گِلے خوش بوئے در حمّام روزے
رسید از دستِ مخدومے بہ دستم
خوشبودار مٹی حمام میں تھی، ایک دن
میرے مخدوم کے ہاتھو ں وہ مجھ تک پہنچی
رسید از دستِ مخدومے بہ دستم
خوشبودار مٹی حمام میں تھی، ایک دن
میرے مخدوم کے ہاتھو ں وہ مجھ تک پہنچی
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم
مشک ہے یا عبیر ، یہ پوچھا ،میں نے اُس سے
دل میں آویزاں ہو ئی مہک تیری ، مستی بھری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم
مشک ہے یا عبیر ، یہ پوچھا ،میں نے اُس سے
دل میں آویزاں ہو ئی مہک تیری ، مستی بھری
بگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مدّتے با گُل نشستم
میں تھی اِک ناچیزمٹی صدیوں سے، وہ بولی
مگر مجھ کو ملی صحبت اِک پھولِ خوش بو دار کی
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
سرایت کر گیا مجھ میں ،ہم نشینی کا جمال
ورنہ میری ہستی تھی ہمیشہ خاک کی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں