Urdu translation of salient points of JIT Report for the benefits of majority
جے آئی ٹی کی رپورٹ
254 صفحات پر مشتمل ہے
(ابتدائیہ)
جے آئی ٹی کا سربراہ نامزد ہونا میرے لئے باعث عزت اور فخر کی بات ہے، واجد ضیاء
اعتماد کرنے اور جے آئی ٹی کاسربراہ بنانے پر سپریم کورٹ کا مشکور ہوں، واجد ضیاء
محسوس کرتا ہوں کہ ہم سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے اور رپورٹ جمع کرارہے ہیں،واجد ضیاء
جے آئی ٹی کے ممبران کی غیر معمولی صلاحیتیوں کے بغیر ہدف کا حصول ممکن نہیں تھا، واجد ضیاء
جے آئی ٹی کے ممبران نے انتہائی عزم اور غیر جانبداری سے اپنا کام مکمل کیا، واجد ضیاء
بطور سربراہ تفتیش کے تمام پہلوئوں کی ذمہ داری میں اپنے سر لیتا ہوں، واجد ضیاء
ساتھ دینے پر جے آئی ٹی ممبران اور تمام اسٹاف کا مشکور ہوں، سربراہ جے آئی ٹی
جے آئی ٹی اراکین کو ملنے والی دھمکیاں سپریم کورٹ کے عمل میں ہیں،واجد ضیاء
ہوسکتا ہے جے آئی ٹی اراکین کو مستقبل میں بھی دھمکیاں ملیں اور نشانہ بنایا جائے، واجد ضیاء
جے آئی ٹی رپورٹ / گلف اسٹیل ملز (صفحہ ایک تا 51) (عامر عباسی)
سپریم کورٹ نے گلف سٹیل ملز سے متعلق پانچ سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا، جے آئی ٹی
گلف سٹیل ملز کی تفتیش کےلیے طارق شفیع، نواز شریف، حسین و حسن نواز کا بیان لیا،رپورٹ
حسین نواز کی دستاویزات کی تصدیق کےلیے متحدہ عرب امارات بھیجیں، رپورٹ
باہمی قانونی معاونت کے تحت متحدہ عرب امارات حکومت سے تصدیق کرائی، رپورٹ
طارق شفیع، نواز شریف، مریم نواز، حسن اور حسین نواز گلف سٹیل کے شواہد نہیں دے سکے،رپورٹ
شریف خاندان کا شواہد جمع نہ کرانا نیب اور قانون شہادت آرڈیننس کے تحت جرم ہے، رپورٹ
طارق شفیع کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی وکیل کے تیار کردہ تھے ،رپورٹ
طارق شفیع نے نہ تو بیان حلفی پڑھے نہ ہی وہ اس کے متن سے اگاہ تھے،رپورٹ
طارق شفیع کی جمع کرائی گئی تمام دستاویزات جھوٹی اور حقائق کے منافی تھیں،رپورٹ
اسلام آباد؛ طارق شفیع کے بیان حلفی اور زبانی بیان میں تضاد تھا، رپورٹ
بیان حلفی کے مطابق گلف سٹیل ملز میں میاں شریف اور محمد حسین پاٹنرز تھے،رپورٹ
اسلام آباد؛ زبانی بیان میں طارق شفیع نے کہا میاں شریف اکیلے مالک تھے،رپورٹ
گلف سٹیل ملز کے 25 فیصدشئیر فروخت کرنے کا دعویٰ جھوٹ اور جعلی تھا، رپورٹ
دبئی سے جدہ سکریپ مشینری کا دعویٰ بھی مشکوک ہے ، جے آئی ٹی رپورٹ
متحدہ عرب امارات نے شریف خاندان کے 25 فیصد شیئر فروخت کرنے کی تصدیق نہیں کی،رپورٹ
اپارٹمنٹس خریدنے اور کاروبار کی تمام دستاویزات جعلی ثابت ہوئیں، جے آئی ٹی رپورٹ
شریف خاندان منی ٹریل ثابت کرنے کیلئے ایک بھی دستاویز پیش نہیں کر سکا،رپورٹ
من گھڑت کہانی ثابت کرنے کے لئے دستاویزات کے بجائے گواہوں کے بیانات ہی کافی ہیں،رپورٹ
طارق شفیع اور حسین نواز کے بیانات میں تضاد ہی ساری کہانی بیان کر دیتا ہے،رپورٹ
طارق شفیع کے مطابق 1978سے 1980تک گلف سٹیل کے معاملات شہباز شریف دیکھتے تھے،رپورٹ
شہباز شریف کے مطابق انہوں نے گلف سٹیل کے معاملات میں کردار ادا نہیں کیا، رپورٹ
گلف سٹیل کے فروخت کی دستاویزات پر طارق شفیع کے علاوہ کوئی اور دستخط کررہا تھا،رپورٹ
دبئی حکام نے 25 فیصد شئیر 12 ملین درہم کے فروخت ہونے کی تصدیق بھی نہیں کی،رپورٹ
۔12ملین درہم وصول کرنے اور الثانی خاندان کو دینے کی کوئی بھی دستاویز نہیں دی گئی،رپورٹ
گلف سٹیل کی فروخت ،قطری خط ، طارق شفیع کا بیان ایک دوسرے سے متصادم ہیں،رپورٹ
اسلام آباد؛ فہد بن جاسم کو کاروبار کے لئے12 ملین درہم دینا فسانہ ہے حقیقت نہیں، رپورٹ
شریف خاندان نے گلف سٹیل کی فروخت کے وقت 14ملین درہم دینے تھے، رپورٹ
۔ شریف خاندان گلف اسٹیل سے 12 ملین کی سرمایہ کاریی کیسےکر لی؟ رپورٹ
گواہوں کے بیانات کے مطابق طارق شفیع نے 12ملین درہم وصول کئے نہ ہی فہد جاسم کو دیئے،رپورٹ
گلف سٹیل ملز کی فروخت اور فہد بن جاسم کے ساتھ کاروبار کا دعویٰ سپریم کو گمراہ کرنے کے لئے تھا، رپورٹ
(صفحات 52 تا 151) (عمران وسیم)
وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے پیش کئے گئے دستاویزات میں عدم مطابقت پائی گئی، رپورٹ
اسلام آباد، مریم نواز نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی بینیفیشل مالک ہیں، رپورٹ
اسلام آباد، مریم نواز لندن فلیٹس کی 2012 سے پہلے کی مالک ہیں، رپورٹ
لندن جائیدادوں کی ملکیت کے حوالے سے مریم نواز کی موجودہ حیثیت ریکارڈ کے بغیر چیک نہیں ہوسکتی، رپورٹ
مریم نواز کی جانب سے آف شور کمپنیوں کی پیش کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ اور خودساختہ ہے، رپورٹ
ٹرسٹ ڈیڈ عدالت کو گمراہ کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، رپورٹ
اسلام آباد، جے آئی ٹی کو مطلوبہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، رپورٹ
مریم نواز اور حسین نواز نے جان بوجھ کر حقائق کو چھپایا، رپورٹ
قطری شہزادے کی جانب سے شریف خاندان کی سرمایہ کاری کی تفصیلات جعلی قرار
جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کی فراہم کردہ تفصیلات خودساختہ قرار دے دیں
قطریدستاویزات شریف خاندان کی منی ٹریل کی خلاف پر کرنے کیلئے بنائی گئی، رپورٹ
مریم اور حسین نواز کے درمیان لکھی گئی ٹرسٹ ڈیڈ اور جعلی قرار
اسلام آباد، بلاشبہ مریم نواز لندن فلیٹ کی مالک ہیں، رپورٹ
حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کی فراہم کردہ دستاویزات جعلی اور خودساختہ ہیں، رپورٹ
یہ تسلیم شدہ ہے کہ لندن فلیٹس 1993 سے شریف خاندان کے زیراستعمال ہیں، رپورٹ
لندن فلیٹس پر قبضے کے حوالے سے نوازشریف اور انکے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے، رپورٹ
حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مؤقف بار بار تبدیل کرتے رہے، رپورٹ
اسلام آباد، مریم نواز اور حسین نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کئے، رپورٹ
دونوں نے آف شور کمپنیوں کے بیرئر سرٹیفیکیٹس کو کبھی دیکھا ہی نہیں، رپورٹ
میاں شریف کے انتقال کے بعد شریف خاندان کے اثاثوں کی تقسیم ہوئی، رپورٹ
جائیداد کی تقسیم میں لندن فلیٹس یا بیرون ملک کسی جائیداد کا ذکر نہیں، رپورٹ
شریف فیملی کی خواتین خاندان کے مردوں کے حق میں اپنی وراثتی جائیداد کے حق سےدستبردار ہوئیں، رپورٹ
لندن فلیٹ کے حوالے سے میاں شریف اور نوازشریف کا کوئی بھی وارث حسین نواز کے حق میں دستبردار نہیں ہوا، رپورٹ
۔90 کے اوائل میں لندن فلیٹ کی مالک نوازشریف بشمول شریف فیملی تھی، رپورٹ
نوازشریف نے لندن فلیٹ میں اپنی بینیفیشل ملکیت چھپانے کیلئے آف شور کمپنیوں اور اپنے بچوں کو استعمال کیا، رپورٹ
اسلام آباد، الثانی خاندان کا لندن فلیٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا، رپورٹ
التوفیق کمپنی کو 8 ملین ڈالر الثانی خاندان کی جانب سے ادا کرنے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا، رپورٹ
سال 2000 میں حسن اور حسین نواز کے پاس انفرادی آمدن کے کوئی ذرائع نہیں تھے، رپورٹ
سال 2000 میں حسن اور حسین نواز اپنے خاندان کے زیرکفالت تھے، رپورٹ
حسین اور حسن نواز کے پاس لندن فلیٹ خریدنے کے کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے، رپورٹ
لندن کے فلیٹس قطری خاندان کی جائیدادیں نہیں تھیں، رپورٹ
قطری سرمایہ کاری کے بدلے لندن فلیٹس کا ملنا محض افسانہ ہے، رپورٹ
نوازشریف، حسین، حسن اور مریم نواز قطری خط کے مندرجات دستاویزی طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی
اسلام آباد، پہلا قطری خط سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے، جے آئی ٹی
لندن فلیٹس کے سرٹیفیکیٹس قطر میں کس کے پاس تھے شواہد نہیں ملے، جے آئی ٹی
شریف فیملی اور الثانی خاندان کے درمیان دیرپا تعلقات کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی، جے آئی ٹی
دبئی اسٹیل مل کے قیام اور فروخت کیلئے ٹھوس دستاویزات فراہم نہیں کئے گئے، جے آئی ٹی
جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کا بیان حلفی مسترد کردیا، جے آئی ٹی
طارق شفیع نے کبھی بھی گلف اسٹیل مل کی فروخت سے ملنے والے 12 ملین درہم وصول نہیں کئے، رپورٹ
شریف فیملی نے اپنے بیانات میں کبھی قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، جے آئی ٹی
طارق شفیع کے پہلے بیان حلقی میں قطری سرمایہ کاری کا کوئی ذکر نہیں تھا، رپورٹ
پناما پیپرز منظرعام پر آنے کے بعد طارق شفیع اور حسین نواز لندن میں اکٹھے تھے، جے آئی ٹی
(جے آئی ٹی رپورٹ / کیسز کی تفصیلات) (صفحات 152 تا 196) (عدیل وڑائچ )
جے آئی ٹی کی نیب میں لندن فلیٹس کی خریداری سے متعلق ریفرنس دوبارہ کھولنے کی سفارش۔۔۔ یہ معاملہ سترہ اٹھارہ سال سے نیب میں زیر التواء ہے۔
سارا پنامہ کیس اسی کے گرد گھومتا ہے۔ موجودہ پنامہ کیس میں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کی کارروائی سے ایسے نئے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں جس کی بنیاد پر یہ سفارش کی جاتی ہے کہ نیب کو حکم دیا جائے کہ کسی تاخیر کے بغیر ہی کیس کی تحقیقات مکمل کی جائیں۔
نیب میں 2000ء سے رائیونڈ اراضی خریدنے اور اس کیلئے اختیارات کا غلط استعمال کرکے رائیونڈ محل تک سڑک بنوانے سے متعلق دو معاملات زیر التواء ہیں۔اتنے عرصے میں اب تک تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہوئیں۔ اسے بھی کسی بھی تاخیر کے بغیر مکمل کی جائے۔
شریف ٹرسٹ کو سامنے رکھ کر بے نامی جائیداد بنانے کا بھی الزام ہے۔ جلد از جلد مکمل کی جائے۔
نوازشریف کیخلاف ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات بھی مکمل کی جائیں۔
بطور وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف کیخلاف ایل ڈی اے میں غیر قانونی پلاٹوں کی تحقیقات جلد مکمل کی جائیں۔
(دوبارہ کھولنے کی سفارش)
نیب کو حکم دیا جائے کہ نوازشریف ، سیف الرحمان کیخلاف ہیلی کاپٹر خریداری کیس کا دوبارہ جائزہ لے اور سپریم کورٹ کے ذریعے ہائیکورٹ سے کیس دوبارہ کھولنے کیلئے رابطہ کیا جائے۔ کیونکہ خریداری میں قطری تعلق جعلی ہے۔
شریف خاندان کیخلاف ایف آئی اے اور نیب کے حدیبیہ سمیت 3 مقدمات کھولنے کی سفارش
رائونڈ اسٹیٹ میں اضافی مینشن بنانے کا ریفرنس دوبارہ کھولنے کی سفارش
اس کے علاوہ ریکارڈنہ ہونے کے باعث ایک ریفرنس کا نیب نے ذکر نہیں کیا ۔ وہ امریکا میں ٹرسٹ کے قیام سے متعلق ہے۔ اس کا حدییبہ پیپر ملز کیس سے بنیادی تعلق بنتا ہے اس لئے نیب کو حکم دیا جائے کہ اسے بھی دوبارہ کھولا جائے۔
ایف آئی اے کو حدیبیہ انجیئرنگ کیس بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دیا جائے۔ حدیبیہ پیپرز ملز بھی دوبارہ کھولا جائے۔
ایس ای سی پی میں چودھری شوگر ملز کیس بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دیا جائے۔
(حدییبہ پیپرز ملز کیس)
شریف خاندان کیخلاف ایف آئی اے اور نیب کے حدیبیہ سمیت 3 مقدمات کھولنے کی سفارش
موصول اضافی شواہد کی روشنی میں تینوں مقدمات دوبارہ کھولے جانے کیلئے بہترین ہیں،رپورٹ
عدالت ان کیسز میں نامزد لوگوں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، رپورٹ
جے آئی ٹی کی سعید احمد اور جاوید کیانی کے نام ملزمان کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش
جے آئی ٹی کو ملنے والے شواہد ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات میں ربط ثابت کرتے ہیں،رپورٹ
شریف خاندان کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق ایف آئی اے اور نیب کے سمیت 3 مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش
موصول اضافی شواہد کی روشنی میں تینوں مقدمات دوبارہ کھولے جانے کیلئے بہترین ہیں،رپورٹ
عدالت ان کیسز میں نامزد لوگوں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، رپورٹ
جے آئی ٹی کی سعید احمد اور جاوید کیانی کے نام ملزمان کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش
جے آئی ٹی کو ملنے والے شواہد ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات میں ربط ثابت کرتے ہیں،رپورٹ
جے آئی ٹی رپورٹ / ذرائع آمدن سے زائد اثاثے اور سفارشات (صفحہ 201 تا 254) (عدیل وڑائچ)
(نوازشریف)
ریکارڈ کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے 84-1983ء سے ریٹرنز فائل کرنے شروع کئے، رپورٹ
وزیراعظم نے 15 جون کو بیان میں کہا کہ وہ اپنے والد کی کمپنیوں میں شیئر ہولڈر رہ چکے ہیں،رپورٹ
وزیراعظم کا موقف تھا کہ وہ 1985ء کے بعد کاروبار میں متحرک نہیں رہے، جے آئی ٹی رپورٹ
مگر وزیراعظم نے 2010ء سے 2013ء کے درمیان چودھری شوگر ملز سے 24ملین تنخواہ لی،رپورٹ
چودھری شوگر ملز سے تنخواہ وصول کرنا وزیراعظم کے ٹیکس ریٹرنز میں بھی درج ہے،رپورٹ
وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کے درمیان بینک ٹرانزکشنز کا پتہ چلایا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ
۔2009ء سے 2017ء تک حسین نواز نے اپنے والد کو 1.4 ارب روپے بھجوائے، رپورٹ
وزیراعظم نوازشریف نے 822 ملین روپے مریم نواز کے بینک اکائونٹ میں منتقل کئے،رپورٹ
وزیراعظم نوازشریف نے 2013ء کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں غلط بیانی کی، رپورٹ
وزیراعظم نواز شریف نے 45 ملین روپے کی ٹرانزکشن سے متعلق غلط بیانی کی، رپورٹ
وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ان کے والد 70ء کی دہائی میں اربوں کے اثاثوں کے مالک تھے، رپورٹ
وزیراعظم کا یہ بیان ان کے والدین کے ٹیکس ریٹرنز سے ثابت نہیں ہوسکا، جے آئی ٹی
مالی تفصیلات کا جائزہ لینے کے بعد اس نیتیجے پر پہنچے ہیں کہ وزیراعظم کے اثاثے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، رپورٹ
برطانیہ اور متحدہ عرب امارت سے تحفے کے طور پر 880 ملین پاکستان منتقل کئے گئے، رپورٹ
مدعا علیہان بیرون ملک سے آنے والے تحائف کے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے، رپورٹ
وزیراعظم نے اثاثے بناکر بچوں کے نام منتقل کئے، مگر ان کے واضح ذرائع آمدن نہیں تھے،رپورٹ
نوازشریف کے مطابق اثاثے 70ء کی دہائی میں ان کے والد کے سرمایئے کی بنیاد پر بنے،رپورٹ
نوازشریف کے اثاثوں کا مالی تجزیہ ان کے اس موقف کو درست ثابت نہیں کرتا، رپورٹ
وزیراعظم کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا، رپورٹ
قاضی خاندان اور سعیداحمد کے نام بے نامی اکائونٹس سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی،رپورٹ
یہ بے نامی اکائونٹس قرضے لینے اور شریف خاندان کے اثاثوں بنانے کیلئے استعمال کئے گئے،رپورٹ
شریف خاندان کی بینک اسٹیمنٹس اور ویلتھ اسٹیمنٹس میں تضادات پائے گئے ہیں، رپورٹ
نوازشریف نے ویلتھ اسٹیمنٹ میں اتفاق شوگر ملز کے حصص ظاہر نہیں کئے،رپورٹ
نوازشریف 04-2003ء کے درمیان اتفاق شوگر ملز کے 48 ہزار حصص کے مالک تھے،رپورٹ
وزیراعظم نوازشریف 2009ء سے 2013ء تک اتفاق شوگر ملز کے 1000 شیئرز رکھتے تھے،رپورٹ
میاں شریف نے بھی بادی النظر میں اپنے ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے، رپورٹ
میاں شریف کی دولت میں 4.3 گنا اضافہ 93-1992ء کے دوران ہوا، جے آئی ٹی
نوازشریف نے 1970ء میں فیکٹریاں قومیائے جانے کا بیان دیا، جے آئی ٹی
فیکٹریاں قومیائے جانے کے باجود شریف خاندان کی دولت میں واضح کمی نہیں ہوئی،رپورٹ
(مریم نواز)
۔ 90ء کی دہائی میں مریم نواز کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا، جے آئی ٹی
اثاثوں کے تجزیئے اور ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق مریم نواز نے اثاثے چھپائے،ٹیکس چوری کی،رپورٹ
مریم نواز نے ذرائع آمدن کے بغیر نہ صرف اثاثے بنائے بلکہ کروڑوں روپے قرض بھی دیا، رپورٹ
اسلام آباد؛ مریم نواز نے 2008ء میں کروڑوں روپے کے تحفے وصول کئے، جے آئی ٹی
مریم نواز نے تحفے میں ملنے والی رقم زرعی زمین خریدنے کیلئے استعمال کی، جے آئی ٹی
زرعی آمدن چونکہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہے اس لئے فنڈز کو قانونی بنانے کیلئے استعمال کیا گیا،رپورٹ
بادی النظر میں مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، جے آئی ٹی
(حسین نواز)
حسین نواز کے اثاثے 1990ء کی دہائی میں غیر معمولی طور پر بڑھے، جے آئی ٹی
متعدد مرتبہ کہنے کے باجود حسین نواز ذرائع آمدن کی کوئی تفصیل نہ دے سکے،رپورٹ
شریف خاندان 1990ء کی دہائی میں اقتدار کے ایوانوں میں تھا، جے آئی ٹی
جے آئی ٹی کو یقین یہ ہے کہ شریف خاندان کے اثاثوں میں اضافہ غیر قانونی طور سے ہوا، رپورٹ
حسین نواز کو شریف خاندان کی پراکسی کے طور پر استعمال کیا گیا، جے آئی ٹی
(حسن نواز)
حسن نواز کے اثاثوں میں بھی 90ء کی دہائی میں اضافہ ہوا، جے آئی ٹی
حسن نواز کو بھی پراکسی کے طور پر استعمال کیا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ
حسن نواز کی کمپنیاں خسارے میں تھیں مگر ان کے ذریعے برطانیہ میں جائیدادیں خریدی گئیں،رپورٹ
خسارے کی کمپنیوں سے پاکستان میں شریف خاندان کی کمپنیوں کو قرض دیئے گئے،رپورٹ
حسن نواز نے بھی متعدد مواقع کے باوجود اپنے ذرائع آمدن کا کوئی ثبوت دیا، رپورٹ
بادی النظر میں حسن نواز کے اثاثے بھی ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے،رپورٹ
(اسحاق ڈار)
اسحاق ڈار نے بادی النظر میں 1981ء سے 2002ء تک ٹیکس چوری کی، رپورٹ
اسحاق ڈار نے 1981ء سے 2002ء تک انکم ٹیکس ریٹرنز ہی فائل نہیں کئے،رپورٹ
اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 09-2008ء میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر انھوں نے ذرائع آمدن نہیں بتائے،رپورٹ
اسحاق ڈار کی مالی تفصیلات اور ایف بی آر ریکارڈ میں تضاد پایا گیا، جے آئی ٹی
اسحاق ڈار نے اپنے ہی ادارے کو 169 ملین روپے خیرات میں دیئے، جے آئی ٹی
اسحاق ڈار نے چندے کی رقم اپنی رسائی میں رکھی اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ ذاتی خرچہ ظاہر کیا، رپورٹ
اسحاق ڈار اتنی بڑی رقم پر ٹیکس استثنیٰ لیکر ٹیکس چوری کی، جے آئی ٹی
اسحاق ڈار کے اثاثوں اور ذرائع آمدن میں مطابقت نہیں، جے آئی ٹی
نوازشریف ، مریم، حسین اور حسن کے اثاثوں اور ذرائع آمدن میں مطابقت نہیں،رپورٹ
شریف خاندان کی پاکستانی کمپنیوں کی مالی حالت ان کی جائیداد سے مطابقت نہیں رکھتی،رپورٹ
شریف خاندان کی ظاہر کی گئیں جائیداد اور ذرائع آمدن میں عدم مساوات ہے، جے آئی ٹی
سعودی عرب،برطانیہ اوریو اے آئی، کی کمپنیوں سے نوازشریف اور حسین کو رقم کی غیر قانونی منتقلی ہوئی، رپورٹ
جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف خاندان کی 3مزید آف شورکمپنیز کا انکشاف
الاناسروسز،لینکن ایس اے اورہلٹن انٹرنیشنل سروسزکا انکشاف
اس سے قبل نیلسن، نیسکول اورکومبرگروپ نامی کمپنیزمنظرعام پرآئی تھیں
آف شور کمپنیزبرطانیہ میں شریف خاندان کے کاروبارسے منسلک ہیں،رپورٹ
آف شورکمپنیزبرطانیہ میں موجودکمپنیوں کورقم فراہمی کیلئےاستعمال ہوتی ہیں،رپورٹ
آف شور کمپنیز کے پیسے سے برطانیہ میں مہنگی ترین جائیدادیں خریدی گیئں،رپورٹ
پیسہ برطانیہ،سعودی عرب،یواے ای اور پاکستان کی کمپنیوں کو بھی ملتا رہا،رپورٹ
نوازشریف اور حسین نواز یہ فنڈز بطورتحفہ اور قرض وصول کرتے رہے،رپورٹ
تحفے اور قرض کی وجوہات سے جے آئی ٹی کو مطمئن نہیں کیا جاسکا،رپورٹ
آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے خسارے میں چلنے والی کمپنیوں کے ذریعے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں بنائی گئیں، رپورٹ
جے آئی ٹی وزیراعظم، مریم، حسین اور حسن کیخلاف نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی کی سفارش کرتی ہے، رپورٹ
شق 9 کی ذیلی شق اے پانچ کے تحت عوامی عہدہ رکھنے والے یا دوسرے شخص ، یا اس کے زیر کفالت افراد کا ذرائع آمدن سے زائد اثاثے رکھنا جرم ہے، رپورٹ
جے آئی ٹی رپورٹ میں قانون شہادت آرڈر 1984ء کے آرٹیکل 122 اور 117 کا حوالہ
قانون شہادت آرڈر کے تحت بار ثبوت ملزم پر ہوتا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ
تمام مدعا علیہان ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی رپورٹ
شریف خاندان اپنے اثاثوں اور ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہا،
254 صفحات پر مشتمل ہے
(ابتدائیہ)
جے آئی ٹی کا سربراہ نامزد ہونا میرے لئے باعث عزت اور فخر کی بات ہے، واجد ضیاء
اعتماد کرنے اور جے آئی ٹی کاسربراہ بنانے پر سپریم کورٹ کا مشکور ہوں، واجد ضیاء
محسوس کرتا ہوں کہ ہم سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے اور رپورٹ جمع کرارہے ہیں،واجد ضیاء
جے آئی ٹی کے ممبران کی غیر معمولی صلاحیتیوں کے بغیر ہدف کا حصول ممکن نہیں تھا، واجد ضیاء
جے آئی ٹی کے ممبران نے انتہائی عزم اور غیر جانبداری سے اپنا کام مکمل کیا، واجد ضیاء
بطور سربراہ تفتیش کے تمام پہلوئوں کی ذمہ داری میں اپنے سر لیتا ہوں، واجد ضیاء
ساتھ دینے پر جے آئی ٹی ممبران اور تمام اسٹاف کا مشکور ہوں، سربراہ جے آئی ٹی
جے آئی ٹی اراکین کو ملنے والی دھمکیاں سپریم کورٹ کے عمل میں ہیں،واجد ضیاء
ہوسکتا ہے جے آئی ٹی اراکین کو مستقبل میں بھی دھمکیاں ملیں اور نشانہ بنایا جائے، واجد ضیاء
جے آئی ٹی رپورٹ / گلف اسٹیل ملز (صفحہ ایک تا 51) (عامر عباسی)
سپریم کورٹ نے گلف سٹیل ملز سے متعلق پانچ سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا، جے آئی ٹی
گلف سٹیل ملز کی تفتیش کےلیے طارق شفیع، نواز شریف، حسین و حسن نواز کا بیان لیا،رپورٹ
حسین نواز کی دستاویزات کی تصدیق کےلیے متحدہ عرب امارات بھیجیں، رپورٹ
باہمی قانونی معاونت کے تحت متحدہ عرب امارات حکومت سے تصدیق کرائی، رپورٹ
طارق شفیع، نواز شریف، مریم نواز، حسن اور حسین نواز گلف سٹیل کے شواہد نہیں دے سکے،رپورٹ
شریف خاندان کا شواہد جمع نہ کرانا نیب اور قانون شہادت آرڈیننس کے تحت جرم ہے، رپورٹ
طارق شفیع کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی وکیل کے تیار کردہ تھے ،رپورٹ
طارق شفیع نے نہ تو بیان حلفی پڑھے نہ ہی وہ اس کے متن سے اگاہ تھے،رپورٹ
طارق شفیع کی جمع کرائی گئی تمام دستاویزات جھوٹی اور حقائق کے منافی تھیں،رپورٹ
اسلام آباد؛ طارق شفیع کے بیان حلفی اور زبانی بیان میں تضاد تھا، رپورٹ
بیان حلفی کے مطابق گلف سٹیل ملز میں میاں شریف اور محمد حسین پاٹنرز تھے،رپورٹ
اسلام آباد؛ زبانی بیان میں طارق شفیع نے کہا میاں شریف اکیلے مالک تھے،رپورٹ
گلف سٹیل ملز کے 25 فیصدشئیر فروخت کرنے کا دعویٰ جھوٹ اور جعلی تھا، رپورٹ
دبئی سے جدہ سکریپ مشینری کا دعویٰ بھی مشکوک ہے ، جے آئی ٹی رپورٹ
متحدہ عرب امارات نے شریف خاندان کے 25 فیصد شیئر فروخت کرنے کی تصدیق نہیں کی،رپورٹ
اپارٹمنٹس خریدنے اور کاروبار کی تمام دستاویزات جعلی ثابت ہوئیں، جے آئی ٹی رپورٹ
شریف خاندان منی ٹریل ثابت کرنے کیلئے ایک بھی دستاویز پیش نہیں کر سکا،رپورٹ
من گھڑت کہانی ثابت کرنے کے لئے دستاویزات کے بجائے گواہوں کے بیانات ہی کافی ہیں،رپورٹ
طارق شفیع اور حسین نواز کے بیانات میں تضاد ہی ساری کہانی بیان کر دیتا ہے،رپورٹ
طارق شفیع کے مطابق 1978سے 1980تک گلف سٹیل کے معاملات شہباز شریف دیکھتے تھے،رپورٹ
شہباز شریف کے مطابق انہوں نے گلف سٹیل کے معاملات میں کردار ادا نہیں کیا، رپورٹ
گلف سٹیل کے فروخت کی دستاویزات پر طارق شفیع کے علاوہ کوئی اور دستخط کررہا تھا،رپورٹ
دبئی حکام نے 25 فیصد شئیر 12 ملین درہم کے فروخت ہونے کی تصدیق بھی نہیں کی،رپورٹ
۔12ملین درہم وصول کرنے اور الثانی خاندان کو دینے کی کوئی بھی دستاویز نہیں دی گئی،رپورٹ
گلف سٹیل کی فروخت ،قطری خط ، طارق شفیع کا بیان ایک دوسرے سے متصادم ہیں،رپورٹ
اسلام آباد؛ فہد بن جاسم کو کاروبار کے لئے12 ملین درہم دینا فسانہ ہے حقیقت نہیں، رپورٹ
شریف خاندان نے گلف سٹیل کی فروخت کے وقت 14ملین درہم دینے تھے، رپورٹ
۔ شریف خاندان گلف اسٹیل سے 12 ملین کی سرمایہ کاریی کیسےکر لی؟ رپورٹ
گواہوں کے بیانات کے مطابق طارق شفیع نے 12ملین درہم وصول کئے نہ ہی فہد جاسم کو دیئے،رپورٹ
گلف سٹیل ملز کی فروخت اور فہد بن جاسم کے ساتھ کاروبار کا دعویٰ سپریم کو گمراہ کرنے کے لئے تھا، رپورٹ
(صفحات 52 تا 151) (عمران وسیم)
وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے پیش کئے گئے دستاویزات میں عدم مطابقت پائی گئی، رپورٹ
اسلام آباد، مریم نواز نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی بینیفیشل مالک ہیں، رپورٹ
اسلام آباد، مریم نواز لندن فلیٹس کی 2012 سے پہلے کی مالک ہیں، رپورٹ
لندن جائیدادوں کی ملکیت کے حوالے سے مریم نواز کی موجودہ حیثیت ریکارڈ کے بغیر چیک نہیں ہوسکتی، رپورٹ
مریم نواز کی جانب سے آف شور کمپنیوں کی پیش کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ اور خودساختہ ہے، رپورٹ
ٹرسٹ ڈیڈ عدالت کو گمراہ کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، رپورٹ
اسلام آباد، جے آئی ٹی کو مطلوبہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، رپورٹ
مریم نواز اور حسین نواز نے جان بوجھ کر حقائق کو چھپایا، رپورٹ
قطری شہزادے کی جانب سے شریف خاندان کی سرمایہ کاری کی تفصیلات جعلی قرار
جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کی فراہم کردہ تفصیلات خودساختہ قرار دے دیں
قطریدستاویزات شریف خاندان کی منی ٹریل کی خلاف پر کرنے کیلئے بنائی گئی، رپورٹ
مریم اور حسین نواز کے درمیان لکھی گئی ٹرسٹ ڈیڈ اور جعلی قرار
اسلام آباد، بلاشبہ مریم نواز لندن فلیٹ کی مالک ہیں، رپورٹ
حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کی فراہم کردہ دستاویزات جعلی اور خودساختہ ہیں، رپورٹ
یہ تسلیم شدہ ہے کہ لندن فلیٹس 1993 سے شریف خاندان کے زیراستعمال ہیں، رپورٹ
لندن فلیٹس پر قبضے کے حوالے سے نوازشریف اور انکے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے، رپورٹ
حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مؤقف بار بار تبدیل کرتے رہے، رپورٹ
اسلام آباد، مریم نواز اور حسین نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کئے، رپورٹ
دونوں نے آف شور کمپنیوں کے بیرئر سرٹیفیکیٹس کو کبھی دیکھا ہی نہیں، رپورٹ
میاں شریف کے انتقال کے بعد شریف خاندان کے اثاثوں کی تقسیم ہوئی، رپورٹ
جائیداد کی تقسیم میں لندن فلیٹس یا بیرون ملک کسی جائیداد کا ذکر نہیں، رپورٹ
شریف فیملی کی خواتین خاندان کے مردوں کے حق میں اپنی وراثتی جائیداد کے حق سےدستبردار ہوئیں، رپورٹ
لندن فلیٹ کے حوالے سے میاں شریف اور نوازشریف کا کوئی بھی وارث حسین نواز کے حق میں دستبردار نہیں ہوا، رپورٹ
۔90 کے اوائل میں لندن فلیٹ کی مالک نوازشریف بشمول شریف فیملی تھی، رپورٹ
نوازشریف نے لندن فلیٹ میں اپنی بینیفیشل ملکیت چھپانے کیلئے آف شور کمپنیوں اور اپنے بچوں کو استعمال کیا، رپورٹ
اسلام آباد، الثانی خاندان کا لندن فلیٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا، رپورٹ
التوفیق کمپنی کو 8 ملین ڈالر الثانی خاندان کی جانب سے ادا کرنے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا، رپورٹ
سال 2000 میں حسن اور حسین نواز کے پاس انفرادی آمدن کے کوئی ذرائع نہیں تھے، رپورٹ
سال 2000 میں حسن اور حسین نواز اپنے خاندان کے زیرکفالت تھے، رپورٹ
حسین اور حسن نواز کے پاس لندن فلیٹ خریدنے کے کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے، رپورٹ
لندن کے فلیٹس قطری خاندان کی جائیدادیں نہیں تھیں، رپورٹ
قطری سرمایہ کاری کے بدلے لندن فلیٹس کا ملنا محض افسانہ ہے، رپورٹ
نوازشریف، حسین، حسن اور مریم نواز قطری خط کے مندرجات دستاویزی طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی
اسلام آباد، پہلا قطری خط سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے، جے آئی ٹی
لندن فلیٹس کے سرٹیفیکیٹس قطر میں کس کے پاس تھے شواہد نہیں ملے، جے آئی ٹی
شریف فیملی اور الثانی خاندان کے درمیان دیرپا تعلقات کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی، جے آئی ٹی
دبئی اسٹیل مل کے قیام اور فروخت کیلئے ٹھوس دستاویزات فراہم نہیں کئے گئے، جے آئی ٹی
جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کا بیان حلفی مسترد کردیا، جے آئی ٹی
طارق شفیع نے کبھی بھی گلف اسٹیل مل کی فروخت سے ملنے والے 12 ملین درہم وصول نہیں کئے، رپورٹ
شریف فیملی نے اپنے بیانات میں کبھی قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، جے آئی ٹی
طارق شفیع کے پہلے بیان حلقی میں قطری سرمایہ کاری کا کوئی ذکر نہیں تھا، رپورٹ
پناما پیپرز منظرعام پر آنے کے بعد طارق شفیع اور حسین نواز لندن میں اکٹھے تھے، جے آئی ٹی
(جے آئی ٹی رپورٹ / کیسز کی تفصیلات) (صفحات 152 تا 196) (عدیل وڑائچ )
جے آئی ٹی کی نیب میں لندن فلیٹس کی خریداری سے متعلق ریفرنس دوبارہ کھولنے کی سفارش۔۔۔ یہ معاملہ سترہ اٹھارہ سال سے نیب میں زیر التواء ہے۔
سارا پنامہ کیس اسی کے گرد گھومتا ہے۔ موجودہ پنامہ کیس میں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کی کارروائی سے ایسے نئے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں جس کی بنیاد پر یہ سفارش کی جاتی ہے کہ نیب کو حکم دیا جائے کہ کسی تاخیر کے بغیر ہی کیس کی تحقیقات مکمل کی جائیں۔
نیب میں 2000ء سے رائیونڈ اراضی خریدنے اور اس کیلئے اختیارات کا غلط استعمال کرکے رائیونڈ محل تک سڑک بنوانے سے متعلق دو معاملات زیر التواء ہیں۔اتنے عرصے میں اب تک تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہوئیں۔ اسے بھی کسی بھی تاخیر کے بغیر مکمل کی جائے۔
شریف ٹرسٹ کو سامنے رکھ کر بے نامی جائیداد بنانے کا بھی الزام ہے۔ جلد از جلد مکمل کی جائے۔
نوازشریف کیخلاف ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات بھی مکمل کی جائیں۔
بطور وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف کیخلاف ایل ڈی اے میں غیر قانونی پلاٹوں کی تحقیقات جلد مکمل کی جائیں۔
(دوبارہ کھولنے کی سفارش)
نیب کو حکم دیا جائے کہ نوازشریف ، سیف الرحمان کیخلاف ہیلی کاپٹر خریداری کیس کا دوبارہ جائزہ لے اور سپریم کورٹ کے ذریعے ہائیکورٹ سے کیس دوبارہ کھولنے کیلئے رابطہ کیا جائے۔ کیونکہ خریداری میں قطری تعلق جعلی ہے۔
شریف خاندان کیخلاف ایف آئی اے اور نیب کے حدیبیہ سمیت 3 مقدمات کھولنے کی سفارش
رائونڈ اسٹیٹ میں اضافی مینشن بنانے کا ریفرنس دوبارہ کھولنے کی سفارش
اس کے علاوہ ریکارڈنہ ہونے کے باعث ایک ریفرنس کا نیب نے ذکر نہیں کیا ۔ وہ امریکا میں ٹرسٹ کے قیام سے متعلق ہے۔ اس کا حدییبہ پیپر ملز کیس سے بنیادی تعلق بنتا ہے اس لئے نیب کو حکم دیا جائے کہ اسے بھی دوبارہ کھولا جائے۔
ایف آئی اے کو حدیبیہ انجیئرنگ کیس بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دیا جائے۔ حدیبیہ پیپرز ملز بھی دوبارہ کھولا جائے۔
ایس ای سی پی میں چودھری شوگر ملز کیس بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دیا جائے۔
(حدییبہ پیپرز ملز کیس)
شریف خاندان کیخلاف ایف آئی اے اور نیب کے حدیبیہ سمیت 3 مقدمات کھولنے کی سفارش
موصول اضافی شواہد کی روشنی میں تینوں مقدمات دوبارہ کھولے جانے کیلئے بہترین ہیں،رپورٹ
عدالت ان کیسز میں نامزد لوگوں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، رپورٹ
جے آئی ٹی کی سعید احمد اور جاوید کیانی کے نام ملزمان کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش
جے آئی ٹی کو ملنے والے شواہد ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات میں ربط ثابت کرتے ہیں،رپورٹ
شریف خاندان کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق ایف آئی اے اور نیب کے سمیت 3 مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش
موصول اضافی شواہد کی روشنی میں تینوں مقدمات دوبارہ کھولے جانے کیلئے بہترین ہیں،رپورٹ
عدالت ان کیسز میں نامزد لوگوں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، رپورٹ
جے آئی ٹی کی سعید احمد اور جاوید کیانی کے نام ملزمان کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش
جے آئی ٹی کو ملنے والے شواہد ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات میں ربط ثابت کرتے ہیں،رپورٹ
جے آئی ٹی رپورٹ / ذرائع آمدن سے زائد اثاثے اور سفارشات (صفحہ 201 تا 254) (عدیل وڑائچ)
(نوازشریف)
ریکارڈ کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے 84-1983ء سے ریٹرنز فائل کرنے شروع کئے، رپورٹ
وزیراعظم نے 15 جون کو بیان میں کہا کہ وہ اپنے والد کی کمپنیوں میں شیئر ہولڈر رہ چکے ہیں،رپورٹ
وزیراعظم کا موقف تھا کہ وہ 1985ء کے بعد کاروبار میں متحرک نہیں رہے، جے آئی ٹی رپورٹ
مگر وزیراعظم نے 2010ء سے 2013ء کے درمیان چودھری شوگر ملز سے 24ملین تنخواہ لی،رپورٹ
چودھری شوگر ملز سے تنخواہ وصول کرنا وزیراعظم کے ٹیکس ریٹرنز میں بھی درج ہے،رپورٹ
وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کے درمیان بینک ٹرانزکشنز کا پتہ چلایا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ
۔2009ء سے 2017ء تک حسین نواز نے اپنے والد کو 1.4 ارب روپے بھجوائے، رپورٹ
وزیراعظم نوازشریف نے 822 ملین روپے مریم نواز کے بینک اکائونٹ میں منتقل کئے،رپورٹ
وزیراعظم نوازشریف نے 2013ء کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں غلط بیانی کی، رپورٹ
وزیراعظم نواز شریف نے 45 ملین روپے کی ٹرانزکشن سے متعلق غلط بیانی کی، رپورٹ
وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ان کے والد 70ء کی دہائی میں اربوں کے اثاثوں کے مالک تھے، رپورٹ
وزیراعظم کا یہ بیان ان کے والدین کے ٹیکس ریٹرنز سے ثابت نہیں ہوسکا، جے آئی ٹی
مالی تفصیلات کا جائزہ لینے کے بعد اس نیتیجے پر پہنچے ہیں کہ وزیراعظم کے اثاثے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، رپورٹ
برطانیہ اور متحدہ عرب امارت سے تحفے کے طور پر 880 ملین پاکستان منتقل کئے گئے، رپورٹ
مدعا علیہان بیرون ملک سے آنے والے تحائف کے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے، رپورٹ
وزیراعظم نے اثاثے بناکر بچوں کے نام منتقل کئے، مگر ان کے واضح ذرائع آمدن نہیں تھے،رپورٹ
نوازشریف کے مطابق اثاثے 70ء کی دہائی میں ان کے والد کے سرمایئے کی بنیاد پر بنے،رپورٹ
نوازشریف کے اثاثوں کا مالی تجزیہ ان کے اس موقف کو درست ثابت نہیں کرتا، رپورٹ
وزیراعظم کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا، رپورٹ
قاضی خاندان اور سعیداحمد کے نام بے نامی اکائونٹس سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی،رپورٹ
یہ بے نامی اکائونٹس قرضے لینے اور شریف خاندان کے اثاثوں بنانے کیلئے استعمال کئے گئے،رپورٹ
شریف خاندان کی بینک اسٹیمنٹس اور ویلتھ اسٹیمنٹس میں تضادات پائے گئے ہیں، رپورٹ
نوازشریف نے ویلتھ اسٹیمنٹ میں اتفاق شوگر ملز کے حصص ظاہر نہیں کئے،رپورٹ
نوازشریف 04-2003ء کے درمیان اتفاق شوگر ملز کے 48 ہزار حصص کے مالک تھے،رپورٹ
وزیراعظم نوازشریف 2009ء سے 2013ء تک اتفاق شوگر ملز کے 1000 شیئرز رکھتے تھے،رپورٹ
میاں شریف نے بھی بادی النظر میں اپنے ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے، رپورٹ
میاں شریف کی دولت میں 4.3 گنا اضافہ 93-1992ء کے دوران ہوا، جے آئی ٹی
نوازشریف نے 1970ء میں فیکٹریاں قومیائے جانے کا بیان دیا، جے آئی ٹی
فیکٹریاں قومیائے جانے کے باجود شریف خاندان کی دولت میں واضح کمی نہیں ہوئی،رپورٹ
(مریم نواز)
۔ 90ء کی دہائی میں مریم نواز کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا، جے آئی ٹی
اثاثوں کے تجزیئے اور ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق مریم نواز نے اثاثے چھپائے،ٹیکس چوری کی،رپورٹ
مریم نواز نے ذرائع آمدن کے بغیر نہ صرف اثاثے بنائے بلکہ کروڑوں روپے قرض بھی دیا، رپورٹ
اسلام آباد؛ مریم نواز نے 2008ء میں کروڑوں روپے کے تحفے وصول کئے، جے آئی ٹی
مریم نواز نے تحفے میں ملنے والی رقم زرعی زمین خریدنے کیلئے استعمال کی، جے آئی ٹی
زرعی آمدن چونکہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہے اس لئے فنڈز کو قانونی بنانے کیلئے استعمال کیا گیا،رپورٹ
بادی النظر میں مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، جے آئی ٹی
(حسین نواز)
حسین نواز کے اثاثے 1990ء کی دہائی میں غیر معمولی طور پر بڑھے، جے آئی ٹی
متعدد مرتبہ کہنے کے باجود حسین نواز ذرائع آمدن کی کوئی تفصیل نہ دے سکے،رپورٹ
شریف خاندان 1990ء کی دہائی میں اقتدار کے ایوانوں میں تھا، جے آئی ٹی
جے آئی ٹی کو یقین یہ ہے کہ شریف خاندان کے اثاثوں میں اضافہ غیر قانونی طور سے ہوا، رپورٹ
حسین نواز کو شریف خاندان کی پراکسی کے طور پر استعمال کیا گیا، جے آئی ٹی
(حسن نواز)
حسن نواز کے اثاثوں میں بھی 90ء کی دہائی میں اضافہ ہوا، جے آئی ٹی
حسن نواز کو بھی پراکسی کے طور پر استعمال کیا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ
حسن نواز کی کمپنیاں خسارے میں تھیں مگر ان کے ذریعے برطانیہ میں جائیدادیں خریدی گئیں،رپورٹ
خسارے کی کمپنیوں سے پاکستان میں شریف خاندان کی کمپنیوں کو قرض دیئے گئے،رپورٹ
حسن نواز نے بھی متعدد مواقع کے باوجود اپنے ذرائع آمدن کا کوئی ثبوت دیا، رپورٹ
بادی النظر میں حسن نواز کے اثاثے بھی ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے،رپورٹ
(اسحاق ڈار)
اسحاق ڈار نے بادی النظر میں 1981ء سے 2002ء تک ٹیکس چوری کی، رپورٹ
اسحاق ڈار نے 1981ء سے 2002ء تک انکم ٹیکس ریٹرنز ہی فائل نہیں کئے،رپورٹ
اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 09-2008ء میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر انھوں نے ذرائع آمدن نہیں بتائے،رپورٹ
اسحاق ڈار کی مالی تفصیلات اور ایف بی آر ریکارڈ میں تضاد پایا گیا، جے آئی ٹی
اسحاق ڈار نے اپنے ہی ادارے کو 169 ملین روپے خیرات میں دیئے، جے آئی ٹی
اسحاق ڈار نے چندے کی رقم اپنی رسائی میں رکھی اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ ذاتی خرچہ ظاہر کیا، رپورٹ
اسحاق ڈار اتنی بڑی رقم پر ٹیکس استثنیٰ لیکر ٹیکس چوری کی، جے آئی ٹی
اسحاق ڈار کے اثاثوں اور ذرائع آمدن میں مطابقت نہیں، جے آئی ٹی
نوازشریف ، مریم، حسین اور حسن کے اثاثوں اور ذرائع آمدن میں مطابقت نہیں،رپورٹ
شریف خاندان کی پاکستانی کمپنیوں کی مالی حالت ان کی جائیداد سے مطابقت نہیں رکھتی،رپورٹ
شریف خاندان کی ظاہر کی گئیں جائیداد اور ذرائع آمدن میں عدم مساوات ہے، جے آئی ٹی
سعودی عرب،برطانیہ اوریو اے آئی، کی کمپنیوں سے نوازشریف اور حسین کو رقم کی غیر قانونی منتقلی ہوئی، رپورٹ
جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف خاندان کی 3مزید آف شورکمپنیز کا انکشاف
الاناسروسز،لینکن ایس اے اورہلٹن انٹرنیشنل سروسزکا انکشاف
اس سے قبل نیلسن، نیسکول اورکومبرگروپ نامی کمپنیزمنظرعام پرآئی تھیں
آف شور کمپنیزبرطانیہ میں شریف خاندان کے کاروبارسے منسلک ہیں،رپورٹ
آف شورکمپنیزبرطانیہ میں موجودکمپنیوں کورقم فراہمی کیلئےاستعمال ہوتی ہیں،رپورٹ
آف شور کمپنیز کے پیسے سے برطانیہ میں مہنگی ترین جائیدادیں خریدی گیئں،رپورٹ
پیسہ برطانیہ،سعودی عرب،یواے ای اور پاکستان کی کمپنیوں کو بھی ملتا رہا،رپورٹ
نوازشریف اور حسین نواز یہ فنڈز بطورتحفہ اور قرض وصول کرتے رہے،رپورٹ
تحفے اور قرض کی وجوہات سے جے آئی ٹی کو مطمئن نہیں کیا جاسکا،رپورٹ
آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے خسارے میں چلنے والی کمپنیوں کے ذریعے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں بنائی گئیں، رپورٹ
جے آئی ٹی وزیراعظم، مریم، حسین اور حسن کیخلاف نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی کی سفارش کرتی ہے، رپورٹ
شق 9 کی ذیلی شق اے پانچ کے تحت عوامی عہدہ رکھنے والے یا دوسرے شخص ، یا اس کے زیر کفالت افراد کا ذرائع آمدن سے زائد اثاثے رکھنا جرم ہے، رپورٹ
جے آئی ٹی رپورٹ میں قانون شہادت آرڈر 1984ء کے آرٹیکل 122 اور 117 کا حوالہ
قانون شہادت آرڈر کے تحت بار ثبوت ملزم پر ہوتا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ
تمام مدعا علیہان ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی رپورٹ
شریف خاندان اپنے اثاثوں اور ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہا،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں