Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 2 مارچ، 2015

اکیڈمی کا پہلا سہانا اتوار

دوسری صبح منہ اندھیرے پو پھٹنے سے قبل، اتوار کا سہانا دن، جب کہ دنیا والے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ ہم فقط ایک جانگیئے میں، انتیس عدد دیگر ملزمانِ کمیشن کے ساتھ باجماعت شبنم آلود لان میں کھڑے اپنی قوتِ برداشت کا امتحان دے رہے تھے۔
 ہمارے جسم پر پڑنے والی شبنم، بھاپ بن کر ایسے اُڑ رہی تھی جیسے گرم توے پر پانی کے چھینٹے ڈالنے کے بعد اٹھتی ہے۔ ساڑھے سات بجے حکم ملا کہ دس منٹ میں تیار ہوکر ناشتے کے لئے، فال اِن ہوجائیں۔
 یا خدا، صرف دس منٹ،ایک  کمرے میں ہم چار کیڈٹ تھے۔ سہیل، فاروق، امجد، ہم اور دو باتھ روم ، گویا پانچ منٹ فی کیڈٹ تیاری کے لئے ملے۔
ناشتے کے بعد ہم دوڑتے ہوئے، ایک بیرک کے سامنے پہنچے جہاں ہمیں ماہر گیسو تراش کے سپرد کر دیا گیا۔
 فوج سے تربیت حاصل کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ حضرات بڑے بڑے شہروں میں اپنی دکانیں کچھ اِس طرح بڑھاتے ہیں، کہ ایشیاء کے ماہر زلف  اور گیسو تراش آف ہیئر کٹنگ سیلون، ملٹری سے منظور شدہ بمع بیس اکیس دیوار پر آویزاں اسناد جو بیدردی سے مجبور فوجیاں کے بال ترشوانے پر عطا ہوئیں۔
  ہم لان میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے  باربر شاپ میں اپنی باری پر داخل ہوئے اور ایک کرسی پر بٹھا دیئے گئے۔ ایک سفید کپڑے میں ہمیں اس طرح جکڑا کہ نہ ہم ہاتھ ہلا سکتے تھے اور نہ کسمسا سکتے تھے۔بس ہماری گردن  باہر تھی ۔ ہمارے سر پر ایک ہاتھ سختی سے جم گیا جس نے ہمارا سر  اتنا جھکایا کہ سامنے پڑی میز  سے صرف تین انچ دور رہ گیا ،جو ہر جھٹکے پر    ڈھک کی فریاد بلند کرتا۔
ماہرِ گیسو خراش  نے ہمارے سر کو گھاس کا میدان سمجھ کرتراشنا شروع ، مشین کی گھر گھر سنائی دیتی اور کبھی قینچی کی چخ چخ، نجانے ہمارے سر کا حدود اربعہ اُن کی سمجھ میں نہ آیا یا وہ بے چارے تھک گئے تھے۔
 لہذا انہوں نے  ، ہمیں سفید کفن سے آزاد کیا اور تشریف لے جانے  کا کہا ۔
 آئینے میں شکل دیکھی ایسا لگتا تھا کہ کسی گنبد پر چیل نے اپنا آشیانہ بنایا ہو۔ اس کے بعد ستم یہ کہ ہمیں فوٹو گرافر کے کیمرے کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔ جب اپنی تصویر دیکھی تو جیل سے فرار ہونے والے اُس قیدی کی تصویر لگی جو عادی مجرم ہو۔اس پر ہمیں میرپورخاص کے فوٹو گرافر کو مہارت کا سرٹیفکیٹ دینے کو دل چاہا نے لگا۔جس نے ہماری میٹرک کے لئے تصویر کھینچی تھی ۔جس پر ری ٹچنگ ہونے کے باوجود نیگیٹو کا گمان ہوتا تھا ۔
بڑے لوگوں پر بڑی مصیبتیں آتی ہیں۔ ادب کی دنیا میں اقبال اور غالب،دردو  میر کے ساتھ ہمارے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ہم اپنی بعض مشکلات میں ان کے شعروں سے حل کے لئے فال نکالتے ہیں  اور یہی اکثریت  کا چلن ہے،
 سوائے کچھ بد چلنوں  کے جو امام دین کے پرستار ہیں، خیر ہم نے بھی  انہی کا سہارا لیااور اس پر عمل بھی کیا،   
کرالنگ کے دوران ہم نے   اپنی ہستی کو خاک  میں ملانے کی حتی المقدور کوشش کی  لیکن ہمار کہنیاں اور گھٹنے گل و گلزار ہونے کے بجائے، لالہ زار ہو گئے۔
 خودی کو بلند کرنے کے  مقام تک پہنچنے کے لئے ،  ہم نے دیوار  کی آخری  حد تک ٹانگیں لے جانے کی کوششیں کیں۔ مگر خدا تو کیا کاپل صاحب نے ہماری رضا نہیں پوچھی اور نہ ہی کبھی پوچھنے کی ضرورت محسوس  کی۔
جنوری شروع ہوا آسمان پر بادل امنڈ امنڈ کر آتے اور خاموشی سے گذر جاتے لیکن جب برستے تو زمین کے بجائے ہم پر برستے  ہم دعا کرتے کہ بس برسیں لیکن  برف نہ گرائیں۔ کیوں کہ برف کا گرنا اور ہمارا برف میں قلابازیاں لگانا لازم و ملزوم تھا اور ایک صبح  ”بابے“ نے بتایا کہ
 ”سر جی !مخے  بار  تے برفاں لگی دیاں نے“ ۔ 
”کیا  آ آ آ آ"،  ہم چاروں کی خوفزدہ آواز بلند ہوئی۔
 وہ دن ہمارا    گذر گیا، کیسا گذرا بس گذر گیا۔
 دو بجے سب کے ساتھ پی ایم اے روڈ پر اپنے جوتے بجاتے  دوڑتے واپس میس کی طرف جارہے تھے  اور اقبال کا شعر کانوں میں گونج رہا تھا۔ ع
سنبھل کر قدم رکھنا راہِ الفت میں۔ کہ سر جاتا ہے گامِ اولیں پر۔

 لائبریری کے سامنے  ایسا محسوس ہوا کہ دنیا ہمارے ارد گرد  گردش میں ہے اور ہم بے وزنی کی کیفیت میں ہوا میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، پھر ہم یک لخت کسی چھپکلی کی مانند پٹ سے زمین پر گرے۔
  پہلے تو اپنے دماغ کو  اس حادثے کے متعلق بتاتے رہے اور ساتھ یہ بھی سوچتے رہے کہ دوسرے مصرعے میں، ”سر جاتا ہے“ کے بجائے، ”پھسل جاتا ہے“ ہوتا تو نہایت مناسب ہوتا۔
  ہمارا سر زمین سے ٹکرایا اور کائینات ساکن ہو گئی، ہوش واپس آئے تو ہم، ہسپتال میں تھے۔
 دوسرے دن سی ایم ایچ گئے ایکسرے ہوا، ہڈی بچ گئی لیکن بائیں ران سوج گئی۔ 
ایک ہفتہ  اکیڈمی کے ہسپتال" پی ایم اے ایچ"   میں رہنے والے  ہم واحد فرسٹ ٹرم کے جنٹل مین کیڈٹ تھے۔ باقی سیکنڈ، تھرڈ اور فائنل ٹرم کے تھے۔ ہمارے آرام کے اہتمام کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے  اور نہ ہی سوچ سکتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔