Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 25 جولائی، 2016

25 جولائی 2016 چم چم اور دلہن

یونٹ آفیسر کے بیٹے کے ولیمے پر میں اور بڑھیا اپنی نواسی عالی کے ساتھ گئے ، یونٹ کے سارے ریٹائرڈ آفیسر مُلک کے کونے کونے سے آئے تھے ۔ خوب گہما گہمی تھی ۔ پرانی یادیں تازہ ہو رہی تھیں ۔
وہ نوجوان جو ہمارے ساتھ ہوتے تھے ۔ گو اب بھی نوجوان تھے مگر سفید بالوں والے، نہایت کالے بالوں والے اور بغیر بالوں والے۔
قہقہوں اور باتوں کے شور میں راہداری کے شروع میں گونجنے والی میوزک کی آواز بھی غائب ہو چکی تھے ۔

یونٹ آٖفیسر کی بچیاں جو نواسی کہ ہم عمر سہیلیاں ہیں انہوں بوڑھے دیکھا توملنے آئیں بوڑھے نے حسبِ عادت سب سے نظمیں سنیں اور ٹافیاں دیں۔ بچیاں واپس دوڑ گئیں اور بھائیوں کے ساتھ آئیں،انہوں نے بھی نظمیں سنا کر ٹافیاں لیں اور دوڑ گئیں ۔کچھ دیر وہاں راحیل شریف بھی آگئے۔ بچیوں نے سنا تو دوڑی میرے پاس آئیں اور بولیں ،
"انکل ہم نے جنرل راحیل کے ساتھ تصویر کھنچوانی ہے "
بوڑھے نے کہا ، " ابھی کھنچواتے ہیں ، جب میں کہوں سب میرے ساتھ آئیں تو لائن بنا کر جس طرف سے میں کہوں آنا اورباری باری ھاتھ ملانا پھر تصویر کھنچے گی "
سب بولیں ، " اچھا انکل "
بوڑھے نے دائیں بائیں دیکھا ، چم چم نظر نہیں آئی ،
" عالی کو دیکھا ہے آپ نے ! کہاں ہے وہ ؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
" انکل ، وہ دلہن آنٹی کے پاس بیٹھی ہے" ایک بچی بولی ۔
" اچھا جاؤ، اُسے بلا کر لاؤ " بوڑھے نے کہا ،
"انکل ، وہ کبھی بھی نہیں آئے گی ، وہ ہمارے ساتھ بھی نہیں کھیل رہی ، بس دُلہن آنٹی کے پاس بیٹھی ہے "دوسری
بچی بولی ۔
" اُسے جاکر بولو ، کہ اُس کو نانا بلا رہے ہیں " بوڑھا بولا ، " اور اگر وہ نہیں آئی تو تصویر بھی نہیں کھنچے گی "
یہ سننا تھا کہ سب دوڑ کر گئیں اور چم چم کو بلا لائیں-
بوڑھے نے لائین بنائی اور سب کو لے کر راحیل شریف کے پاس چلنے لگا ، راحیل نے جو لائین کو آتا دیکھا تو سمجھ گیا ، اُس نے سینئیر آفیسرز سے معذرت کی اور ہماری طرف بڑھا سب بچیوں سے ھاتھ ملایا اور تصویر کھنچوائی ۔
تصویر کھنچوانے کے بعد ایک بچی بولی ،
"انکل میں عالی کو بلانے گئی تو اُس نے مجھے دھکا دیا "
بوڑھے نے عالی کی طرف دیکھا ،
 تو وہ بولی ،
"آوا یہ جھوٹ بول رہی ہے ، اِس نے آپ کو کالا کہا ، تو میں نے دھکا دیا "
بوڑھے نے بچی کو چم چم  سے ٹافی دلوائی اور دوستی کروائی ۔
واپسی میں ، چم چم نے بتایا کہ وہ میرے پاس آئی اور بولی ،
" عالی وہ جو کالے سے ہیں نا تمھارے نانا ، وہ تمھیں بُلا رہے ہیں ، تو میں نے اُس کو دھکّا دیا "
" لیکن عالی ، آؤا تو کالے ہیں نا ؟ ُ بڑھیا نے سمجھایا
" لیکن وہ میرے آوا ہیں ۔ وہ دوبارہ بولے گی تو میں اُس کے پیٹ میں پنچ ماروں گی " چم چم غصے سے بولی

چم چم نے ، مذاق میں اپنا پنچ 20 سالا چاچو کا مارا تھا ، تو چاچو درد سے دہرا ہوگیا تھا ۔ وہ بوڑھے پر حیران ہوتا تھا کہ چم چم ، پانچ ، چھ پنچ بوڑھے کے پیٹ میں مارتی اور بوڑھا ہنستا رہتا ۔
بڑھیا یک دم بولی ،" عالی کبھی ایسا نہیں کرنا "
" عالی کو میڈیٹیشن کی ضرورت ہے " بوڑھا بولا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔