دلوں میں
درد بھرتا آنکھ میں گوہر
بناتا ہوں
جنہیں مائیں پہنتی
ہیں میں وہ زیور بناتا
ہوں
غنیم وقت
کے حملے کا مجھ کو
خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی
کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
پرانی کشتیاں ہیں میرے
ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں
سیتا ہوں اور لنگر بناتا
ہوں
یہ دھرتی میری ماں
ہے اس کی عزت مجھ
کو پیاری ہے
میں اس کے سر
چھپانے کے لیے چادر بناتا
ہوں
یہ سوچا ہے کہ
اب خانہ بدوشی کر کے
دیکھوں گا
کوئی آفت ہی آتی
ہے اگر میں گھر بناتا
ہوں
حریفان فسوں
گر
مو قلم ہے میرے ہاتھوں
میں
یہی میرا عصا ہے
اس سے میں اژدر بناتا
ہوں
مرے خوابوں پہ جب
تیرہ شبی یلغار کرتی ہے
میں کرنیں گوندھتا ہوں
چاند سے پیکر بناتا ہوں
(سلیم احمد )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں