بازیچہٴ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں، مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا، مرے آگے
جزنام، نہیں صورت عالم، مجھے منظور
جزوہم، نہیں ہستی اشیاء، مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا، مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا، ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا، مرے آگے
سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں، نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بت آئینہ سیما، مرے آگے
پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہٴ صہبا، مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے، میں ر شک سے گزرا
کیوں کر کہوں ”لونام نہ ان کا مرے آگے“
ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا، مرے آگے
عاشق ہوں، پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے، لیلیٰ، مرے آگے
خوش ہوتے ہیں، پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شبِ ہجراں کی تمنا، مرے آگے
ہے موج زن اک قلزمِ خوں، کاش، یہی ہو
آتا ہے، ابھی دیکھئے، کیا کیا، مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم پیشہ وہم مشرب وہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو؟ اچھا مرے آگے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں