اُس سمت مجھ کو یار نے جانے نہیں دیا
اک اور شہرِ یار میں آنے نہیں دیا
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں تیرے لیئے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
منزل ہے اِس مہک کی کہاں کس چمن میں ہے
اِس کا پتہ سفر میں ہوا نے نہیں دیا
روکا انّا نے کاوشِ بے سود سے مجھے
اُس بُت کو اپنا حال سنانے نہیں دیا
ہے اِس کے بعد عہدِ زوال آشنا میر
اتنا کمال ہم کو خدا نے نہیں دیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں