آج بڑھیا کے ساتھ ، ہسپتال ماہانہ دوائیاں لینے گیا ، بڑھیا کو سمارٹ موبائل ۔ چلانا آگیا ہے ۔ لہذا آج کل امپورٹ و ایکسپورٹ پر زیادہ زور ہے ۔
یو ٹیوب سے ، تمام خطیبانِ وقت کے خطاب دیکھتی ہے ۔ اور اپنے گروپ ، بچوں کا سمدھیوں کا ، اسلام آباد کی سہیلیاں ، پنڈی میں اسلام آباد کی سہیلیاں ، درسِ قرآن کی سہیلیاں ، سب کو بھیج دیتی ہے ۔
ہسپتال میں بھی یہی شغل جاری تھا ، میں نے بچوں کے لئے ایک سیلفی بنائی اور بھیج دی ۔
پھر سوچا کہ دوستوں کے لئے ، اپنی سلیفی بھیج دوں ، تاکہ سند رہے ، کہ بوڑھا واقعی بوڑھا ہے ۔ اور دل جلانے کی بات نہ کریں ۔ اور سرخی لگائی ۔
یو ٹیوب سے ، تمام خطیبانِ وقت کے خطاب دیکھتی ہے ۔ اور اپنے گروپ ، بچوں کا سمدھیوں کا ، اسلام آباد کی سہیلیاں ، پنڈی میں اسلام آباد کی سہیلیاں ، درسِ قرآن کی سہیلیاں ، سب کو بھیج دیتی ہے ۔
ہسپتال میں بھی یہی شغل جاری تھا ، میں نے بچوں کے لئے ایک سیلفی بنائی اور بھیج دی ۔
پھر سوچا کہ دوستوں کے لئے ، اپنی سلیفی بھیج دوں ، تاکہ سند رہے ، کہ بوڑھا واقعی بوڑھا ہے ۔ اور دل جلانے کی بات نہ کریں ۔ اور سرخی لگائی ۔
دل جلانے کی باتیں تو اُنہوں نے ایک طرف رکھیں ، اور دل کے پھپھولے پھوڑنے ، نہیں بلکہ سِل بٹے پر پیسنے شروع کر دیئے ۔
اب اُنہیں کیا جواب دوں، بس عبرت کے لئے ایک واقعہ سناتا ہوں۔
اب اُنہیں کیا جواب دوں، بس عبرت کے لئے ایک واقعہ سناتا ہوں۔
نوجوانو: ایک دفعہ کا ذکرہے ، 1977 میں ، ہمارے ایک میجر صاحب ہوتے تھے، وہ یونٹ میں نئے نئے آئے تھے ۔ اُنہوں نے اپنی کھوپڑی پر بالوں سے ، Brain Storming کا LOGO بنایا ہوا تھا اور گنے چُنے بالوں کو وہ کالے بھی کیا کرتے تھے ۔
ٹی بریک پر ایڈجوٹنٹ آفس کے سامنے لان پر بیٹھے تھے ، کمانڈنگ آفیسر صاحب بھی موجود تھے ،
میجر صاحب نے حسبِ معمول ایک فرمودہ جَھڑا ۔
ٹی بریک پر ایڈجوٹنٹ آفس کے سامنے لان پر بیٹھے تھے ، کمانڈنگ آفیسر صاحب بھی موجود تھے ،
میجر صاحب نے حسبِ معمول ایک فرمودہ جَھڑا ۔
" آج کل کے نوجوان ، اِن میں دم نہیں ، ہمارا مقابلہ کیا کریں گے !"
اِس بوڑھے (اُس وقت جوان بلکہ بہت نوجوان ہوتا تھا) نے چائے کی پیالی میز پر رکھی ، اور بولا ،
" سر آئیں ، دیکھیں پہلے اُس گیٹ کو کون ھاتھ لگا گر واپس آتا ہے ؟"
میجر صاحب ، نئے نئے سٹاف کالج کر کے آئے تھے اور یونٹ میں واحد سٹاف کالج آفیسر تھے۔ لفٹینوں نے اُن کا نام "میجر ایس ڈی" رکھ دیا تھا -
میجر ایس ڈی، نے بھویں اچکا کر ، اِس بہت ہی نوجوان کی طرف دیکھا ،
میجر ایس ڈی، نے بھویں اچکا کر ، اِس بہت ہی نوجوان کی طرف دیکھا ،
" کیا مطلب ہے تمھارا ؟ "
" سر کچھ نہیں ،
بس آج کل کے نوجوان ، سے مقابلہ ہوجائے ۔ تاکہ آپ آئیندہ فخر سے کہہ سکیں ۔
"آج کل کے نوجوان ، اِن میں دم نہیں ، ہمارا مقابلہ کیا کریں گے !"
بس آج کل کے نوجوان ، سے مقابلہ ہوجائے ۔ تاکہ آپ آئیندہ فخر سے کہہ سکیں ۔
"آج کل کے نوجوان ، اِن میں دم نہیں ، ہمارا مقابلہ کیا کریں گے !"
اِس سے پہلے کہ میجر صاحب ، کچھ کہتے ، کرنل صاحب دھاڑے ،
" خالد ، شٹ اَپ ، صرف تم گیٹ کو ھاتھ لگا کر آؤ !"
اُس وقت کا نوجوان اور آج کا بوڑھا ، حکم حاکم مرگِ مفاجات ، مانتے ہوئے گیٹ کو ہاتھ لگانے دوڑ پڑا۔
اُس کے بعد ، نوجوانوں ، جوانوں اور بہت جوانوں کے درمیان تو مقابلے ہوتے ، لیکن بال رنگنے والوں نے بیان بازی سے پرہیز رکھا "
اور اب میں سوچتا ہوں :
یہ اہتمامِ چراغاں بجا سہی لیکن
سحر تو ہو نہیں سکتی دیئے جلانے سے ۔
وجہ یہ ہے ، دئیے نہ جلانے کی ، کہ فوج میں گیٹ کو ہاتھ لگانے کا کانسیپٹ بہت پھیلا اور پھیلتے پھیلتے ، جی ایچ کیو تک جا پہنچا ۔
وہاں کے گرے ھیڈ نے سوچا ، کہ اب یہ سوچ ختم ہونا چاھئیے ، کہ آج کل کے نوجوانوں میں وہ دم نہیں ، اور دو میل کے آخر میں ، جب جھنڈے اتارنے کا وقت ہوتا ، تو جوان پہنچ رہے ہوتے ۔
لہذا ، ایک ساتھ دوڑنے کا حکم ختم اور ایک نئے حکم نے، جوانوں میں نئی روح پھونک دی ۔
وہاں کے گرے ھیڈ نے سوچا ، کہ اب یہ سوچ ختم ہونا چاھئیے ، کہ آج کل کے نوجوانوں میں وہ دم نہیں ، اور دو میل کے آخر میں ، جب جھنڈے اتارنے کا وقت ہوتا ، تو جوان پہنچ رہے ہوتے ۔
لہذا ، ایک ساتھ دوڑنے کا حکم ختم اور ایک نئے حکم نے، جوانوں میں نئی روح پھونک دی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں