Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 19 جولائی، 2017

میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں


    دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں
 جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں 

 غنیمِ وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں 

  میں پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت 
  میں ان کے بادباں سیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں 
 
   یہ دھرتی میری ماں ہے اس کی عزت مجھ کو پیاری ہے
 میں اس کے سر چھپانے کے لیے چادر بناتا ہوں 

 یہ سوچا ہے کہ اب خانہ بدوشی کر کے دیکھوں گا
 کوئی آفت ہی آتی ہے اگر میں گھر بناتا ہوں 

  حریفانِ فسوں گر مو قلم ہے میرے ہاتھوں میں
 یہی میرا عصا ہے اس سے میں اژدر بناتا ہوں 

 مرے خوابوں پہ جب تیرہ شبی یلغار کرتی ہے
  میں کرنیں گوندھتا ہوں چاند سے پیکر بناتا ہوں 

(سلیم احمد ) 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔