دوسال پہلے جب میں گوادر گیا تو وٹس ایپ فرینڈ قاری حنیف مکرانی بلوچ سے ملا قات ۔ کوسٹ گارڈ میں میں ہوئی ۔ وہاں قاری صاحب کی یوری جنم کنڈلی پوچھی کیوں کہ بلوچوں کی پسماندگی اور کوسٹ گارڈ کی اپنے روزگار کے لئے ، ایرانی پیٹرول کا کاروبار کرنے والے بلوچوں سے زیادتی ۔ کا وہ بلوچستان ڈویژن تربت کا ملازم ہونے کے باوجود کے لئے وٹس ایپ پر آواز بلند کرتا تھا ۔
میں اُسے گوادر کا نیا ائرپورٹ دکھانے اور وہاں بلوچی مزدوروں کی بہتر ہوتی حالت دکھانے کے لئے لے گیا ۔ وہاں بلوچی مزدوروں کے ساتھ سرائیکی بیلٹ کے پنجابی بلوچ بھی لیبر کا کام کر رہے تھے ۔ جس پر اُسے شکوہ تھا کہ یہ پنجابی یہاں کیوں ہیں؟
میں نے کہا یہی سوال تو سندھ اور پنجاب والے بھی کرتے ہیں کہ کراچی اور لاہور میں بلوچوں کا کیا کام ؟
لیکن اُس کے ذہن میں تعصب کا ایک ہی مکرانی بلوچ کیڑا تھا ۔ جسے نکالنا بہت مشکل تھا ۔
قاری حنیف گرمیوں کی چھٹیوں میں اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں ضرور آتا ۔ میں نے اُسے قائل کیا کہ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ کر لے ۔
بولا نہیں سر میں نے وفاق المدارس سے ماسٹر کی ڈگری لی ہوئی ہے ۔ میں قاری القرآن ہوں مجھے بی ایڈ کرنے کی کیا ضرورت ؟
مجھے کہا سر میری کوئٹہ پوسٹنگ کروادیں، میں وہاں جانا چاہتا ہوں، میں نے کہا کوشش کروں گا پر وعدہ نہیں کرتا۔
خیر میں ہفتہ رہ کر واپس آگیا ۔ کوئٹہ میں میں نے بات کی تو اُس نے بتایا ۔ میجر صاحب، وقاق المدارس کے بہت فارغ التحصیل یہاں مسجدوں کی حد تک ہیں، چند قاری القرآن کی سیٹوں پر لوکل گورنمنٹ کے پرائمری سکولوں میں ملازم ہیں۔لہذابہت مشکل ہے اُسے بتائیں کہ عصری تعلیم ، حاصل کرے تو شائد وہ عام ٹیچر کی پوسٹ پر ٹرانسفر ہو جائے ،
میں نے قاری حنیف کو بتایا اور کہا کہ وہ بی ایڈ کرنے کی کوشش کرے تو پھر آگے میں بتاؤں گا کہ کوئٹہ آنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے ۔
قاری حنیف نے پچھلے سال بی ایڈ کے پہلے سمسٹر میں داخلہ لیا ، فیس کے لئے میری مدد مانگی تو میں نے کہا ۔ وہ پیسے جمع کرے میں مدد کروں گا لیکن وہ ادھار ہوگا ۔ وہ مجھے واپس کرنا پڑیں گے ۔اُن نے بتایا کہ میں نے فیس جمع کر لی ہے بس توھڑے کم ہیں وہ مجھے بھجوادیں یا میں آپ کو بھجوا دیتا ہوں آپ بھجوادیں ۔ میں نے کہا آپ فیس ادھار لے کر بھجواؤ مجھے رسید بھیجو تو میں رسید دیکھتے ہی آپ کو آپ کے بنک اکاؤنٹ میں بھجوا دوں گا ۔ اُس نے ایسا ہی کیا تو میں نے فوراً رقم بھجوا دی تاکہ وہ قرض کے بوجھ سے آزاد ہوجائے ، وہ ہر ماہ مجھے اپنی تنخواہ سے 500 روپے بھجواتا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ سیریس ہے ، دوسرے سمسٹرمیں مجھ سے مدد مانگی میں نے بغیر واپسی کی شرط کے اُسے بھیج دی ۔ اُس نے مزید بچوں کو قائل کیا کہ وہ قائد اعظم یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان دیں ۔یوں گوادر میں ہم دونوں نے مل کر وٹس ایپ پر بچوں کی تعلیم کا پروگرام خصوصاً لڑکیوں کے لئے شروع کیا ۔ جس میں پہلےاُنہیں بذریعہ یو ٹیوب پانچویں کلاس سے اردو اور حساب کی تربیت شروع کی۔
٭- حمد - یہ گل کاریاں جس قدر ہیں جہاںمیں ۔
٭- انگلیوں پر حساب سیکھیں ۔
٭٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں