Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 16 مارچ، 2015

خسرو۔ زینم از آں خویش کن، من کردم ایں و آں کجا؟



بشگفت گل در بوستاں، آن غنچہی خنداں کجا؟
شد وقت عیش دوستاں، آں لالہ و ریحاں کجا؟

هر بار کو در خنده شد، چون من ہزارش بنده شد
صد مرده زاں لب زنده شد، درد مرا درماں کجا؟

گویند ترک غم بگو، تدبیر سامانی بجو
درمانده را تدبیر کو، دیوانہ را ساماں کجا؟

از بخت روزی باطرب، خضر آب خورد و شست لب
جویان سکندر در طلب، تا چشمہی حیوان کجا؟

می‌گفت با من ہر زمان، گر جان دہی با من اماں
من می برم فرماں بجان، آں یار بی فرمان کجا؟

گفتم : توئی اندر تنم، ما ہست جاں روشنم
گفتی کہ : آری آں منم، اگر آں توئی پس جاں کجا؟

گفتی صبوری پیش کن، مسکینی از حد بیش کن
زینم از آن خویش کن، من کردم ایں و آں کجا؟

پیدا گرت بعد از مہی، درکوی ما باشد رہی
از نوک مژگاں گہ گہی، آں پرسش پنہاں کجا؟

زیں پیش با تو هر زماں، می‌بودمی از هم‌دماں
خسرو نہ ہست آخر هماں ؟ آن عهد و آں پیماں کجا؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔