Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 25 جولائی، 2017

ھنّہ جھیل کوئٹہ


ابھی ابھی خبروں میں بتایا اور دکھایا کہ کوئٹہ کی ھنا جھیل خشک ہو گئ۔ مچھلیاں تڑپ تڑپ کر مرگئیں اور پورے علاقے میں تعفن پھیل گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائ شدید دکھ ہو۔ بھلا کوئٹہ میں ھنہ جھیل کی سوا اور تھا کیا؟
کیا بلوچستان حکومت اور کوئٹہ میونسپل کارپوریشن اس ایک جھیل کو بھی نہیں بچا سکتے؟

فیس بُک پر ایک اچھے دوست " ثنا اللہ خان احسن " کی بالا پوسٹ اور اُس کے بعد بلا سوچے سمجھے حکومت (صوبائی یا وفاقی) کو حسبِ عادت بُرا بھلا  کہنے والوں کے کمنٹ پڑھے ، دُکھ ہوا ۔ جس کی وجہ سے اپنے بچپن سے لے کر بچپن تک کی ھنّہ  جھیل  کی معلومات کو مختصراً لکھ دیا ۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بلوچستان ایک خشک اور بارانی صوبہ ہے ، جہاں بارش کا پانی ہی انسانی زندگی کو نوید دیتا ہے ۔ کراچی سے کوئیٹہ آئیں یا روہڑی سے کوئٹہ ،  کوئٹہ سے ژوب  ، چمن جائیں  یا کوئیٹہ سے دالبندین براستہ چاغی جائیں ، ہر راستہ بیابان  پہاڑوں سے گذرتے ہیں ۔ 
جہان سڑک کے کنارے ایستادہ ، سنگِ میل حوصلہ بڑھاتے ہیں ۔ جہاں سنگِ میل گھر کے دروازے  کے سامنےوالی گندے پانی کی نالی  پر پل بنانے کے لئے اکھاڑ لئے گئے ہیں وہاں راستے کی طوالت سے گھبراہٹ ہوتی ہے ، 1964 سے 1996 تک کئے بار اِن سڑکوں، ریلوے لائن  پر  سفر کرتے ہوئے  کوئی نئی تبدیلی نہ پائی ، راستے میں انسانی آبادیوں کے اردگر دپائے جانے والے درخت     آنکھوں کو ہلکی سی تراوٹ محسوس کرواتے ہیں ، پھر وہی لمبی سڑک  یا انجن کی چھکا چھک ۔
ھنّہ لیک کو میں  اور چھوٹے بھائی نے پہلی بار
کزن اور بھتیجے   کے ساتھ پیدل جا کر دیکھا تھا ۔ جب عمر صرف 12 سال تھی ۔ اکتوبر  کو کوئٹہ کینٹ ، چلتن مارکیٹ ، پانی تقسیم ، سٹاف کالج سے گذرنے کے بعد   سڑک کے کنارے ٹھنڈے پانی کی  تین فٹ چوڑی اور ایک سے دوفٹ گہری نہر کے کنارے  ٹھنڈے پانی سے اٹھکیلیاں کرتے ۔ جن ھنّہ جھیل پر پہنچے  ، تو حیرت کا جھٹکا لگا ،
" یہ جھیل ہے  " میں نے سلیم  بھتیجے سے پوچھا  جو مجھ سے دو سال بڑا تھا۔ جھیل پر کچھ نہیں تھا ، درمیان میں ایک  پتھروں کا ٹیلا تھا  ۔  ڈیم کے نزدیک ایک چھوٹی سی ہٹ تھی جس میں چوکیدار رہتا تھا ۔ وہ کشتی بھی چلاتا تھا ۔   چار آنے  یعنی 16 خالص پیسوں میں ، فی کس ایک آنہ  میں ہم چاروں کو ٹیلے تک لے کر گیا ۔ ٹیلے پر کھڑے ہو کر   ہم چاروں نے جھیل کے چاروں طرف دیکھا  واپس کشتی میں بیٹھے ۔ میں نے کشتی ران کو کہا میں کشتی چلاؤں گا ، اُس نے   بائیں والاچپّو میرے ہاتھ میں پکڑا دیا  اور دائیں والا سلیم کے ہاتھ میں دے دیا ۔ کزن اور چھوٹا بھائی ہمیں کشتی چلاتے دیکھ  کر خوش ہوں ۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے ہاتھ تھک گئے  ہم نے کشتی والے کو چپو تھما دئیے ۔  میرا خیال ہے کہ اُس وقت ہٹ کے پاس کل پانچ یا چھ درخت تھے وہ بھی سیب اور خوبانی کے تھے ۔  کوئٹہ پائین کے  چھوٹے چھوٹے دس یا بارہ پودے تھے ۔
اُس کے بعد ہنہ لیک پر کئی  بار گئے ۔  جب بھی کوئی رشتہ دار  کوئٹہ آتا اُسے کوئیٹہ لازمی گھماتے اور ہنّہ لیک  تا اُڑک  بھی شامل ہوتا ، سپن  لیک میں نے اپنے بچپن میں صرف ایک دفعہ دیکھی کیوں کہ بس وہ ایک جھیل تھی ، جہاں سے کوئٹہ کو پینے کا پانی مہیا کیا جاتا تھا ۔  

 والد فوج میں صوبیدار  تھے ،کوئٹہ ریکروٹمنٹ اور سلیکشن سینٹر  اُنہوں نے 1967 میں ریڈیو پاکستان کے سامنے ایک ہٹ میں قائم کیا تھا ۔ جب وہ اور اُن کی ٹیم  بھرتی کے لئے  مختلف  علاقوں کو جاتی ، تو ہم دونوں بھائی بھی اُن کے ساتھ ہوتے ۔  
ولی تنگی ڈیم، جو پانی تقسیم چوک سے  30 کلومیٹر دور ہے ۔ڈیم سے بیس کلومیٹر تک کوئی آبادی نہیں ، پھر اُڑک کی وادی شروع ہوتی ہے ۔
ولی تنگی ڈیم  سے  پانی کوئٹہ  کینٹ کو  آب پاشی کے لئے  مہیا  کیا جاتا تھا  ۔  جی ہاں  کوئیٹہ کینٹ  سیبوں ، خوبانیوں ، اخروٹوں ، باداموں ، الُوچوں ، آڑوؤں  ، انگوروں   کے درختوں سے گھرہوئے ہوئے باغات کا شہر تھا ۔ جنہیں پانی تقسیم چوک سے 5 سمتوں میں  پانی مہیا کیا جاتا تھا ۔ اور ہر چوک پر  ہر سڑک پر پانی کی تقسیم کا  مکمل نظام 1947 سے پہلے 
بنایا ہوا تھا ۔ اور ہر ہفتے آب پاشی کے لئے پانی دیا جاتا تھا ، ابّا کو دئیے گئے سرکاری گھر کے سامنے بھی   خالی زمین تھی اور پیچھے بھی ،  جہاں  خاردار تاریں اور اُن کے ساتھ سرکنڈے لگا کر باونڈری بنائی ہوئی تھی ۔ مہینے میں ایک بار ورکنگ پارٹی  (باغیچہ میں کام کرنے والی گینتی  بیلچہ پارٹی بمع مالی  ) سٹیشن ہیڈکوارٹر کی طرف سے آتی تھی - کام کرتی چائے پیتی اور  جڑی بوٹی ، گھاس وغیرہ نکال کر واپس چلی جاتی ۔ میزان چوک پر واقع فروٹ مارکیٹ سے سکول سے واپس آتے ، پھولوں اور سبزیوں کے بیج لانا میرا کام ہوتا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے  کہ زعفران  کے پودے میں نے ہر سیزن میں لگائے ، اُن کے پھولوں پر نکلنے والی پتیوں کو خشک کیا اور امّی زردہ میں ڈالا کرتیں اُنہیں بس یہی گلہ تھا کہ کشمیری زعفران اور اِس زعفران کی خوشبو میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
ارے دوستو! میں کہاں سے کہاں چلا گیا ۔ تو بات ہو رہی تھی کوئٹہ میں بارش کی  پانی کی تقسیم کا نظام ، جس نے ھنّہ لیک کو خشک کر کے اُس کی مچھلیاں مار دیں ۔
1984 سے 1997 تک میں کوئٹہ میں  ، کوئی پانچ بار پوسٹنگ پر آیا  ، کئی ایکسرسائز میں حصہ لیا ، بطور آفیسر کمانڈنگ میری آخری پوسٹنگ سیاچین کی سروس کے بعد 1994 جون میں    لوکیٹنگ بیٹری کی  تھی  جس کا ایک اہم حصے ، سروے  سیکشن کا ہوتا ہے جو جدید  سروئینگ آلات   کے ساتھ فوج کے لئے سروے کرتا ہے ۔

 کوئٹہ میں  واقع، ھنّہ جھیل کا انحصار بارش کے پانی اور پہاڑوں پر گرنے والی برف سے ہے ۔ اِس جھیل سے کہیں پانی مہیا نہیں کیا جاتا ۔ کہ کسی آبادی کو سیراب کرے ، نہ ہی اِس سے کاریز نکالی گئی ہے ۔
 پہاڑوں سےآنے والے ، بارش کے پانی کے  راستوں  میں  تقریباً 7 بڑے  رکاوٹی ڈیم بنائے گئے ہیں جو زیر زمین پانی کی سطح کو  برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں ۔ اور زیر مین کھودی ہوئی نہروں (کاریز) کے ذریعے پینے کا پانی بھی مہیا کرتے ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ جب کاریزوں کی صفائی ہوتی  اور اُن سے مٹی نکالی جاتی تو  ایک آدمی کو رسے کے ذریعےگہری  کاریز میں اُتارا جاتا ، وہ  ربڑ کی بنی ہوئی بالٹی میں مٹی بھرتا ، ایک آدمی جو باہر ہوتا ، وہ مٹی  کھینچ  کر کاریز  کے کناروں پر ڈالتا ہے ، جسکی وجہ سے کاریز کے کنارے اونچے ہوتے جاتے ۔ 
کوئٹہ کی آبادی ،  روسو افغان وار کے بعد بے تحاشہ بڑھی جب ، افغانیوں نے بلوچستان کی طرف ہجرت کی اور اُنہی کی آڑ میں  ایران اور افغانستان کے بارڈر پر رہنے والے ، فارسی بولنے والے ہزارہ (چنگیزی)  قبائل  نے بھی   قندھار سے کوئٹہ  کا رُخ کیا ۔
  پھلوں کا شہر کوئٹہ پانی کی کمی کی وجہ سے اور  مکمل سیمنٹ کے بنے ہوئے شہر نے درجہ حرارت بڑھا کر   درختوں سے محروم ہونے لگا ، کنٹونمٹ کی اپنی الگ دُنیا ہوتی ہے ، اِسی لئے وہاں درختوں اور سبزے کا راج اب بھی ہے ۔ولی تنگی ڈیم سے اب شجر کاری کے لئے کم اور شہر کے لئے پینے  کا  پانی سپلائی کیا جاتا ہے ۔ سپن لیک سے کینٹ کو پینے کا پانی مہیا کیا جاتا ہے ۔
کینٹ میں پانی کے استعمال کو   بہتر بنانے اور سپن لیک کی سطح برقرار رکھنے کے لئے ، جون   اور نومبر میں  ڈیڑھ ماہ  کے لئے فوجیوں  کی جنگی مشقوں کے لئے گرمیوں میں  بوستان کے علاقہ میں اور سردیوں میں  ڈیرہ مراد جمالی کے علاقوں میں  لے جایا جاتا ہے ۔


1894 میں بنائی جانے والی  ھنّہ جھیل کا انحصار بارش کے پانی اور پہاڑوں پر گرنے والی برف سے ہے ۔ اِس جھیل سے کہیں پانی مہیا نہیں کیا جاتا ۔ کہ کسی آبادی کو سیراب کرے ، نہ ہی اِس سے کاریز نکالی گئی ہے ۔ ھنّہ جھیل  میں محکمہ فشریز  مچھلیوں کے بچے مہیا کرتی ہے جو ہر سال ڈالے جاتے ہیں ۔ ھنّہ جھیل  ضیاء دور میںغالباً 1985 فوج کے حوالے کی گئی تھی  ۔ جس کے جوانوں نے ہنّہ لیک کو ایک خوبصور ت جھیل میں تبدیل کر دیا ۔میری یونٹ کو بھی شجر کاری اور خوبصورتی کے لئے  ایک علاقہ دیا گیا تھا  ۔
 جھیل کی خوبصورتی کو بڑھانے کے لئے ، پارکنگ  فیس وصول کی جاتی ہے ، کشتی رانی  کے مقابلے بھی یہاں کرائے جاتے ہیں  لوگوں کو بھی ایک رافٹ میں فوجی انجنیئر کے ماہرین سیر کرواتے ہیں ۔پاکستان   ایر فورس نے  اپنا گراونڈ کئے جانے والا سیبر جہاز  بھی تھٖے میں دیا ۔
بس یہاں  پانی کی کمی ہونے کی وجہ سے ۔ وہ خوبصورتی نہیں جو باقی پنجاب اور کشمیر کی جھیلوں کی ہیں ۔
جہاں تک ھنّہ لیک میں سائبیرین مہاجر مرغابیوں کے اترنے کی افوا ہ ہے وہ غلط ہے ، سائبیرین مرغابیاں  صرف وہ اترتی ہیں جو بیمار ہو جائیں ، یا فضائی طوفان میں اپنی ڈار سے بھٹک جائیں ۔ کوئٹہ کے اوپر سے گذرنے والی مرغابیوں کے لئے سب سے بڑی جگہ ، پشین میں واقع تقریبا دو کلومیٹر  لمبا  خوش دل خان  ڈیم ہے  جس کی جھیل میں مرغابیاں اترتی ہیں  ، جہاں  1986 میں ،میں نے    پہلی بار سائبیریئن مرغابیوں کا شکار کیا تھا ۔ جن میں سے ایک پروں پر چھرے لگنے کی وجہ سے اُڑنے سے معذور ہو گئی تھی اُسے میں گھر لے آیا اور وہ ڈیڑھ مہینے زندہ رہی اور پھر مچھلی خوراک نہ ملنے کی وجہ سے  مر گئی ۔ سب سے چھوٹی  دس ماہ کی  بیٹی اُس سے کافی مانوس ہو گئی تھی ،وہ صرف اُس سے نہیں ڈرتی تھی باقی سب سے ڈرتی اور پھڑپھڑاتی تھی -








کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔