کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاک حجاز
ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبورِ نیاز
لے رہا ہے مے فروشانِ فرنگستاں سے پارس
وہ مۂ سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
ہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
گفت رومی ''ہر بناے کہنہ کآباداں کنند''
می ندانی ''اول آں بنیاد را ویراں کنند''
''ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں''
حق ترا چشمے عطا کردست غافل در نگر
مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست
مور بے پر! حاجتے پیشِ سلیمانے مبر
ربط و ضبطِ ملتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظِ حرم کا اک ثمر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں ، مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانندِ خاکِ رہ گزر
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہشیار باش
عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی
اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ
تو نے دیکھا سطوتِ رفتارِ دریا کا عروج
موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ
اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجود
مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پیر، دیکھ
کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس
سامنے تقدیر کے رسوائیِ تدبیر دیکھ
مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر، 'لایخلف المیعاد' دار
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں