اُس ملک کے ہر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر میں، ایک بوائز اور ایک گرلز کالج
ہے اور ہر تحصیل میں ایک ہائی سکول ہے۔اور ہر گاؤں میں ایک مڈل اور پرائمری سکول
ہے۔پرائیویٹ سکولوں کی تعداد بے شمار ہے۔ لیکن ساٹھ سال گذرنے کے باوجود اُس ملک
کا تعلیمی میعار صرف پندرہ فیصد ہے۔ جس میں سے پانچ فیصد اعلیٰ ذہن کے مالک، ڈالر
کمانے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔جہاں وہ ہمیشہ کے لئے بس کر اپنے خاندان والوں کے
لئے ڈالر کمانے کی مشین بن جاتے ہیں۔
کیونکہ جب وہ اپنی تعلیم
کے پہلے یا دوسرے سال کے دوران اپنے ملک واپس آتے ہیں تو پیدائش کے بعد تقریباًبیس
سال اس ملک میں گذارنے کے بعد انہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ کتنا گندہ ملک ہے۔جہاں
انہوں نے زندگی گذاری، یہاں کے لوگ کتنے غریب ہیں، یہاں کی گلیاں اور یہاں کی آب و
ہوا کتنی گندی ہے اور یہاں کے جاہل لوگ، وہ ان میں زندگی نہیں گذار سکتا۔
لیکن اِس کے باوجود جب میں مڑ کر نظر ڈالتا ہوں، تو اِس ملک میں
پیچھے رہ جانے والے، 90%فیصد لوگوں نے دیئے کی روشنی، گندے پانی، مضر صحت آب و ہوا
میں رہ کر اس ملک کو ایٹمی طاقت بنا کر اقوام عالم میں ممتاز کیا ہے۔
اِس ملک کے لوگ، معاشی ابتری کا شکار نہیں، بلکہ اُن پر چاروں طرف،
یہود فطرت افراد نے، جدت کی آڑ میں،قلمی طوائفوں اور میڈیاکے زنخوں نے ایک سوچی
سمجھی سازش کے تحت حملہ کیا ہوا ہے۔جہاں سائینسی جدت نہیں وہاں معاشی بحران نہیں،
وہاں صحت تندرستی ہے کیوں کہ وہاں، اب بھی بھینس وہی پاکیزہ دودھ دیتی ہے اور وہاں کی زمین قدرتی کھاد پر وہی قوت اور
ذائقے سے بھرپورسبزیاں اِگاتی ہے، وہاں کا پانی فرحت بخش ٹھنڈک مہیا کرتا ہے۔وہاں
کی نسیم سحر، مسموم نہیں،وہاں کے رہنے والے حشرات الارض انسان دوست ہیں کیوں کہ
وہاں کے مچھر اور مکھی اسی ماحول میں
پرورش پاتے ہیں جو خالق کائینات نے ان کے لئے تخلیق دیا۔نہ کہ خالق جدت نے ان کے
لئے زہرمیں تبدیل کر دیا اور انسانوں نے انسانوں کو چشم زدن میں صفحہ ہستی سے
مٹانے والے ایسے جرثوموں کی پرورش کی جنہوں نے ان معصوم حشرات الارض کو مہلک مخلوق
میں تبدیل کر دیا۔
تاکہ مغرب کے کارخانے آباد رہیں،دوائیاں بنانے والے، اسلحہ پھیلانے
والے اور خالص کے نام پر ناخالص اشئیائے خوردنی ملانے والے جن کے بنیادی اجزاء میں
”لحم الخنزیر“ شامل ہے۔
آئیے:خود کو کوسنے کے بجائے دوسروں کو کوسیں کہ وہ مجھے
آسائشیں مہیا نہیں کرتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں