مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اُس کے
فصیلِ شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود اُس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سپردِ دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پہ ایوانِ کجکلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت بھی حلف اٹھانے کو
مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثناگر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اِک مصاحبِ دربار کے اشارے پر
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے پاس ہے کون آس پاس تو دیکھو
سو یہ شرط ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اُسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کِسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اِک نیا سورج تراش لاتی ہے
سو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لئے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اُسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت
اُسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
مرا قلم نہیں کردار اُس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کِسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
مرا قلم نہیں اس نقب زن کا دستِ ہوس
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دُزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اُچھالتا ہے
مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلّغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کا
جو اپنے چہرے پہ دُہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لئے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تِیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عُمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
سرشتِ عشق نے افتادگی نہیں پائی
!تو قدِ سرو نہ بینی و سایہ پیمائی
فراز
فراز
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں