میرِ سپاہ ناسزا، لشکر یاں شکستہ صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف
عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگار دَیر میں خونِ جگر نہ کر تلف
کھول کے کیا بیاں کرو سرِ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ باشرف، مرگ حیاتِ بے شرف
صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ، ایک کلیم سر بکف
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لاتخف
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
اسلام علیکم۔اپ کا یہ پیج بہت ہی اچھا اور قابل تعریف ہے اس سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ایسی ایسی نایاب جو ہم بھو چکے ہیں ،ایسے لوگوں کے بارے میں بتا جلتا ہے۔ اللہ اپکو اس کام کا اجر عظیم عطا فرماے امین۔
جواب دیںحذف کریں