مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب راحیل شریف نے اپنی ریٹائرمنٹ سے کئی مہینے پہلے ریٹائمنٹ کا اعلان کیا تو ، راحیل کا قد کئی کرسیوں پر کھڑے ہوکر اپنا قد بلند کرنے والے بونوں سے بہت اونچا ہوچکا تھا ، ہمیں معلوم تھا کہ میرے ساتھ پاس آؤٹ ہونے والے 54 لانگ کورس میں پاس آؤٹ ہونے والے 284 کیڈٹس میں وہ بہت سلجھا ہوا اور اپنے خاندان کی امانتوں کی پاس رکھنے والا نہایت نفیس انسان ہے ۔
ایک ملاقات میں مختلف کورس میٹس ، "پاکستان کی بقاء" کے لئے مختلف رائے دے رہے تھے ، تو میں نے ایک جملہ کہا تھا ۔" باس میری نظر میں وحید کاکڑ ایک ہیرو ہے کیانی نہیں "
درمیان میں ، وقت بڑھتا گیا ہماری ، 23 مارچ ، 14 اگست ، عیدین پر ملاقاتیں ہوئیں ، اُس کی باڈی لینگوئج ہمیشہ وہی رہی ، یہاں تک کہ جب کئی ملکی فوج کے سربراہان کی قیادت سنبھالنے کا غلغلہ بلند تھا اور ہماری حکومت جس میں بہت دلچسپی لے رہی تھی ، کیوں کہ شائد 1973 کی طرح سول گونمنٹ کا خیال تھا کہ مسلم امّہ کی قیادت کا تاج اُس کے سر پر رکھا جائے ، جس کے ہما نے 1974 میں صرف پاکستان کا چکر لگایا تھا اور جس کے پیچھے گدھ لگے ہوئے تھے جنہوں نے وزیر اعظم پاکستان کو اقتدارِ مسلم امّہ کا جھولا جھلوانے کے بجائے پھانسی گھاٹ کے ہی اسلامی جھولے پر سواری کروا کر اُفق کے پار بھجوا دیا ۔
اپنی 63 سالہ زندگی میں ، طالبعلمی میں میری جو پہلی سیاسی جماعت تھی وہ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی ۔ پھر فوج میں آنے کے بعد ، بھٹو کی محبت اور اُس سے نفرت اور پھر محبت پروان چڑھی وہ پاکستان کے سیاسی اداکاروں کی مرھونِ منت تھی ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ، گوسیاسی نہیں بنا لیکن سیاستی کرداروں کی تریا چلتّروں پر نظر ضرور رکھی ، یہی وجہ تھی ۔ کہ منگلہ میں 54 لانگ کورس کی ایک سالانہ ملن پارٹی کی یاد میں یہ پوسٹ لگائی۔
حکومت کی مثبت پالیسیوں پر چلنا راحیل شریف کا آئینی فرض تھا وہیں آئینِ پاکستان ہی کے سائے میں ہر حکومتی منفی احکامات سے انکار بھی اُس کی شریعت تھی۔ جو اُس نے ایک سچے ، بے باک ، فرمانبردار آئینِ پاکستان کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ کے طور پر نبھائی ۔
اور فوج سے ملنے والی تمام مالی مراعات ، مکان، دو پلاٹ ، کمرشل پلاٹ ، شہداء فاونڈیشن میں دینے کے بعد اور ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان میں کہیں بھی ، الاٹ ہونے والی 80 ایکڑ زمین (یعنی پونے چار مربعے ، جو ہر چیف آف آرمی سٹاف کو ملتی ہے ) دینے کا وعدہ کر کے ، چھڑی نئے چیف آف آرمی سٹاف کو پکڑاتے ہی لاہور اپنے آبائی گھر کو روانہ ہو گیا ۔
ایک ملاقات میں مختلف کورس میٹس ، "پاکستان کی بقاء" کے لئے مختلف رائے دے رہے تھے ، تو میں نے ایک جملہ کہا تھا ۔" باس میری نظر میں وحید کاکڑ ایک ہیرو ہے کیانی نہیں "
درمیان میں ، وقت بڑھتا گیا ہماری ، 23 مارچ ، 14 اگست ، عیدین پر ملاقاتیں ہوئیں ، اُس کی باڈی لینگوئج ہمیشہ وہی رہی ، یہاں تک کہ جب کئی ملکی فوج کے سربراہان کی قیادت سنبھالنے کا غلغلہ بلند تھا اور ہماری حکومت جس میں بہت دلچسپی لے رہی تھی ، کیوں کہ شائد 1973 کی طرح سول گونمنٹ کا خیال تھا کہ مسلم امّہ کی قیادت کا تاج اُس کے سر پر رکھا جائے ، جس کے ہما نے 1974 میں صرف پاکستان کا چکر لگایا تھا اور جس کے پیچھے گدھ لگے ہوئے تھے جنہوں نے وزیر اعظم پاکستان کو اقتدارِ مسلم امّہ کا جھولا جھلوانے کے بجائے پھانسی گھاٹ کے ہی اسلامی جھولے پر سواری کروا کر اُفق کے پار بھجوا دیا ۔
اپنی 63 سالہ زندگی میں ، طالبعلمی میں میری جو پہلی سیاسی جماعت تھی وہ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی ۔ پھر فوج میں آنے کے بعد ، بھٹو کی محبت اور اُس سے نفرت اور پھر محبت پروان چڑھی وہ پاکستان کے سیاسی اداکاروں کی مرھونِ منت تھی ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ، گوسیاسی نہیں بنا لیکن سیاستی کرداروں کی تریا چلتّروں پر نظر ضرور رکھی ، یہی وجہ تھی ۔ کہ منگلہ میں 54 لانگ کورس کی ایک سالانہ ملن پارٹی کی یاد میں یہ پوسٹ لگائی۔
حکومت کی مثبت پالیسیوں پر چلنا راحیل شریف کا آئینی فرض تھا وہیں آئینِ پاکستان ہی کے سائے میں ہر حکومتی منفی احکامات سے انکار بھی اُس کی شریعت تھی۔ جو اُس نے ایک سچے ، بے باک ، فرمانبردار آئینِ پاکستان کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ کے طور پر نبھائی ۔
اور فوج سے ملنے والی تمام مالی مراعات ، مکان، دو پلاٹ ، کمرشل پلاٹ ، شہداء فاونڈیشن میں دینے کے بعد اور ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان میں کہیں بھی ، الاٹ ہونے والی 80 ایکڑ زمین (یعنی پونے چار مربعے ، جو ہر چیف آف آرمی سٹاف کو ملتی ہے ) دینے کا وعدہ کر کے ، چھڑی نئے چیف آف آرمی سٹاف کو پکڑاتے ہی لاہور اپنے آبائی گھر کو روانہ ہو گیا ۔
کسی ویرانے میں اور بے آباد جگہ پر زمین لینے کے بجائے اُس نے ، شہداء کے بچوں کے سنہرے مستقبل کی خاطر ڈھائی مربعے یعنی 482 کنال بیدیاں روڈ پر لینا قبول کیا جو کینٹ کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے بارڈر پر ہے ، جہاں 1965 کی معرکۃ آراء جنگ لڑی گئی اور جس کی مٹی میں 1971 میں اُس کے سگے بھائی اور ماموں کا خون بھی جذب ہے ۔
وہاں شہداء فاونڈیشن کے پراجیکٹ کی پلاننگ کے تمام کاغذات راحیل شریف منظور کر کے ، سعودی شاہی مہمان بن کر شاہ کے خصوصی جہاز میں روانہ ہو گیا تھا ۔ اب پراجیکٹ کی پلاننگ شروع ہونے والی ہے ۔
لیکن وہ قلمی طوائفیں اور میڈیا کے زنخے جنہوں نے کسی کے بل بوتے پر پوری کوشش کی کہ وہ راحیل شریف کو ہیرو سے زیرو کی طرف دھکیل دیں پہلے بھی ناکام ہوئے اور انشاء اللہ اب بھی ناکام ہوں گے ،
وہاں شہداء فاونڈیشن کے پراجیکٹ کی پلاننگ کے تمام کاغذات راحیل شریف منظور کر کے ، سعودی شاہی مہمان بن کر شاہ کے خصوصی جہاز میں روانہ ہو گیا تھا ۔ اب پراجیکٹ کی پلاننگ شروع ہونے والی ہے ۔
لیکن وہ قلمی طوائفیں اور میڈیا کے زنخے جنہوں نے کسی کے بل بوتے پر پوری کوشش کی کہ وہ راحیل شریف کو ہیرو سے زیرو کی طرف دھکیل دیں پہلے بھی ناکام ہوئے اور انشاء اللہ اب بھی ناکام ہوں گے ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں