Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 4 ستمبر، 2014

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

 انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے
 یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے
 پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں 
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
 پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے 
پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے
 بس ایک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں
 وگرنہ صورت خاشاک در بہ در رہتے 
مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار
  برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے 
(افتخار عارف)
٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔