کو بکو پھیل گیء بات شنا سائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوایء کی
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوایء کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہر جائی کی
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہر جائی کی
ترا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں خواہش انگڑائی کی
جاگ اٹھتی ہیں خواہش انگڑائی کی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں