Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 14 جنوری، 2017

شیشے کا گھر اور ہاتھ میں پتھر ؟

 ماں : بابا جی  میرا بیٹا بہت گُڑ کھاتا ہے ، اِسے منع کریں !
بزرگ کے چہرے مبارک پرسیکنڈوں کے لئے ایک تغیّر رونما ہوا ۔ جو کسی کہ نظر نہیں آیا ۔
بابا جی : بی بی اِسے کل میرے پاس لے کر آؤ ، ِانشاء اللہ ، اللہ بہتری فرمائے گا ۔۔
دوسرے دن وہ عورت ایک گیارہ سالہ بچے کو لے کر آئی ، بابا جی نے بچے کو گود میں بٹھایا ، سر پر دستِ شفقت رکھا ، اور بولے :
" دیکھو بیٹا گُڑ نہ کھایا کرو ! "
عورت حیران ہوئی اور بولی :
" بابا جی یہ بات تو آپ اِسے کل بھی کہہ سکتے تھے " ۔

بابا جی : " تم ٹھیک کہتی ہو ، کل جب تم اِسے لے کر آئیں تو میں نے بھی نے بھی گُڑ کھایا ہوا  تھا ۔ اب میں نے بھی چھوڑ دیا ہے اور  اِنشاء اللہ ، یہ بچہ بھی چھوڑ دے گا "

تاریخ سے پڑھی ہوئی یہ ، سیلف ڈسپلن کی اعلیٰ حکایت ، بابا فرید شکر گنج سے منسوب ہے ۔
درج ذیل کالم پڑھ کر یک دم بلبلے کی مانند ذہن میں آگئی ۔
آپ بھی پڑھئیے ! (مہاجرزادہ)

٭٭٭٭ ٭٭٭٭

بلاشبہ اسلام آباد میں سیشن جج کے گھر ملازمہ طیبہ پر ظلم ہوا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جج صاحب 10 سالہ کم سن بچی کو ملازم رکھنے کے مجرم ہیں۔ لیکن میڈیا کی اس ایشو پر غیر معمولی دلچسپی نے مجھے حیرت میں مبتلا کر دیا۔ مجھے تجسس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ورنہ یہ تو معمول کی بات ہے، پاکستان کے ہر دوسرے بااثر شخص کے گھر میں نیم جبری ملازمت کرنے والا کوئی کم عمر بچہ یا عورت مل جائے گی۔ یہاں مار پیٹ بھی کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ عموما اس طرح کے کیسز کو نہ تو میڈیا کوئی اہمیت دیتا ہے اور نہ ہی پولیس رپورٹ تک درج کرنے کی زحمت گوارہ کرتی ہے۔
ہو نہ ہو اس مخصوص کیس میں میڈیا کے ایکٹوازم اور اداروں کی پھرتیوں کے پیچھے کوئی راز ضرور ہے۔

تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر تھوڑی سی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ،

ایڈیشنل سیشن جج خرم خان نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف زمینوں پر قبضے کے مقدمات میں دو فیصلے دیے تھے۔ جن میں  طیبہ کیس کے منظر عام پر آنے سے 2 ہفتے قبل 400 کنال زمین پر قبضے کے مقدمے کے فیصلے میں ملک ریاض کے خلاف ایف آئی آر کے اندارج کا حکم بھی دیا تھا۔

یہ معلوم ہونے کے بعد مجھے پوری کہانی سمجھ میں آ گئی۔ 
میرا خیال ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج اور اُس کی اہلیہ کو معصوم طیبہ پر ظلم کی سزا ضرور ملے۔ لیکن یہ سزا ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون اور زمینوں کے قبضہ گروپ ملک ریاض کے خلاف فیصلہ دینے کی نہیں ہونی چائیے۔
دعا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ اس نقطے پر غور کی زحمت فرمائے۔۔۔۔۔۔

مہتاب عزیز

٭٭٭٭ ٭٭٭٭

میری رائے میں ، ملک ریاض سنڈاس سے نکلا ہوا ایک ایسا پھلدار درخت بن چکا ہے ، جس کے ہر ریشے اور ہر پھل میں ، سنڈاس کا عرقِ ھلاہل ہے جو سنڈاس میں چڑھ کر پھل اتار کر کھانے والوں کو مستفید کر رہا ہے ۔
آپ کو یاد نہ ہو ، لیکن مجھے یاد ہے کہ ، انٹلیکچوئل سٹی فیز 8 کی تمام فائلیں ، ججوں ، جرنیلوں اور صحافیوں کو مُفت میں دی گئیں تھیں ۔ اُس سب کا ریکارڈ ملک ریاض کے پاس ہے ۔
وہ سب ملک ریاض نے کیش قرض کی مد میں لکھا ہے اور ضرورت پڑھنے پر اپنے ہی اخبار جناح میں پریس ریلیز کرتا ہے ۔
سنڈاس سے حاصل کی گئی دولت کو وہ مسجدوں ، مُفت دسترخوان اور فی سبیل اللہ راہ میں دے کر پوّتر کرتا جارہا ہے ۔
اب اسلام کا قد ، حرام کی کمائی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے، اونچا کر رہے ہیں ۔

٭٭٭٭ ٭٭٭٭

صحافت لیکس

ملک ریاض بحریہ ٹاؤن: کا طریقۂ واردات! 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔