,(Interest) ختم کر دی جائے تو وہ تمام افراد جنہوں نے اپنی بچتیں حکومت یا اسکے بنکوں میں رکھوائی ہیں نکلوا لیں گے۔ اس طرح حکومت کے پاس قرض دینے کے وسائل ختم ہو جائیں گے۔
8- اگر لوگ اپنی تمام بچائی ہوئی رقوم اپنے اپنے گھروں میں رکھیں تو یہ صورتِ حال گردشِ زر کو روک دے گی اور افراط زر کی سطح یکدم بلند ہو جائے گی۔ اس طرح غیر پیداواری ذخیرہ اندوزی کو فروغ حاصل ہو گا
تجارت بنکوں میں ایک مخصوص مدت کے لئے رکھوائی گئی رقم اور اس پر حاصل کیا گیا، منافع رباء میں نہیں آتا کیونکہ: -
1 تجارت کی دو اقسام ہیں: .
a مشارکت ۔ اس تجارت میں شامل، تما م افراد عملاً حصہ لیتے ہیں۔ او رتما م اخراجات نکال کر منافع آپس میں لگائی گئی رقم کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ نقصان میں بھی برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
b - مضاربت ۔ اس تجارت میں شامل، کچھ افراد عملاً حصہ لیتے ہیں۔ اور کچھ افراد بحیثیت Sleeping Partner شامل ہوتے ہیں - جو افراد عملاً حصہ لیتے ہیں وہ تمام اخراجات اور اپنے حصے کا معاوضہ، منافعے سے نکالنے کے بعد منافع تمام حصہ داروں بشمول Sleeping Partner میں لگائی گئی رقم کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ نقصان میں بھی برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
2 - بنکوں سے حاصل کئے جانے والے منافع کی حیثیت مضاربہ کاروبار میں ملنے والے منافع کی سی ہے ۔
3- بنک میں سرمایہ رکھنے والا شخص، لازمی نہیں کہ جس مدت کے لئے اس نے رقم رکھنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اسے پورا کرے۔ وہ اس سے پہلے بھی اپنی رقم نکلوا سکتا ہے۔چونکہ وہ مخصوص مدت کے معاہدے کو توڑرہا ہے ۔ لہذا بنک اس سے جرمانہ وصول کر تا ہے ۔ معاہدے کی یہ مدت بنک کی مختلف سکیموں کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ اور ان میں شرح منافع بھی مختلف ہوتی ہے ۔
4 - بنک کی حیثیت ایک مضاربہ تاجر کی ہوتی ہے۔ جس کو کئی افراد اپنا سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور وہ ان کی نیابت کرتے ہوئے ان کی رقم کاروبار میں لگاتا ہے -
5 -شراکت میں سرمایہ دار جس طرح نفع اور نقصان میں برابر کا شریک ہوتا ہے اسی طرح مضاربت میں بھی سرمایہ دار نفع اور نقصان میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ اگر بنک کی غلط پالیسی یا کسی اور وجہ سے سرمایہ ڈوب جائے تو سرمایہ دار کا سرمایہ بھی ڈوب جاتا ہے یا اسے اس کے لگائے گئے سرمائے کا کچھ فیصد واپس ہوتا ہے۔
6- بنک بحیثیت مضاربہ، شرح منافع میں حکومت کی پالیسیوں اور مارکیٹ کے حالات کے مطابق کمی بیشی کرتا رہتا ہے ۔
7 - مضاربہ تجارت میں سرمایہ دار اپنا سرمایہ قابلِ اعتماد تاجر کو دیتے ہیں۔ جو سرمائے کو مسلسل تجارت کے عمل میں زیر گردش رکھتا ہے اور سرمایہ دار کو مسلسل منافع دیتا ہے۔ یہی عمل بنک بھی انجام دیتے ہیں۔
8 - مضاربت میں، تاجر ایک جگہ سے مال لے جاکر دوسری جگہ فروخت کرتا ہے اور اس کا منافع اخراجات اور اپنی محنت کا معاوضہ وصول کر کے باقی منافع سرمایہ دار کو مہیا کرتا ہے یا سرمایہ دار کی رائے کے مطابق اس کو اصل زر میں شامل کر کے مزید منافع کا ذریعہ بناتا ہے ۔ بنک بھی اس عمل پر کاربند ہوتا ہے۔
مثلاً ایک شخص سامانِ تجارت لے کر دوسرے ملک گیا وہاں اس نے تمام سامانِ تجارت فروخت کر دیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم (اصل زر+منافع=اصل زر) سے دوسرا سامانِ تجارت خرید کر اپنے ملک میں لاکر بیچا گویا منافع در منافع کمایا۔
9- بنکوں میں کام کرنے والے افراد،سرمایہ کار کےBehalf محنت کرتے ہیں اور اپنی محنت کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ جو سرمایہ کار کے منافع کا حصہ ہوتی ہے -
10- بنک اپنے روزمرہ کے مختلف اخراجات (سٹیشنری، عمارت کا کرایہ و دیگر) سرمایہ کار کے منافع ہی سے ادا کرتے ہیں -
11- بنک، مضاربہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے اس میں کام کرنے والے افراد کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح ملک تعلیم یافتہ اور ماہر افراد کو روزگار مہیا ہوتا ہے ۔
12- اکثر افراد جنھیں استعدادِ تجارت نہیں ہوتی لہذا وہ اپنی بچتیں صرف اس وجہ سے بنکوں میں رکھتے ہیں کہ ان پر منافع ملتا ہے۔اگر یہ منافع ختم کر دیا جائے تو یہ سب افراد اپنی اپنی رقوم بنکوں سے نکلوا لیں گے جس کی وجہ سے:-
a - معاشی عدم توازن پیدا ہو گا اور ملکی معیشت ایک دم بیٹھ جائے گی۔
b - بنک میں کام کرنے والے افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔
c - بین الاقوامی سطح پر ملکی کرنسی کی Value گر جائے گی۔
d - حکومت کو اپنی ضروریات کے لئے مزید کرنسی چھاپنا پڑے گی جس کے باعث افراط ِ زر کی سطح بڑھ جائے گی۔
e - ملکی اور بین الاقوامی تجارت میں ادائیگیوں کا توازن بگڑ جائے گا۔
f - ملکی اور بین الاقوامی تجارت میں کمی واقع ہو گی۔
g - ملکی ترقی کی رفتار رک جائے گی۔
اس کی مثال ملکی قومی بچت میں حکومت کے عدم توجہ کے باعث منافع کمی کی وجہ سے تمام لوگوں نے اپنی بچتیں نکال کر ان کی رہا ئشی پلاٹوں میں سرمایہ کاری کی جس کی وجہ سے اُن کی قیمت تین سے دس گنا ہو گئی اور یوں راس المال: المال سے دوگنا چوگنا بلکہ کئی گنا ہو گیا۔
بیع اور رباء میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ رباء میں گردشِ زر ساکت ہو جاتی ہے جبکہ بیع میں گردشِ زر اپنی عام حالت کے مطابق جاری رہتی ہے۔
چنانچہ رباء میں ہر وہ ذخیرہ اندوزی آتی ہے جو غیر پیداواری ہو۔
1- اشیائے خورد و نوش کی ذخیرہ اندوزی اس مقصد کے لئے کہ اس پر اجارہ داری کے باعث اس رقم اور منافعے سے زیادہ وصول کیا جائے جس کا ذخیرہ اندوز حقدار نہیں ۔ رباء ہے۔
2- مکانوں کی اس غرض سے تعمیر کہ ان کے کرائے وصول کئے جائیں۔ رباء ہے۔
3- زمینوں کی خرید اور ان کو بغیر کاشت کے اس غرض سے رکھنا کہ وہ آئیندہ منافع دیں، رباء ہے۔
4- غیر پیداواری قرض پر اصل زرسے زیادہ وصول کرنا رباء ہے۔
5- مارکیٹ میں قیمتوں کے توازن کا اندازہ ہوتے ہی اپنا ، ذخیرہ شدہ مال کسی کو بیعانہ لے کر باقی مال کی رقم مہلت دیتے ہوئے مال بیچ دینا ۔ اور ادائیگی نہ ہونے کی صورت می بیعانہ اور مال ضبط کر لینا، رباء ہے۔
6- زرعی اجناس یا پھلوں کو ظاہر ہونے(پھول یا بور نکلنے کے وقت) سے پہلے بیچ دینا ، رباء ہے۔
مسئلہ رباء کا حل کیسے ہو ؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں