والدہ ہمیں پڑھاتی تھیں ،یوں سمجھو کہ ہم انہیں پڑھ کر اپنا سبق سناتے ، وہ 5 کلاس پڑھی ہوئی تھیں ۔
لیکن حیرانگی کی بات وہ مجھ سے آٹھویں کلاس کا سنتیں ، میں کوئی غلطی کرتاوہ ٹوک دیتیں ،
میں حیران ہوتا اور پوچھتا ،
" امّی آپ نے تو صرف پانچوں کلاس تک پڑھا تو آپ آٹھویں کا حساب ، معاشرتی علوم ، جغرافیہ ، اردو ، اسلامیات اور شہریت کیسی آتی ہے ۔ "
" امّی آپ نے تو صرف پانچوں کلاس تک پڑھا تو آپ آٹھویں کا حساب ، معاشرتی علوم ، جغرافیہ ، اردو ، اسلامیات اور شہریت کیسی آتی ہے ۔ "
یاد رہے ہمارے گھر میں ، ترجمان القرآن ، بتول ، شہاب ، اردو ڈائجسٹ ، سیارہ ڈائجسٹ ، تعلیم و تربیت ، غنچہ اور کبھی کبھی چاند رسالہ بھی آتا تھا ،
یہ سب میرے والد نہیں خریدتے ، ابّا صرف ترجمان القرآن ، اردو ڈائجسٹ ، خریدتے باقی دیگر دوست خریدتے اور پڑھنے کے بعد ایک دوسرے کے گھر بھجواتے ۔
یوں ، امّی کا جنرل نالج اور پاکستان نالج بہت زیادہ تھا ، اور ہم سے سُن کر وہ ہمارا سبق بھی یاد کر لیتیں ۔
نقشے پر ، شہر ڈھونڈنا ، اور دیگر کئی تعلیمی کھیل تھے وہ ہم مغرب کا کھانا کھا کر اپنے بستروں پر بیٹھے کھیلتے تھے ،
کیوں کہ اُن دنوں ٹی وی تو کیا ، ریڈیو بھی نہیں ہوتا تھا، وہ اِس لئے کہ بجلی نہیں ہوتی ، 1966 میں ابا نے سیکنڈ ہینڈ فلپس ریڈیو کوئیٹہ میں خریدا تھا کیوں کہ وہاں ، بجلی گھر سے بجلی آتی تھی۔
بجلی سے میری واقفیت ، نوشہرہ میں 1955 میں ہوئی تھی ، بجلی کا ہیٹر میرے لئے ، دلچسپی کا سامان تھا۔،
غرض ، بچوں کی تعلیم اور تربیت میں ماں کی شمولیت نہایت ضروری ہوتی ہے ۔
باپ تو صرف گھر کاکام چیک کرتا ہے ، کہ بچوں نے کیا ہے یا نہیں ۔
اور شیر کی نظر سے دیکھتا ہے ۔
اور شیر کی نظر سے دیکھتا ہے ۔
نپولین نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ
" تم مجھے اچھی مائیں دو ، میں تمھیں اچھی قوم دوں گا " ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں