Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 14 جنوری، 2017

بلند دماغ اور کردار والے عظیم لوگ

خان صاحب کا تعلق بھارت کے ضلع قندال سے تھا اور وہ اپنے علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار اور نواب تھے۔
 لیکن انہوں نے تقسیم ہند کے بعد نا صرف اپنی ساری زمین اور جائیداد چھوڑ دی , بلکہ انہوں نے پاکستان آ کر اُس جائیداد کے عوض کوئی کلیم بھی جمع نہیں کروایا-
خان لیاقت علی خان کے پاس پاکستان میں ایک انچ زمین کوئی ذاتی بنک اکاؤنٹ اور کوئی کاروبار نہیں تھا۔
خان صاحب کے پاس دو اچکن، تین پتلونیں، اور بوسکی کی ایک قمیض تھی -
اور اُن کی پتلونوں پر بھی پیوند لگے ہوتے تھے وہ اپنی پتلونوں کے پیوندوں کو ہمیشہ اپنی اچکن کے پیچھے چھپا لیا کرتے تھے۔
16 اکتوبر 1951 کو جب راولپنڈی میں خان لیاقت علی خان شہید ہوئے تو اُن کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لے جائی گئی، تو دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نے اچکن کے نیچے نا صرف پھٹی ہوئی بنیان پہنی رکھی تھی بلکہ اُن کی جرابوں میں بھی بڑے بڑے سوراخ تھے۔
(جس سے متاثر ہو کر مضمون "اوور کوٹ"غلام عباس  نے تصنیف کیا )

شہادت کے وقت نا صرف خان صاحب کا اکاؤنٹ خالی تھا بلکہ گھر میں کفن دفن کے لیے بھی کوئی رقم نہیں تھی خان صاحب اپنے درزی حمید ٹیلر اور ایک کریانہ سٹور کے بھی مقروض تھے.
بیگم رعنا لیاقت علی خان نے خان صاحب کی شہادت کے بعد حکومت کو بتایا کہ حکومت نے وزیراعظم ہاؤس کے لیے چینی کا کوٹہ طے کر رکھا تھا۔ یہ کوٹہ جب ختم ہو جاتا تھا تو وزیراعظم اور ان کی بیگم اُن کے بچوں اور اُن کے مہمانوں کو بھی پھیکی چائے پینا پڑتی تھی۔
پچاس کی دہائی میں ایک بیوروکریٹس نے بیگم رعنا لیاقت علی خان سے پوچھا انسان ہمیشہ اپنے بیوی اور بچوں کے لیے کچھ نا کچھ ضرور جمع کرتا ہے، خان صاحب نے کیوں نہ کیا تھا۔ 
 
بیگم صاحبہ نے جواب دیا یہ سوال میں نے بھی ایک مرتبہ خان صاحب سے پوچھا تھا، لیکن خان صاحب نے جواب دیا تھا میں ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کبھی ایک لباس دوسری بار نہیں پہنا تھا۔

میرے خاندان نے مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی میں خانساماں، خادم اور ڈرائیور دے رکھا تھا۔ اور ہم لوگ کھانا کھاتے یا نہ کھاتے مگر ہمارے گھر میں پچاس سے سو لوگوں تک کا کھانا روز پکتا تھا-

لیکن جب میں پاکستان کا وزیراعظم بنا، تو میں نے اپنے آپ سے کہا لیاقت علی خان اب تمھیں نوابی یا وزارت عظمیٰ میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو گا، اور میں نے اپنے لیے وزارت عظمی منتخب کر لی۔ 
 
بیگم صاحبہ کا کہنا تھا کہ خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں جب بھی اپنے لیے نیا کپڑا خریدنے لگتا ہوں تو میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کیا پاکستان کی ساری عوام کے پاس کپڑے ہیں ؟
میں جب اپنا مکان بنانے کا سوچتا ہوں تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کیا پاکستان کے سارے لوگ اپنے مکانوں میں رہ رہے ہیں ؟
اور جب میں اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ رقم جمع کرنے کے لیے سوچتا ہوں، تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کیا پاکستان کے تمام لوگوں کے بیوی بچوں کے پاس مناسب رقم موجود ہے؟ 

مجھے جب ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے تو میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ لیاقت علی خان ایک غریب ملک کے وزیراعظم کو نیا لباس، لمبا چوڑا دسترخوان اور ذاتی مکان زیب نہیں دیتا۔
13 فروری 1935 میں پیدا ہونے والی، شیلا آئرین پینٹ، جناب لیاقت علی خان کی اہلیہ ، الومورا سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ برٹش انڈین آرمی کے میجر جنرل ہیکٹر پینٹ کی بیٹی تھیں - جو کامونکی برہمن خاندان کا تھا اور 1887 میں عیسائیت میں تبدیل ہوا تھا۔ 
شیلا آئرین پینٹ نے لکھنؤ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کلکتہ کے گوکھلے میموریل اسکول میں بطور ٹیچر کی حیثیت سے کیا۔ ماسٹر ڈگری کے بعد وہ 1931 میں دہلی کے اندرا پرشتہ کالج میں معاشیات کے پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوگئیں۔
 یونیورسٹی میں طالبات کی ایک تقریب کے لئے وہ چندہ اکٹھا کرنے ، لیاقت علی خان کے پاس گئیں جہاں دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا ۔
 1931 میں محترمہ آئرین پینٹ نے لیاقت علی خان سے شادی کی اور اپنا نام شیلا آئرین پینٹ سے بدل کر بیگم رعنا لیاقت علی خان رکھ دیا۔
 جب وہ ہالینڈ میں ( 1954 تا 1961 ) پاکستان کی سفیر تھیں تو ، ڈچ ملکہ بیگم صاحبہ کی ذاتی دوست ہوگئیں ، وہ دونوں شطرنج کھیلتے تھے۔ ایک دن ملکہ نے شرط لگائی کہ اگر وہ بیگم صاحبہ سے شطرنج میں ہار گئیں تو وہ اپنا ایک محل اُنہیں تحفہ میں دیں گی ۔ بیگم صاحبہ کے جیتنے پر اُس محل کو بیگم راعنا کے نام پر منتقل کردیا گیا۔ حیرت انگیز حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب وہ سفارت چھوڑ کر پاکستان آئیں تو اُنہوں نے وہ محل، ہالینڈ میں پاکستان کے سفارتخانے کو عطیہ کیا۔ 
شوہر اور بیوی ۔ کیا بلند دماغ اور کردار والے عظیم لوگ تھے ۔
 
ھیگ میں اب یہ سفیرپاکستان کی رھائش گاہ ہے ۔جو شاہی محلّات کے مرکزی چوک Plein 1813 پر واقع ہے -
دونوں تصاویر پر کلک کرنے سے آپ ، گوگل میپ پر اُس جدی پہنچ جائیں گے -
 
٭٭٭٭٭٭٭



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔