Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 19 جولائی، 2016

19 جولائی 2016 کی ڈائری- گیٹ کو ھاتھ لگا کر آؤ ؟

آج بڑھیا کے ساتھ ، ہسپتال ماہانہ دوائیاں لینے گیا ، بڑھیا کو سمارٹ موبائل ۔ چلانا آگیا ہے ۔ لہذا آج کل امپورٹ و ایکسپورٹ پر زیادہ زور ہے ۔
یو ٹیوب سے ، تمام خطیبانِ وقت کے خطاب دیکھتی ہے ۔ اور اپنے گروپ ، بچوں کا سمدھیوں کا ، اسلام آباد کی سہیلیاں ، پنڈی میں اسلام آباد کی سہیلیاں ، درسِ قرآن کی سہیلیاں ، سب کو بھیج دیتی ہے ۔
ہسپتال میں بھی یہی شغل جاری تھا ، میں نے بچوں کے لئے ایک سیلفی بنائی اور بھیج دی ۔
پھر سوچا کہ دوستوں کے لئے ، اپنی سلیفی بھیج دوں ، تاکہ سند رہے ، کہ بوڑھا واقعی بوڑھا ہے ۔ اور دل جلانے کی بات نہ کریں ۔ اور سرخی لگائی ۔



دل جلانے کی باتیں تو اُنہوں نے ایک طرف رکھیں ، اور دل کے پھپھولے پھوڑنے ، نہیں بلکہ سِل بٹے پر پیسنے شروع کر دیئے ۔

اب اُنہیں کیا جواب دوں، بس عبرت کے لئے ایک واقعہ سناتا ہوں۔
نوجوانو: ایک دفعہ کا ذکرہے ، 1977 میں ، ہمارے ایک میجر صاحب ہوتے تھے، وہ یونٹ میں نئے نئے آئے تھے ۔ اُنہوں نے اپنی کھوپڑی پر بالوں سے ، Brain Storming کا LOGO بنایا ہوا تھا اور گنے چُنے بالوں کو وہ کالے بھی کیا کرتے تھے ۔
ٹی بریک پر ایڈجوٹنٹ آفس کے سامنے لان پر بیٹھے تھے ، کمانڈنگ آفیسر صاحب بھی موجود تھے ،
میجر صاحب نے حسبِ معمول ایک فرمودہ جَھڑا ۔
" آج کل کے نوجوان ، اِن میں دم نہیں ، ہمارا مقابلہ کیا کریں گے !"
اِس بوڑھے (اُس وقت جوان بلکہ بہت نوجوان ہوتا تھا)  نے چائے کی پیالی میز پر رکھی ، اور بولا ،
" سر آئیں ، دیکھیں پہلے اُس گیٹ کو کون ھاتھ لگا گر واپس آتا ہے ؟"
میجر صاحب ، نئے نئے سٹاف کالج کر کے آئے تھے اور یونٹ میں واحد سٹاف کالج آفیسر تھے۔ لفٹینوں نے اُن کا نام "میجر ایس ڈی" رکھ دیا تھا -
میجر ایس ڈی، نے بھویں اچکا کر ، اِس بہت ہی نوجوان کی طرف دیکھا ،
" کیا مطلب ہے تمھارا ؟ "
" سر کچھ نہیں ،
بس آج کل کے نوجوان ، سے مقابلہ ہوجائے ۔ تاکہ آپ آئیندہ فخر سے کہہ سکیں ۔ 
"آج کل کے نوجوان ، اِن میں دم نہیں ، ہمارا مقابلہ کیا کریں گے !"
اِس سے پہلے کہ میجر صاحب ، کچھ کہتے ، کرنل صاحب دھاڑے ،
" خالد ، شٹ اَپ ، صرف تم گیٹ کو ھاتھ لگا کر آؤ !"
اُس وقت کا نوجوان اور آج کا بوڑھا ، حکم حاکم مرگِ مفاجات ، مانتے ہوئے گیٹ کو ہاتھ لگانے دوڑ پڑا۔

اُس کے بعد ، نوجوانوں ، جوانوں اور بہت جوانوں کے درمیان تو مقابلے ہوتے ، لیکن بال رنگنے والوں نے بیان بازی سے پرہیز رکھا "
اور اب میں سوچتا ہوں :
یہ اہتمامِ چراغاں بجا سہی لیکن
سحر تو ہو نہیں سکتی دیئے جلانے سے ۔

وجہ یہ ہے ، دئیے نہ جلانے کی ، کہ فوج میں گیٹ کو ہاتھ لگانے کا کانسیپٹ بہت پھیلا اور پھیلتے پھیلتے ، جی ایچ کیو تک جا پہنچا ۔
وہاں کے گرے ھیڈ نے سوچا ، کہ اب یہ سوچ ختم ہونا چاھئیے ، کہ آج کل کے نوجوانوں میں وہ دم نہیں ، اور دو میل کے آخر میں ، جب جھنڈے اتارنے کا وقت ہوتا ، تو جوان پہنچ رہے ہوتے ۔
لہذا ، ایک ساتھ دوڑنے کا حکم ختم اور ایک نئے حکم نے، جوانوں میں نئی روح پھونک دی ۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔