Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 24 مئی، 2025

پاکستان میں خاموش ماہرین کا سائنسی انقلاب

 1998 میں پاکستان نے امریکی کروز میزائل کو صحیح سلامت زمین پر اُتارا تھا، یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک خاموش انقلاب تھا۔ ایک ایسا واقعہ کہ جس نے امریکی انٹیلیجنس کو بھی حیران کر کے رکھ دیا۔ اُس وقت امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے درجنوں "ٹوماہاک کروز میزائل" فائر کیے، جن میں سے چند پاکستان کی فضائی حدود سے گزرے۔ 

پاکستانی ایئر ڈیفنس سسٹم نے فوری ردعمل دیا اور ایک میزائل کو بغیر کسی تباہی کے زمین پر اُتار لیا۔ یہ میزائل اپنی مکمل ساخت میں تھا، جس نے پاکستان کو پہلی بار دنیا کی جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کے قریب لا کھڑا کیا۔ ماہرین نے اس میزائل کو تفصیل سے سمجھا، اس کی ساخت، نیویگیشن سسٹم، وار ہیڈ اور ایندھن کی اقسام کا مطالعہ کیا، اور یہی بنیاد بنی پاکستان کے اپنے "بابر کروز میزائل" کی۔

 آج اگر پاکستان دنیا کے چند بہترین کروز میزائل بنانے والے ممالک میں شامل ہے، تو اس کی بنیاد اسی لمحے میں رکھی گئی تھی ۔
دوسری بار جب امریکہ نے پاکستان کے سارے ریڈار سسٹم کو جام کرکے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا جسکا دوران آپریشن پاکستان کو پتہ بھی نہیں چل سکا اور آپریشن کے بعد امریکہ نے پاکستان کو اس کی مکمل تفصیلات سے آگاہ کیا۔

لیکن دوران آپریشن قدرت ایک بار پھر پاکستان پر مہربان ہوئی امریکہ کا ایک جدید ترین ہیلی کاپٹر دیوار سے ٹکرا کر کریش ہوگیا اور امریکی فوجی اسے بم سے اڑا کر چلے گئے لیکن پاکستان کے سائینس دان اس تباہ شدہ ہیلی کاپٹرکے ملبے سے اس جدید ٹیکنالوجی کی کھوج لگانےمیں کامیاب گئے اور ملنے والے کچھ شواہد نے پاکستان اور چائینہ کو ملکر جدید ترین ریڈار جامع کرنے کی صلاحیت بنانے کے قابل بنا دیا جسکی بدولت پاکستان نے آج دنیا کی سب سے جدید ٹیکنالوجی کی لڑائی میں ایسی عظیم فتح حاصل کی کہ دنیا کے ہوش اڑ گئے۔

پاکستان پر حملہ کرنے والے انڈیا نے دنیا کے 900 سو کے قریب جدید ترین اسرائیلی ساختہ ڈروان سے پاکستان پر یلغار کردی جو پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہیک کر لئے گئے اور انڈین فوج کے کنٹرول سے نکل گئے اور آسمان میں کٹی پتنگ کی طرح آزاد اڑنے لگے جس کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے اور 6 گھنٹے کی بیٹری ختم ہوتے ہی زندہ سلامت پاکستان کی زمین پر جگہ جگہ گرنے لگے بعض ڈروان اڑتے اڑتے افغانستان اور ایران بھی پہنچ گئے تھے۔

 انڈیا کا مقصد تھا پاکستان ان ڈروان کو گرانے کے لئے میزائل استعمال کرے گا جس سے پاکستان کے میزائل سسٹم کہاں کہاں موجود ہے اسکا پتہ چل جائیگا لیکن پاکستان نے اس جدید ٹینکنالوجی کی بدولت ان کے اس حربے کو بھی ناکام کیا تمام ڈروان کو بھی بحفاظت اتار لیا گیا اور جواب میں اپنے ڈروان انڈیا پر چھوڑ دئیے انڈیا نے میزائلوں کی بارش کرکے وہ گرائے جس سے پاکستان کو اسکے تمام میزائل سسٹم کے اڈوں کا پتہ چل گیا جسکو بعد میں پاکستان نے میزائل حملہ اور طیاروں کے زریعے بمباری کرکے تباہ کردیا اب جب کہ اسرائیلی ساختہ ہارپون  جدید ڈرونز    پاکستانی حدود میں اتارے گئے ہیں۔

 تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ ان شاء اللہ، ان سے حاصل ہونے والا تکنیکی علم ایک اور دفاعی سنگ میل ثابت ہو گا۔

٭٭٭٭٭٭٭




بدھ، 16 اپریل، 2025

لوٹو ، لوٹو دنیا کو لوٹو ۔امریکی قزاق


٭امریکی تاریخ کی سب سے بڑی مالی چالاکی کل کے دن دن دہاڑے ہوئی جیسے کوئی عام بازار ہو سب کچھ میڈیا اور لوگوں کے سامنے اور کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود ملک کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ 
امریکہ جیسا ملک کیسے ایک منڈی بن گیا۔ بازار ہل گئے۔امریکی اسٹاک مارکیٹ سے قریب دس کھرب ڈالر اُڑ گئے ۔
 چین کے ساتھ تجارتی جنگ چلی ۔ٹیکس بڑھتے بڑھتے چینی مال پر 125 فیصد تک پہنچ گئےلوگوں نے خوف سے اپنے حصص بیچنے شروع کیے ۔
سٹاک  مارکیٹ  کا حال ایسا ہوا جیسے کوئی پرانی مالیاتی تباہی لوٹ آئی ہو! جب سب کچھ نیچے گر چکا تھا ۔ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ایپ پر لوگوں کو مشورہ دیا خرید ، خرید لو ! یہ موقع نہیں ملے گا -
 نو اپریل کی صبح ۔ ساڑھے نو بجے - ٹرمپ نے ٹویٹ کیا : "یہ اچھا وقت ہے DJT خریدنے کے لیے" یہ ٹرمپ کی اپنی کمپنی ہے یعنی وہ اپنی کمپنی کے شیئرز خریدنے کا اشارہ دے رہا تھا صرف چار گھنٹے بعد - ٹرمپ نے اچانک اعلان کیا کہ جن 90 ممالک پر ٹیکس لگایا تھا ۔ وہ اب 90 دن کے لیے مؤخر کیے جا رہے ہیں ۔
 سٹاک مارکیٹ میں بزنس  کرنے والے ، چڑیوں کی طرح ہوتے ہیں ذرا سا کھٹکا ہوا ، پھر سے اُڑ گئے ۔ خطرہ ٹلا، دانے پھینکے گئے تو ایک ایک کرکے آنا شروع ہوگئے اورمیدان بھرنے لگا ۔
 کرپٹو کرنسی  کی کمپنی ٹرمپ 18 جنوری  کو آسمانی بلندیوں کو چھو رہی تھی ۔ 100 ڈالر میں ٹرمپ کوئن خریدنے والوں کا سرمایہ 120 ڈالر تک پہنچ چکا تھا ٹرمپ کوائین رینک میں 129 سے 47 پر آگیا ۔ ٹرمپ نے حلف اٹھایا ۔کوائین 129 ڈالر سے 85 ڈالر پر آگئی اور اب 8 ڈالر پر رینگ 53 ہے۔ ٹرمپ نے حلف سے پہلے اربوں ڈالر کما لئے سٹاک مارکیٹ میں، ٹرمپ کی کمپنی DJT کے شیئرز ایک دن میں 22 فیصد بڑھ گئے ٹرمپ کی ذاتی دولت میں صرف ایک گھنٹے میں چار سو پندرہ ملین ڈالر کا اضافہ ہوا یہ سب ایک منصوبہ تھا کچھ لوگوں نے بڑی مقدار میں گرتے ہوئے سودے خریدے ۔ کیوں کہ اِن کو ٹپ مل چکی تھی خریدوخریدو جلدی خریدو ۔ 
ٹرمپ کے ارب پتی تاجروں اور سیاستدانوں نے جھولیاں پھیلا دیں اور شیئر اُن کی جھولیوں میں گرنا شروع ہو گئے۔ اور نقصان کس کا ہوا؟
 عام خریداروں کا ، جنہوں نے ٹرمپ پر بھروسا کیا، اس امید میں کہ وہ صدر بنتے ہیں امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائے گا اسٹاک مارکیٹ میں "پمپ اینڈ ڈمپ" کی پالیسی ، یعنی پہلے قیمت گراؤ۔ ستا خریدو-پھر اچانک قیمتیں چڑھاؤ -اور خوب کمائی کرو جبکہ باقی سب کو ڈوبا چھوڑ دو- کھربوں ڈالر، عام لوگوں سے نکل کر امیروں کی جیب میں چلے جاتے ہیں -
 یہ سب ایک حکمت عملی تھی ۔ کہ جن لوگوں نے ڈونیشن دے کر ٹرومپ کے ووٹ بنائے ۔ ٹرمپ اُنہیں ضرور فائدہ دے گا ۔ دنیا سمجھرہی تھی کہ ٹرمپ صرف دباؤ ڈال کرامریکہ کی معاشی پالیسیوں کو بہتر بنا رہا تھا تاکہ دوسرے ممالک سے بہتر معاہدے ہوں ۔ لیکن ڈالر سمیٹنے کا فیصلہ کئی دن پہلے ہی ہو چکا تھا۔ بس اعلان کا وقت چنا گیا-
 سب سے بڑا دھماکہ وہ ویڈیو تھی جو وائٹ ہاؤس کے اندر سے لیک ہوئی جس میں ٹرمپ ہنستے ہوئے دو لوگوں کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے-
  یہ دو ارب ڈالر کما گیا - اور یہ نو سو ملین - برا تو نہیں نا؟  ان میں سے ایک تھا چارلس شواب ارب پتی سرمایہ کاراور ٹرمپ کا قریبی اس کے بعد کانگریس میں ہنگامہ ۔ سینیٹرز نے ٹرمپ کو بدعنوان اور دھوکے باز کہا - اور مطالبہ کیا کہ اس پر کارروائی ہو لیکن وائٹ ہاؤس نے کہا ، 
 صدر کو حق ہے کہ وہ مارکیٹ کو تسلی دے
  اور اب وال اسٹریٹ پر کمپنیاںٹرمپ کی ٹویٹس کو پڑھ کراپنی الگوردمز بنا رہی ہیں یعنی صدر خود اب مارکیٹ کا اشارہ بن چکا ہے۔
 اب سوچنے کی بات یہ ہےکیا ایک ملک اتنی آسانی سےکسی صدر کو اجازت دے سکتا ہےکہ وہ بازار کو ہلا دے اور خود ارب پتی بن جائے؟ 
یہ صرف اسکینڈل نہیںیہ ایک ایسا زلزلہ ہےجس نے عوام کی جمع پونجی چھین لیاور دولت کا رخ امیروں کی طرف موڑ دیا ایک انگلی کی حرکت سےاور وائٹ ہاؤس کے ایک اشارے سے ۔
 لوٹو ، لوٹو دنیا کو لوٹو 
٭٭٭٭٭٭٭

جمعہ، 11 اپریل، 2025

ہیلن کیلر

 ٭مارچ 1924 میں، ہیلن کیلر نے ایک خط لکھا جس نے آج بھی دنیا میں تہلکہ مچا یا ہوا ہے۔ بچپن سے ہی بہری اور نابینا، کیلر نے اپنی زندگی اس بات کی  وضاحت میں گزاری تھی کہ کیا ممکن تھا۔

 لیکن ایک شام، اپنے خاندان کے ساتھ ایک ریڈیو کے ارد گرد جمع ہوئی، وہ بالکل غیر متوقع طور  پر نیویارک کی میوزیکل کمپنی  سمفنی ایک تجربہ کرنے والی تھی۔اور بیتھووین کی نویں سمفنی   لائیو پرفارم کر رہی تھی۔   

کمرے میں موجود کسی نے مشورہ دیا کہ وہ وائبریشن  محسوس کرنے کے لیے اپنا ہاتھ ریڈیو ریسیور پر رکھے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے وجہ سے انکار کیا اور خوبصورتی کی نئی تعریف کی۔ اپنی انگلیوں کو ریسیور کے ڈایافرام پر ہلکے سے آرام کرنے کے ساتھ، کیلر نے وائبریشن سے زیادہ محسوس کیا۔ اس نے اس تجربے کو "میری روح کے خاموش ساحلوں پر مخالف  آواز کا ایک پرشور  سمندر" کا فہم بتایا۔ تھرتھراہٹ اور تال کے نمونوں کے ذریعے، اس نے کارنیٹ کی نبض، ڈھول کیدھم دھم اور وایلن کے ریشمی بہاؤ کو محسوس کیا۔ جب یہ کورس بیتھوون کے فاتح "اوڈ ٹو جوائے" میں بڑھ گیا، تو اس نے کہا کہ یہ سننے کے مترادف ہے جیسے "ایک ہم آہنگ سیلاب میں فرشتوں کی آوازیں آتی ہیں۔" وہ سن نہیں رہی تھی- جس طرح سے ہم اسے اپنے کانوں  سے  سمجھتے ہیں۔   اس نے موسیقی کو صرف اپنی انگلیوں پر نہیں بلکہ اپنے دل میں محسوس کیا۔ اس نے خوشی، اداسی، خاموشی، اور طاقت کو پہچان لیا   ۔  اس کے باجود کہ ہیلن کے کانوں  کے کانوں تک ایک بھی نوٹ نہیں پہنچا۔ اور اپنے خط کے سب سے پُرجوش اقتباسات میں سے ایک میں، ہیلن کو  یہ یاد آیا کہ بیتھوون بھی بہرا تھا۔

 اس نے کہا، "میں اس کی بجھتی ہوئی روح کی طاقت پر حیران ہوں جس کے ذریعے اس نے اپنے درد سے دوسروں کے لیے ایسی خوشی پیدا کی۔ ایک صدی بعد، وہی خوشی زندہ رہتی ہے — کیونکہ اس نے ثابت کیا کہ فن کی کوئی حد نہیں ہے، اور انسانی روح خوبصورتی کو ان طریقوں سے محسوس کر سکتی ہے جس کی الفاظ کبھی بھی پوری طرح وضاحت نہیں کر سکتے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 



پیر، 10 فروری، 2025

گوادر اور قاری حنیف مکرانی بلوچ

  دوسال پہلے جب میں گوادر گیا تو وٹس ایپ فرینڈ قاری حنیف مکرانی بلوچ سے ملا قات ۔ کوسٹ گارڈ میں میں ہوئی ۔ وہاں قاری صاحب کی یوری جنم کنڈلی پوچھی کیوں کہ بلوچوں کی پسماندگی اور کوسٹ گارڈ کی اپنے روزگار کے لئے ، ایرانی پیٹرول کا کاروبار کرنے والے بلوچوں سے زیادتی ۔ کا وہ بلوچستان ڈویژن تربت کا ملازم ہونے کے باوجود کے لئے وٹس ایپ پر آواز بلند کرتا تھا ۔
 میں اُسے گوادر کا نیا ائرپورٹ دکھانے اور وہاں بلوچی مزدوروں کی بہتر ہوتی حالت دکھانے کے لئے لے گیا ۔ وہاں بلوچی مزدوروں کے ساتھ سرائیکی بیلٹ کے پنجابی بلوچ بھی لیبر کا کام کر رہے تھے ۔ جس پر اُسے شکوہ تھا کہ یہ پنجابی یہاں کیوں ہیں؟
میں نے کہا یہی سوال تو سندھ اور پنجاب والے بھی کرتے ہیں کہ کراچی اور لاہور میں بلوچوں کا کیا کام ؟
 لیکن اُس کے ذہن میں تعصب کا ایک ہی مکرانی بلوچ کیڑا تھا ۔ جسے نکالنا بہت مشکل تھا ۔
 قاری حنیف گرمیوں کی چھٹیوں میں اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں ضرور آتا ۔ میں نے اُسے قائل کیا کہ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ کر لے ۔ 
بولا نہیں سر میں نے وفاق المدارس سے ماسٹر کی ڈگری لی ہوئی ہے ۔ میں قاری القرآن ہوں مجھے بی ایڈ کرنے کی کیا  ضرورت ؟
مجھے کہا سر میری کوئٹہ پوسٹنگ کروادیں،   میں وہاں جانا چاہتا ہوں، میں نے کہا کوشش کروں گا پر وعدہ نہیں کرتا۔ 
خیر میں ہفتہ رہ کر واپس آگیا ۔ کوئٹہ میں میں نے بات کی تو اُس نے بتایا ۔ میجر صاحب، وقاق المدارس کے بہت فارغ التحصیل یہاں مسجدوں کی حد تک ہیں، چند قاری القرآن کی سیٹوں پر لوکل گورنمنٹ کے پرائمری سکولوں میں ملازم ہیں۔لہذابہت مشکل ہے اُسے بتائیں کہ عصری تعلیم ، حاصل کرے تو شائد وہ عام ٹیچر کی پوسٹ پر ٹرانسفر ہو جائے ،
میں نے قاری حنیف کو بتایا اور کہا کہ وہ بی ایڈ کرنے کی کوشش کرے  تو پھر آگے میں بتاؤں گا کہ کوئٹہ آنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے ۔
قاری حنیف نے پچھلے سال بی ایڈ کے پہلے سمسٹر میں داخلہ لیا ، فیس کے لئے میری مدد مانگی  تو میں نے کہا ۔ وہ پیسے جمع کرے میں مدد کروں گا لیکن وہ ادھار ہوگا ۔ وہ مجھے واپس کرنا پڑیں گے ۔اُن نے بتایا کہ میں نے فیس جمع کر لی ہے بس توھڑے کم ہیں وہ  مجھے بھجوادیں یا میں آپ کو بھجوا دیتا ہوں آپ بھجوادیں ۔ میں نے کہا آپ فیس ادھار لے کر بھجواؤ مجھے رسید بھیجو تو میں رسید دیکھتے ہی آپ کو آپ کے بنک اکاؤنٹ میں بھجوا دوں گا ۔ اُس نے ایسا ہی کیا تو میں نے فوراً رقم بھجوا دی تاکہ وہ قرض کے بوجھ سے آزاد ہوجائے ، وہ ہر ماہ مجھے اپنی  تنخواہ سے  500 روپے بھجواتا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ سیریس ہے ، دوسرے سمسٹرمیں مجھ سے مدد مانگی میں نے بغیر واپسی کی شرط کے اُسے بھیج دی ۔ اُس نے مزید بچوں کو قائل کیا کہ وہ قائد اعظم یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان دیں ۔یوں گوادر میں ہم دونوں نے مل کر وٹس ایپ پر بچوں کی تعلیم کا پروگرام خصوصاً لڑکیوں کے لئے شروع کیا ۔ جس میں پہلےاُنہیں بذریعہ یو ٹیوب پانچویں کلاس سے اردو اور حساب کی تربیت شروع کی۔

٭- حمد - یہ گل کاریاں جس قدر ہیں جہاںمیں ۔
٭-  انگلیوں پر حساب سیکھیں   ۔  

 ٭٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭٭

پیر، 30 دسمبر، 2024

پی ٹو پی (peer-to-peer)

کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آپس میں کوئی لین دین  کرتے ہیں تو وہ کمپیوٹر کی لینگوئج میں   پی ٹو پی (پییر ٹو  پییر  )کہلاتا ہے ۔یہ مکمل غیر مرکزی  (ڈی سینٹرالائزڈ)نظام ہوتا ہے ۔ جس میں ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر کے درمیان مختلف ڈیٹا شیئر کیاجاتا ہے۔ جن میں فائلیں ۔آڈیو اور وڈیو  پیغامات ۔ایپلیکیشنز ۔ کرپٹو کرنسی وغیرہ  بغیر مرکزی سرور سسٹم   بھیجی جاتی ہیں ۔

کرپٹو کرنسی کی صورت میں کسی بنک کو شامل کئے بغیر آپ کرپٹو کرنسی پی ٹو پی (پییر ٹو  پییر  ) سسٹم سے بھجوا سکتے ہیں اور منگوابھی سکتے ہیں ۔یہ نہایت قابلِ اعتماد ذریعہ ہے کرپٹو کرنسی آپ اُس کے متبادل ، یوایس ڈالر ، یورو اور فیاٹ کرنسی (مقامی کرنسی ) سے خرید سکتے ہو ۔

 "Fiat" isn't actually an abbreviation; it's a Latin word that means "let it be done" or "it shall be." In the context of currency, it refers to money that has value because a government maintains it and people have faith in its value. Examples include the US Dollar (USD), Euro (EUR), and Pakistani Rupee (PKR).   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔