یہ سارا علاقہ (الطف) ساحلی علاقہ تھا اس کے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ عہد ما قبل تاریخ یہ علاقہ پانی کے نیچے رہا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ دلدل میں تبدیل ہو کر خشک ہوتا گیا جس کے بعد تین مشہور شہر اس نواح میں اُجڑے اور بسے جن کے تذکّرے تاریخ میں موجود ہیں۔
یعنی کلدانیوں کا بابل . بنو کندہ کے الحارث کا انبار ، اور لحم کا الحیره .اور اس کے نواح میں یہ قریہ عقر تھا جس کی مضافاتی زمین کربلا تھی .
عرب اور مشرق بعید کے مولف نے مسٹر ہرتھ کی ایک تحقیق کے حوالے سے ایک بندرگاہ( تاچی) کا ذکر کیا ہے جو اس نواح میں تھی ایرانیوں اور چینیوں کی تجارتی کشتیاں وہاں لنگر انداز ہوتی تھیں،ایرانیوں ہی کے ذریعے چینیوں کا عربوں سے سابقہ پڑا تھا اور اہل ایران عربوں کو تاجر کہتے تھے اور اسی لفظ کو بگاڑ کر چینی اسے " تاچی" کہنے لگے اور اس بندر گاہ کا نام شاید اس وجہ سے " تاچی " پڑھ گیا
عرب جغرافیہ نویس اور مورخ المسعودی نے دریاے فرات کا رخ تبدیل ہونے کا ذکر کرتے ہوے فرات کے کنارے کے بارے میں بتایا ہے کہ اس کی ایک قدیم شاخ پر جو بعد میں خشک ہو کر العتیق کہلانے لگی تھی .(قادسیہ کی مشہور جنگ جو حضرت سعد بن ابی وقاص کی سر کردگی میں ایرانیوں کے خلاف لڑی گئی تھی)۔ سانحہ کربلا کے زمانے میں دریاۓ فرات اسی نواح میں جہاں حیره آباد تھا اور اسی کے ساتھ کوفہ اور کربلا کا میدان بھی تھا اس سے کوسوں دور ہٹ گیا تھا کوفہ سے پچیس میل اور کربلا سے پچیس میل پر تھا اور اب بھی ہے۔
یاقوت حموی نے اپنی تاریخ مجم البلدان (جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ) بیان کیا ہے کہ کربلا کی زمین سر سبز و شاداب تھی اور اس کے متعد چشموں کا ذکر بھی کیا ہے اس کے علاوہ ذرا سی زمین کھودنے پر پانی نکل آتا تھا۔
ناسخ التواریخ کی روایت میں بھی حضرت حسین کا زمین کھود کر آب زلال نکال لینا بیان کیا گیا ہے ( حالانکہ وہ شیعہ تھا،)فرماتے ہیں.
آنحضرت ( حسین ) نے ایک کدال اٹھا لی اور عورتوں کے خیمے سے باہر کی طرف 19 قدم قبلہ کی طرف چل کر گئے اور زمین کو تھوڑا سا کھودا تو آب زلال و گوارہ بہت زور سے نکل پڑا آپ کے ساتھیوں نے نوش کیا اور مشکیں بھی بھر لیں. صفہ 235 جلد 6 از کتاب دوئم مطبوعہ ایران 1309 .
انہی شیعہ راویوں کی روایتوں میں پانی موجود ہونے اور با افراط موجود ہونے کا ذکر آیا ہے .امالی صدوق کی ایک روایت میں شب آشور میں علی اکبر کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ اتنا زیادہ پانی بھر لانے کا ذکر ہے جس سے کپڑے بھی دھو لئے گئے اور غسل بھی کر لئے گئے باقی پانی جانوروں کے پینے اور دیگر ضروریات میں کام آیا .
اب آپ غور کریں کہ خود طبری اور ابو محنف نے یہ روایت درج کی ہے کہ دسویں محرم کو لڑائی شروع کرنے سے پہلے حضرت حسین نے حکم دیا کہ بڑا خیمہ نسب کیا جائے جب خیمہ نسب کر دیا گیا تو حکم دیا کہ بڑے سے برتن میں مشک گھولا جائے جب مشک ایک بڑے کاسے میں گھول دیا گیا تو حضرت حسین خیمے میں نورہ لگانے کے لئے تشریف لے گئے.اور نہ صرف حسین بلکہ آپ کے سب ساتھیوں نے ایسا ہی کیا
".یا الله میری توبہ "
اول تو نورہ لگانے کی یہ رسم عرب میں تھی ہی نہیں اور نہ کسی عرب مجاہد ، غازی یا غزوات میں اس کا ذکر ہی ملتا ہے یہ تو خالص جاہلیت کا رواج تھا اور خالص عجمی دستور تھا کہ ایرانی پہلوان تلوار بازی اور زور آزمائی سے پہلے اپنے جسم کو نورہ مل کر اس طرح صاف کر لیتے تھے جیسے آج کل بال صفا پاوڈر سے صاف کر لیتے ہیں .
نورہ عام طور پر ہرتال اور چونہ قلعی کو باریک پیس کر اور پانی میں گھول کر تیار کیا جاتا تھا بدن پر مل کر اتنی دیر لگا رہنے دیتے کہ بال جھڑ جائیں پھر غسل کر لیتے تھے . اگر حضرت حسین کا نورہ لگانا ماں بھی لیا جاۓ تو ظاہر ہے کہ اسے بڑے برتن میں گھولنا اور بعد میں غسل کرنا پانی کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
ایک اور من گھڑت روایت جو طبری نے ابو محنف کے حوالے سے ہی نقل کی ہے کہ عاشورہ ہی کے دن جب ہمشیرہ حسین حضرت زینب کو غش آ گیا تو ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لایا گیا منہ پر چھینٹے مارنے کے لئے پانی موجود بتاتے ہیں مگر پیاسے بچوں کے منہ میں چند بوندیں پانی ٹپکانے کے لئے پانی بند کرنے کی فرضی داستانیں یہ جھوٹے بڑے آب و تاب سے لوگوں کو رلانے کے لئے بیان کرتے ہیں.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں