ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر،دیوار کو در،کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کوقسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہل حشم ،یہ دارا و جم، سب نقش برآب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب اے اہل وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری، کی ہم نے انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوںیہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خون خوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شام ویراںآسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے ، وہ شہر دل برباد کہاں
صحرا کو چمن بن کو گلشن بادل کو ردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فنکارو، ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملااس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حبیب جالب,
حبیب جالب,
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں