وَعَلَّمَ
آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ
فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
﴿2:31﴾
انسانوں
میں زبان انسانی اظہار اورانسانی ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی
نعمت ہے۔انسان کو عموماً حیوانِ ناطق کہا جاتا ہے۔ قوتِ گویائی جانوروں میں
بھی پائی جاتی ہے لیکن اُن کے لئے اِس کا استعمال صدیوں سے محدود ہے۔
گویائی کی پہلی
منزل جہاں آپ ہی کی طرح ایک ننھا مُنّا گوگو گاگا یا
غوں غوں اور غاں غاں تھا ، خوشی میں ہاتھ اور پیر چلاتا تھا ۔اور لایعنی نہیں بلکہ یعنی اپنی ذہنی سوچ سے نقل (کاپی ) کرتا اور آوازیں نکالتا تھا ۔جسے اُس کے ماں اور باپ ، بہن اور بھائی ہی سمجھ سکتے تھے ۔اِن میں اُس کے ارد گرد پائے جانے والے تمام چرند و پرند کی بولیاں بھی تھیں ۔
یہ اُس کی قوتِ گویائی تھی ۔جو اُس کے احسن الخالقین نے اُسے عطا کی ، لیکن اُسے ایک ایسی اضافی
قوت دی جس نے اُس کی گویائی کو قوتِ لسان میں تبدیل کیا اور وہ عطائے
ربّانی ”عَلَّمَ الْأَسْمَاءَ“ تھا۔اللہ کی تخلیق کی گئی اشیاء کو ”بذریعہ اسم (خصوصیت) سے پہچاننے کا علم۔زمین پر انسان اللہ کی جس تخلیق کو دیکھتا اُسے اپنا فہم پہناتا ، اُن کی خصوصیت کے مطابق اُنہیں مختلف خاندانوں میں رکھتا ۔
”عَلَّمَ الْأَسْمَاءَ“ کی وجہ سے اِس کی لسان نے اُس کی قوتِ خامسہ سے مل کر انسان کو محدود حیوانی زندگی سے نکال کر لامحدود شاہراہ زندگی پر لا ڈالا۔ اُس نے اپنی پہچان کے لئے ہر معلوم شئے کو ایک صفت (اسم)دی۔ جوماں یا باپ سے بچے کو ملی ۔
”عَلَّمَ الْأَسْمَاءَ“ کی وجہ سے اِس کی لسان نے اُس کی قوتِ خامسہ سے مل کر انسان کو محدود حیوانی زندگی سے نکال کر لامحدود شاہراہ زندگی پر لا ڈالا۔ اُس نے اپنی پہچان کے لئے ہر معلوم شئے کو ایک صفت (اسم)دی۔ جوماں یا باپ سے بچے کو ملی ۔
دوسرے انسان کی بیداری ءِ فکر کو مہمیز دینے اور سمجھانے کے لئے سب سے آسان زبان جو تحریر میں آئی
وہ اشکال میں تھی۔کسی بھی چیز کو سمجھانے کا یہ دوسرا ذریعہ بنا۔
”عَلَّمَ الْأَسْمَاءَ“ کی خصوصیت کے باعث "تصویری زبان" ترقی کرتے کرتے حروف
میں تبدیل ہو گئے۔ (حروف بھی اشکالِ ہیں ہی کی ایک قسم ہیں۔)
بہر حال کسی بھی زبان کی فصاحت سے
مراد کم از کم الفاظ میں اپنے خیالات، احکامات اور رائے کا اظہار ہے۔جب
ایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے الگ ہوا تو اُس نے اپنی ”عَلَّمَ الْأَسْمَاءَ“ کی خصوصیت کے باعث اپنے اظہار کے لئے نت نئی زبانیں ایجاد کیں۔
زبانوں
میں اختلاط اور نئی زبانوں کا وجود مقبوضہ عورتوں اور غلاموں سے ہو ا۔جنہوں نے قابض آقاؤں کی زبان کو اپنی زبان میں ملا کر انہوں نے نئی زبان
وجود میں لائی۔بچوں نے اپنی بیداریءِ فکر و فہم سے ، سکھائی گئی ماں کی زبان میں مافی الضمیر کا اظہار کرنے کو فوقیت
دی یوں پدری زبان، مادری زبان میں مل کر نئی زبان بنی۔
مدرسوں
نے زبان کی حفاظت کے فرائض سنبھالے۔ علمائے ادب نے زبان کو چاشنی دی اور
ایک لفظ کے کئی مترادفات بنا لئے یو ں لغت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا۔
اِس طرح بولی جانے والی زبان قیودِ تحریر میں آکر ایک چیستان بن گئی۔
٭٭آگے چلیں ٭٭زیرو پوائینٹ سے آخری پوائینٹ تک ٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں