بڑۓ مزاح نگاروں کی تحریریں ہم اور کئی جگہ پڑھ لیا کرتے ہیں۔۔
5:30 بسم اللہ سے آغاز
5:35 - خالد مہاجر زادہ
5:50 - عاطف مرزا
6:05 - ڈاکٹر عزیز فیصل
6:20 - سید سبطین رضوی
6:35 - خادم حسین مجاہد
6:50 - ڈاکٹر محمد کلیم
بیگن کے بارے میں ہم بچپن میں اتنا جانتے تھے ، کہ اِسے "بتاؤں " بھی کہا جاتا ہے ۔ بتاؤں غالباً لمبے ہوتے اور بیگن گول ۔
تو
بس بچپن سے ہی "بتاؤں و بیگن و بتنگڑ" ہمارے رقیب تھے ۔ نہ صرف ہمارے نہیں
بلکہ سب بہن بھائیوں کے بھی بلکہ اُفق کے پار بسنے والے میرے
شگفتہ گو دوستو !
آپ بھی اِس اجتماعی گروپِ رقیبانِ بینگن میں یقیناً
شامل ہوں گے، جس کا سرپرستِ اعلیٰ تو نہیں البتہ سرپرستِ شور و غوغاؤں میں
شامل ضرور رہا ۔
ایک دفعہ نصف صدی سے بھی پہلے کا ذکر ہے، بوڑھے کو اچھی طرح یاد ہے کہ دادی اور چچا ہمارے پاس لاہور آئے ۔
رات کو آٹے کے کنستر پر شراشرتیں کرتے چوہوں میں سے ایک شامت کا مارا ، چچا کے ہاتھوں اسیرِ موت ہوا ۔
وہ
اسے دم سے پکڑ کر لٹکائے ہوئے ۔ ہمیں ڈرانے لگے ۔ کبھی پنڈولم کی طرح
ھلاتے اور کبھی گھڑیال کی سوئیوں کی طرح ۔ میں اور آپا چادر میں منہ چھپائے
چینخیں مارتے ۔
کوئی دوسرا یا تیسرا دن تھا ۔ امی نے "بینگن" بنائے ۔
امی
چونکہ اجمیر کی رہنے والی یوسف زئی پٹھان تھیں لیکن مختلف ہندوستانی کھانے
پکانے میں ید طولیٰ رکھتیں تھیں ۔ لہذا مصالحے دار بینگن، بگھارے بیگن ،
بینگن کا بھرتہ ، بینگن بھرے پراٹھے اور تلے ہوئے بیگن بنا کر ابا کے دل
میں اترنے کا راستہ بناتیں ۔ بلکہ ٹنڈے ، لوکی ، کدّو ، کے خاندان کی تمام
سبزیاں وہ مٹی کی ہانڈی میں ایسے گھماتیں کہ اُن کے بلبلانے کی آواز ہمیں
صحن کے دروازے کے باہر سنائی دیتی۔ ہمیں یعنی مجھے اور آپا کو پوری آزادی
تھی کہ وہ الٹے توّے کی روٹی پر دیسی گھی چپڑ کر اُس میں حسبِ ذائقہ سے
بھرپور چینی ڈالیں اور رول پراٹھا بنا کر کھائیں ۔ جو بعد میں ہمارے بچوں
کے لئے اگلو قرار پایا ۔ کیوں کہ اُن کے مطابق پراٹھا توے پر تلا ہوتا اور
یہ سادہ روٹی خیر ۔
اُس دن میں اور آپا رول پراٹھا کھا رہے تھے ، کہ چچا نے ، سالن میں لتھڑے کالے رنگ کے بتاؤں کو اُٹھایا اور منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ،
"بھابی ! آج تو کھانے کا مزہ آگیا " ۔
" تتا، تتا ، توہا توہا '' چھوٹا بھائی چلایا ۔
میں
نے نظریں اٹھا کر دیکھا ، اور رات کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ۔
بینگن، چوہے کی طرح جھولتا ہوا ، چچا کے منہ میں غائب ہو رہا تھا ۔
اُف
، یہ منظر ذہن پر نقش ہو گیا ۔جونہی گھر میں بگھارے بینگن پکتے ، میں
کھانا کھانے سے انکار کر دیتا ۔ ہاں البتہ بینگن کا بھرتہ چکھ لیا کرتا ۔
اللہ
تعالیٰ جنت میں اونچا مقام عطا فرمائے ۔ والد کا ایک ہی شوق تھا ، گھر کے
سامنے خالی جگہ پر سبزیوں کا کھیت لگانا ۔ فوج میں گھروں کے پیچھے کافی
جگہ ہوتی تھی ، یہ 1957 کا دور تھا ۔ کنال سے لے کر چار کنال تک آپ کاشت کر
سکتے تھے ۔ ورکنگ مل جاتی ، پانی بے تحاشا ، کھاد ڈیری فارم سے مل جاتی ۔
یوں کچن فارمنگ بوڑھے کی گھٹی میں پڑ گئی جہاں خالی زمین گھر کے ساتھ دیکھی
وہیں ۔ باغیچہ بنا دیا ۔
پانچ دس گھروں میں سبزیاں بھیجنا روزانہ جانا معمول ہوتا ، اور بچے ہم سے جھگڑتے ، لیکن ہم خود مظلومین میں شامل تھے ۔
نواب
شاہ میں ہم ، ماموں کے گھر میں 1960" بیگن" سے متعارف ہوئے ، وہاں بتاؤں ،
کو کوئی نہیں پہچانتا تھا ۔ بس لمبے بینگن اور گول بینگ ۔ پتلے بینگن اور
موٹے بینگن ، میرپورخاص اور حیدر آباد میں بھی بیگنوں کی حکومت تھی ۔ ہاں
البتہ بہاولپور میں بتاؤں اور بیگن دونوں چلتے تھے ۔
آج کل ہم دونوں
میاں اور بیوی ، وزن کم کرنے کے لئے ، روزانہ واک پر نکلتے ہیں - لمبا چکر
کاٹ کر مارکیٹ پیدل جاتے ہیں ۔ کچھ چیزیں خرید لیتے ہیں ۔
بیگم
سبزی کی دکان میں گئی کہ فرج میں سبزیاں ختم ہو گئی ہیں وہ خرید لیتے ہیں ۔
سبزی کی دکان موسمِ سرما کی سبزیوں سے بھری ہوئی تھی ۔
بیگم نے پوچھا ، " کیا سبزی لی جائے؟"
ہم نے کہا ، " آلو، اروی ، گوبھی اور پالک لے لو " ،
بیگم نے اروی کو آلو کی قبیل کا بتاتے ہوئے ، آلو کو ترجیح دی ۔ پالک بھی لی ۔
اُن کی شدت سے خواہش تھی کہ کدو یا گھیا توری لی جائے ۔ اِس سے پہلے ہمیں غَش آجاتا، ہماری نظریں ، بیگن پر پڑی ۔ ہم نے کہا
"
جس طرح اروی اور آلو زمین کے نیچے اُگنے کی وجہ سے ایک قبیلہ بنتا ہے اِس
طرح ، زمین کے اوپر اُگنے کی وجہ سے ، کدّو اور گھیاتوری کا بڑا بھائی بیگن
اہمیت رکھتا ہے جب بگھارا جائے"۔
تو قارئین ، بیگن کے ڈھیر میں سے اُنہوں نے فقط چار بیگن چنے ، متناسبُ الاعضا و رنگت اور سر پر سبز رنگ کا تاج ۔
ہم نے کہا،
"بیگم بزگوں نے کہا ہے کہ بلا شبہ ، شہنشاہ کی موجودگی میں ۔ چوبداروں اور دربانوں کو دسترخوان کی زینت بنانا گناہ کبیرہ ہے ۔ "
اُنہوں نے گھیا توری اُٹھاتے ہوئے کہا،
" اکثر بیویاں چونکہ خاندانِ غلاماں سے تعلق رکھتی ہیں ، لہذا انہیں چوبداروں سے بھی ہمدردی ہوتی ہے "
تو
یوں ہمارے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ۔ جس کے مطابق ، اگر ہمارا دل چاہے
تو ہم ، گھیا توری پر بھی مہربان ہوسکتے ہیں ، ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔
ہمیں اتوار کے پکے ہوئے ، بیسن کے قتلے کھانے پڑیں گے ۔ المعروف کھنڈویوں کا رشتہءِ کبیر و لذیذ ۔
کبھی کھائے ہیں آپ نے فرج میں رکھے ہوئے ، تین دن پرانے بیسن کے قتلے ؟
نہیں نا !
یہ بوڑھا باسی کڑی کی طرح بیسن کے پرانے قتلوں کا بھی شوقین ہے ۔
اللہ آپ سب کو اپنی امان میں رکھے مکمل جزائے خیر کے ساتھ ، اگلے مناثرے تک ، شکریہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں