مکمل نہیں ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لڑکا یا لڑکی کی پیدائش کاذمہ دار مرد ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لڑکا یا لڑکی کی پیدائش کاذمہ دار مرد ہوتا ہے۔
بچے کی جنس کا
انحصارمرد کے سپرم پر ہوتاہے ،عورت کے بیضے پر نہیں۔ مرد کے ایک جرثومے کے اندر 23 کروموسومز ہوتے ہیں۔
اسی طرح عورت کے
ایک بیضے کے اندر بھی 23 کروموسومز ہوتے ہیں۔جب جرثومے اور بیضے کا ملاپ ہوتاہے تو
یہ سب جرثومے جوڑوں کی شکل میں مل جاتے ہیں۔ اس طرح کل 23جوڑے بن جاتے ہیں’یعنی کل
کروموسومز کی تعداد 46ہوتی ہے۔ان میں سے 22جوڑے غیر جنسی ہوتے ہیں اوران کو آٹوسوم(Autosome) کہا جاتا ہے۔ جبکہ
23 واں جوڑا جنسی جوڑا ہوتاہے۔ اور یہی جوڑا جنین کی جنس کا تعین کرتاہے کہ وہ
لڑکا ہو گا یالڑکی۔
مرد کے جرثومے کے اند ر دو اقسام کے کروموسومز تشکیل پاتے
ہیں۔جن کو ایکس ‘X‘ یا وائی ‘Y‘کہا جاتاہے۔ مگر عورت کے بیضے کے اندر تمام کروموسومز’X‘نوعیت کے ہوتے ہیں۔
کروموسومزکو یہ نام اِن حروف سے مشابہت کی بنا پر دئیے گئے ہیں۔
وائی ‘Y” کروموسوم میں مذکر جینز ہوتے ہیں جبکہ ایکس “X” کروموسوم میں مونث جینز ہوتے ہیں۔
وائی ‘Y” کروموسوم میں مذکر جینز ہوتے ہیں جبکہ ایکس “X” کروموسوم میں مونث جینز ہوتے ہیں۔
انسانی بچے کی
تخلیق کی ابتدا ان کروموسومز کے آپس میں ملاپ سے شروع ہوتی ہے۔ جبکہ جنس کا تعین
23ویں جوڑے پر ہوتاہے۔
اگر 23واں جوڑا “XX” ہے تو جنم لینے والا بچہ لڑکی ہوگا اوراگر یہ جوڑا
“XY” ہے تو جنم لینے
والا بچہ لڑکا
ہو گا۔
دوسرے الفاظ
میں اگر مرد کا 23واں کروموسوم “X” ہے تو جیسے یہ عورت کے 23ویں کروموسوم “X” سے ملے گا تو پیدا ہونے
والا بچہ لڑکی ہوگی۔
اور اگر مرد کا یہ کروموسوم “Y“ہے تو عورت کے
“X“سے جب یہ ملاپ
کرے گاتو پیدا ہونے والا بچہ لڑکاہوگا۔یہ تما م معلومات حال ہی میں جدید طبی تحقیق
سے ہی حاصل ہوئی ہیں، اس سے پہلے کسی کو کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ ( 1)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:وَاَنَّہُ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی مِنْ نُّطْفَةٍ اِذَا تُمْنٰی
” اوریہ کہ اسی
نے نر اورمادہ کا جوڑا پیداکیا ایک بوندسے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے”( 2)
نطفہ انسان کے اعضاے تناسل سے نکلنے والے منی کے پانی کو کہتے ہیں اور تمنی کا مطلب ہے جب وہ ٹپکا ئی جاتی ہے۔ چنانچہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے یہی بتا یا ہے کہ بچے کی جنس کاانحصار مرد کی منی پر ہے اور یہ جد ید سائنس نے ہمیں حال ہی میں بتایا ہے۔ سورة القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے:
اَلَمْ یَکُ نُطْفَہً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی ۔ ثُمَّ کَانَ عَلَقَہً فَخَلَقَ فَسَوّٰی۔ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ
نطفہ انسان کے اعضاے تناسل سے نکلنے والے منی کے پانی کو کہتے ہیں اور تمنی کا مطلب ہے جب وہ ٹپکا ئی جاتی ہے۔ چنانچہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے یہی بتا یا ہے کہ بچے کی جنس کاانحصار مرد کی منی پر ہے اور یہ جد ید سائنس نے ہمیں حال ہی میں بتایا ہے۔ سورة القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے:
اَلَمْ یَکُ نُطْفَہً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی ۔ ثُمَّ کَانَ عَلَقَہً فَخَلَقَ فَسَوّٰی۔ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ
”کیا وہ منی کی
ایک بوند نہ تھا جو (رحم مادرمیں)ٹپکائی گئی تھی پھر وہ لوتھڑا ہو گیا پھراللہ نے
اس کا جسم بنایااوراعضا درست کیے’ پھراس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنا دیں ” (3)
اس آیت میں بھی
اللہ تعالیٰ یہی ارشاد فرمارہا ہے کہ انسان کی منی کا تھوڑا سا حصہ یا مقدار یا
قطرہ جو عورت کے رحم کے اندر ٹپکایا جاتاہے ،وہی بچے کی جنس کا ذمہ دار ہے۔ جبکہ ہمارے
ہاں بدقسمتی سے عورت کے ہا ں اگر لڑکی پید اہوجائے تو اس کے سسرال والے عورت کو ہی
اس کا ذ مہ دار گردانتے ہیں اور اسے برا بھلا کہتے ہیں۔حالانکہ قرآن اور سائنس نے
ہمیں بتا یا ہے کہ بچے کی جنس کا ذمہ دار مرد ہے عورت نہیں۔ جب کہ اولا د کے متعلق
اسلامی تصوریہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی ہے کہ وہ جسے چاہے لڑکے دے اورجسے
چاہے لڑکیاں دے اور جسے چاہے کچھ نہ دے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ درج ذیل آیت میں اس
بات کو اس طرح بیان فرماتاہے:
لِلّٰہِ مُلْکُ
السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یَخْلُقُ مَایَشَآءُ ط یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِناَثًا
وَّیَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَ ۔ اَوْیُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا
وَّاِنَاثًاج وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًا ط اِنّہُ عَلِیْم قَدِیْر
” آسمانوں
اورزمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔وہ جوچاہے پیداکرتاہے جسے چاہے لڑکیاں
عطاکرتاہے اور جسے چاہے لڑکے’ یا لڑکے اور لڑکیاں ملا کردیتا ہے اور جسے چاہے
بانجھ بنا دیتاہے۔یقینا وہ سب کچھ جاننے والا قدرت والا ہے”( 4)
جبکہ سائنسی زبان میں یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی ہے کہ وہ مرد کی منی میں ”x” نوعیت والے جرثومے پیداکرتاہے یا ”y” نوعیت والے۔ یا دونوں میں سے کوئی بھی پیدا نہ کرے کہ جس سے عورت کابیضہ بارور ہوسکے۔اوریہ انتظام اللہ تعالیٰ نے مرد کی منی کے اندر ہی رکھاہے، عورت کے انڈے یا بیضے کے اندرنہیں۔چنانچہ اس مسئلہ میں بھی اہل بصیرت پر عیاںہو گیا ہو گا کہ قرآن اورجدید سائنس میں کس قدر یگانگت پائی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تعریف اُس خدا کی ۔ تخلیقِ انسان
کُتبِ اساطیر
جبکہ سائنسی زبان میں یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی ہے کہ وہ مرد کی منی میں ”x” نوعیت والے جرثومے پیداکرتاہے یا ”y” نوعیت والے۔ یا دونوں میں سے کوئی بھی پیدا نہ کرے کہ جس سے عورت کابیضہ بارور ہوسکے۔اوریہ انتظام اللہ تعالیٰ نے مرد کی منی کے اندر ہی رکھاہے، عورت کے انڈے یا بیضے کے اندرنہیں۔چنانچہ اس مسئلہ میں بھی اہل بصیرت پر عیاںہو گیا ہو گا کہ قرآن اورجدید سائنس میں کس قدر یگانگت پائی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تعریف اُس خدا کی ۔ تخلیقِ انسان
کُتبِ اساطیر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں