موسم حبس آلود تھا ، گالف گراونڈ میں ہر طرف سبزہ بکھرا ہوا تھا ، مخالف ٹیم کے ساتھ   ڈٹ کر مقابلہ ہوا ،  اٹھارویں ہول پر ، میری ایک معمولی غلطی سے وہ ، ایک پوائینٹ سے جیت گئی تھی ۔غلطی  کہیں یا لالچ ،  اچھا بھلا کھیل رہا تھا ، نجانے کیا سوجھی ، کہ آج آخری ہول پر " برڈی" کی جائے ۔
  "پارٹنر نے چائے پیتے وقت  مذاق میں خوب کھنچائی کی ،  کل وہ غلطی نہیں کرنی "۔   گھر کے نزدیک موڑ کاٹتے  وقت میں نے سوچا  اور  گاڑی مین روڈ سے  اپنی گلی کی طرف موڑ لی - 
گلی تاریک تھی ،  لائٹ گئی ہوئی تھی، ہر چوتھے گھر سے  جنریٹرز کے چلنے کی
آوازیں آ رہی تھی ۔ ایک سایہ   یک دم گاڑی کے سامنے آگیا ،  گھبرا کر
بریک لگائے ،  اس سے قبل کہ  کچھ سمجھ پاتا ، کہ میری کنپٹی پر ایک پستول آلگا ۔ 
"فوراً! موبائل نکالو "، ایک بناوٹی خرخراتی آواز گونجی ۔
میں ششدر تھا  ، کہ کیا کروں ۔ وہی آوازدوبارہ گونجی 
" میں نے کہا موبائل نکالو ، ورنہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ !
یوں لگا کہ میرے سر پر چٹان آگری ،و ہ کوئی اور نہیں میرا ڈرائیور تھا - جو پچھلے تین سال سے میرے پاس تھا ، جس کو میں باقی ڈرائیورں سے زیادہ تنخواہ دیتا تھا   ،  کبھی اونچی آوازمیں بات نہیں کی ، اُس کی ایمانداری  کا میں قائل تھا،  آج وہ چھٹی پر تھا -
مگر یہ کیا ؟
میرا دماغ غصے سے اُبل پڑا ،
" نمک حرام ، احسان فراموش ، بے شرم !
تیری یہ ہمت کہ جس تھالی میں کھائے ، اُس میں چھید کرے!
" میں نے کہا موبائل نکالو ، ورنہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ !
میں نے  بریک لیور کے پاس پڑا ہوا ،  خراب سمارٹ فون جو اِسی مقصد کے لئے رکھا تھا ۔ اُٹھاکر اُس کی طرف بڑھا ۔
" دوسرا موبائل بھی نکالو " وہ بولا ۔ "یہ مجھے جانتا ہے!" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ یک دم میری چھٹی حس بیدار ہوئی ،  میں نے نتائج کر پراوہ نہ کرتے ہوئے ، جھٹکے سے دروازہ  کھولا-
 وه احمق  جو دروازے سے چپکا کھڑا تھا اس فوری ری ایکشن
کے لیے شائد تیار نہ  تھا لڑکھڑا کر زمین پر گر گیا ، میں چیتے کی پھرتی سے نکلا اور اُس کے اوپر بیٹھ کر ، پستول والےہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا ، اس کے ہاتھ سے پستول گر گیا ، میں نے ایک بھرپور پنچ مارا  اور اُس کا  نقاب اتار دیا-
مگر یہ کیا ؟
میرا دماغ غصے سے اُبل پڑا ،
" نمک حرام ، احسان فراموش ، بے شرم !
تیری یہ ہمت کہ جس تھالی میں کھائے ، اُس میں چھید کرے!
  بے غیرت ، کتا بھی اپنے مالک  پر حملہ نہیں کرتا تو  ، ایک موبائل کے لئے  مجھے قتل کرنے والا تھا ۔"
" صاحب ، پستول نقلی ہے، "   وہ  روہانسے لہجے میں بولا ۔ 
" تو پھر اس حرکت کی کیا
ضرورت تھی؟" میں دھاڑا ۔ 
"گھٹیا انسان اگر تجھے  موبائل چاھئیے تھا مجھے کہتا  میں تجھےموبائل دلوا دیتا ۔
اگر پیسوں کی ضرورت تھی تو مجھے یا بیگم صاحبہ بتاتا "
اگر پیسوں کی ضرورت تھی تو مجھے یا بیگم صاحبہ بتاتا "
  " صاحب : غلطی ہو گئی معاف کر دیں " وہ بولا۔
" چل اٹھ ، غلطی کے بچے " میں غرایا 
" تھانے چل" میں نے گاڑی کا دروازہ کھول کر اُسے دھکا دیتے ہوئے کہا ۔
" نہیں صاحب ،تھانے نہ لے جائیے " وہ بولا
 " وہاں تھانیدار  ،جوتے مار مار کر پوچھے  گا ، تیرے گروہ کے متعلق ۔سالا ڈاکو " 
 اُس کے جواب نے میرے سر پر ایٹم بم پھاڑا ۔
" سر ، یہ حرکت میں نے بیگم صاحبہ کے کہنے پر کی تھی " وہ بولا
" کیا آ آ آ آ آ آ آ آ ! " میں بولا
" جی اُنہوں نے کہا تھا ، کہ اگر آج صاحب کا موبائل غائب نہیں کیا تو تیری چھٹی! وہ بولا
" میرا موبائل ! " میں حیرت سے بولا
" کیوں ؟ اُنہیں کیا ضرورت میرے موبائل کی ؟"
" سر ، یہ حرکت میں نے بیگم صاحبہ کے کہنے پر کی تھی " وہ بولا
" کیا آ آ آ آ آ آ آ آ ! " میں بولا
" جی اُنہوں نے کہا تھا ، کہ اگر آج صاحب کا موبائل غائب نہیں کیا تو تیری چھٹی! وہ بولا
" میرا موبائل ! " میں حیرت سے بولا
" کیوں ؟ اُنہیں کیا ضرورت میرے موبائل کی ؟"
" بیگم صاحبہ ،  نے کہا  کہ گھر آکر اس منحوس موبائل میں ، ہر وقت گھسے رہتے ہیں ،  تجھے ہر قیمت پر آج یہ  موبائل چھینا  ہے ورنہ تیری نوکری سے چھٹی !"

 
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں