Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 22 جنوری، 2021

یادوں کے مینڈک

   19 جنوری  کو ایک کورس میٹ کرنل منظور  سے ملنے، اُس کے آفس  جانا ہوا ،وہاں باتوں باتوں میں کمپیوٹر سے بات نکلی اور فوج کی مشہور پسندیدہ پریزینٹیشنز  پر رکی تو یادوں کی دلدل کی گہرائیوں سے پی ڈبلیو  کا مینڈک پھدک کر باہر آگیا  لیکن تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس چھلانگ لگا کر غائب ہو گیا ، ابھی تھوڑی دیر پہلے لیپ ٹاپ کھولا تو کراچی گروپ کے  نوجوان محمد وسیم کی پوسٹ  نے یادوں کی گہرائیوں سے یادوں کے مینڈک پھدک پھدک کر آکر بیٹھنا شروع ہو گئے ۔   

آہ نوجوان : کیا خوب لکھا ۔ مزہ آگیا ۔

میں نے اپنا ذاتی کمپیوٹر 1993 میں یعنی       سپر فاسٹ کمپیوٹر  (386) جس میں 10 ایم بی ھارڈ ڈسک ، لیزر پرنٹر ،  بال ماؤس  ، بمع سپیکرز اور خوبصورت کمپیوٹر ٹیبل مبلغ 60 ہزار سکّہ رائج الوقت بمع پلاسٹک کا کوّر تاکہ کمپیوٹر میں گرد کا داخلہ کم سے کم ہوجائے ۔ کوئیک مارکیٹ آرٹ سکول روڈ کوئیٹہ کے شارق (میرا جونیئر سکول فیلو سے) خریدا تھا۔شارق نے مہربانی کی ڈاس کی اوریجنل 5،25 انچ فلاپی ڈسک360کے بی سنگل ڈینسٹی دی اور ہم نےایک ڈبہ 10 فلاپی ڈسک کا بھی لیا ۔محلّے میں دھوم مچ گئی    ۔

   لیکن میں فوج میں رہتے ہوئے ، 1987 میں CASIO-750 P پر , بیسک سیکھ کر ، ہندسوں اور الفاظ کا پروگرامر بن چکا تھا ۔

- پھر 1988 میں لاہور میں ایک دوست سے ایک پرانا کموڈر-64 گیم کمپیوٹر بمع ریکارڈر خریدا۔ساتھ 5 کے بی کی 5،5 انچ کا پورا  بکس بھی تھا  جو بچوں کی گیم سے بھرا ہوا تھا ۔ لیکن بچوں کو اِس گیم سے زیادہ اٹاری پسند تھی جو بڑی سکرین یعنی ٹی وی پر کھیلنا پسند کرتے تھے ۔  

یوں 1991 میں کوئٹہ میں پی سی ۔8088 سے جدید کمپیوٹر کا سفر شروع ہوا۔جس کی ابتداء پریزنٹیشنوں کی سلائیڈ کے پرو گرام پروفیشنل رائٹ (Professional Write 1)سے شروع ہوئی ۔

 1992 میں آفس میں ،286 کمپیوٹر    کا اضافہ ہوا

تومیں فقط  12 گھنٹوں  میں123 پر سپریڈ شیٹ بنا کر کمپیوٹر اکاونٹنگ کی دنیا میں داخل ہوا۔ 

 ہوا یوں کہ ایک دوست سے میں نے اکاونٹ کے پروگرام کا ذکر کیا تو اُس نے مجھے سپریڈ شیٹ کا بتایا میں نے شارق سے پوچھا تو اُسے بھی واجبی سی معلومات تھیں ہاں اُس نے مجھے لٹن روڈ پر ایک گھر میں قائم پیٹرومین سے رابطہ کرنے کا کہا میں وہاں پہنچا تو ایک  مگسی قبیلے کا نوجوان ملا جو وہاں پرنسپل کے فرائض سر انجام دے رہا تھا مجھے  اچھی معلومات دیں میں نے پوچھا کہ اِس کے سیکھنے کا کیا خرچہ اور وقت ہے۔ بتایا کہ ہم تین ماہ میں روزانہ ایک گھنٹہ پڑھا کر ماہر بنا دیتے ہیں۔ اُس کی مہربانی کہ سٹوڈنٹ کوئی نہیں تھا تو اُس نے مجھے  5.25″کی فلاپی ڈسک لانے کو کہا جو میں گاڑی سے نکال لایا کاپی کی ۔ اُس سے میں نے 123 کی ایک ادھارکتاب مانگی جو اُس نے دے دی اور کہا کہ کورس کے جب 4 سٹوڈنٹس ہوں گے تو آپ آجانا اور ہاں  یہ  سپریڈ شیٹ   ہم بنانا سکھاتے ہیں ۔فلاپی ڈسک ، کتاب ۔ اور سپریڈ شیٹ لے کر میں آفس آیا۔اُس نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جس پر ایم ایس سی سافٹ وئیر انجنیئرنگ  لندن لکھا تھا ۔39 سالہ بوڑھا سخت امپریس ہوا ۔

 وہاں کیپٹن طاہر مصطفیٰ  نےکہا ، " سر یہ بہت مشکل ہے ۔  کئی دن لگیں گے  "۔ 

میں کہا ، طاہر دنیا میں کوئی کام مشکل نہیں، ہمت مرداں مدد خدا " 

تو اُفق کے پار رہنے والے دوستو! آفس کے بعد گھر جاتا کھانا کھاتا اور واپس آفس آجاتا ، 6 گھنٹے روزانہ کام کر کے دو دن بعد میں، میں ایک فلاپی پر سپریڈ شیٹ لے کر مگسی صاحب کے آفس میں تھا ۔ مگسی صاحب نے پروگرام اوپن کیا دیکھا ۔

پوچھا:" یہ آپ نے بنایا ہے "   

مگسی صاحب نے اُٹھ کر گلے لگایا  " جی سر " میں نے جواب دیا  

" میجر صاحب فوج میں کیا کر رہے ہیں ۔ ؟

بس سر پریزینٹیشنز بنا رہا ہوں اور سکون سے رہ رہا ہوں ۔ چائے پی کر کافی باتیں ہوئی ، میں نے کتاب واپس کی تو اُنہوں نے مجھے فاکس پرو -2 سیکھنے کا مشورہ دیا  اور پروگرام  فاکس پرو 1 کی  ایک کاپی  فلاپی ڈسک پر تحفتاً عنایت کی ۔بوڑھے نے آرٹ سکول روڈ پر ایک نوجوان سے فاکس پرو 2 لیا اورپروگرامر کی دنیا میں پہلا قدم رکھا ۔اورفاکس پرو 2 کی کی فلاپی سے میں نے کوڈ توڑ کر سٹینڈ ایلون سافٹ وئر تیار کرنا شروع کیا تھا اور آرمی پبلک سکول کہکشاں کا سکول سافٹ وئر بنایا تھا ۔

بقول ،   نوجوان محمد وسیم کی  والدہ بوڑھا ، کمپیوٹر وائرس (Virus) کو “جیوڑا” پکڑنے کا ماہر بھی بن چکا تھا ۔ چھوٹے چھوٹے وائرس اُن دنوں ایک فلاپی سے  کمپیوٹر اور کمپیوٹر سے دوسری فلاپیز کے ذریعے   فوجی کمپیوٹرز کی ھارڈ ڈسک میں جاتے اور پروگرامز کی چال میں لر زش اور لغزش پیدا کر دیتے ۔ بلکہ کوئٹہ کا ایک کمپیوٹر  کا کاروبار کرنے والا نوجوان ، ہمارے ہیڈ کوارٹر آیا اور ڈسک سے  گیم پروگرام ایک آفیسر کو دینے کے بہانے وائرس ڈال گیا ۔ بلکہ اُس نے اپنا انٹروڈکشن یو کروایا کہ وہ اپنے ایک آرمی آفیسر دوست کے ساتھ ہیڈ کوارٹر آیا  اُس نے سینیئر آفیسر کے ائر کنڈیشنڈ کمرے میں کمپیوٹر دیکھا تو بڑی تشویش کا اظہار کیا کی جس بے احتیاطی سے آپ نے کمپیوٹر رکھا ہے تو اِس میں وائریس جاسکتا ہے ۔ اور پھر بتایا کہ وائریس کیسے فلاپی پر بیٹھ کر کمپیوٹر میں چلا جاتا ہے ۔

خیر یہ بات بوڑھے تک پہنچی بوڑھے نے  ٹی این ٹی  سافٹ وئر کی چٹاخ پٹاخ اور کڑک کڑاک کے گونجتی آوازوں میں جیوڑا پکڑنے شروع کئے ۔ نارٹن اینٹی وائرس ، ٹارٹن ڈسک مینیجر  اور کئی اینٹی وائروائرس سافٹ وئر بوڑھے کی ڈسک میں سمانے لگے ۔ اور سب سے مزے کی بات جن بوڑھے نے سینیئر آفیسر کو وائرس کی فلاسفی سمجھائی تو وہ نہ مانا ۔ جب اُس نے ٹی این ٹی سافٹ ویر کو کمپیوٹر کی سکرین پر وائرس پکڑتے اور مارتے دیکھا ، تو چلایا ۔

میجرنُک( Maj NUK   ) ، تم غلط تھے وہ نوجوان درست دیکھو کتنے وائرس میرے کمپیوٹر میں گُھسے ہوئے ہیں اور مرتے وقت کیسے کلبلا رہے ہیں ؟

 بوڑھا منہ کھولے اُس سینئر آفیسر کی طرف دیکھ رہا تھا ۔

یوں بوڑھے کا چرچا پھیلنا شروع ہوا بوڑھےکو ٹاسک ملا کہ فوج کے کلرکوں کی کمپیوٹر پر تربیت کی جائے ۔بوڑھے نے بی ڈبلو بیسک پر ابتدائی سلیکشن امتحان کاپروگروام بنا ۔ جس کے مطابق جواب اے بی سی یا 1،2 اور 3  ہوتے تھے وقت ختم ہوتے ہی ، کمپیوٹر پر بیٹھے نوجوان کو معلوم ہوجاتا کہ وہ تربیت کے لئے سلیکٹ ہو چکا ہے یا واپس یونٹ جائے گا ۔ یوں سمجھیں کہ یہ اُس وقت بوڑھے کا این ٹی ایس کا خاکہ تھا ۔

پھر کوئٹہ    گلوسسٹر روڈ پر ،پرانا جادو گھر ہال یا فری میسن بلڈنگ  ، کوئٹہ ٹی وی  ا ور  آخر میں ، بولان کمپلیکس میں بچوں ، نوجوانوں ، کلرکوں اور کچھ ادھیڑ عمروں کو  گرمیوں کی چھٹیوں میں کمپیوٹر کی تعلیم دی ۔ پھر بوڑھا 1993 میں سیاچین چلا گیا اور وہاں اپنی 40 ویں سالگرہ منائی ۔

٭٭٭٭      

 کوئٹہ سے نویں کلاس پڑھنے  اور میرپورخاص سے صرف میٹرک کرنے کے بعد میری بھی بڑی خواہش تھی کہ انجنیئر بنوں ، اس سے پہلے ڈاکٹر بنونے کے لئے والد کی انا آڑے آتی کہ 1970 اگست کے آخر میں نیشنل سروس کور کے لئے ملیر کینٹ آنا پڑا ، پھر بھاگنا پڑا ، بھاگتے بھاگتے یہ سفر فوج میں آکر رکا ۔

 ٭٭  وقت گذاری کے لئے پڑھیں۔ آپ یقیناً لطف اندوز ہوں گے   ٭٭٭

٭- ایک فوجی کی زندگی کی یادیں ۔  رنگ روٹ سے آفیسر تک ۔

٭۔ ایک ریٹائرڈ فوجی بزنس کے جھمیلوں میں  ۔ میرے ڈرامے  اور فرینڈ ایسوسی ایٹس


   

٭٭٭٭٭٭٭

٭۔اگلا مضمون -

٭- بوڑھا ، یونی ٹاور اور کمپیوٹر بزنس۔(زیر طباعت)

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔