Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 22 مارچ، 2015

کل 23 مارچ ہے

کل 23 مارچ ہے ، پریڈ کو دیکھنے کا کارڈ ملا ۔ جس کی پشت پر کل 12 ہدایات درج ہیں ۔ جن میں سے اہم :
٭- پریڈ 0930 پر صدر محترم کے آنے کے بعد شروع ہوگی ۔
٭-  07:30 تک بیٹھنا ہے ۔
٭- کھانے کی کوئی چیز موبائل ، کیمرہ ، پرس بیگ ۔ ۔ ۔ ۔  وغیرہ وغیرہ اندر نہیں لے جا سکتے ۔
یعنی گھر سے 30 منٹ کے سفر کے لئے 06:30 پر نکلنا ہوگا ، لیکن اگر رش زیادہ ہوا تو 15 منٹ مزید پہلے ۔
اور اگر
٭- گاڑی میں گیس سلنڈر لگا ہوا تو گاڑی شکر پڑیاں کے پاس پارک کرنا ہوگی -
'
چم چم سے پوچھا اُس نے جانا ہے ، اُس نے بڑے الفاظوں میں کہا
" نو " میں ٹی وی پر دیکھوں گی ۔ میں کل ( 21 مارچ ) گئی تھی ۔ مجھے بہت بھوک لگی ، لیکن وہاں کوئی شاپ نہیں تھی اور انہوں نے بوبو (پھوپو) کا بیگ لے لیا جس میں میرا لنچ اور جوس تھا ۔ اور ایک کیمرے والا (پی ٹی وی) بار بار کہہ رہا تھا ، کہ تمھاری مووی بنانی ہے - یہاں آؤ میں نے انکار کردیا اور کہا تم کیمرہ کیسے لائے میری
بوبو (پھوپو) کا کیمرہ کیوں لے لیا ، میں نے ساڑھی اتار دی بال خراب کر دیئے ، تاکہ وہ میری مووی نہ بنائے ۔"

یوں چھوٹی چھ سالہ کپتان ، لیگنگ اور کپتان کے رینک لگی خاکی قمیض میں احتجاجاً کرسی پر بیٹھی رہی کہ اسے بھوک لگ رہی ہے ،
بوبو (پھوپو) نے خاکی وردی کی قمیض کو اُس کی فراک سے تبدیل کر لیا جو وہ بیگ جمع کراتے وقت احتیاطاً نکال لائی تھی اور پھر عالی صاحبہ پریڈ شروع ہونے کے بعد اپنی "خالہ" کو دیکھنے کے بعد سو گئی ۔

جہازوں کی گونج میں اُٹھی ۔ بوبو (پھوپو) بھوک لگی ہے کا ورد شروع کر دیا ۔

اُس کے لئے ہم نے کارڈ کے لئے درخواست کی ۔ لیکن اُس نے اتنے قیمتی کارڈ کو پانی کے اِس بلبلے سے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔ یوں ہمیں اپنے وقت کی 23 مارچ یاد آگئیں ۔
جس میں ہم نے حصہ لیا جو جی پی او کے سامنے بھنگیوں کی توپ سے شروع ہوکر فورٹریس سٹیڈیم میں ختم ہوتی اور تماشائی لاھور کی مال روڈ کے دونوں طرف بیٹھے ہمارا حوصلہ تالیاں بجا کر بڑھا رہے ہوتے اور پھر شام تک فورٹریس سٹیڈیم میں جنگی سامان کو دیکھتے ، فوٹو کھنچواتے
آتا ہے یاد مجھ کو آزادی کا وہ زمانہ
اسلام جب ملا تھا ہم کو صدیوں پرانا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔