دنیا میں سب سے زیادہ ان پڑھ اس مذہب میں ہیں جس مذہب کا سب سے پہلا حکم ہے ۔ "پڑھ" ( جہانزیب خانزادہ)
// اور وہ "اِقراء" بھی حکمِ واحد ھے ۔ کوئی اجتماعی حکم تو نہیں//
Mohd Arifuddin
٭٭٭٭٭٭٭٭
الکتاب میں درج اللہ کا حکم -
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۔ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔ (سورۃ 96 )
نوجوان محمد عارف الدین : واقعی یہ فرد واحد کو حکم ہے ، کوئی بھی عربی سے معمولی شدھ بدھ رکھنے والا یہی کہے گا جو آپ نے لکھا ہے ۔
اگر آپ کے فہم کے مطابق :۔
۔1۔ یہ عربوں میں سے کسی ایک (محمد) نے اپنے سامنے موجود کسی ایک فرد کے لئے کہا ہو ۔ تو درست۔
۔2۔ اُس ایک سننے والے نے آگے اپنے کسی ایک دوست کو بتایا ہو تب بھی درست ۔
۔ 3- یوں یہ الفاظ دوسرے سے تیسرے اور پھر چوتھے تک دھرائے جاتے رہے ہوں گے ۔
۔4۔ پھر آپ کی طرح کسی " عجمی " صاحبِ عقل و دانش ، فہم و فکر ، شعور و تدبّر ، دانش مند نے ضرور یہ سوال کئے ہوں گے ؟ ۔
٭ - بھائی میں تمھارے کسی ایسے ربّ کو نہیں مانتا ۔ جس نے میرے باپ کی جگہ میری پرورش کی ہو! ۔
٭ - بھائی تمھاری یہ بات میں مان لیتا ہوں کہ مجھے میری ماں نے تخلیق کرنے کے بجائے کسی ربّ نے تخلیق کیا ، جو میری ماں کو عَلَقٍ کی صفت دیتا ہے!۔
٭- لیکن اُس ربّ نے مجھے نہ ہی قلم پکڑنا سکھایا ہاں میرے اُستاد نے مجھے قلم پکڑنا سکھایا ۔
٭- اگر تم ربّ کو مدرّس ( ٹیچر) کہتے ہو تو یہ بتاؤ اُس کا مدرسّہ کہاں ہے ؟ جہاں میں جاکراقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ کروں۔
٭۔ کیوں کہ میں نے سنا ہے کہ یہ بیان کہنے والا
مُحَمَّدٌ ( تاریخ کے مطابق بن عبداللہ ) خود چٹا اُن پڑھ ( الْأُمِّيَّ ) ہے
اور سب عرب بھی أُمِّـيُّونَ (یعنی ماں سے پڑھے ہوئے) ہیں ۔
٭۔ کیا مُحَمَّدٌ ( الْأُمِّيَّ ) کے ربّ نے اب مدرسّہ کھول کر دیا ہے ؟ -
مجھے لے چلو اُس ربّ کے پاس جس سے میں کم از کم یہ تو پوچھوں ، کہ میں کہاں سے پڑھوں؟
٭۔ یہ اُمّی مُحَمَّدٌ کے ساتھی عرب کیا مدرسّے پڑھے لکھے ہیں جو وہ اقْرَأْ ، اقْرَأْ ، اقْرَأْ کی رٹ ۔ لگا رہے ہیں ؟؟
۔7۔ توعارف الدین، وہ بے چارہ عربی بوکھلا گیا ہوگا ۔ اب وہ دو میں سے ایک کام کرے گا ۔
اوّل - آپ کو بے نقط سنائے گا اور ایسے القاب سے نوازے گا جو آپ جیسے باعلم ، عجمی انسان کے لئے انوکھے ہوں گے ۔
دوئم ۔ آپ سے درخواست کرے گا ، دوست میں اُمّی ہوں ۔ آؤ ہم محمد ( امّی) کے پاس چلتے ہیں ۔
تو آپ دونوں ، عجمی عالم اور اُمّی عربّ ، دونوں اِن الفاظ کے بیان کرنے والے کے پاس جاتے ہیں۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۔ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔ (سورۃ 96 )96
جن کے متعلق عموماً یہ غلط العام ہے کہ اِن الفاظ کی سب سے پہلے ادائیگی مُحَمَّدٌ ( الْأُمِّيَّ )نے پہلے شخص کے سامنے کی !
جب آپ یعنی عجمی عالم اور اُمّی عربّ ، دونوں ، محمد ( امّی) کے پاس پہنچے ہوں گے تو آپ کی باڈی لینگوئج کو دیکھنے کے بعد ۔ مُحَمَّدٌ ( الْأُمِّيَّ ) نے یہ ضرور پوچھا ہو گا ۔ کہ
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ [10:94]
عارف الدین ، مُحَمَّدٌ ( الْأُمِّيَّ ) نے عربی میں کہا ہے ، اگر تجھے شک ہے کہ جو میری قرءت تجھ تک پہنچا ئی گئی ہے تو پریشان مت ہو ۔
اُن لوگوں میں بیٹھ کر پوچھ جو تجھ سے پہلے الکتاب کی قرءت کر رہے ہیں ۔
ہاں سنو عارف میاں ۔ حقیقت میں یہ قرءت جو اِس عربی نے مجھ سے منسوب کرکے تم تک پہنچا ، میرا بیان نہیں ہے ، تیرے ربّ کا بیان ہے جو تیری طرف الْكِتَابَ کی صورت میں الحق ہے ۔ اِس قلم سے لکھے گئے علم کو تسلیم کر لے ورنہ تو کم ترین ( جاہل ) رہ جائے گا ۔
اِس بیان نے یقیناً آپ کو پریشان کر دیا ہوگا ، کہ آپ سمجھ رہے تھے کہ یہ عربی آپ کے پاس 20 الفاظ کا بیان لے کر آیا اور مُحَمَّدٌ ( الْأُمِّيَّ ) نےاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ کے بجائے الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ کا مدرسّہ کھول دیا ۔
تو اےصاحبِ عقل و دانش ، فہم و فکر ، شعور و تدبّر ، دانش مند نوجوان ۔
آپالَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ کو تسلیم کر لیں تو آپ ! فرد واحد ( محمدﷺ ) کے چشمے سے نکل کر ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ کی وسیع جھیل کے کنارے یک دم پہنچ جائیں گے ۔ (مہاجرزادہ)
٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں