سوھانجنا (مورِنگا ) کے بیج پھوٹنے سے اُگنے کے عمل کے بعد کرنل صاحب کو اُن کا مستعار لیا ہوا گملہ واپس کرنا ضروری تھا ۔ خالی گملہ واپس کرنا مناسب نہ سمجھا ، لہذا اُس میں بیج سے اُگایا ہوا لیچی کا پودا لگا دیا ۔
ملازم نے گملہ اُٹھا کر گاڑی میں رکھا ، روانہ ہونے لگے تو بڑھیا نے حکم دیا ،
" کچھ پتے لیتے آنا ، سنا ہے کہ اُس میں بھی غذائیت ہوتی ہے اور بیماریوں سے شفاء بھی"
"جی اچھا "، بوڑھے نے کہا اور گاڑی بڑھا دی ۔
کرنل صاحب ، نے کہا، " جتنے مرضی پتے لے جائیں "
ملازم نے ، جی بھر کے پتوں بھری ٹہنیاں توڑیں ، ڈکّی اور پچھلی سیٹ بھر دی ، کرنل صاحب کا شکریہ ادا کرکے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔
بڑھیا نے تازہ پتوں کا انبار دیکھا ، تو بے حد خوش ہوئی ۔
" مزہ آگیا " بڑھیا بولی ،" عدنان اِن سب پتوں کو عمران کے ساتھ مل کر علیحدہ پرات میں جمع کرو اور اچھی طرح دھو لینا "
بوڑھا ، سوھانجنا (مورِنگا ) کے پتے دینے کے بعد ، گالف کھیلنے چلا گیا ۔ مغرب کے وقت واپس آیا تو دیکھا ، کہ ڈائینگ ٹیبل پر پتے پڑے ہیں اور اُن کے اوپر بڑھیا کا دوپٹہ اوڑھایا ہوا ہے ۔
"خشک کر رہی ہو ؟
سبزی نہیں بنانا تھی ؟ ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" خشک بھی کھاتے ہیں " بڑھیا بولی
دو دن بعد بوڑھے نے ، چائے کی ایک خالی برنی میں ، سبز رنگ کا سفوف دیکھا ،
" یہ سوھانجنا کے پتے ہیں ؟" بوڑھے نے پوچھا
" جی " بڑھیا نے تسبیح پھیرتے پھیرتے رُک کر جواب دیا ۔
" باقی کہاں ہیں ۔ پھینک دئے کیا ؟؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
" نہیں سب یہی ہیں " بڑھیا نے کہا ۔
" کمال ہے گاڑی میں بھر کر لایا اور نکلے بس دوسو گرام !" بوڑھے نے حیرت سے پوچھا ۔
" اچھا اب کیسے استعمال کریں گی آپ ؟"
" ویسے تو یہ کیپسول میں ڈال کر کھائے جاتے ہیں ، لیکن میں پانی سے پھانک لوں گی " بڑھیا نے معلومات دیں ۔
کوئی چار دن بعد بوڑھے کو خیال آیا ، " جی کیسا جا رہا ہے ، سوھانجنا پھانکنا ؟ " بوڑھے نے پوچھا
" میرا بلڈ پریشر بڑ ھ گیا تھا " لہذا چھوڑ دیا بڑھیا نے تاسف سے کہا
" آپ کھا کر دیکھیں !" بڑھیا نے مشورہ دیا ۔
" چلو منگواؤ ، لیبارٹی ٹیسٹ کے لئے بندہ حاضر ہے " بوڑھے نے کہا ۔
تو نوجوان دوستو ، بوڑھے نے سوکھا مسلا ہوا ، سوھانجنا پھانکا ، جو چبائے بغیرحلق سے نیچے اترنے سے انکاری تھا ۔بتیس کیا ، چالیس بار چبانے کے بھی منہ میں جمع رہا ، آخر کا پانی پی کر بوڑھے نے سوہانجنا معدے میں دھکیلا ۔
" کیسا لگا ؟ " بڑھیا نے پوچھا ۔
" جب لیبارٹر کا حکم لیبارٹی پرچلے تو ، کیسا ذائقہ اور کیسا لگنا " بوڑھے نے کہا " کم از کم گرم دودھ میں کچے انڈے سے تو بہتر ہے "
یہ اُن دنوں کی بات ہے ، جب بوڑھا 26سالہ جوان تھا ،نئی نئی شادی کے بعد بڑھیا کے ساتھ 1980 میں لوکیٹنگ ( فیلڈ سروے ، ساونڈ رینجنگ ،ریڈار رینجنگ ، میٹریالوجی اور کاونٹر بمبارمنٹ ) کورس کرنے نوشہرہ آیا ۔ وہاں اُسے فلو ہوگیا ، جو کسی طرح بھی ٹھیک ہونے کا نام نا لے ، دو ہفتے سے زیادہ ہوگئے ۔ تو بڑھیا بھی پریشان ۔
سولہویں دن بولی ،" میں آپ کا دیسی علاج کرتی ہوں ، انشاء اللہ نزلہ ٹھیک ہو جائے گا "
عشائیہ کے بعد بڑھیا ایک گلاس میں پیلاہٹ مانند دودھ لے کر آئی ،
" یہ غٹاغٹ پی لیں " بڑھیا نے کہا
بوڑھے نے گلاس لیا ، ہونٹوں کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی انڈے کی بساند نے طبیعت میں ہلچل پیدا کردی ۔
" یہ کیا ہے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" گرم دودھ میں پھینٹا ہوا دیسی انڈا، نزلے کا بہترین علاج ، ہمارے ہاں جب نزلہ پرانا ہوجائے تو یہی مریض کو پلاتے ہیں " بڑھیا نے کہا
" میں ہاف فرائی ولائیتی انڈا نہیں کھا سکتا اور آپ یہ کچا دیسی انڈا دودھ میں ڈال کر پلا رہی ہیں " بوڑھے نے بُرا مناتے ہوئے کہا ۔
" بس ناک بند کرکے غٹا غٹ پی جائیں ، صبح تک نزلہ غائب " بڑھیا نے حکیمانہ اعتماد سے کہا ۔
" مجھے نزلہ مزید ایک مہینہ قبول ہے ، مگر یہ علاج نہیں " بوڑھے نے کہا ۔
مگر بالآخر فتح بڑھیا کی ہوئی اور بوڑھے نے ناک بند کرکے ، غٹاغٹ بُڑھیاکے ہاتھ سے بنایا ہوا بَڑھیا تیز بہدف نسخہ برائے نزلہ جات پی لیا ۔ اوپر سے بڑھیا نے سبز الائچی منہ میں ڈال دی۔
" اِسے چبائیں انڈے کی بساند ختم ہو جائے گی " ۔
مرتا کیا نہ کرتا ، سبز الائچی بھی چبانہ پڑی ، اب انڈے کی بساند اور سبز الائچی کے چھلکے کی سڑاند نے بوڑھے کو مجبور کیا کہ وہ حلق تک خوب رگڑ رگڑ سے صفائی کرے ۔
بوڑھا تو ٹھیک ہو گیا مگر بڑھیا کوئی ہفتہ بعد ، فلو کا شکار ہوگئی ۔ بوڑھے نے کہا ،
" آپ بھی دیسی انڈے اور دودھ والا نسخہ آزمائی "
" میں ایسے ہی ٹھیک ہوں ، مجھے دیسی انڈا اچھا نہیں لگتا "بڑھیا بولی
" تو آپ نے کبھی نہیں پیا " بوڑھے نے پوچھا
" نہیں " بڑھیا نے جواب دیا
" تو وہ آپ کا خاندانی نسخہ ؟؟؟" بوڑھے نے حیرت سے پوچھا
" ہاں ، اباجان پیتے ہیں نزلے میں " بڑھیا نے کہا
تونوجوان دوستو ، اب چونکہ بوڑھا بھی بڑھیا کے خاندا ن میں شامل ہوچکا تھا ، لہذا قسم کھانے کو ایک اور لیبارٹی بڑھیا کے ہاتھ لگ گئی ۔ چنانچہ اِس 40 سالہ شادی شدہ 66 سالہ بوڑھے پر کئی تجربات کئے گئے ۔ اور نسخے آزمائے گئے ۔
سوہانجنا بھی اِس تجربات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو بوڑھا گذشتہ تین مہینوں سے لیبارٹر کے ہتھے چڑھا ہوا ہے ۔ اور دہی میں دو چمچ خشک سوہانجنے کے پوڈر خوب گھول کر کھا رہاہے ۔
اپنے گھر کے چاروں طرف سوہانجنا کے پودے لگا رہا ہے ۔ جو کبھی بچے توڑ جاتے ہیں اور کبھی چم چم کی مرغیاں ضیافت اُڑاتی ہیں ۔ گھر کے اندر لگائے ہوئے پودے تو ٹنڈ منڈ کھڑے ہیں البتہ محفوظ نرسری میں موجود پودے سلامت ہیں ۔
بوڑھے نے اپنا بلڈ ٹیسٹ کروایا کہ دیکھیں ، اعداد و شمار کیا ہیں ؟
٭- سوہانجنا( مورِنگا) ، غذائیت سے بھرپور درخت :
دیگر مضامین :
ملازم نے گملہ اُٹھا کر گاڑی میں رکھا ، روانہ ہونے لگے تو بڑھیا نے حکم دیا ،
" کچھ پتے لیتے آنا ، سنا ہے کہ اُس میں بھی غذائیت ہوتی ہے اور بیماریوں سے شفاء بھی"
"جی اچھا "، بوڑھے نے کہا اور گاڑی بڑھا دی ۔
کرنل صاحب ، نے کہا، " جتنے مرضی پتے لے جائیں "
ملازم نے ، جی بھر کے پتوں بھری ٹہنیاں توڑیں ، ڈکّی اور پچھلی سیٹ بھر دی ، کرنل صاحب کا شکریہ ادا کرکے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔
بڑھیا نے تازہ پتوں کا انبار دیکھا ، تو بے حد خوش ہوئی ۔
" مزہ آگیا " بڑھیا بولی ،" عدنان اِن سب پتوں کو عمران کے ساتھ مل کر علیحدہ پرات میں جمع کرو اور اچھی طرح دھو لینا "
بوڑھا ، سوھانجنا (مورِنگا ) کے پتے دینے کے بعد ، گالف کھیلنے چلا گیا ۔ مغرب کے وقت واپس آیا تو دیکھا ، کہ ڈائینگ ٹیبل پر پتے پڑے ہیں اور اُن کے اوپر بڑھیا کا دوپٹہ اوڑھایا ہوا ہے ۔
"خشک کر رہی ہو ؟
سبزی نہیں بنانا تھی ؟ ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" خشک بھی کھاتے ہیں " بڑھیا بولی
دو دن بعد بوڑھے نے ، چائے کی ایک خالی برنی میں ، سبز رنگ کا سفوف دیکھا ،
" یہ سوھانجنا کے پتے ہیں ؟" بوڑھے نے پوچھا
" جی " بڑھیا نے تسبیح پھیرتے پھیرتے رُک کر جواب دیا ۔
" باقی کہاں ہیں ۔ پھینک دئے کیا ؟؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
" نہیں سب یہی ہیں " بڑھیا نے کہا ۔
" کمال ہے گاڑی میں بھر کر لایا اور نکلے بس دوسو گرام !" بوڑھے نے حیرت سے پوچھا ۔
" اچھا اب کیسے استعمال کریں گی آپ ؟"
" ویسے تو یہ کیپسول میں ڈال کر کھائے جاتے ہیں ، لیکن میں پانی سے پھانک لوں گی " بڑھیا نے معلومات دیں ۔
کوئی چار دن بعد بوڑھے کو خیال آیا ، " جی کیسا جا رہا ہے ، سوھانجنا پھانکنا ؟ " بوڑھے نے پوچھا
" میرا بلڈ پریشر بڑ ھ گیا تھا " لہذا چھوڑ دیا بڑھیا نے تاسف سے کہا
" آپ کھا کر دیکھیں !" بڑھیا نے مشورہ دیا ۔
" چلو منگواؤ ، لیبارٹی ٹیسٹ کے لئے بندہ حاضر ہے " بوڑھے نے کہا ۔
تو نوجوان دوستو ، بوڑھے نے سوکھا مسلا ہوا ، سوھانجنا پھانکا ، جو چبائے بغیرحلق سے نیچے اترنے سے انکاری تھا ۔بتیس کیا ، چالیس بار چبانے کے بھی منہ میں جمع رہا ، آخر کا پانی پی کر بوڑھے نے سوہانجنا معدے میں دھکیلا ۔
" کیسا لگا ؟ " بڑھیا نے پوچھا ۔
" جب لیبارٹر کا حکم لیبارٹی پرچلے تو ، کیسا ذائقہ اور کیسا لگنا " بوڑھے نے کہا " کم از کم گرم دودھ میں کچے انڈے سے تو بہتر ہے "
یہ اُن دنوں کی بات ہے ، جب بوڑھا 26سالہ جوان تھا ،نئی نئی شادی کے بعد بڑھیا کے ساتھ 1980 میں لوکیٹنگ ( فیلڈ سروے ، ساونڈ رینجنگ ،ریڈار رینجنگ ، میٹریالوجی اور کاونٹر بمبارمنٹ ) کورس کرنے نوشہرہ آیا ۔ وہاں اُسے فلو ہوگیا ، جو کسی طرح بھی ٹھیک ہونے کا نام نا لے ، دو ہفتے سے زیادہ ہوگئے ۔ تو بڑھیا بھی پریشان ۔
سولہویں دن بولی ،" میں آپ کا دیسی علاج کرتی ہوں ، انشاء اللہ نزلہ ٹھیک ہو جائے گا "
عشائیہ کے بعد بڑھیا ایک گلاس میں پیلاہٹ مانند دودھ لے کر آئی ،
" یہ غٹاغٹ پی لیں " بڑھیا نے کہا
بوڑھے نے گلاس لیا ، ہونٹوں کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی انڈے کی بساند نے طبیعت میں ہلچل پیدا کردی ۔
" یہ کیا ہے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" گرم دودھ میں پھینٹا ہوا دیسی انڈا، نزلے کا بہترین علاج ، ہمارے ہاں جب نزلہ پرانا ہوجائے تو یہی مریض کو پلاتے ہیں " بڑھیا نے کہا
" میں ہاف فرائی ولائیتی انڈا نہیں کھا سکتا اور آپ یہ کچا دیسی انڈا دودھ میں ڈال کر پلا رہی ہیں " بوڑھے نے بُرا مناتے ہوئے کہا ۔
" بس ناک بند کرکے غٹا غٹ پی جائیں ، صبح تک نزلہ غائب " بڑھیا نے حکیمانہ اعتماد سے کہا ۔
" مجھے نزلہ مزید ایک مہینہ قبول ہے ، مگر یہ علاج نہیں " بوڑھے نے کہا ۔
مگر بالآخر فتح بڑھیا کی ہوئی اور بوڑھے نے ناک بند کرکے ، غٹاغٹ بُڑھیاکے ہاتھ سے بنایا ہوا بَڑھیا تیز بہدف نسخہ برائے نزلہ جات پی لیا ۔ اوپر سے بڑھیا نے سبز الائچی منہ میں ڈال دی۔
" اِسے چبائیں انڈے کی بساند ختم ہو جائے گی " ۔
مرتا کیا نہ کرتا ، سبز الائچی بھی چبانہ پڑی ، اب انڈے کی بساند اور سبز الائچی کے چھلکے کی سڑاند نے بوڑھے کو مجبور کیا کہ وہ حلق تک خوب رگڑ رگڑ سے صفائی کرے ۔
بوڑھا تو ٹھیک ہو گیا مگر بڑھیا کوئی ہفتہ بعد ، فلو کا شکار ہوگئی ۔ بوڑھے نے کہا ،
" آپ بھی دیسی انڈے اور دودھ والا نسخہ آزمائی "
" میں ایسے ہی ٹھیک ہوں ، مجھے دیسی انڈا اچھا نہیں لگتا "بڑھیا بولی
" تو آپ نے کبھی نہیں پیا " بوڑھے نے پوچھا
" نہیں " بڑھیا نے جواب دیا
" تو وہ آپ کا خاندانی نسخہ ؟؟؟" بوڑھے نے حیرت سے پوچھا
" ہاں ، اباجان پیتے ہیں نزلے میں " بڑھیا نے کہا
تونوجوان دوستو ، اب چونکہ بوڑھا بھی بڑھیا کے خاندا ن میں شامل ہوچکا تھا ، لہذا قسم کھانے کو ایک اور لیبارٹی بڑھیا کے ہاتھ لگ گئی ۔ چنانچہ اِس 40 سالہ شادی شدہ 66 سالہ بوڑھے پر کئی تجربات کئے گئے ۔ اور نسخے آزمائے گئے ۔
سوہانجنا بھی اِس تجربات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو بوڑھا گذشتہ تین مہینوں سے لیبارٹر کے ہتھے چڑھا ہوا ہے ۔ اور دہی میں دو چمچ خشک سوہانجنے کے پوڈر خوب گھول کر کھا رہاہے ۔
اپنے گھر کے چاروں طرف سوہانجنا کے پودے لگا رہا ہے ۔ جو کبھی بچے توڑ جاتے ہیں اور کبھی چم چم کی مرغیاں ضیافت اُڑاتی ہیں ۔ گھر کے اندر لگائے ہوئے پودے تو ٹنڈ منڈ کھڑے ہیں البتہ محفوظ نرسری میں موجود پودے سلامت ہیں ۔
بوڑھے نے اپنا بلڈ ٹیسٹ کروایا کہ دیکھیں ، اعداد و شمار کیا ہیں ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭- سوہانجنا( مورِنگا) ، غذائیت سے بھرپور درخت :
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں