ایک فورم پر یہ پوسٹ دیکھی ، تو ایک پرانا مزاح یاد آگیا ۔
اِس دکان پر تازہ مچھلی دستیاب ہے !
ایک نوجوان المعروف چیچی پہلوان نے ، بازار میں مچھلی بیچنے کے دکان خریدی وہاں سے ایک بزرگ کا گذر ہوا ۔
اُس نے بورڈ پڑھا اور چیچی پہلوان کی طرف بڑھا ۔
بزرگ : "چیچی مبارک۔ ہو مچھلی کی دکان ڈال لی ہے "
چیچی پہلوان نے مچھلی کے کھپچے اتارتے ہوئے منکسرانہ آواز میں جواب دیا ۔
چیچی پہلوان: " جی شاجی بس آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے ۔ "
شاجی : " کام تو بہت اچھا کیا ہے ، بورڈ بھی خوبصورت بنوایا ہے اور مچھلی کی تصویر بھی جاندار ہے ۔ ۔ ۔
لیکن ۔ ۔ !!!!"
" لیکن ! ! ! کیا شاجی ؟ "چیچی پہلوان، پریشانی میں ھاتھ روک کر بولا ۔
شا جی : چیچی یہ بورڈ کس سے بنوایا ہے ؟
چیچی پہلوان: شاجی، فائن آرٹ والے زیدی صاحب سے ، بہت اچھا کام کرتے ہیں ، بس انہیں بتایا تھا اُنہوں نے بنا کر خود ہی لا کر لگا دیا ۔
شا جی : ھاں ھاں بہت ہنر ہے اُس کے ھاتھ میں، پر " اِس دکان پر" اچھا نہیں لگتا ۔
" لیکن ! ! ! کیا شاجی ؟ "چیچی پہلوان، پریشانی میں ھاتھ روک کر بولا ۔
شا جی : چیچی یہ بورڈ کس سے بنوایا ہے ؟
چیچی پہلوان: شاجی، فائن آرٹ والے زیدی صاحب سے ، بہت اچھا کام کرتے ہیں ، بس انہیں بتایا تھا اُنہوں نے بنا کر خود ہی لا کر لگا دیا ۔
شا جی : ھاں ھاں بہت ہنر ہے اُس کے ھاتھ میں، پر " اِس دکان پر" اچھا نہیں لگتا ۔
چیچی پہلوان: شاجی وہ کیوں ؟
شا جی : دیکھو نا ، اِس پوری گلی میں ، کیا مچھلی کی کوئی اور دکان بھی ہے ؟
چیچی پہلوان: شاجی وہ کیوں ؟
شا جی : جب صرف اِسی دکان پر مچلی ملتی ہے تو یہ لکھوانا ، " اِس دکان پر " اردو قواعد کے حساب سے غلط ہے ۔ باقی تمھاری مرضی ۔
شاجی محلے کے پرائمری سکول میں اردو 40 سال سے پڑھا رہے تھے اور چیچی پہلوان کو بھی اردو پڑھانے کی پوری کوشش کی ۔ چناچہ چیچی پہلوان نے ، مچھلی کی صفائی روکی اور سیڑھی منگوا کر " اِس دکان پر " رنگ لگا کر چھپا دیا -
کوئی گھنٹے بعد چیچی پہلوان کی دُکان کے سامنے سے ، حساب کے ٹیچر شیخ صاحب کا گذر ہوا ۔
شیخ صاحب :چیچی کبھی تو عقل کی بات کیا کرو !
چیچی پہلوان: جی ماسٹر صاحب ۔ شیخ صاحب : چیچی، یہ " دستیاب ہے" کیا ہوتا ہے ؟ کبھی تم خالی ہاتھ بھی دکان کھول کر بیٹھو گے ؟
یہ کہہ کر شیخ صاحب اپنی راہ لئے ، چیچی نے سیڑھی لگائی اور " دستیاب ہے" پر رنگ پھیر دیا ۔
عصر سے پہلے ، اسلامیات کے ٹیچر سید برکت حسین کا گذر ہوا ، اُن کے بھانجے سید کریم حسین بخاری ، کی چوک میں مچھلی کی دُکان ہے ، وہ بورڈ دیکھ کر رکے اور غصے میں کھولتے دکان میں داخل ہوئے ،
سید برکت حسین :ناہنجار، کم بخت ، دوسروں پر تہمت لگانے کی تیری عادت بنتی جا رہی ہے ۔
چیچی پہلوان: جج جج جی سید صاحب ۔
چیچی کو اپنی کمر پر ماسٹر صاحب کا بید سے ، پوری اسلامیات و اخلاقیات و دینیات کا ریکارڈ بنانا یاد آ گیا ، وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا ۔
چیچی کو اپنی کمر پر ماسٹر صاحب کا بید سے ، پوری اسلامیات و اخلاقیات و دینیات کا ریکارڈ بنانا یاد آ گیا ، وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا ۔
چیچی پہلوان: جی سیّد صاحب حکم ، سیّد صاحب
سید برکت حسین : کیا تم سید کریم حسین بخاری کو دھوکہ باز سمجھتے ہو !
چیچی پہلوان: سیّد صاحب، توبہ توبہ میں ایسا گناہ کسیے کرسکتا ہوں ۔
سید برکت حسین : کیا تم سید کریم حسین بخاری کو باسی مچھلی فروخت کرتے ہوئے دیکھا ؟
چیچی پہلوان: نہیں سیّد صاحب!
سید برکت حسین : تم نے بورڈ پر یہ کیوں لکھا کہ صرف تم ہی " تازہ مچھلی " بیچتے ہو ، تمھیں شرم نہیں آتی یا وہ بھی بیچ دی ہے ؟
چیچی پہلوان نے ماسٹر صاحب کے سامنے ، سیڑھی لگائی اور بورڈ پر لکھے ہوئے آخری لفظ پر رنگ مَل دیا ۔ اور ماسٹر صاحب کے جانے پر " سکون " کی سانس لی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں