من ہیچ نمی ترسم از حادثۂ شب ہا
شبہا کہ سحر گردد از گردش کوکب ہا
نشناخت مقام خویش افتاد بدام خویش
عشقی کہ نمودی خواست از شورش یارب ہا
آہی کہ ز دل خیزد از بہر جگر سوزی است
در سینہ شکن او را آلودہ مکن لب ہا
در میکدہ باقی نیست از ساقی فطرت خواہ
آن می کہ نمی گنجد در شیشۂ مشرب ہا
آسودہ نمی گردد آندل کہ گسست از دوست
با قرأت مسجد ہا با دانش مکتب ہا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں