وہ اداس تھا ، کیوں کے
سارا دن بوریت میں گذرا ، برآمدے میں صبح سے بیٹھا ، وہ آتی جاتی گاڑیوں، پیدل
چلنے والے لوگوں ، شور مچاتے بچوں اور
بازار جاتی اور واپس آتی عمر رسیدہ خواتین کو
روزمرہ کی طرح دیکھتا رہا ۔ یہ نئے سال کا پہلا دن تھا – وہ اٹھا اور
کمرے میں آیا اور اپنے مطالعے کے کمرےمیں رائٹنگ
ٹیبل پر بیٹھ گیا ۔ کیا کیا جائے ؟ اُس نے سوچا اور بے دھیانی میں اُس نے قلم اٹھایا اور ایک کاغذ پر لکھا ۔
٭- گزشتہ سال میں، میرا آپریشن ہوا اور پتا نکال دیا گیا، بڑھاپے میں ہونے والے اس آپریشن کی وجہ سے مجھے کئی ہفتے تک بستر کا ہو کر رہنا پڑا۔
٭- گزشتہ سال ، میری عمر ساٹھ سال ہوئی اور مجھے اپنی پسندیدہ اور اہم ترین ملازمت سے سبکدوش ہونا پرا۔ میں نے نشرو اشاعت کے اس ادارے میں اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال گزارے تھے۔
٭- گزشتہ سال ہی، مجھے اپنے والد صاحب کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔
٭- گزشتہ سال ہی، میرا بیٹا اپنے میڈیکل کے امتحان میں فیل ہو گیا، وجہ اس کی کار کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہو کر اُسے کئی ماہ تک پلستر کرا کر گھر میں رہنا پڑا، کار کا تباہ ہوجانا علیحدہ سے نقصان تھا۔
صفحے کے نیچے اس نے لکھا؛
آہ، کیا ہی برا سال تھا یہ
!
- - - - - - - - - -
مصنف کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا
کہ، اُس کاشوہر غمزدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا خلاؤں کو گُھور رہا تھا۔ اُس نے شوہرکی
پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے میز پر رکھے کاغذ کو پڑھا ۔ وہ واپس مڑی اور خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ کچھ دیر کے بعد واپس آئی ، اُس نے
اپنے ہاتھ میں پکڑا ایک کاغذ خاموشی سے شوہرکے لکھے کاغذ کے برابر میں رکھ دیا۔ شوہرنے
کاغذ کو دیکھا تو اس پر لکھا تھا۔
٭- آخر کار مجھے اپنے پتے کے درد سے ، پچھلے سال نجات مل گئی جس سے میں سالوں کرب میں مبتلا رہا تھا۔
٭- میں اپنی بہترین صحت مند زندگی ساتھ ،ساٹھ کا ہندسہ سلامتی کے ساتھ عبو رکر چکا ہوں۔ کئی سالوں کی ان تھک محنت اور ریاضت کے بعد میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ ہوا ،اب میں مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنے وقت کو بہتر لکھنے کیلئے استعمال کر سکوں گا۔گارڈننگ کروں گا اور صبح کے پرسکون ماحول میں ، باغ میں اپنی بیوی کے ساتھ ،چہل قدمی کروں گا ۔
٭- میری ریٹائرمنٹ سے چندہ ماہ پہلے ، میرے والد پچاسی سال کی عمر میں ، خدمتِ خلق کرتے ہوئے ، بغیر کسی پر بوجھ بنے اور کسی بڑی تکلیف اور درد کے کے بغیر ،آرام کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ قبرستان میں لوگ اُن کی انسان دوست خدمت کے گُن گا رہے تھے اور مجھ سے توقع کر رہے تھے ، کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کے نقش قدم پر چلوں۔
٭- اسی سال ، اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک نئی زندگی عطا فرما ئی اور ایسے حادثے میں جس میں فولادی کار بُری طرح تباہ ہو گئی ، لیکن میرا بیٹا معجزانہ طور پر کسی معذوری سے بچ کر زندہ و سلامت رہا ۔
یقیناً پچھلا سال ، خدا نے
رحمت بنا کر بھیجا اور وہ باقی سالوں کی طرح بخیرو خوبی گزرا۔
-
- - - - - - - -- -
وہی حواداث اور بالکل وہی احوال مگر نقطہء نظر مختلف ،
سکھ اور دکھ ، راحت او رغم
، کی قدیں ایک ہیں لیکن اُن کو محسوس کرنے کے انداز مختلف
۔
مثبت زاویے سے دیکھیں تو ہمیں جو کچھ عطا ہوا وہ بہتر نظر آنا شروع
ہو جائے گا۔
(ماخوذ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں