Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 12 جنوری، 2017

زندگی کا سفر اور ہمت !


لوگ کہتے ہیں کہ جانوروں کو خالقِ کائینات نے کتنا اچھا بنایا ہے ۔ کہ وہ اپنے بچوں کو وہ مکمل تعلیم دیتے ہیں جو اُن کے والدین نے انہیں دی ۔ یہ تعلیم برائے روزگار و دفاع ہوتی ہے ۔ اُس کے بعد وہ بچہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجاتا ہے ، غول میں رہتا ہے یا غول سے جدا ہوتا ہے یا کر دیا جاتا ہے ۔

جانوروں کا بھی پرندوں کی طرح کنبہ ہوتا ہے ، بادی النظر میں ، الگ الگ روزگار کی تلاش گھومنے والے چرند و پرند کبھی بھی تنہا نہیں ہوتے ، بالآخر شام کو ایک ٹھکانے پر جمع ہوجاتے ہیں۔
ٹھنڈ ہو تو ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو سکون پہنچاتے ہیں اور انسانی زندگی کا کچھ حصہ جی کر مر جاتے ہیں ۔
لیکن کیا جانوروں میں حقیقتاً ایک دوسرے کے لئے وہ احسا ہوتا ہے جو انسان ایک دوسرے کے لئے رکھتے ہیں ۔

یہ کہانی پڑھئیے اور ۔ ۔ ۔ ۔ فیصلہ کیجئیے !

٭٭٭٭ ٭٭٭٭



پاپا سے بحث کے بعد میں بڑے غصے سے میں گھر سے چلا آیا ..

اتنا غصہ تھا کہ غلطی سے پاپا کے  جوتے پہن کے نکل گیا
میں آج بس گھر چھوڑ دوں گا!! اور تبھی لوٹوگا جب بہت بڑا آدمی بن جاؤں گا۔!!

جب موٹر سائیکل نہیں دلوا سکتے تھے، تو کیوں انجینئر بنانے کے خواب دیکھتے ہیں ؟!!

آج میں پاپا کا پرس بھی اٹھا لایا تھا .... جسے کسی کو ہاتھ تک نہ لگانے دیتے تھے ...

مجھے پتہ ہے اس پرس میں ضرور پیسوں  کے حساب کی ڈائری ہوگی ....
پتہ تو چلے کتنا مال چھپا ہے .....
ماں سے بھی ...

اسے ہاتھ نہیں لگانے دیتے کسی کو ..

جیسے ہی میں عام  راستے سے سڑک پر آیا، مجھے لگا جوتوں میں کچھ چبھ رہا ہے ....
میں نے جوتا نکال کر دیکھا .....
میری ایڑھی سے تھوڑا سا خون رس آیا تھا ...
جوتے کی کوئی کیل نکلی ہوئی تھی، درد تو ہوا پر غصہ بہت تھا ..

اور مجھے جانا ہی تھا گھر چھوڑ کر ...

جیسے ہی کچھ دور چلا ....
مجھے پاؤں میں گیلا گیلا سا  لگا، سڑک پر پانی پھیلا ہوا تھا ....
پاؤں اٹھا کے دیکھا تو جوتے کی تلی پھٹی ہوئی  تھی  .....

جیسے تیسے لنگڑا كر بس سٹاپ پر پہنچا پتہ چلا ایک گھنٹے تک بس نہیں آئے گی.....

میں نے سوچا کیوں نہ پرس کی تلاشی لی جائے ....

میں نے پرس کھولا، ایک پرچی دکھائی دی، لکھا تھا ..
لیپ ٹاپ کے لئے 40 ہزار قرضے لئے...
پر !!!
لیپ ٹاپ تو گھر میں میرے پاس ہے؟

دوسرا ایک جوڑ مڑا  دیکھا، اس میں ان کے آفس کی کسی شوق ڈے کا لکھا تھا
انہوں نے شوق لکھا: اچھے جوتے پہننا ......
اوہ .... اچھے جوتے  پہننا ؟؟؟
پر انکے جوتے  تو ........... !!!!

ماں گذشتہ چار ماہ سے ہر پہلی کو کہتی ہے: نئے جوتے  لے لو ...
اور وہ ہر بار کہتے: "ابھی تو 6 ماہ جوتے اور چل جائیں گے .."
میں اب سمجھا کتنے چل جائیں گے؟؟؟

...... تیسری پرچی ..........
پرانا سکوٹر دیجئے ایکسچینج میں نئی موٹر سائیکل لے جائیں ...
پڑھتے ہی دماغ گھوم گیا .....
پاپا کا سکوٹر .............
اوہ ہ ہ ہ ہ

میں گھر کی طرف بھاگا ........
اب پاؤں میں وہ کیل نہیں چبھ رہی تھی ....

میں گھر پہنچا .....
نہ پاپا تھے نہ سکوٹر ..............
اوههه!!
نہیں!!
میں سمجھ گیا کہاں گئے؟ ....

میں بھاگا .....
اور
ایجنسی پر پہنچا ......
پاپا وہیں تھے ...............

میں نے ان کو گلے سے لگا لیا، اور آنسؤوں  سے ان کا کندھا بھیگ گیا   ..

..... نہیں ... پاپا نہیں ........ مجھے نہیں چاہئے موٹر سائیکل ...

بس آپ نئے جوتے لے لو اور مجھے اب بڑا آدمی بننا ہے ..

وہ بھی آپ کے طریقے سے .....

 (منقول و ماخوذ )
 

٭٭٭٭ ٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔