Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 16 مارچ، 2015

سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں



سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کُچھ دِن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رَبط ہے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گُزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہُنر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
سُنا ہے اُس کو ہِرن دَشت بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے دِن کو اُسے تِتلیاں ستاتی ہیں
سُنا ہے رات کو جُگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی
سُنا ہے شام کو سائے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کے لبوں پہ گُلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ اِلزام دھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی
جو سادہ دِل ہیں اُسے بَن سنور کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے جب سے حمائل ہیں اُس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کَتر کے دیکھتے ہیں

بس اِک نِگاہ سے لُٹتا ہے کافلہ دِل کا
سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کی بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کِسے نصیب کہ بے پیراہن اُسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی ، سب مُبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے ، تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اُس کے شہر میں ٹھہریں کہ کُوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔