Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 18 نومبر، 2025

پہلی انسانی، راکٹ پر پرواز

عثمانی تاریخ کے اوراق میں بے شمار واقعات ایسے موجود ہیں جنہیں پڑھ کر انسان ششدر رہ جاتا ہے، مگر ان میں ایک واقعہ ایسا بھی ہے جو سائنس، جرات، اختراع اور انسان کے ازلی خواب "آسمان کو چھونے" کا حسین امتزاج ہے؟
یہ واقعہ عثمانی سلطنت کے نامور سیاح اولیاء جلبی نے اپنی عظیم تصنیف "سياحت نامہ" میں بیان کیا ہے۔ اس داستان کا مرکزی کردار ہے:لغاری  حسن جلبی، وہ شخص جس نے چارسو سال پہلے 1933 میں انسان کے فضاء میں جانے کے خواب کو حقیقت کے قریب لا کھڑا کیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سلطنتِ عثمانیہ کے توپ کاپی محل(موجودہ عجائب گھر)  میں شہزادی قايا دخترِ سلطان مراد چہارم کی پیدائش کی تقریبات جاری تھیں۔ اس جشن کے دوران حسن جلبی نے ایک ایسے کارنامے کا دعویٰ کیا جو انسانی عقل سے ماورا تھا۔سرائے برونو استنبول   توپ کاپی محل کے نیچے کی عمارت  سے پروازکی ۔،

 اس نے سات ہاتھ لمبا راکٹ تیار کیا، جس میں پچاس اوقیہ(140 پونڈ) بارود بھرا گیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ وہ خود اس 7 پروں والے  راکٹ پر سوار ہونا چاہتا تھا۔ جب جشن اپنے عروج پر پہنچا تو حسن جلبی حاضرِ دربار ہوا۔ اولیاء جلبی کے مطابق وہ سلطان کے سامنے نہایت پُراعتماد انداز میں کھڑا ہوا اور ہنستے ہوئے کہا: 
 
یا مولاي! أستودعك الله، أنا ذاهب للتحدث مع عيسى عليه السلام!۔ 

 اے میرے بادشاہ! میں آپ کو الوداع کہنا چاہتا ہوں، میں عیسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرنے جا رہا ہوں! ۔ 

یہ کہہ کر اس نے راکٹ پر سوار ہو کر اپنے آپ کو آسمان کے حوالے کر دیا۔ ملازمین نے آگ جلائی، بارود نے شعلہ پکڑا اور راکٹ ایک دھماکے کے ساتھ آسمان کی طرف لپکا۔ حاضرین کی سانسیں تھم گئیں۔ سلطان مراد چہارم خود حیرت سے کھڑا رہ گیا۔

 اولیاء جلبی لکھتے ہیں کہ راکٹ اتنی بلندی تک گیا کہ نیچے کھڑے لوگ اس کے نشان کو مشکل سے دیکھ پاتے تھے۔ یہ پرواز اس دور کی سائنسی حدود سے کہیں آگے تھی۔ جب بارود ختم ہوا۔تو   راکٹ سمندر کے اوپر پہنچ چکا تھا  اور نیچے آتے وقت اُس کے 7 پر کھل گئے  اور وہ باحفاظت سمندر  میں لغاری  حسن جلبی  سمیت سمندر میں  گر گیا   اور  حسن  جلبی تیر تا ہوا  ، واپس محل میں آگیا ۔ وہ نہ گھبرایا، نہ تھکا، بلکہ نہایت محبت بھرے انداز میں ہنستے ہوئے سلطان سے کہا:۔  

 مولاي! إن عيسى عليه السلام يسلّم عليك

میرے آقا! عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کو سلام کہا ہے!۔

 سلطان اس شوخی پر مسکرا اٹھا۔ اس نے حسن جلبی کو ایک تھیلی سونے کی انعام میں دی اور اسے انکشیری فوج کے عالی مرتبے "سباہیہ" میں شامل کر لیا۔ ساتھ ہی اسے روزانہ ستر اقجہ تنخواہ مقرر کی گئی، جو اس دور میں ایک معزز ترین منصب تھا۔ صدیوں بعد، 1998 میں ناروے کے ممتاز اسکالر اور Norwegian Aviation Museum کے ڈائریکٹر موریتز رُوافک نے ایک انٹرویو میں حیرت انگیز انکشاف کیا۔ انہوں نے امریکی اخبار Weekly World News کو بتایا کہ "انسان کی خلاء کی طرف پہلی حقیقی کوشش ایک ترک شخص "حسن جلبی" نے کی تھی۔" رُوافک کے مطابق حسن جلبی کا راکٹ جدید سائنس کے معیار پر نہایت قابلِ توجہ تھا۔ وہ دو حصوں پر مشتمل تھا:۔

 ایک نچلا حصہ جس میں چھ چھوٹے راکٹ لگے تھے جو ابتدائی دھماکے کے لیے استعمال ہوئے۔ دوسرا اوپر کا حصہ جس پر حسن جلبی سوار تھا اور جو تقریباً 275 میٹر (900 فٹ) کی بلندی تک اٹھا۔

یہ بیان ثابت کرتا ہے کہ عثمانی دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کا وہ سفر جاری تھا جو آج سپیس اور ناسا تک پہنچ چکا ہے۔

 ترک مؤرخین احمد آق کوندوز اور سعید اوزتورک نے اپنی تحقیق "الدولة العثمانية المجهولة" میں اس واقعہ کا جامع ذکر کیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ یہ محض ایک قصہ نہیں بلکہ دستاویزی حقیقت ہے، ایسی حقیقت جو عثمانیوں کی سائنسی ذہانت کا روشن ثبوت ہے۔ حسن جلبی کی پرواز انسان کی اُس فطری خواہش کا مظہر ہے جس نے کبھی زمین پر قناعت نہیں کی۔ وہ خواہش جو کبھی لیونارڈو ڈاونچی کے خاکوں میں جھلکی، کبھی عباس ابن فرناس کے پروں میں اور کبھی عثمانی عہد میں حسن جلبی کے راکٹ پر سوار ہو کر آسمان کی طرف بڑھ گئی۔

استنبول میرے پروں کے نیچے،  نامی فلم 1996 میں بنائی گئی جس میں لغاری حسن جلبی اور اُس کے بھائی  ھزارفن لغاری  کی اُڑان کے بارے میں تھی۔ جس میں جدید مرکبات جیسے ویلڈنگ ، ایلو مینیئم وغیرہ کے بغیر محفوظ اُڑان کی ۔

 آج ہم سپر سانک جیٹ، سیٹلائٹس، خلائی اسٹیشن اور مریخ مشنز کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں، مگر شاید دنیا بھول چکی ہے کہ صدیوں پہلے استنبول کی گلیوں سے ایک آدمی اٹھا تھا جو خواب دیکھنے کی جرات رکھتا تھا۔ اس نے راکٹ بنایا، اس پر خود بیٹھا اور آسمان کی طرف لپک گیا، یہ اعلان کرتے ہوئے کہ "انسان کی پرواز ہمیشہ زمین کی محدود چھتوں سے آگے سوچنے کا نام ہے۔" حسن جلبي… وہ شخص جس کی جرات نے وقت، سائنس اور عقل کو حیرت زدہ کر دیا اور یہی ہے انسان کی پہلی راکٹ پرواز کی اصل کہانی۔ جس کا مسافر اور بانی ایک مسلمان  تُرک تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعہ، 26 ستمبر، 2025

کرنسی کی ابتداء

  ڈالر : ڈالر دنیا میں سب سے زیادہ معروف کرنسی ہے، امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، فجی، نیوزی لینڈ اور سنگا پور کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے ممالک میں بھی ڈالر کا استعمال ہوتا ہے، ڈالر کا قدیم نام جوشمز دالر سے لیا گیا ہے، یہ اس وادی کا نام ہے، جہاں سے چاندی نکال کر سکے بنائے جاتے تھے۔ جس کیوجہ سے سکوں کا نام بھی اسی وادی کے نام پر رکھ دیا گیا۔ بعد ازاں اس نام سے جوشمز نکال دیا گیا اور صرف دالر رہ گیا جو بعد میں ڈالر کہلانے لگا۔

 دینار : دینار لاطینی لفظ دیناریئس سے نکلا ہے، ، جو چاندی کے قدیم رومی سکے کا نام ہے اب کویت، سربیا، الجیریا، اردن و دیگر ممالک میں دینار ہی استعمال کیا جاتا ہے

 روپیہ : روپیہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چاندی یا ڈھلی ہوئی(ساختہ) چاندی کے ہیں۔

ریال : ریال لاطینی لفظ ریغالس سے اخذ کیا گیا ہے جس کا تعلق شاہ خاندان سے ہوتا ہے عرب ممالک میں سے عمان، قطر، سعودی عرب اور یمن وغیرہ میں ریال استعمال ہوتا ہے ۔ اس سے قبل ہسپانوی کرنسی کو رئیل کہا جاتا تھا۔
لیرا : اٹلی اور ترکی میں لیرا نامی کرنسی رائج ہے، یہ ایک لاطینی لفظ لبرا سے نکالا گیا ہے۔
کرونا : کرونا کو لاطینی کرونا سے نکالا گیا ہے، جس کا مطلب تاج یا کراؤن ہے، شمالی یورپ کے مختلف ممالک میں کرونا نامی کرنسی استعمال ہوتی ہے، سوئیڈن، ناروے، ڈنمارک، آئسلینڈ اور اسٹونیا یہاں تک کہ چیک جمہوریہ میں بھی۔
پاؤنڈ : پھر برطانیہ کا مشہور زمانہ پاؤنڈ ہے جو دراصل لاطینی لفظ ”پاؤنڈس“ سے نکلا ہے جو وزن کو ہی کہتے ہیں۔ برطانیہ کے علاوہ، مصر، لبنان، سوڈان اور شام میں بھی کرنسی پاؤنڈ کہلاتی ہے۔
پیسو : میکسیکو کی کرنسی پیسو ہے۔ جو ایک ہسپانوی لفظ ہے جس کا معنی بھی یہی ہیں یعنی ”وزن“۔
 
 : چینی یوان، 

جاپانی ین اور کورین وون کی ابتدا ایک چینی حرف سے ہوئی ہے، جس کا مطلب ہے ”گول“ یا ”گول سکہ“۔رویبل
ہنگری کرنسی : ہنگری کی کرنسی فورینٹ کا نام اطالوی لفظ فائیو رینو سے اخذ کیا گیا ہے۔

  فلورنس، اٹلی میں سونے کے سکے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس سکے پر ایک پھول کی مہر کھدی ہوتی تھی۔لیکن اب لیرا اور یورو استعمال ہوتے ہیں 

روس کا سکہ روبیل بھی دراصل چاندی کو وزن کرنے کا ایک پیمانہ ہے ۔
رینڈ : جنوبی افریقہ  کی کرنسی رینڈ کا نام وٹ واٹرز رینڈ پر رکھا گیا ہے، جو جوہانسبرگ کا ایک قصبہ ہے، جو سونے کےذخائر کی وجہ سے مشہور ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 25 ستمبر، 2025

23 ہزار سال پرانی انسانی تعمیر




  گیزا کے اہراموں کو الوداع - دنیا کا قدیم ترین انسانی تعمیر 23,000 سال پرانی ہے اور جس نے مصر کے اہراموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

یونان وہ جگہ ہے جہاں یہ دریافت ہوئی تھی، خاص طور پر تھیوپیٹرا نامی غار میں، جہاں سائنسدانوں نے دنیا میں انسانوں کا بنائی ہوئی  ایک  قدیم ترین تعمیر دریافت کی ۔ یہ ایک پتھر کی دیوار تھی جو 23,000 سال پہلے، اہرام مصر کے وجود سے 16000 سال پہلے بنائی گئی تھی۔
  تھیوپیٹرا غار ہے جو تھیسالی کے علاقے میں واقع ہے۔ اس جگہ نے سائنس دانوں اور ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ انسانوں کے بنائی ہوئی تعمیر کی وجہ سے حاصل کی ہے، لیکن کسی ڈھانچے کی نہیں… تاریخ میں سب سے قدیم  تعمیر ملی ہے  وہ صرف پتھروں کا باقاعدہ ڈھیر نہیں  بلکہ ایک دیوار ہے ، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیوار ایک خاص وجہ سے بنائی گئی تھی: غار کے داخلی دروازے کو جزوی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اُس وقت کے انسان برفانی دور کے دوران جمنے والی سردی سے خود کو بچانا چاہتے تھے۔
سائنسدانوں نے ایک طریقہ استعمال کیا جس کا نام آپٹکی اسٹیملیٹڈ لومینیسینس   ہے۔  اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ آخری بار کب معدنی اناج، جیسے دھول یا ریت، سورج کی روشنی کے سامنے آئے تھے۔ اس سے یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ دفن شدہ اشیاء یا سورج کی روشنی سے محفوظ رہنے والی چیزیں کتنی پرانی ہیں، اس طرح سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دیوار  تقریباً 23,000 سال پہلے بنائی گئی تھی ۔یہ غار نہ صرف اس کے اندر پائی جانے والی قدیم  دیوار  کی وجہ سے اہم ہے،
 ماہرین آثار قدیمہ نے  دریافت کیا کہ  تھیوپیٹرا 13000 سال سے زیادہ عرصے  پہلے آباد تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان وہاں اتنے لمبے عرصے تک مقیم رہے۔ 

آثار قدیمہ کے ماہرین کو غار کی زمین پر مختلف اوقات کی باقیات بھی ملی ہیں، جیسے: کیمپ فائر، پتھر کے اوزار اور بچوں کے قدموں کے نشان۔
پتھر کی دیوار کے ہزاروں سال بعد تک انسانی ساختہ کوئی دوسری تعمیر  نہیں تھی۔ اس کے بعد جو پایا گیا وہ ترکی میں واقع تھا، جو کہ 7,400 قبل مسیح میں آباد ایک بستی تھی۔ اسے منظم ہونے والے اولین شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔
اس مقام سے، یورپ میں دیگر قدین ترین  تعمیرات  پائی گئیں  جو 5,000 اور 3,000   قبل مسیح کے درمیان تعمیر کیے گئے تھے، جیسے انگلینڈ میں دنیا بھر میں مشہور پتھر کے زمانے کی تعمیرات ۔
جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس تعمیر نے اس سوچ  کو تبدیل کر دیا ہے جو آثار قدیمہ کے ماہرین نے  دیواریں تراشنے  کی پہلی کوششوں کے بارے میں سوچا تھا۔ اب، وہ جانتے ہیں کہ، ان کے یقین سے بھی پہلے، انسان ذہین، تخلیقی اور سماجی طور پر منظم تھے تاکہ اپنے ماحول کو تبدیل کر سکیں اور زندہ رہنے کے لیے پناہ گاہیں بنائیں۔ (منقول)

٭٭٭٭٭

بدھ، 10 ستمبر، 2025

دنیا سے پولیو کا خاتمہ

سنہ 1950 میں، پولیو ویکسین کے معجزے سے پہلے، بچے لوہے کے پھیپھڑوں کی بکس میں قطار در قطار میں پڑے رہتے تھے - جو اپنی بھنبھناہٹ کے ساتھ ہسپتال نما جیل میں مشینی زندگی کی ڈور کے سہارے جینے لگے۔ پولیو خوفناک رفتار کے ساتھ آبادی میں پھیل گیا تھا، جس نے سب سے زیادہ بچوں کو مارا تھا۔ ایک دن، ایک بچہ صحن میں بھاگ رہا ہو سکتا ہےاگلے دن اُن کے پھیپھڑے مزید سانس لینے کے قابل نہیں رہنے دیا ۔

لوہے کے پھیپھڑوں کے چیمبرمیں بند، صرف ان کے سر ہی نظر آتے ہیں، مشین کی سانسوں کی ہچکی اور آوازیں انہیں زندہ رکھتے ہوئے ہوا کو اِن کے پھیپڑوں کے اندر اور باہر کرتی تھیں ۔ کچھ بچوں کے لیے، یہ عارضی تھا، بحالی کے لیے ایک ہفتہ یا مہینہ ۔ دوسروں کے لیے، یہ مہینوں، یہاں تک کہ سالوں کے لیے گھر بن گیا۔

ان مشینوں میں بچوں کی تصویراُس وقت کی یاد دہانی جب ایک وائرس نہ صرف صحت بلکہ سانس لینے کا آسان ترین عمل بھی چھین سکتا تھا۔ والدین چوکس رہتے، ڈاکٹروں اور نرسوں نے بڑے پیمانے پر پمپوں کو ایڈجسٹ کیا، اور پورے وارڈز کو زندہ رہنے کے میکانکی دل کی دھڑکن کے ساتھ استوار کیا گیا۔

پولیو کی ابتدا پولیو وائرس سے ہوتی ہے، جو قدرتی طور پر صرف انسانوں میں پایا جاتا ہے اور ہزاروں سالوں سے موجود ہے، جس کی ابتدائی تصویریں قدیم آرٹ میں پائی جاتی ہیں۔ یہ وائرس فیکل اورل ٹرانسمیشن یا سانس کی بوندوں کے ذریعے پھیلتا ہے، خوراک، پانی یا سطحوں کو آلودہ کرتا ہے اور انسانوں میں بیماری کا باعث بنتا ہے۔ اگرچہ یہ وائرس قدیم ہے، یورپ اور ریاستہائے متحدہ میں بڑے پھیلاؤ 19ویں صدی کے آخر تک نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔
تاہم، 1949 میں جان اینڈرز، فریڈرک رابنز، اور تھامس ویلر نے لیبارٹری کی ترتیب میں انسانی پٹھوں اور بافتوں میں پولیو کا سبب بننے والے وائرس کو کلچر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ پولیو کے خلاف ویکسین کی راہ میں ایک اہم قدم بن گیا۔
سنہ 1950 کی دہائی میں اس بیماری پر قابو پانے کے لیے ویکسین کی تیاری شروع کی گئی ۔ 

پھر، 1955 میں، جوناس سالک کی ویکسین آ گئی۔ اس کے ساتھ لوہے کے پھیپھڑوں کے دور کا سست اختتام ہوا۔ ابھی تک پیدا ہونے والے لاکھوں بچوں کے لیے، ویکسین کا مطلب آزادی ہے بغیر خوف کے ہنسنے، دوڑنے اور سانس لینے کی صلاحیت ویکسین کی بدولت قائم ہے ۔
ویکسین کے وسیع پیمانے پر دستیاب ہونے سے پہلے دو سالوں میں، امریکہ میں پولیو کے کیسز کی اوسط تعداد 45,000 سے زیادہ تھی۔ 1962 تک، یہ تعداد کم ہو کر 910 تک پہنچ گئی تھی۔ ایک معجزاتی کارکن کے طور پر سراہا جانے والے، سالک نے کبھی بھی ویکسین کو پیٹنٹ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی دریافت سے کوئی پیسہ کمایا، اس بات کو ترجیح دی کہ اسے زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے۔

ہر سال ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن پولیو کے جراثیم کو ندی نالوں سیوریج لائن سے ڈھونڈھ کر تلف کرواتی ہے اور نومود بچوں کو، ملکی ہیلتھ آرگنائزشنوں کی مدد سے مفت ویکسین پلواتی ہے۔ 21 اگست 2026 تک پاکستان میں پولیو کے 21 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ کیسز بنیادی طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ میں رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 2024 میں 72 کیسز رجسٹر ہوئے تھے ۔


جوناس سالک نے 1955 میں پہلی کامیاب غیر فعال پولیو ویکسین (آئی پی وی) ایجاد کی، جس کے بعد البرٹ سبین کی طرف سے تیار کردہ ایک کامیاب زبانی لائیو ٹینیویٹ ویکسین جو 1961 میں تجارتی استعمال میں آئی۔

اس کے اہم کام کے باوجود، سالک کو امریکن اکیڈمی آف سائنسز کی رکنیت کے لیے واضح طور پر روکا گیا اور اسے کبھی نوبل انعام نہیں دیا گیا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے سے پہلے کے دوسرے سائنس دانوں کی شراکت کو معمولی سمجھا اور یہاں تک کہ اس نے اپنی ہی ریسرچ ٹیم کی کوششوں کو بھی کم کیا۔

 ٭٭٭٭٭

ہفتہ، 24 مئی، 2025

پاکستان میں خاموش ماہرین کا سائنسی انقلاب

 1998 میں پاکستان نے امریکی کروز میزائل کو صحیح سلامت زمین پر اُتارا تھا، یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک خاموش انقلاب تھا۔ ایک ایسا واقعہ کہ جس نے امریکی انٹیلیجنس کو بھی حیران کر کے رکھ دیا۔ اُس وقت امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے درجنوں "ٹوماہاک کروز میزائل" فائر کیے، جن میں سے چند پاکستان کی فضائی حدود سے گزرے۔ 

پاکستانی ایئر ڈیفنس سسٹم نے فوری ردعمل دیا اور ایک میزائل کو بغیر کسی تباہی کے زمین پر اُتار لیا۔ یہ میزائل اپنی مکمل ساخت میں تھا، جس نے پاکستان کو پہلی بار دنیا کی جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کے قریب لا کھڑا کیا۔ ماہرین نے اس میزائل کو تفصیل سے سمجھا، اس کی ساخت، نیویگیشن سسٹم، وار ہیڈ اور ایندھن کی اقسام کا مطالعہ کیا، اور یہی بنیاد بنی پاکستان کے اپنے "بابر کروز میزائل" کی۔

 آج اگر پاکستان دنیا کے چند بہترین کروز میزائل بنانے والے ممالک میں شامل ہے، تو اس کی بنیاد اسی لمحے میں رکھی گئی تھی ۔
دوسری بار جب امریکہ نے پاکستان کے سارے ریڈار سسٹم کو جام کرکے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا جسکا دوران آپریشن پاکستان کو پتہ بھی نہیں چل سکا اور آپریشن کے بعد امریکہ نے پاکستان کو اس کی مکمل تفصیلات سے آگاہ کیا۔

لیکن دوران آپریشن قدرت ایک بار پھر پاکستان پر مہربان ہوئی امریکہ کا ایک جدید ترین ہیلی کاپٹر دیوار سے ٹکرا کر کریش ہوگیا اور امریکی فوجی اسے بم سے اڑا کر چلے گئے لیکن پاکستان کے سائینس دان اس تباہ شدہ ہیلی کاپٹرکے ملبے سے اس جدید ٹیکنالوجی کی کھوج لگانےمیں کامیاب گئے اور ملنے والے کچھ شواہد نے پاکستان اور چائینہ کو ملکر جدید ترین ریڈار جامع کرنے کی صلاحیت بنانے کے قابل بنا دیا جسکی بدولت پاکستان نے آج دنیا کی سب سے جدید ٹیکنالوجی کی لڑائی میں ایسی عظیم فتح حاصل کی کہ دنیا کے ہوش اڑ گئے۔

پاکستان پر حملہ کرنے والے انڈیا نے دنیا کے 900 سو کے قریب جدید ترین اسرائیلی ساختہ ڈروان سے پاکستان پر یلغار کردی جو پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہیک کر لئے گئے اور انڈین فوج کے کنٹرول سے نکل گئے اور آسمان میں کٹی پتنگ کی طرح آزاد اڑنے لگے جس کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے اور 6 گھنٹے کی بیٹری ختم ہوتے ہی زندہ سلامت پاکستان کی زمین پر جگہ جگہ گرنے لگے بعض ڈروان اڑتے اڑتے افغانستان اور ایران بھی پہنچ گئے تھے۔

 انڈیا کا مقصد تھا پاکستان ان ڈروان کو گرانے کے لئے میزائل استعمال کرے گا جس سے پاکستان کے میزائل سسٹم کہاں کہاں موجود ہے اسکا پتہ چل جائیگا لیکن پاکستان نے اس جدید ٹینکنالوجی کی بدولت ان کے اس حربے کو بھی ناکام کیا تمام ڈروان کو بھی بحفاظت اتار لیا گیا اور جواب میں اپنے ڈروان انڈیا پر چھوڑ دئیے انڈیا نے میزائلوں کی بارش کرکے وہ گرائے جس سے پاکستان کو اسکے تمام میزائل سسٹم کے اڈوں کا پتہ چل گیا جسکو بعد میں پاکستان نے میزائل حملہ اور طیاروں کے زریعے بمباری کرکے تباہ کردیا اب جب کہ اسرائیلی ساختہ ہارپون  جدید ڈرونز    پاکستانی حدود میں اتارے گئے ہیں۔

 تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ ان شاء اللہ، ان سے حاصل ہونے والا تکنیکی علم ایک اور دفاعی سنگ میل ثابت ہو گا۔

٭٭٭٭٭٭٭




خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔