کیسی زمیں بنائی ،کیا آسماں بنایا
پانو تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی
اور سر پہ لاجوردی اِک سائباں بنایا
مٹی سے بیل بوٹے کیا خوشنما اگائے
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا
خوش رنگ اور خوشبو گُل پھول ہیں کھلائے
اِس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا
میوے لگائے کیا کیا، خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا
سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا
سورج بنا کے تُو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا
پیاسی زمیں کے منہ میں مینہ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تُو نے مینہ کا نشاں بنایا
یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری اِن کو تسبیح خواں بنایا
تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا
اونچی اُڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
اُن بے پروں کا اِن کو روزی رساں بنایا
کیا دودھ دینے والی گائیں بنائی تو نے
چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا
رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میّسر
ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدر داں بنایا
آبِ رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آبِ رواں بنایا
ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تونے کب رائیگاں بنایا
اسماعیل میرٹھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں