جب میں نے ہوش سنبھالا اس وقت تمام گھروں میں والد کو اباجی کہا جاتا تھا۔ اُس دور میں اباجی صرف بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بچوں کی ماں کے لیے بھی خوف کی علامت ہُوا کرتے تھے، ادھر ابا جی گھر پہنچتے اور اُدھر گھر کے صحن پر سناٹا چھا جاتا۔ جیسے ٹرین سٹیشن سے نکل گئی ہو ۔ بچے گھر کے کونوں کُھدروں میں دبک جاتے اور بچوں کی اماں سر پر دوپٹہ اوڑھ لیتی۔
ابا جی کے ہاتھ سے تھیلا وغیرہ پکڑ کر مقررہ جگہ پر رکھ دیا جاتا اور ابا جی چارپائی پر بیٹھ کر جُوتے اُتارتے جنہیں فوراً ایک طرف اُٹھا کر رکھا جاتا۔
پھر ابا جی کوئی بھی حُکم جاری کرتے تو فوراً اُس کی تعمیل ہوتی، پھر ابا جی کو کھانا پیش کیا جاتا اور امی جان اُنہیں قریب بیٹھ کر کھانا کھلاتیں اور سب بہن بھائی بھاگ بھاگ کر اُنہیں کبھی نمک اور کبھی چٹنی مہیا کیا کرتے تھے۔
ابا جی کے غُسل سے پہلے امی جان غُسل خانے کا معائینہ کرتیں اور وہاں ڈبہ تولیہ صابن وغیرہ ہر چیز رکھ دیتیں اور پھر ابا جی کے کپڑے استری ہوتے، ابا جی جب دفتر جاتے تو امی اُن کو دروازے تک رخصت کرنے جاتیں اور ابا جی کے روانہ ہوتے ہی گھر میں چھائی خاموشی کے بند ٹُوٹتے اور بچوں کی شرارتیں اور امی جان کی دھمکیاں شروع ہوجاتیں کے شام کو تمہارے ابا آئیں گے تو تمہاری شکایت لگاؤں گی۔
اُس دور میں ابا جی کی دہشت ہر وقت بچوں پر چھائی رہتی تھی، مُجھے اچھی طرح یاد ہے کے سکول کی پراگرس رپورٹ پر ابا جی سے دستخط کروانا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا تھا۔
پھر زمانہ بدلا تو بچے ابا جی کو ڈیڈی اور ماں جی کو ممی کہنے لگے ، ڈیڈی کہلوانے والوں کا وہ رعب اور دہشت نہیں ہوتی تھی جو ابا جی کہلوانے والوں کی ہوتی تھی، ڈیڈی وہ حضرات تھے جو عورت اور مرد کی برابری پر یقین رکھتے تھے اوران کا خیال تھا کہ بیوی اور بچوں کو ڈرا کر رکھنے کی بجائے ان سے دوستانہ تعلقات ہونے چاہیے، چنانچہ ڈیڈی حضرات حکم آخر جاری کرنے کی بجائے مشاورت پر یقین رکھتے تھے اور گھروں میں ان کا طرز عمل ابا صاحبان سے کافی بہتر ہوتا تھا جو مخاطب کی پُوری بات سُنے بغیر ہی جوتا اُتار لیا کرتے تھے۔
ڈیڈی کہلوانے والے صاحبان کو اگر کھانے میں کوئی نقص نظر آتا تو وہ انتہائی شائستگی سےاُس کی نشاندہی کرتے اور ابا صاحبان کی طرح کھانا صحن میں اُٹھا کر نہیں پھینکتے تھے، ڈیڈی کہلوانے والے بچوں کے سوالات کے جوابات انتہائی پیار و محبت سے دیتے اور بیوی کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات و مطالبات کے جواب بھی خندہ پیشانی اور دلبری سے دیتے اور گھروں میں توازن کی فضا برقرار رکھتے تھے۔
زمانہ اور اور آگے بڑھا اور ابا صاحبان کو پاپا اور والدہ کو ماما کہا جانے لگا، یہاں سے گھروں میں ایک بڑی تبدیلی آنی شروع ہُوئی اور گھر میں حکمرانی کا تاج پاپا کی بجائے ماما کے سر پر سجایا جانے لگا اور پاپا کی حثیت گھر میں ایک عام شہری جیسی ہو گئی، پاپا صاحبا ن جب دفتر سے گھر واپس آتے ہیں تو اُن کی طرف کوئی متوجہ نہ ہوتا، ماما ٹی وی دیکھتی رہتی ہیں اور بچے موبائل فون پر ایس ایم ایس کرتے رہتے ہیں ، پاپا حضرات کپڑے وغیرہ تبدیل کرکے کھانا مانگتے ہیں تو ماما کہتی ہیں ذرا صبر کریں ڈرامے میں وقفہ آتا ہے تو کھانا دے دیتی ہُوں ، اگر پاپا موصوف زیادہ بھوک لگی ہونے کی شکایت کرتے ہیں تو ماما کہتی ہیں کے دفتر سے نکلتے ہی فون کر دیا کریں میں کھانا گیٹ پر ہی رکھ دیا کروں گی۔
اس جواب کے بعد پاپا دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور ڈرامے میں وقفے کا انتظار کرتے ہیں، خُدا خُدا کر کے ڈرامے میں کمرشل بریک آتا ہےتو ماما بھاگ کر کچن میں جاتی ہیں اور کھانا لاکر شوہر کے سامنے یُوں رکھتی ہیں جیسے وہ پیش نہ کیا جارہا ہو بلکہ اُسے ڈالا جارہا ہو اور شوہر کے ہاتھ سے ٹی وی کا ریموٹ جسے شوہر نے بیوی کی غیر موجودگی میں اُٹھا لیا ہوتا ہےواپس جھپٹ لیتی ہیں اور بولتی ہیں ابھی تو بڑا بھوک بھوک کا شور مچایا ہُوا تھا اور اب خبریں سُننے کی پڑ گئی ہے چُپ کر کے کھانا کھاؤ اور اگر پاپا کھانے کے بعد ٹی وی کا ریموٹ دوبارہ مانگتے ہیں تو ماما کہتی ہیں کہ چُپ کر کے جا کر سو جائیں اور یُوں پاپا حضرات دُم دبا کر سونے چلے جاتے ہیں۔
آج کے پاپا کی حثیت اے ٹی ایم مشین سے زیادہ نہیں رہ گئی اور میں یہ سوچتا ہُوں کہ کہاں وہ کل
کے ابا جان اور کہاں آج کے پاپا، زمانہ کیا سے کیا ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭