Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 9 ستمبر، 2024

عجیب و غریب پھل

پٹایا، جابوٹی کابا، رامبوتان، دوریان ہے کہ میں کس کے بارے میں بات کر رہا ہوں؟
ذرا اندازہ لگانے کی کوشش کریں میں جلد ہی بتاؤں گا کہ یہ کیا ہیں لیکن پہلے بچوں کی دنیا کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر بچے کے بارے میں سوچیں ،بچے جب کسی نئے شخص کو دیکھتے ہیں تو وہ کئی سیکنڈ تک ان پر پوری توجہ سے فوکس کرتے ہیں یا جب وہ پہلی بار بارش کو دیکھیں گے تو جوش اور حیرانی سے دیکھیں گے۔
حقیقت یہ ہے وہ جو بھی دیکھتے ہیں اس سے حیران ہو جاتے ہیں تصور کریں کہ آپ ایک دن بیدار ہوں اور آپ کی تمام یادداش بلکل مٹ چکی ہو آپ ایک بار پھر نئے پیدا ہوئے بچے کی طرح ہو چکے ہو!
ایک بچے کی طرح آپ ہر چیز سے حیران ہوں گے پہلی بار برف کے گولے دیکھنے کا خیال کریں آپ پر جوش ہو جائیں گے اور شاید آسمان کے طرف دیکھیں گے اور سوچیں گے کہ یہ روئی کے گولے کہاں سے آ رہے ہیں  ؟
یا جب آپ آسمان کے طرف دیکھیں اور آپ کو بادل دکھائی دے آپ حیران ہوں گے کہ وہ خود بخود کیسے تیر رہے ہیں آپ نئی  نئی چیزوں کو دریافت کرنے کے جوش کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔

 پھلدار دختوں پر پکنے والے تمام پھل زمین پر کیوں  گرتے ہیں یا دختوں کے پتے خزاں میں نیچے کیوں آتے ہیں ۔ ہلکے ہونے کے باوجود وہ اوپر کیوں نہیں جاتے ۔ یہاں تک کے پرندوں کےجھڑنے والے پر بھی آہستہ آہستہ زمین پر آتے اور یہ صدیوں سے ایسا ہے ہو ررہا ہے ۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جب ہم اس وقت ان واقعات سے گزر رہے ہیں تو ہمیں حیرت کا کوئی احساس نہیں ہوتا کیوں کہ سب چیزیں ہمارے سامنے ہو رہی ہیں  اور ہم اس حقیقت پر حیران   نہیں ہوتے۔
کہ بارش ایسے گھنے بادلوں سے گزر کر آ رہی ہے یا گوشت سے بنا انسان درجنو جذبات رکھتا ہے ہنسنا رونا پرجوش ہونا یہ چیزیں ہمیں حیران کیوں نہیں کرتے آخرکار آپ مادے سے بنے ہیں
ٹھیک ہے نا آپ کو ہنسی کیوں آتی ہے آپ جذبات کیوں محسوس کرتے ہو آپ تو صرف ایک مادہ ہو اس کا مطلب ہے کہ اس مادے کے پیچھے ایک روح موجود ہے اور اسی کی وجہ سے ہم ان احساسات کو محسوس کرتے ہو آپ تو صرف ایک مادہ ہو اس کا مطلب ہے کہ اس مادے کے پیچھے ایک روح  موجود ہے اور اسی کی وجہ سے ہم ان احساسات کو محسوس
کر سکتے ہیں تو یہ خیالات ہمیں حیران کیوں نہیں کرتے آپ میں سے کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کیا حرج ہے ہم جان چکے ہیں کہ یہ واقعات کیسے رونما ہوتے ہیں اور اس لیے آپ مزید حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن
کیا ہم واقعی جان چکے ہیں یا ہم صرف اس کے عادی ہو گئے ہیں بے شک حقیقت یہ ہے کہ یہ جاننا نہیں ہے بلکہ چیزوں کا عادی ہو گئے ہیں بے شک حقیقت یہ ہے کہ یہ جاننا نہیں ہے بلکہ چیزوں کا عادی ہو جانا ہے اور یہ پہلی چیز ہے جو ہمیں اپنی روزمارہ کی زندگی میں خدا کو بھلا دیتی ہے
عادت یہ ان لوگوں کے لیے سب سے خطرناک صورتحال ہے جو خدا کے وجود کا ثبوت تلاش کر رہے ہوں اور ان لوگوں کے لیے جو اسے جاننا چاہتے ہوں اور یہ ایتھیسٹ کی ایتھیسٹ ہونے کی مختلف وجوہات میں سے ایک ہے آپ جانتے ہوں گے کہ آپ کا ایتھیسٹ دوست
ہر وقت یہ کہتا ہے کہ میں ایک خالق کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے وہ کہیں نہیں مل رہا یہی وجہ ہے اپنی روایتی ماحول اور انہی فطری واقعات کو دیکھ کر ہم یہ کہنے لگتے ہیں کہ حالانکہ دنیا بے شمار ثبوتوں سے بڑی بڑی ہے
اس لئے ہمیں عادت نامی بیماری کو پہچاننے اور اس کا علاج تلاش کرنے کی ضرورت ہے نہ صرف ہمارے ایتھیسٹ دوستوں کو بلکہ ہمیں بھی بطور مسلمان اپنی اس بیماری کا علاج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپیتھیز دوستوں کو بلکہ ہمیں بھی بطور مسلمان اپنی اس بیماری کا علاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے خالق کو بہتر طریقے سے جان سکیں
اب آئیے  شروع میں بیان کردہ ان عجیب و غریب ناموں کی طرف واپس آتے ہیں آپ میں سے کچھ نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا ہوگا یہ پھلوں کے نام ہیں مثال کے طور پر پٹایا کو ڈریگن فروٹ بھی کہا جاتا ہے
یہ تھائلین اور انڈونیشیا میں وافر بغدار میں پایا جا سکتا ہے اور اسے بعض اوقات سٹاوبری پیئر بھی کہا جاتا ہے ایک اور پھل جابوٹی گابا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پھل براہراز درخت کے تنے سے اکتا ہے بہت سے لوگ اسے اپنے گھروں میں عرائشی پودے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ایک اور دلچسپ پھل رانبوٹان ہے کیونکہ اس کی جلد کو بالوں نے ڈھامپا ہوتا ہے اس لیے یہ ایک منفرد جانور کی طرح لگتا ہے اس کا گودہ ہلکے پلے رنگا ہوتا ہے اور اسے کٹنا آسان نہیں ہوتا
ایک اور پھل دوریان فروٹ ہے اسے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے ہم اسے فوربیڈن فروٹ کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کی بدبو بہت بری ہوتی ہے یہ ہوٹلوں اور ہوائی جہازوں میں منع ہے اگرچہ پہلی بار کھانے والے اسے شروع میں پسند نہیں کرتے
تاہم بعد میں اس کے لذیذ ذائفے سے ان کا جی نہیں بھرتا ہمارے پاس ایک اور دلجس پھل ہے سیپ آپ کہہ سکتے ہیںے پاس ایک اور دلچسپ پھل ہے سیب آپ کہہ سکتے ہیں یہ صرف ایک عام سیب ہے لیکن اصل سوال یہ ہے
کہ جس طرح ہم دوسرے چار پھلوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اسی طرح ہمیں سیب کے بارے میں حیرت کیوں نہیں ہوتی جس طرح ہم درخت کے تنے سے لگنے والے جابوٹی کعبہ سے حیران ہوتے ہیں ہم شاخ پر لگنے
والے پھل کو دیکھ کر حیران کیوں نہیں ہوتے آخر کار کیا یہ دونوں ہی لگڑی سے بنے ہوئے نہیں ہیں اور پھر ہم تاریخ بے ذائقہ بے خوشبو اور بے رنگ مٹی سے حیران کیوں نہیں ہوتے جو ترہا ترہ کے رنگ ذائقے پیدا
کرتی ہے کچھ کھٹے اور کچھ میچے کیا یہ دیکھ کر آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ ایک رس بھرا مزیدار سیپ اسی سے اکتا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیپ تو ہم ہمیشہ سے دیکھ رہے ہیں اور اب اس کے عادھی ہو چکے ہیں
اور جب ہم کسی چیز کے آدھی ہو جاتے ہیں تو لاکھوں موجزات اور ثبوت ہماری نظروں سے اوجل ہو جاتے ہیں اور ثبوت نظرانداز ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر آپ اس کے بارے میں سوچیں تو مکمل اندھیرے سے رنگ نکلتے ہیں کالی زمین سے بورے رنگ کا درخت اکتا ہے
اور اس سے ایک سبس پتی اور پھر ایک سرخ سیپ حقیقت میں یہ ایک ایسی تخلیق ہے جو بڑی تفصیل کی طرف توجہ مبزول کراتی ہے لیکن اگر آپ نے پہلے کبھی سیپ نہ دیکھا ہو تو پھر سیپ بھی آپ کو حیران کر دے گا حقیقت میں خدا اپنی تخلیق کے موجزے کے ذریعے اپنی پہچان کراتا ہے جو لوگ عادت سے خود کو چھڑا لیں وہ یہ دیکھ سکتے ہیں ایک دوسری وجہ جو ہمیں حیران ہونے سے رکھتی ہے وہ یہ سوچ ہے کہ مجھے پہلے ہی معلوم ہے اگر کوئی یہ کہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اب اس معاملے پر گہری نظر نہیں رکھے گا
علم رکھنے کا تصور حق کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے حتیٰ کہ کسی موجزاتی چیز کا سامنا کرتے ہوئے بھی جب آپ کہتے ہیں کہ مجھے پہلے ہی معلوم ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اب اچھی طرح سے نہیں دیکھ رہے
مثال کے طور پر ایسے سیب کے درخت کے بارے میں سوچیں جس پر خربوزے لگے ہوں کیا آپ حیران نہیں ہوں گے یا اگر شہد کی مکھی جیم بنا دے ہم اتنے حیران ہوں گے کہ ہم خبروں میں اس کی تشہیر کریں گے ہم حیران رہ جائیں گے بلکل ایک بچے کی طرح
تو جب سیب کا درخت ایک سیب بناتا ہے ہم حیران کیوں نہیں ہوتے یا جب شہد کی مکھی شہد بناتی ہے ہم اسے معجزہ کیوں نہیں سمجھ سکتے یہ عام بات ہے ہم جانتے ہیں کہ سیب کا درخت سیب بناتا ہے
یہ تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے یا شہد کی مکھیاں کچھ پھولوں کے گرد اڑتی ہیں اور شہد بناتی ہیں یہ اسی طرح ہوتا ہے کیا یہ سب کہنے کا نام جاننا ہر روز ہونے لگے تو آپ مزید حیران نہیں ہوں گے آپ کہیں گے یہ تو عام بات ہے
اگر کوئی آپ سے پوچھے اچھا یہ کیسے ہوتا ہے اور آپ جواب دے کہ ہم صرف اپنے ہاتھ رگڑتے ہیں اور ایک مالٹا نکل آتا ہے تو کیا یہ جاننا ہوگا یا یہ ایڈجسمن اور عادت ہوگی یقینا یہ عادت ہوگی
ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے کہ آپ کے ہاتھ سے ایک مالٹا نکل رہا ہو یا ایک مالٹا جو پہلے سے پیک شدہ ہے امدہ رنگ اور خوشبو رکھتا ہے وہ لکڑی کے ایک ٹکڑی سے نکل رہا ہے کیا یہ بھی ایک حیران کن موجزہ نہیں ہے
جب پوچھا جائے کیسے اور جواب ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ لکڑی سے ہی نکلتا ہے یہ جاننا نہیں آدھی ہونا ہے ذرا سوچیں وہ کھلونے جن میں چاکلیٹ والے انڈے ڈالے جاتے ہیں ہمیں یقین ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے
جس نے اس کے اندر رکھے ہیں پھر ہم کیسے بھول جاتے ہیں کہ ایک خدا ہے جو مسلسل پیارے پیارے اور زندہ چوزو کو انڈو میں محفوظ رکھتا ہے خدا نے اپنی مخلوقات کو اس لیے بنایا ہے تاکہ ہم اس پر غور و فکر کریں
ہم اسے مواد اتفاق اور ایٹم سے کیسے جوڑ سکتے ہیں اس سب کے اوپر پھر ہم کہتے ہیں ہم جان چکے ہیں یہ ہمارا فورمولا ہے ہمیں پوچھنا چاہیے کہ وہ واقعات اور چیزیں جن میں ہم خود کو بہت قابل سمجھتے ہیں کیا ان میں قابلیت ہے یا ہنر ہے کیا ان کے اندر علم مرضی طاقت یا زندگی ہے ہمیں یہ ماننا ہی پڑے گا کہ ان کے اندر ان میں سے کوئی صلاحیت موجود نہیں ہے اور پھر وہاں سے چلنا چاہیے آخر میں ایک اور رکاوٹ ہے جو ہمیں موجزات کو دیکھنے سے روکتی ہے نام دینا جب ہم اپنے ہر معاملے کو کوئی نام اور عنوان دیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم
انہیں فود ہی حل کر رہے ہیں اور ہم ان واقعات میں خدا کو یاد نہیں رکھ پاتے در حفظت کائنات میں رونما ہونے والے تمام واقعات کے نام ویسے ہی ہیں جیسے خدا اس کائنات کو چلا رہا ہے اسے عادت اللہ کہتے ہیں مثلا
جس طرح بارش کے قطرے ایک ایک کر کے گرتے ہیں یا جس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ بادل زمین کو پانی دیتے ہیں اسے وارٹر سائیکل کا نام دے دیا گیا ہے اب ایسا لگتاانی دیتے ہیں اسے وارٹر سائیکل کا نام دے دیا گیا ہے اب ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اس عمل کو وارٹر سائیکل کا نام دے کر
گویا اسے حل کر لیا ہے اور ہمیں اس پر مزید سوچنے یا غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن حقیقت میں ہمیں اس نام سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے جو ہم نے اسے دیا ہے کہ یہ سائیکل کیسے اور کیوں ہوتا ہے پانی کا ایک تطرہ گھاڑا کیسے بن جاتا ہے
آرام سے یہ ایک بادل میں تبدیل ہو جاتا ہے جو ہر جگہ آسانی سے پانی لے جانے کو تیار ہوتا ہے پھر یہ بادل سے تبدیل ہو کر پانی کی بندوں میں بدل سکتا ہے اچھا اس ساری کاریگری کے پیچھے کون ہے ہر سیکنڈ میں اسے کون کنٹرول کر رہا ہے
جو اس قدر طاقتور ہیں کہ ہر سیکنڈ میں سولہ میلین بندوں کو زمین سے ٹگرانے کا فیصلہ کرتا ہے جو عقل اور حصے خالی بادلوں کو جمع کرتا ہے اور انہیں اس سمت میں دکیلتا ہے جس طرف انہیں جانے کی ضرورت ہوتی ہے
کون ہے جو پانی کو بخارات بنا کر اس کی شکل بدلتا ہے اور اسے بادل بناتا ہے پھر اسے آسمان میں تیراتا ہے کون سپنچ کی طرح گھنے بادلوں کو سکرٹتا ہے اور پھر اسے انتہائی رحم کے ساتھ زمین پر بیج دیتا ہے
جو پانی کو بخارات بناتا ہے اس کی شکل بدلتا ہے اور اسے آسمان میں ایک گھنے بادل کی طرح تیراتا ہے۔ کون ہے جو آسمان پر بادلوں کو تھامے رکھتا ہے اور نہایت رحمت کے ساتھ بارش برساتا ہے؟
بارش کو ایک ایک بون کر کے زمین پر کون گراتا ہے؟ پانی کو سات میلی میٹر کی بوندوں میں کون تقسیم کرتا ہے؟ آسمان سے گرتے ہوئے کون ان کی رفتار کو آہستہ کر دیتا ہے؟ کیا یہ وہ ایٹم کرتے ہیں جن کے پاس کوئی علم مرضی یا انتخاب ہی نہیں ہے؟
رحم یا زندگی بھی نہیں ہے؟ یا یہ کام بادل کرتے ہیں جن کے پاس کوئی علم مرضی یا انتخاب ہی نہیں ہے رحم یا زندگی بھی نہیں ہے یا یہ کام بادل کرتے ہیں یا خود پانی یہ سب کام کون کر رہا ہے یہ تمام موجزاتی کام وارٹر سائیکل جیسے ناموں کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اپنے خیالات کے سلسلے کو محدود نہیں کر دینا چاہیے
خدا کا وجود ہر تفصیل سے ایسے واضح ہے جیسے سورج آئیے اسے نہ بلائے یہ نام صرف ہمیں دکھاتے ہیں کہ خدا کائنات کو کس طرح کنٹرول کر رہا ہے وہ کس طرح ایٹموں کو کنٹرول کرتا ہے اگر فتح کو ان عادات سے دور کر لیں اس تصور سے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور چیزوں کو جو نام ہم نے دیئے ہیں انہی میں ڈوبنے سے بچ سکیں تو ہم ہر چیز کو دیکھتا اور اس کا ایک اندازم قرر کرتا ہے جو علم، ارادہ، طاقت اور زندگی کا مالک ہے۔
مہارت حاصل کرنے کے لیے بڑی حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چیزیں اپنے اندر مہارت یا علم نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ہی ہے جو ان معاملات کو کنٹرول کرتا ہے اور ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ اب جب کہ ہم نے اپنے عادت کے خیالات کو ترک کر دیا ہے آئیے ان چیزوں پر غور کریں مثلا بارش ہوا
ایک بیر یا رنگین دھارا ایک خرگوش بہت بڑے سیارے یا کوفی کی خوشبو
کائنات میں آپ کے لئے خدا کو تلاش کرنے اور یاد کرنے کی نشانیاں بھری پڑی ہیں  حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے  دیکھنے والی آنکھ کے لئے اندیرہ ہجاب نہیں بن سکتا
جو آنکھ دیکھنا ہی نہیں چاہتی اس کے لئے روشنی بیکار ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 29 اگست، 2024

مستقبل کے خواب جزیرے ہمارے لئے

  اسے پہچانتےہیں آپ ؟؟

 اِسی طرح  پٹرول پمپ ۔ آٹو موبائل ورکشاپ ۔ آئل شاپ۔ائر کنڈیشن ۔ ایگزاسٹ اور ریڈی ایٹرز کی دکانیں ختم ہو جائیں گی۔
 پٹرول/ڈیزل کے انجن میں تقریباً   20,000 پرزے ہوتے ہیں
۔ پھر اُنہیں ٹھیک کون کرے گا ؟

  پریشان نہ ہوں ایک چھوٹے سے ٹچ موبائل میں   آپ گئی گھنٹوں لگاتار فلمیں ، سیریلز ڈرامے ۔ آپ کی پیدائش سے پہلے کے ڈرامے۔ضخیم کتابیں سما جاتی ہیں اورایک ہلکے سے سکرین پر ہونے والے کلک کی ساتھ  آپ کی بولی جانے والی ہدایت کے ذریعے پلک جھپکنے میں آپ کے موبائل کی سکرین پر نمودار ہو جاتی ہیں۔اِس طرح آپ کو نئے خواب جزیروں میں      آپ کے پاس  صرف 20 پرزوں والی جدید الیکٹر کار ہوگی ۔  

 یہ الیکٹرک کار۔آپ کو زندگی بھر کی ضمانت کے ساتھ بیچا جائے گا ۔ یہ وارنٹی کے تحت ڈیلر کے پاس ٹھیک ہونے آئے گی اوراِس  کا انجن اتار کر تبدیل کرنا صرف 10 منٹ کا کام ہوتا ہے۔الیکٹرک کار کے خراب انجن کو ایک ریجنل ورکشاپ میں روبوٹکس کی مدد سے ٹھیک کیا جائے گا۔  جب آپ کی الیکٹرک کار کا انجن خراب ہو جائے گا، آپ ایک تیل ، چکناہٹ اور گریس سے صاف  ایک عمارت میں جائیں گے ۔ اپنی کار دے کر کافی پئیں گے اور کار نئے انجن کے ساتھ واپس ملے  جائےگی۔سڑک کنارے  کار کی بیٹری  چارجنگ  کے اسٹیشن نصب کیے جائیں گے۔ بیٹری چارجنگ کے پیسے  آپ کے کارڈ  کے  اکاونٹ سے منہا کر لئے جائیں گے کیوں کہ کیش لین دین بالکل ختم ہوجائے گا ۔ہو گئے نا پریشان؟ 

 (یہ سسٹم   دنیا کے پہلے درجے کے ممالک میں شروع ہو چکے ہیں)
 بڑی بڑی سمارٹ کار کمپنیوں نے صرف الیکٹرک کاریں بنانے کے لئے فیکٹریاں بنانے کے لئے فنڈ مختص کیے ہیں۔ کوئلے کی صنعتیں ختم ہو جائیں گی۔ پٹرول/آئل کمپنیاں بند ہو جائیں گی۔ آئل کی تلاش اور کھدائی رک جائے گی۔ گھروں میں دن کے وقت بجلی پیدا کر کے ذخیرہ کی جائے گی تاکہ رات کو استعمال اور نیٹ ورک کو فروخت کی جا سکے۔ نیٹ ورک اسے ذخیرہ کر کے زیادہ بجلی استعمال کرنے والی صنعتوں کو فراہم کرے گا۔

 آج کے بچے موجودہ کاریں میوزیم میں دیکھیں گے۔ مستقبل ہماری توقعات سے زیادہ تیزی سے آ رہا ہے۔
٭۔ 1998 میں، کوڈاک کے 170000 ملازمین تھے اور یہ دنیا بھر میں 85٪ فوٹو پیپر فروخت کرتا تھا۔ دو سالوں میں ان کا بزنس ماڈل ختم ہو گیا اور وہ دیوالیہ ہو گئے۔ کس نے سوچا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟
جو کچھ کوڈاک اور پولارائڈ کے ساتھ ہوا، ویسا ہی اگلے 5-10 سالوں میں کئی صنعتوں کے ساتھ ہوگا۔
٭۔ کیا آپ نے 1998 میں سوچا تھا کہ تین سالوں کے بعد، کوئی بھی فلم پر تصاویر نہیں لے گا؟ اسمارٹ فونز کی وجہ سے، آج کل کون کیمرہ رکھتا ہے؟
 ٭۔ 1975 میں ڈیجیٹل کیمرے ایجاد ہوئے۔ پہلے کیمرے میں 10000 پکسلز تھے، لیکن انہوں نے مور کے قانون کی پیروی کی۔ جیسے ہر ٹیکنالوجی کے ساتھ ہوتا ہے، پہلے تو توقعات پر پورے نہیں اترے، لیکن پھر بہت بہتر ہو گئے اور غالب آ گئے۔
 یہ دوبارہ ہوگا (تیزی سے) مصنوعی ذہانت، صحت، خود کار گاڑیاں، الیکٹرک کاریں، تعلیم، تھری ڈی پرنٹنگ، زراعت، اور نوکریوں کے ساتھ۔

٭۔ کتاب  مستقبل کے شاک کے مصنف نے کہا: "خوش آمدید چوتھےصنعتی انقلاب میں"۔

٭۔ سافٹ ویئر نے اور کرے گا اگلے 5-10 سالوں میں زیادہ تر روایتی صنعتوں کو متاثر۔
٭۔ اوبر سافٹ ویئر کے پاس کوئی گاڑی نہیں، اور یہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے! کس نے سوچا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟
٭۔ اب ایئربی این بی دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے، جبکہ اس کے پاس کوئی جائداد نہیں۔ کیا آپ نے کبھی ہلٹن ہوٹلز کو ایسا سوچا؟
٭۔ مصنوعی ذہانت: کمپیوٹر دنیا کو بہتر طور پر سمجھنے لگے ہیں۔ اس سال ایک کمپیوٹر نے دنیا کے بہترین کھلاڑی کو متوقع 10 سال سے پہلے شکست دی ۔
٭۔ امریکہ کے نوجوان وکلاء کو نوکریاں نہیں مل رہیں کیونکہ  آئی بی ایم  کا واٹسن، جو آپ کو سیکنڈز میں قانونی مشورے دیتا ہے 90٪ کی درستگی کے ساتھ، جبکہ انسانوں کی درستگی 70٪ ہوتی ہے۔ لہذا اگر آپ قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو فوراً رک جائیں۔ مستقبل میں وکلاء کی تعداد 90٪ کم ہو جائے گی اور صرف ماہرین رہیں گے۔
٭۔واٹسن ڈاکٹروں کی مدد کر رہا ہے کینسر کی تشخیص میں (ڈاکٹروں کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ درست)۔
٭۔ فیس بک کے پاس اب چہرے کی شناخت کا پروگرام ہے (انسانوں سے بہتر)۔ 2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گے۔

٭۔ خودکار گاڑیاں: پہلی خودکار گاڑی سامنے آ چکی ہے۔ دو سال میں پوری صنعت بدل جائے گی۔ آپ کار کی مالکیت نہیں چاہیں گے کیونکہ آپ ایک کار کو فون کریں گے اور وہ آ کر آپ کو آپ کی منزل تک لے جائے گی۔
٭۔آپ اپنی کار پارک نہیں کریں گے بلکہ سفر کی مسافت کے حساب سے ادائیگی کریں گے۔ آپ سفر کے دوران بھی کام کریں گے۔ آج کے بچے ڈرائیونگ لائسنس نہیں لیں گے اور نہ ہی کبھی گاڑی کے مالک ہوں گے۔
٭۔اس سے ہمارے شہر بدل جائیں گے۔ ہمیں 90-95٪ کم گاڑیاں چاہئیں ہوں گی۔ پارکنگ کے پرانے مقامات سبز باغات میں تبدیل ہو جائیں گے۔
٭۔ ہر سال 1.2 ملین لوگ گاڑی حادثات میں مر جاتے ہیں، جس میں شرابی ڈرائیونگ اور تیز رفتاری شامل ہے۔ اب ہر 60,000 میل میں ایک حادثہ ہوتا ہے۔ خودکار گاڑیوں کے ساتھ، یہ حادثات ہر 6 ملین میل پر ایک تک کم ہو جائیں گے۔ اس سے سالانہ ایک ملین لوگوں کی جان بچائی جائے گی۔
٭۔ روایتی کار کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ وہ انقلابی انداز میں ایک بہتر کار بنانے کی کوشش کریں گی، جبکہ  ٹیلسا۔ایپل اور گوگل ٹیکنالوجی کمپنیاں ایک انقلابی انداز میں  کمپیوٹر بنائیں گی   جو ذہین الیکٹرک گاڑیاںچلائے گا ۔

٭۔والو  کمپنی  نے اب اپنے گاڑیوں میں انٹرنل کمبسچن انجن کو ختم کر کے، صرف الیکٹرک اور ہائبرڈ انجنوں سے تبدیل کر دیا ہے۔
٭۔والکس ویگن  اور آڈی کے انجینئرز  ، ٹیلسا سے پوری طرح خوفزدہ ہیں اور انہیں ہونا چاہیے۔ چند  سال پہلے یہ معلوم نہیں تھا۔
٭۔انشورنس کمپنیاں بڑے مسائل کا سامنا کریں گی کیونکہ بغیر حادثات کے اخراجات سستے ہو جائیں گے۔ کار انشورنس کا کاروباری ماڈل ختم ہو جائے گا۔
٭۔ جائداد میں تبدیلی آئے گی۔ کیونکہ سفر کے دوران کام کرنے کی وجہ سے، لوگ اپنی اونچی عمارتیں چھوڑ دیں گے اور زیادہ خوبصورت اور سستے علاقوں میں منتقل ہو جائیں گے۔
٭۔ 2030 تک الیکٹرک گاڑیاں عام ہو جائیں گی۔ شہر  میں صرف انسان  پرندوں اور جانوروں آوازیں سنائی  دیں گی  اور ہوا زیادہ صاف ہو جائے گی۔

٭۔ بجلی بے حد سستی اور ناقابل یقین حد تک صاف ہو جائے گی۔ سولر پاور کی پیداوار بڑھتی جا رہی ہے۔کیا آپ نے ٹیلسا کمپنی کی بنائی ہوئی گھروں کی  شمسی چھتیں دیکھی ہیں ؟

 

٭۔ فوسل فیول انرجی کمپنیاں (آئل) گھریلو سولر پاور انسٹالیشنز کو نیٹ ورک تک رسائی محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ مقابلے کو روکا جا سکے، لیکن یہ ممکن نہیں - ٹیکنالوجی آ رہی ہے۔

سبز توانائی، چاہے وہ سبز ہائیڈروجن سے ہو یا ماحول دوست ذرائع سے، اور سبز شہر آئیں گے، اور زیادہ تر ممالک میں نیوکلیئر ری ایکٹرز ختم ہو جائیں گے۔

٭۔  کچھ کمپنیاں ایک طبی آلہ ٹرائی کوڈر ایکس ،   بنائیں گی جو آپ کے فون کے ساتھ کام کرتا ہے، جو آپ کی آنکھ کی ریٹینا کا معائنہ کرے گا، آپ کے خون کا نمونہ لے گا، اور آپ کی سانس کی جانچ کرے گا۔ اور 54 بائیولوجیکل مارکرز کی تشخیص کرے گا جو تقریباً کسی بھی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ٹرائی کوڈر ایکس کو سب سے پہلے سٹار ٹریک کی سٹوری لکھنے والے نے پیش کیا ۔
ٹی وی شو سٹار ٹریک میں ایک افسانوی ڈاکٹر میک کوئے تھے جنہوں نے ایک لمحے میں مریضوں کا معائنہ کرنے کے لیے ٹرائیکورڈر نامی ڈیوائس کا استعمال کیا۔ خیالی ڈیوائس نے  حقیقی زندگی کے  ڈیوائس  ٹرائیکوڈر  کی تلاش کو جنم دیا ہے۔
یاد رکھیں جو محیر العقول آئیڈیا آپ کے ذہن میں آتے ہیں اُنہیں لکھ دیں، کیوں کہ وہ کائینات میں موجود ہیں جبھی تو آپ کے ذہن میں گونجا ۔(خالد مہاجرزادہ)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭   

منگل، 23 جولائی، 2024

ملکی معیشت میں چوروں کی اہمیت

استاد نے طلباء سے کہا کہ "چور" پر ایک مضمون لکھیں۔ ساتویں جماعت کے طالب علم  نے مضمون لکھا:۔

چور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ایک مذاق ہے یا یہ غلط ہو سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت میں قابل غور موضوع ہے۔

چوروں کی وجہ سے سیف، الماری اور تالے درکار ہیں۔ یہ ان کمپنیوں کو کام دیتا ہے جو انہیں بناتے ہیں. چوروں کی وجہ سے گھروں کی کھڑکیوں میں گرلز اور دروازے ہیں جو بند رکھے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، باہر سیکیورٹی کے لیے اضافی دروازے بھی ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔

چوروں کی وجہ سے گھروں، دکانوں اور سوسائٹیوں کے ارد گرد حفاظتی دیواریں اور سیکورٹی کمپاؤنڈ بنائے گئے ہیں اور گیٹ لگائے گئے ہیں۔ گیٹ پر 24 گھنٹے گارڈ تعینات رہتے ہیں اور گارڈز کے لئے یونیفارمز بھی ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔

چوروں کی وجہ سے صرف سی سی ٹی وی کیمرے اور میٹل ڈیٹیکٹر ہی نہیں بلکہ سائبر سیل بھی معرض وجود میں آئے ہیں۔ چوروں کی وجہ سے پولیس، تھانے، پولیس چوکیاں، گشتی کاریں، لاٹھیاں، رائفلیں، ریوالور اور گولیاں ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔

چوروں کی وجہ سے عدالتوں میں عدالتیں، جج، وکیل، کلرک اور ضمانتی بندے ہیں۔ تو بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ چوروں کی وجہ سے جیلوں کےلئے سپرنٹنڈنٹ اور جیل پولیس کا عملہ رکھا جاتا ھے۔ اس لیے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

جب موبائل فون، لیپ ٹاپ، الیکٹرانک ڈیوائسز، سائیکلیں اور گاڑیاں چوری ہوتی ہیں تو لوگ نئی خریدتے ہیں۔ اس خرید و فروخت سے ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کو کام ملتا ہے۔

بین الاقوامی سطح کے چوروں سے متعلق خبروں کے ذریعے اندرون و بیرون ملک کا میڈیا بھی روزی روٹی حاصل کرتا ہے۔
یہ سب پڑھنے کے بعد آپ کو بھی یقین ہو جائے گا کہ چور معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور کروڑوں لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کا ذریعہ ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 21 جولائی، 2024

راولپنڈی کے چند چائے خانے/ ہوٹل

شائد اب چائے کی اہمیت کم ہو گئی ہے یا ہم لوگ گوشت خور ہو گئے ہیں جو جگہ جگہ بالٹی مرغ اور مٹن بالٹی تو کھانے کو مل جاتی ہے مگر صرف چائے کے ہوٹل شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ جو کبھی شہر بھر میں پھیلے ہوتے تھے۔ جہاں لوگ اپنے یار دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں مارتے نظر آتے تھے۔ اسکے علاوہ بعض گھروں میں معیوب سمجھا جاتا تھا کہ بیٹھک میں اجنبی آ کر بیٹھیں چاہے وہ دوست ہی کیوں نہ ہوں؟ بعض کے گھر میں جگہ ہی نہ ہوتی کہ اُنہیں بٹھایا جاتا۔  اسطرح چائے خانہ میں ایک پیالی چائے پی کر یار دوست گھنٹہ بھر بیٹھے رہتے۔
کئی چائے خانے اس لئے مشہور ہو گئے کہ وہاں گاہک کی فرمائش پر گانوں کے ریکارڈ بجائے جاتے تھے۔ یعنی جتنے دوست، اتنی پیالی چائے اور اتنے ہی فرمائشی گانے۔ بعد میں جن ہوٹل والوں نے ٹی وی رکھ لیا تو ایک چائے کی پیالی پی کر اپنا پسندیدہ ڈرامہ/ پروگرام پورا دیکھ لیتے تھے۔ ان میں سے بعض پر کھانا بھی مہیا ہوتا تھا۔
راولپنڈی کے نوجوان خصوصا” گورڈن کالج کے طلبہ کالج روڈ کے “زمزم کیفے “ کو تو نہ بھولیں ہونگے۔ جہاں آجکل سیور فوڈ ہے اس کے قریب یہ کیفے ہوا کرتا تھا۔ جہاں دن بھر طلبہ کا، شام/ رات گئے تک دیگر لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ گرمی کی شاموں میں کچھ میز باہر بھی لگا دئیے جاتے۔ اندر اور باہر لوگ بیٹھے اپنے فرمائشی گیت کا مکھڑا ایک پرچی پر لکھ کر بھجواتے ۔ یہاں پر گرامو فون ریکارڈز کا ایک بڑا ذخیرہ تھا۔ نئے گانوں کے علاوہ پرانے گانے بھی سننے کو مل جاتے۔ مجھے نہیں یاد کہ کوئی بھی پاکستانی/ ہندوستانی فلمی گانے کی فرمائش کی گئی ہو اور وہ موجود نہ ہو۔ ایک شخص کا کام ہی یہ تھا کہ موجود ذخیرے میں سے ریکارڈ تیزی سے ڈھونڈے اور اُسے ترتیب سے رکھ دے اور  باری پر گراموفون پر لگا دے۔ اسکی پھرتی اور یادداشت بے مثال تھی۔ اب یہاں ہر طرف سیور پلاؤ ہی نظر آتا ہے۔ زمزم کیفے ماضی کی دُھند میں غائب ہو چکا ہے۔
کالج روڈ پر ہی اس سے ذرا آگے اور سامنے کی طرف “شبنم کیفے” تھا۔ یہاں پر ٹی وی تھا۔ اس جگہ ہم نے دلدار پرویز بھٹی کا مشہور ہفتہ وار پنجابی پروگرام “ ٹاکرا” متعدد بار دیکھا۔ یہاں ہوٹل میں رہائشی کمرے بھی تھے۔ کچھ عرصے بعد مشہور زمانہ شبنم ہوٹل قتل کیس کے باعث یہ بھی بند ہو گیا۔ اور اب یہ چائنا مارکیٹ کا حصہ ہے۔ اسی طرح کیپیٹل کالج کے سامنے منزل ہوٹل تھا۔ یہاں بھی ٹی وی دیکھا جا سکتا تھا۔ مری روڈ پر آریہ محلہ کی سٹرک کے بائیں طرف “ الحیات ہوٹل” تھا۔ اسکے ریسٹورنٹ میں بھی ٹی وی تھا۔ یہ ہوٹل تو اب بھی ہے لیکن پہلی سی چمک دمک کے بغیر۔ اسی آریہ محلہ والی سڑک کے دائیں جانب “ پارک ہوٹل” تو اب بھی ہے لیکن اسکے ریسٹورنٹ کی جگہ پہلے بینک کھل گیا اور پھر میٹرو اسٹیشن نے یہ جگہ ہی ختم کر دی۔
ڈی اے وی کالج روڈ پر گورنمنٹ ہائی سکول کے سامنے گلی کے کونے پر ایک چھوٹا سا چائے خانہ تھا۔ سکول میں تو اسکی چائے جاتی ہی تھی۔ لیکن اسکے علاوہ شوقین حضرات ملائی کی تہہ سے لبریز چائے کا لطف اُٹھاتےتھے۔
چوک خرادیاں سے جو سڑک مری روڈ مشتاق ہوٹل کے پاس آ ملتی ہے یہاں “بابر گل ہوٹل “ تو اب بھی ہے یہاں ٹی وی ابتدائی دور میں ہی آ گیا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ اسکے اگلے دروازے سے بھی باہر سڑک پر ٹی وی نظر آتا تھا۔ باہر ٹی وی دیکھنے والے لوگ کھڑے رہتے اور کوئی اُنکو وہاں سے نہیں ہٹاتا تھا۔
اسکے ساتھ تنگ گلی کے بعد مشتاق ہوٹل اب بھی ہے لیکن جب یہ “مشتاق کیفے” ہوتا تھا تب یہاں گاہکوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا۔ یہ پی پی پی کا گڑھ تھا۔ مشتاق بٹ پی پی پی راولپنڈی ڈویژن کے صدر تھے اور جوانی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ ساتھ تنگ گلی میں انکے گھر میں تعزیت کے لئے بے نظیر بھٹو آئی تھیں۔
مشتاق ہوٹل کے ساتھ نائی کی دکان کے بعد مری روڈ پر ایک بہت پُرانا چھوٹا سا چائے کا ہوٹل تھا جو چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ یہ سب شاہین بیکری سمیت مری روڈ کی وسعت کی نظر ہو گئے۔ مری روڈ پر ہی قصر شیریں سے پہلے “اسحاق ہوٹل “ شائد اب بھی ہے ۔ یہاں بھی فرمائشی گانے بجاۓ جاتے تھے اور انکی آواز گرمیوں میں ہم جگی محلہ میں رات کو چھت پر لیٹے سنتے تھے۔یہ ہوٹل مختلف وجوہ کی بنا پر خاصا بدنام تھا۔
مری روڈ سے جو سڑک ڈھوک کھبہ جاتی ہے اس پر تھوڑا آگے (آجکل کے یونائٹیڈ ہوٹل کے تقریباً سامنے) ممتاز ہوٹل تھا۔ یہاں بھی فرمائش پر گانے بجائے جاتے تھے۔
سٹی صدر روڈ پر تاج محل سنیما کے ساتھ چائے کا ہوٹل دن رات کھلا رہتا تھا۔ اسکی چائے بہت مشہور تھی۔ خاص طور پر ٹیکسی ڈرائیور حضرات کے لئے۔
فوارہ چوک میں ٹرنک بازار اور لیاقت روڈ کے سنگم پر “ میز بان ہوٹل” تھا لیکن کچھ عرصہ بعد اسکے سامنے راجہ بازار اور گنج منڈی والی سڑک کے کونے پر “اکمل ہوٹل” کھل گیا یہ ہوٹل بہت کامیاب ہوا۔ اور میزبان ہوٹل بند ہو گیا۔ اکمل ہوٹل میں ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے راجہ بازار کے دورے میں چائے پی تھی۔ یہ ہوٹل شیخ غلام حسین میئر راولپنڈی کی ناجائز تجاوزات ہٹانے کی مہم کے دوران گرا دیا گیا۔ راجہ بازار میں مقبول ہوٹل اور افضل ہوٹل بھی تھے۔ موخرالذکر ہوٹل مشہور اور بدنام بھی تھا۔
صدر میں شالیمار ہوٹل (جہاں اب شالیمار پلازہ ہے) بہت مشہور تھا اور اکثر ادیب / شاعر یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ اسکے سامنے حبیب بینک کے ساتھ “ شیزان ریسٹورنٹ” تھا۔ عام طور سے یہ “جنٹری” کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اس سے ذرا آگے حیدر روڈ کے بعد سیڑھیاں اُوپر جاتی ہیں وہاں برلاس ہوٹل/ ریسٹورنٹ تھا۔ چائے کے ساتھ کٹلس یا چپس کھانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اس کے ساتھ بینک روڈ پر بائیں طرف مڑیں توکریم سموسہ ہوٹل پر چائے/ سموسہ اب بھی ملتے ہیں۔ جبکہ چوک سے دائیں جانب شروع میں ہی کامران ہوٹل اور سُپر کیفے تھے۔ کامران کا برگر (بن کباب) اور سُپر کی ٹوٹی فروٹی آئس کریم مشہور تھیں۔ یہ دونوں بھی عرصہ ہوا بند ہو گئے۔ ہاتھی چوک میں کینٹ جنرل ہسپتال کی طرف مڑیں تو کشمیری چائے، برفی اور سردیوں میں گاجر کا حلوہ مشہور تھا اور یہ اب بھی یہاں ملتا ہے۔
آدم جی روڈ پر جی ٹی ایس کے بس سٹینڈ کے سامنے تو اب بھی ریسٹورنٹ پر بہت رش ہوتا ہے۔ اسی طرح ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر کے سامنے “ تبارک ریسٹورنٹ” پر بھی خاصا رش ہوتا ہے۔ اسکا روغنی نان چائے کے ساتھ کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔
سیروز سنیما کے سامنے داتا ریسٹورنٹ بھی سڑک پر بنا ہونے کی وجہ سے گرا دیا گیا تھا۔ کینگ روڈ پر فلیش مین ہوٹل کے ساتھ چھوٹی تنگ گلی میں “ کیفے گیلری” ہوتا تھا۔ یہ بھی بند ہو گیا۔(ارشد رضوی)

 

٭٭٭٭٭٭



وزیر اعلیٰ پنجاب سے سوالات؟

 ٭71 سالہ مہاجرزادہ کے وزیر اعلیٰ پنجاب سے سوالات۔

 ٭- کیا پنجاب کے ہر صوبہ میں بی ایس سی (آنرز) زراعت موجود ہیں ؟ 

٭-کیا یہ پروگرام ۔ میٹرک پاس بچوں کے لئے نہیں شروع کیا جاسکتا ، تاکہ وہ معاشی ترقی میں ریڑھ کے مہرے بن جائیں؟
تجویز:۔
٭-اگر پنجاب کو دوبارہ پاکستان کا زراعتی صوبہ بنانا ہے ، تو پیٹ بھرنے کی فصلیں زیادہ کی جائیں اور تجوریاں بھرنے کی فصلیں کم ۔ 

٭-ہر صوبے میں قبضہ جاتی ۔ شاملاتی اور حکومتی ایک ایکٹر زرعی زمین ، اِن انٹرن شپ پروگرام میں شامل ہر چار بچوں کو دو سال کے لئے دی جائیں ۔ 

٭- یہ عملی نصابی پروگرام ہو اور انہیں ماہرین کے ساتھ شامل کرکے ۔ ایف ایس سی (زراعت تھیوری اور پریکٹیکل) کی سند دی جائے ۔ 
٭-اِن میں سے فی ایکڑ دو بچوں کو اینیمل ہسبینڈری کی تعلیم دی جائے۔ 
٭- اِن بچوں کو مزید ۔ بی ایس سی (آنرز) زراعت میں شامل کیا جائے ۔ 

٭- اِس کے لئے رقوم مالداروں کی پنجاب کی بنکوں کی برانچوں میں سیونگ سے خمس (ویلتھ ٹیکس) سے حاصل کی جائے ۔
٭۔زرعی اوزار بنانے  کی صنعت کو ترویج دی جاۓ اور اس کو کاٹیج انڈسٹری کا درجہ دیا جائے۔ 

(خالد مہاجرزادہ)


٭٭٭٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔